اسلام ٹائمز: ایسی صورت حال میں جب علاقائی اور بین علاقائی دشمن جنگ، محاصرے اور سیاسی دباؤ کے ذریعے مزاحمتی محاذ کو کمزور کرنا چاہتے ہیں، اربعین نے ایک عظیم سماجی مشق کے طور پر مزاحمتی قوموں کے عزم کو پختہ اور باہمی ہم آہنگی میں اضافہ کیا ہے۔ نجف سے کربلا تک جو پیغام ہر کسی کو پہنچا وہ یہ تھا کہ ہم حسینی وہ قوم ہیں جو شکست کو قبول نہیں کرتے، کیونکہ ہم نے درسگاہ کربلا اور درس عاشورہ میں یہ سیکھا ہے کہ عزت کی موت ذلت کی زندگی سے افضل ہے۔ تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی
حالیہ برسوں میں اربعین حسینی نہ صرف دنیا کا سب سے بڑا مذہبی اجتماع بن گیا ہے بلکہ مغربی ایشیا میں سیاسی اور سلامتی کی پیش رفت کے تناظر میں مزاحمتی بلاک کی باہمی گفتگو اور ہم آہنگی کے لیے ایک اہم محور بن چکا ہے۔ یہ اجتماع جس کی جڑیں شہادت امام حسین علیہ السلام کے سوگ سے جڑی ہیں، آج سیاست اور نظریات کے میدان میں بیرونی طاقتوں کے تسلط اور دباؤ کے خلاف قوموں کی مزاحمت کی علامت بن چکا ہے۔
اس سال کا اربعین جن حالات میں منعقد ہوا ہے اس پر علاقائی اور عالمی حالات کا اثر ہونا ایک ضروری امر تھا۔ ایران اور صیہونی حکومت کے درمیان 12 روزہ جنگ، صیہونی حکومت کی طرف سے فلسطینیوں پر مسلط قحط کے خلاف غزہ کے عوام کی حیرت انگیز مزاحمت اور عراق میں حشد الشعبی کو کمزور کرنے کے لیے امریکہ کا دباؤ نیز لبنان میں حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کا عمل یہ سب اربعین کے نعروں، تقریروں اور علامتوں میں جھلک رہے تھے۔ اس ہم آہنگی نے اربعین کو مزاحمتی بلاک کی نرم اور سخت طاقت کی تیاری کے پلیٹ فارم میں تبدیل کر دیا۔
اربعین حسین: مذہبی رسوم سے لے کر مزاحمت کے اسٹریٹجک بیانیہ تک
اگرچہ اربعین فطری طور پر ایک مذہبی اور روحانی تقریب ہے لیکن موجودہ دور میں یہ رسم مزاحمتی محاذ کے مشترکہ تشخص کو تشکیل دینے کا مرکز بن گئی ہے۔ لاکھوں زائرین کا نجف سے کربلا تک مارچ، قوم سازی اور مختلف ملکوں کے جغرافیائی سیاسی اتحاد کا مظہر بن چکا ہے۔ ایک ایسی قوم جس کی جغرافیائی سرحدیں ختم ہو جائیں اور انصاف، انسانی وقار کی عظمت اور جبر کو مسترد کرنے پر یقین رکھنے والی مختلف قوموں کے لاکھوں لوگوں کے درمیان ربط کا ذریعہ بن جائے۔
اس اجتماع میں کربلا کی یاد اب محض یزید کے ظلم و جبر اور حسین (ع) کی یاد تک محدود نہیں رہی بلکہ عصری دنیا میں استعمار، قبضے اور امتیازی سلوک کا مقابلہ کرنے کا ایک زندہ نمونہ بن چکی ہے۔ اسی وجہ سے اربعین نہ صرف عبادت کی ایک رسم ہے بلکہ قوموں اور مزاحمتی قوتوں کے لیے سیاسی مزاحمت کا سبق سیکھنے کی ورکشاپ بن چکی ہے۔
اربعین محض ایک مذہبی اجتماع نہیں ہے بلکہ اسٹریٹجک سطح پر، مزاحمت کے بلاک کی نرم اور سخت طاقت کے آغاز و فروغ کا محرک بھی ہے۔ نرم طاقت کی جہت میں، اربعین ایک مشترکہ شناخت، قوموں کے درمیان رابطے کا ایک وسیع نیٹ ورک اور ایک بہت بڑا سماجی سرمایہ پیدا کرتا ہے۔ اسی طرح بحران کے وقت اور مشکل جہت میں، یہ اجتماع جہاد کے جذبے کو تقویت دے کر عوامی قوتوں اور مزاحمتی گروہوں کے درمیان تعلق کو مضبوط کرتا ہے۔
