غزہ میں فلسطینیوں کیساتھ جنسی زیادتی پر اسرائیلی فوج کی نگرانی کی جائے، اقوام متحدہ
اشاعت کی تاریخ: 13th, August 2025 GMT
غزہ میں فلسطینیوں کیساتھ جنسی زیادتی پر اسرائیلی فوج کی نگرانی کی جائے، اقوام متحدہ WhatsAppFacebookTwitter 0 13 August, 2025 سب نیوز
جنیوا (سب نیوز)اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے غزہ میں فوجی اہلکاروں کے جنسی زیادتی کے بڑھتے ہوئے واقعات میں ملوث ہونے پر اسرائیل کو سخت انتباہ جاری کیا ہے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق انتونیو گوتریس نے یہ انتباہ اقوام متحدہ میں اسرائیلی سفیر ڈینی ڈینون کو لکھے گئے ایک خط میں جاری کیا۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کہا ہے کہ ہمارے پاس اسرائیلی فوجیوں کے فلسطینیوں کے ساتھ جنسی زیادتی میں ملوث ہونے کے مصدقہ شواہد ہیں۔
انتونیو گوتریس نے مزید کہا کہ اسرائیلی مسلح افواج اور سیکیورٹی فورسز نے فلسطینی قیدیوں کے ساتھ جنسی زیادتی جیسے سنگین جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔انتونیو گوتریس کا یہ خط اقوام متحدہ کی سالانہ رپورٹ سے قبل جاری کیا گیا جو جنگی تنازعات میں جنسی تشدد سے متعلق ہے۔خط میں واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ اقوام متحدہ کو متعدد جیلوں، حراستی مراکز اور ایک فوجی اڈے میں ہونے والی خلاف ورزیوں کی مصدقہ معلومات ملی ہیں۔
انتونیو گوتریس نے مزید کہا کہ مجھے فلسطینیوں کے خلاف جنسی تشدد کی اطلاعات پر شدید تشویش ہے، جن کا ارتکاب اسرائیلی مسلح افواج اور سکیورٹی اداروں نے کیا۔سیکرٹری جنرل یو این او نے اس بات پر بھی افسوس کا اظہار کیا کہ اقوام متحدہ کے مبصرین کو متاثرہ مقامات تک مکمل رسائی نہیں دی گئی جس کے باعث مکمل اعداد و شمار نہیں مل سکے۔انتونیو گوتریس نے مزید کہا کہ اس کے باوجود، اقوام متحدہ نے جنسی زیادتی کے متعدد واقعات شواہد کے ساتھ مسلسل نشاندہی کی ہے۔انھوں نے کہا کہ قیدیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے یہ واقعات باعثِ تشویش ہیں اور میں اسرائیلی افواج کو نگرانی کی فہرست میں شامل کر رہا ہوں۔
اقوام متحدہ نے اسرائیلی حکومت پر زور دیا ہے کہ جنسی تشدد کے تمام واقعات کی تحقیقات کرکے اس کا فوری خاتمہ یقینی بنایا جائے اور اقوام متحدہ کو اپنے ٹھوس اقدامات سے بھی آگاہ کریں۔اقوام متحدہ میں اسرائیلی سفیر ڈینی ڈینون نے گوتریس کے الزمات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ الزامات بے بنیاد اور جانب دار ذرائع پر مبنی ہیں۔اسرائیلی سفیر ڈینی ڈینون نے اقوام متحدہ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ انتونیو گوتریس اسرائیل پر “جھوٹے الزامات” لگانے کے بجائے حماس کے جنگی جرائم پر توجہ دیں۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرپاکستان اور ترکیہ لازم و ملزوم ہیں،ترک پارلیمانی رہنما علی شاہین کا پاکستان کے یومِ آزادی پر خصوصی پیغام پاکستان اور ترکیہ لازم و ملزوم ہیں،ترک پارلیمانی رہنما علی شاہین کا پاکستان کے یومِ آزادی پر خصوصی پیغام پیٹرولیم مصنوعات کی اسمگلنگ پر 50لاکھ تک جرمانہ، قومی اسمبلی سے بل منظور پی ٹی آئی اسلام آباد کا وفاقی دارلحکومت میں جشن آزادی کے سلسلے میں ریلی نکالنے کا فیصلہ عظیم صوفی بزرگ داتا علی ہجویری کے3روزہ عرس کی تقریبات کا آغاز بانی پی ٹی آئی سے رفقا کی ملاقات کا دن، 6افراد کی فہرست جیل حکام کو بھجوا دی گئی بھارت کا کولگام آپریشن ناکام، 12دنوں میں 9فوجی ہلاک، مٹی کھانے پر مجبورCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: انتونیو گوتریس نے ساتھ جنسی زیادتی اقوام متحدہ کے ساتھ کہا کہ
پڑھیں:
میانمار: سیاسی قیدی فوج کے ہاتھوں تشدد اور جنسی زیادتی کا نشانہ، تفتیش کار