اس سال اربعین واک کے دوران سیاسی کارکنوں، مذہبی رہنماؤں، اور مزاحمتی بلاک کے فیلڈ کمانڈروں کے درمیان غیر رسمی ملاقاتیں دیکھنے میں آئیں۔ یہ ہم آہنگی، رسمی میکانزم کی ضرورت کے بغیر، پیغامات کے تبادلے اور سیاسی ہم آہنگی کا ماحول فراہم کرتی ہے۔ عملی طور پر، اربعین ایک اسٹریٹجک مقبول مزاحمتی فورم بن گیا ہے جس نے مزاحمتی محور کے دشمنوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔
صیہونی حکومت اور امریکہ کے لیے اس سال کے اربعین کا پیغام
1۔ مزاحمت کا بلاک دباؤ اور جنگوں کے باوجود نظریاتی اور عوامی طور پر مضبوط ہو چکا ہے۔
2۔ عاشورہ کی ثقافت سے متاثر اس خطے کی قوموں کی قوت ارادی کو کمزور کرنے کی کوشش ناکام ہوگئی ہے۔
3۔ کربلا کے راستے پر یہ بین الاقوامی اتحاد، دشمن کی تفرقہ انگیز پالیسیوں کا عملی جواب ہے۔
4۔ اربعین دشمنوں کو یاد دلاتا ہے کہ جنگیں وقتی طور پر ختم ہو سکتی ہیں، لیکن مزاحمت کا جذبہ ہر سال زیادہ جوش و جذبے کے ساتھ تازہ کیا جاتا رہے گا۔
5۔ اگر صیہونی حکومت 12 روزہ جنگ میں ایرانی عوام کے عزم اور مرضی کو توڑنے میں ناکام رہی تو اس کی وجہ اس ثقافت میں تلاش کی جانی چاہیئے جو ہر سال دنیا بھر سے لاکھوں لوگوں کو امام حسین (ع) کے روضہ کی طرف کھینچ لاتی ہے۔
6۔ اربعین روحانیت اور سیاست کا سنگم ہے اور شہدائے کربلا اور غزہ، لبنان، عراق اور یمن کے شہداء کے درمیان خون کے رشتہ کی علامت ہے۔
7۔ اس سال کے اربعین نے ایک بار پھر ثابت کیا کہ مزاحمت کی بات صرف ہتھیاروں اور حکمت عملیوں پر مبنی نہیں ہے بلکہ عقیدے اور ایمان سے پیوستہ ہے جسکی جڑیں بہت گہری ہیں۔
ایسی صورت حال میں جب علاقائی اور بین علاقائی دشمن جنگ، محاصرے اور سیاسی دباؤ کے ذریعے مزاحمتی محاذ کو کمزور کرنا چاہتے ہیں، اربعین نے ایک عظیم سماجی مشق کے طور پر مزاحمتی قوموں کے عزم کو پختہ اور باہمی ہم آہنگی میں اضافہ کیا ہے۔ نجف سے کربلا تک جو پیغام ہر کسی کو پہنچا وہ یہ تھا کہ ہم حسینی وہ قوم ہیں جو شکست کو قبول نہیں کرتے، کیونکہ ہم نے درسگاہ کربلا اور درس عاشورہ میں یہ سیکھا ہے کہ عزت کی موت ذلت کی زندگی سے افضل ہے۔
هَیْهاتَ مِنَّا الذِّلَّةُ
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: صیہونی حکومت کے درمیان کو کمزور ہم آہنگی قوموں کے ہے بلکہ اس سال کے لیے چکا ہے
پڑھیں:
حزب اللہ کے ہتھیار لبنان کی دفاعی ڈھال
اسلام ٹائمز: حزب اللہ لبنان نے امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے خود کو غیر مسلح کرنے کی کوششوں پر فیصلہ کن موقف اختیار کرتے ہوئے اپنے اسلحے اور ہتھیاروں کو ریڈ لائن قرار دیا ہے۔ حزب اللہ کا کہنا ہے کہ ایک طاقتور اور خودمختار قومی فوج نہ ہونے کے ناطے اسلامی مزاحمت بیرونی جارحیت کے مقابلے میں لبنان کے دفاع کا واحد ذریعہ ہے۔ دوسری طرف لبنان حکومت جو شدید اقتصادی اور سیاسی دباو کا شکار ہے، مغربی طاقتوں خاص طور پر امریکہ کے ناجائز مطالبات پورے کر کے مالی امداد وصول کرنے کی خواہاں ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ لبنان حکومت نے جو راستہ اختیار کیا ہے اس کا نتیجہ سوائے تناو میں اضافے اور اندرونی سطح پر مختلف گروہوں میں ٹکراو کے کچھ نہیں نکلے گا۔ اگر اسرائیل یہ محسوس کر لے کہ اسلامی مزاحمت ختم یا کمزور ہو چکی ہے تو وہ پوری طاقت سے دوبارہ حملہ کرے گا اور لبنان کا وجود خطرے میں پڑ جائے گا۔ تحریر: رسول قبادی
ایسے وقت جب لبنان بدستور سیاسی اور اقتصادی بحرانوں کی لپیٹ میں ہے، وزیراعظم نواف سلام کی جانب سے لبنان آرمی کے ذریعے تمام ہتھیار حکومت کی تحویل میں لے لینے کے منصوبے کے اعلان نے ملک بھر میں تناو اور تشویش کی لہر دوڑا دی ہے۔ یہ فیصلہ جو بظاہر حکومت رٹ قائم کرنے کی خاطر انجام پایا ہے حزب اللہ لبنان کی جانب سے شدید ردعمل کا باعث بنا ہے۔ حزب اللہ نے حکومت کے اس فیصلے کو اسلامی مزاحمت کو غیر مسلح کرنے اور صیہونی رژیم کی فوجی جارحیت کے مقابلے میں لبنان کی دفاعی طاقت کمزور کرنے کے امریکی اسرائیلی منصوبے کا حصہ قرار دیا ہے۔
اندرونی بحران کے سائے تلے بیرونی دباو
جوزف عون کی سربراہی میں کابینہ اجلاس کے بعد نواف سلام کی جانب سے تمام ہتھیار حکومت کی تحویل میں دینے کے منصوبے کا اعلان کیا گیا۔ نواف سلام کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ حکومتی فیصلوں اور سلامتی کونسل کی قرارداد 1701 سمیت بین الاقوامی قراردادوں کو لاگو کرنے کے لیے بنایا گیا ہے۔
اس قرارداد میں لبنان میں تمام غیر حکومتی گروہوں کو غیر مسلح کرنے اور سرحد پر صرف فوج تعینات کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ دوسری طرف یہ فیصلہ ایسے حالات میں سامنے آیا ہے جب لبنان امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے شدید سیاسی اور اقتصادی دباو کا شکار ہے۔ کچھ رپورٹس کے مطابق لبنان کے لیے خصوصی امریکی ایلچی تھامس براک نے لبنانی حکام کے ساتھ اپنے مذاکرات میں حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کو اسرائیل کی جانب سے جنوبی لبنان پر حملے روکنے اور لبنان کو بین الاقوامی امداد کی فراہمی کی شرط قرار دیا ہے۔ امریکہ اور اسرائیل گذشتہ کئی عشروں سے حزب اللہ لبنان کو خطے میں اپنے مفادات کے لیے بڑا خطرہ تصور کرتے ہیں اور مختلف قسم کے اقتصادی اور سفارتی ہتھکنڈوں کے ذریعے لبنان حکومت پر حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کے لیے دباو ڈالتے آئے ہیں۔
اسلامی مزاحمت کے ہتھیار، حزب اللہ لبنان کی ریڈ لائن
حزب اللہ لبنان جو خطے کا طاقتور ترین سیاسی مسلح گروہ کے طور پر جانا جاتا ہے، نے حکومت کے اس فیصلے پر شدید ردعمل ظاہر کیا ہے۔ حزب اللہ نے اپنے بیانیے میں حکومت کے فیصلے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے "عظیم غلطی" قرار دیا جس کا نتیجہ اسرائیل اور امریکہ کے جارحانہ اقدامات کے مقابلے میں لبنان کے کمزور ہو جانے کی صورت میں ظاہر ہو گا۔ حزب اللہ نے کابینہ کے اجلاس سے اپنے اور امل تحریک کے وزرا کے واک آوٹ کو اس فیصلے کی شدید مخالفت کا عکاس قرار دیا اور اسے تمام قوموں اور جماعتوں پر مشتمل لبنانے معاشرے کے وسیع حصے کا ترجمان جانا۔ حزب اللہ نے عوام کو مخاطب قرار دیتے ہوئے کہا: "یہ بحران بھی گزر جائے گا، ہم صبر اور فتح کے عادی ہو چکے ہیں۔ اسلامی مزاحمت اس حکومتی فیصلے کو امریکی ایلچی کی ڈکٹیشن کا نتیجہ سمجھتی ہے۔"