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 13 اگست 2025ء) اقوام متحدہ کے غیرجانبدار تفتیش کاروں نے انکشاف کیا ہے کہ میانمار میں فوج کے حراستی مراکز میں قیدیوں کو منظم طور سے تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے جس میں مار پیٹ، بجلی کے جھٹکے دینا، دم گھونٹنا اور جنسی زیادتی سمیت کئی طرح کا بدترین سلوک شامل ہے۔
غیرجانبدارانہ تفتیشی طریقہ کار برائے میانمار (آئی آئی ایم ایم) کے مطابق، اس نے ملک میں ان جرائم کی تفصیلات جمع کرنے اور حراستی مراکز کی نگرانی سمیت سکیورٹی فورسز کے ان کمانڈروں کی نشاندہی کے معاملے میں اہم پیش رفت کی ہے جو ایسے جرائم کے ذمہ دار ہیں۔
Tweet URL'آئی آئی ایم ایم' کے سربراہ نکولس کومیجن نے بتایا ہے کہ فوج کے حراستی مراکز میں قیدیوں کے جنسی اعضا کو جلانے، دیگر جنسی تشدد اور جنگی قیدیوں سمیت حکومت کے خلاف مخبری کے الزام میں گرفتار کیے جانے والوں کو قتل کرنے جیسے جرائم کا منظم طور سے ارتکاب ہو رہا ہے۔
(جاری ہے)
فروری 2021 میں فوج کی جانب سے منتخب حکومت کا تختہ الٹے جانے اور ریاستی قونصلر آنگ سان سو کی سمیت سیاست دانوں کی گرفتاری کے بعد میانمار خانہ جنگی کا شکار ہے۔ فوجی حکومت کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہروں اور انہیں پرتشدد انداز میں کچلنے کی کارروائیوں کے بعد ملک گیر مسلح مزاحمتی تحریک کا آغاز ہوا جو تاحال جاری ہے۔
جرائم کی تحقیقاتاس معاملے پر 'آئی آئی ایم ایم' کی جاری کردہ رپورٹ میں یکم جولائی 2024 سے 30 جون 2025 کے درمیانی عرصہ کا جائزہ لیا گیا ہے۔
اس دوران 1,300 ذرائع سے معلومات جمع کی گئیں جن میں 600 عینی شاہدین کے بیانات، تصاویر، ویڈیو، دستاویزات، نقشے اور فارنزک شہادتیں شامل ہیں۔رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ فوج کی جانب سے سکولوں، گھروں اور ہسپتالوں پر حملوں میں شدت آ گئی ہے۔ مارچ 2025 میں آنے والے زلزلے کے بعد امدادی کارروائیوں کے دوران بھی حملے جاری رہے۔
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کی جانب سے متعین کردہ یہ تفتیش کار ایسے حملوں کے ذمہ داروں کی نشاندہی کے لیے میانمار کی ایئر فورس اور اس کی اعلیٰ سطحی قیادت کی ذمہ داریوں کا جائزہ لے رہے ہیں۔
ریاست راخائن میں ڈھائے جانے والے مظالم کے بارے میں نئی تحقیقات بھی شروع ہو گئی ہیں جہاں فوج اور اس کی مخالف آراکان آرمی علاقے پر قبضے کی جنگ لڑ رہی ہیں۔ علاوہ ازیں، 2016 اور 2017 میں روہنگیا آبادی کے خلاف جرائم کی تفتیش بھی جاری ہے۔
بین الاقوامی جواب طلبیتفتیش کاروں کی جمع کردہ شہادتوں کو پہلے ہی عالمی عدالت انصاف (آئی سی جے) اور عالمی فوجداری عدالت (آئی سی سی) کے سامنے پیش کیا جا چکا ہے۔
ان ثبوتوں کی بدولت 'آئی سی سی' کے پراسیکیوٹر نے نومبر 2024 میں میانمار کی فوج کے سربراہ من آنگ لائن کی گرفتاری کے وارنٹ بھی جاری کیے تھے جبکہ رواں سال فروری میں ارجنٹائن کی وفاقی عدالت نے بھی 24 دیگر لوگوں سمیت ان کی گرفتاری کا حکم دیا تھاکومیجن نے بتایا ہے کہ میانمار میں فوجی حکومت کی جانب سے روا رکھے جانے والے مظالم کی رفتار اور شدت میں اضافہ ہو رہا ہے۔
سیاسی، معاشی و انسانی بحرانمیانمار میں فوج، جمہوریت نواز فورسز اور قوم پرست مسلح گروہوں کے مابین لڑائی کے نتیجے میں لاکھوں لوگ بے گھر ہو گئے ہیں جبکہ ملک کو کڑے سیاسی، معاشی اور انسانی بحران کا سامنا ہے۔ علاوہ ازیں، اسے 2017 میں ریاست راخائن میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف عسکری کارروائی کے سنگین اثرات بھی درپیش ہیں۔
اقوام متحدہ کے سابق ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق زید رعد الحسین نے ان کارروائیوں کو نسلی صفائی کی کتابی مثال قرار دیا تھا جن کے نتیجے میں 10 لاکھ روہنگیا نے بنگلہ دیش کی جانب نقل مکانی کی جہاں یہ لوگ گنجان پناہ گزین کیمپوں میں مشکل حالات کا سامنا کر رہے ہیں۔
اقوم متحدہ کے تفتیش کاروں نے خبردار کیا ہے کہ امدادی وسائل کا بحران ان کے کام پر اثر انداز ہو رہا ہے اور انہیں مظالم کے گواہوں تک براہ رسائی میں مشکلات، سلامتی کے خدشات اور سائبر سکیورٹی کے خطرات سمیت کئی طرح کے مسائل درپیش ہیں۔