حزب اللہ کی مخالفت کی وجوہات
حزب اللہ لبنان کی جانب سے اس منصوبے کی مخالفت کی وجوہات درج ذیل ہیں:
1)۔ اسرائیل سے درپیش خطرات کا دفاع: حزب اللہ لبنان نے 1982ء میں اپنی تشکیل سے لے کر آج تک مسلسل صیہونی غاصبانہ قبضے اور جارحیت کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے۔ 2000ء میں جنوبی لبنان کی آزادی اور 2006ء میں اسرائیل کے خلاف 33 روزہ جنگ میں اس تنظیم کا کردار ابھر کر سامنے آیا ہے۔ لہذا اب ایسے حالات میں جب اسرائیل بدستور لبنان کی قومی سالمیت اور خودمختاری کے خلاف اقدامات انجام دینے میں مصروف ہے حزب اللہ لبنان اپنے پاس موجود اسلحہ اور ہتھیاروں کو لبنان کے دفاع کا ضامن سمجھتی ہے اور انہیں کھونا نہیں چاہتی۔
2)۔ مزاحمت کے تشخص کا تحفظ: حزب اللہ محض ایک فوجی طاقت نہیں بلکہ عوامی حمایت کی حامل ایک سماجی سیاسی تحریک بھی ہے۔ اس گروہ کے پاس موجود اسلحہ مغربی اور اسرائیلی جارحیت کے خلاف مزاحمت کی علامت اور اس کے تشخص کا حصہ ہے۔ اس کا غیر مسلح ہونا اس کا تشخص کمزور ہو جانے کے مترادف ہے۔
3)۔ فوج اور حکومت پر عدم اعتماد: حزب اللہ لبنان اور اس کے حامی سمجھتے ہیں کہ لبنان آرمی مغربی طاقتوں کے سیاسی اثرورسوخ اور اقتصادی لحاظ سے مغرب پر انحصار کی بدولت بھرپور انداز میں لبنان کے قومی مفادات کا دفاع کرنے سے قاصر ہے۔ گذشتہ تجربات جیسے اسرائیلی فوجی جارحیت کے دوران موثر انداز میں ردعمل ظاہر نہ کرنا وغیرہ بھی اس عدم اعتماد کو مزید فروغ دیتے ہیں۔
4)۔ بیرونی دباو اور مڈل ایسٹ منصوبہ: حزب اللہ لبنان کی نظر میں تمام گروہوں کو غیر مسلح کر کے ان کا اسلحہ حکومتی تحویل میں لینے کا منصوبہ درحقیقت امریکہ اور اسرائیل کے اس گریٹر مڈل ایسٹ منصوبے کا حصہ ہے جو خالصتاً امریکی اور اسرائیلی مفادات کے تحفظ کی خاطر بنایا گیا ہے۔ یہ منصوبہ 1990ء میں پیش کیا گیا تھا اور اس میں ایران اور حزب اللہ سمیت اسلامی مزاحمتی قوتوں کو کمزور کرنا اور خطے پر اسرائیلی تسلط قائم کرنا شامل ہے۔
مزاحمت یا تسلیم؟
حزب اللہ لبنان نے امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے خود کو غیر مسلح کرنے کی کوششوں پر فیصلہ کن موقف اختیار کرتے ہوئے اپنے اسلحے اور ہتھیاروں کو ریڈ لائن قرار دیا ہے۔ حزب اللہ کا کہنا ہے کہ ایک طاقتور اور خودمختار قومی فوج نہ ہونے کے ناطے اسلامی مزاحمت بیرونی جارحیت کے مقابلے میں لبنان کے دفاع کا واحد ذریعہ ہے۔ دوسری طرف لبنان حکومت جو شدید اقتصادی اور سیاسی دباو کا شکار ہے، مغربی طاقتوں خاص طور پر امریکہ کے ناجائز مطالبات پورے کر کے مالی امداد وصول کرنے کی خواہاں ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ لبنان حکومت نے جو راستہ اختیار کیا ہے اس کا نتیجہ سوائے تناو میں اضافے اور اندرونی سطح پر مختلف گروہوں میں ٹکراو کے کچھ نہیں نکلے گا۔ اگر اسرائیل یہ محسوس کر لے کہ اسلامی مزاحمت ختم یا کمزور ہو چکی ہے تو وہ پوری طاقت سے دوبارہ حملہ کرے گا اور لبنان کا وجود خطرے میں پڑ جائے گا۔