غزہ میں اسرائیلی بمباری جاری، حماس لیڈر کا مصر میں جنگ بندی مذاکرات کے لیے آمد
اشاعت کی تاریخ: 13th, August 2025 GMT
غزہ سٹی کے مشرقی علاقوں پر اسرائیلی طیاروں اور ٹینکوں کی رات بھر کی بمباری میں کم از کم 11 افراد جاں بحق ہو گئے، جب کہ حماس کے سینئر رہنما خلیل الحیہ مصر کے دارالحکومت قاہرہ پہنچ گئے ہیں تاکہ امریکی حمایت یافتہ جنگ بندی منصوبے کو دوبارہ فعال کرنے کے لیے مذاکرات میں شریک ہوں۔
یہ بھی پڑھیں:اسرائیل کی غزہ پر بمباری جاری، مزید 11 شہید، جنگ بندی کی کوششوں میں نیا موڑ
قطر میں ہونے والے بالواسطہ مذاکرات کا آخری دور جولائی کے آخر میں کسی نتیجے کے بغیر ختم ہو گیا تھا، جہاں اسرائیل اور حماس نے 60 روزہ جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے امریکی منصوبے میں پیش رفت نہ ہونے کا الزام ایک دوسرے پر عائد کیا۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ غزہ سٹی پر ایک اور بڑی کارروائی شروع کرے گا اور مکمل کنٹرول حاصل کرے گا۔
حماس کے مطابق بدھ سے شروع ہونے والے مصری حکام کے ساتھ اجلاسوں میں جنگ بندی، امداد کی فراہمی اور ’غزہ کے عوام کی تکالیف کے خاتمے‘ پر بات چیت ہو گی۔
غزہ کی وزارت صحت کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں میں اسرائیلی حملوں میں کم از کم 89 فلسطینی جاں بحق اور 513 زخمی ہوئے ہیں۔ 7 اکتوبر 2023 سے اب تک غزہ میں 61,599 فلسطینی جاں بحق اور 154,088 زخمی ہو چکے ہیں۔
یرغمالی کی والدہ کا جنگ کے خاتمے کا مطالبہ
غزہ میں قید اسرائیلی یرغمالی نمرود کوہن کی والدہ نے عالمی برادری سے اپیل کی ہے کہ وہ حماس اور اسرائیل دونوں پر دباؤ ڈالیں تاکہ جنگ ختم ہو اور تمام یرغمالیوں کی رہائی ممکن ہو۔
4 اسرائیلی یرغمالیوں کی ماؤں نے جنیوا میں انٹرنیشنل کمیٹی آف دی ریڈ کراس کی صدر سے ملاقات کی۔ وی کی کوہن کے مطابق لڑائی کوئی حل نہیں، صرف جنگ کے خاتمے اور معاہدے پر دستخط سے ہی نمرود اور باقی یرغمالی گھر آ سکتے ہیں۔
7 اکتوبر 2023 کے حملے میں حماس نے 251 افراد کو یرغمال بنایا تھا، جن میں سے 49 اب بھی غزہ میں ہیں، اور اسرائیلی فوج کے مطابق ان میں سے 27 کی موت ہو چکی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسرائیل حماس غزہ قطر مذاکرات مصر یرغمالی.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسرائیل مذاکرات یرغمالی کے مطابق
پڑھیں:
یورپی علمی اداروں میں اسرائیل کے خلاف بائیکاٹ میں اضافہ، اسرائیلی محققین دباؤ کا شکار
الیزابت بومیہ کی رپورٹ کے مطابق، بیلجیم، نیدرلینڈز، اسپین اور اٹلی کی جامعات اسرائیلی علمی اداروں کے بائیکاٹ کی مہم میں پیش پیش ہیں۔ ان اداروں نے باضابطہ طور پر اسرائیلی اداروں کے ساتھ اپنے تعلقات منقطع کر دیے ہیں اور مؤقف اختیار کیا ہے کہ غزہ میں اسرائیلی اقدامات پر خاموشی اب ناقابلِ قبول ہے۔ اسلام ٹائمز۔ امریکی روزنامہ نیویارک ٹائمز نے صحافی الیزابت بومیہ کی رپورٹ شائع کی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق حال ہی میں تئیس (23) اسرائیلی محققین کو ایک یورپی سائنسی کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی، تاہم بعد میں اُن سے کہا گیا کہ وہ اپنی پیشہ ورانہ شناخت ظاہر نہ کریں۔ رپورٹ کے مطابق اس اقدام نے گی دی استیبل جو اسرائیلی آثارِ قدیمہ کونسل کے سربراہ ہیں، انہیں سخت برہم کر دیا۔ انہوں نے اس طرزِ عمل کو یورپی ضمیر کی تطہیر (European moral whitewashing) قرار دیا۔ اگرچہ کانفرنس کی منتظم انجمن نے بعد میں اپنے فیصلے سے پسپائی اختیار کر لی۔ تاہم نیویارک ٹائمز کے مطابق یہ واقعہ اس بات کی علامت ہے کہ گزشتہ دو برسوں میں غزہ جنگ کے بعد یورپی یونیورسٹیوں کے رویّے میں اسرائیل کے بارے میں نمایاں تبدیلی آئی ہے۔ الیزابت بومیہ کی رپورٹ کے مطابق، بیلجیم، نیدرلینڈز، اسپین اور اٹلی کی جامعات اسرائیلی علمی اداروں کے بائیکاٹ کی مہم میں پیش پیش ہیں۔ ان اداروں نے باضابطہ طور پر اسرائیلی اداروں کے ساتھ اپنے تعلقات منقطع کر دیے ہیں اور مؤقف اختیار کیا ہے کہ غزہ میں اسرائیلی اقدامات پر خاموشی اب ناقابلِ قبول ہے۔
اس کے باوجود بعض یورپی جامعات اب بھی آزاد اسرائیلی محققین سے محدود سطح پر روابط برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ اسرائیلی محققین ان پابندیوں کو اسرائیل کی علمی حیثیت کو غیر معتبر بنانے کا حربہ قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یونیورسٹیاں حکومت سے آزاد ہیں، اور ان کے بہت سے اساتذہ نے غزہ میں نتن یاہو کی فوجی پالیسیوں پر کھل کر تنقید بھی کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق، اب تک تقریباً پچاس (50) یورپی یونیورسٹیوں نے اسرائیلی اداروں کے ساتھ اپنے تعلقات مکمل یا جزوی طور پر منقطع کر دیے ہیں، جبکہ اسرائیلی حکومت کے اعدادوشمار کے مطابق ایک ہزار سے زائد علمی پابندیوں جن میں تبادلۂ پروگراموں کی منسوخی اور وظائف کی معطلی شامل ہے، ان کا اندراج کیا جا چکا ہے۔ امریکہ میں، یورپ کے برعکس، ابھی تک ایسے ادارہ جاتی بائیکاٹ نہیں دیکھے گئے۔ تاہم 2024 میں وہاں غزہ جنگ کے خلاف وسیع پیمانے پر احتجاجات دیکھنے میں آئے۔ دوسری جانب، ٹرمپ انتظامیہ کے تحت یہود مخالف رویّے کے الزامات کے خلاف سخت پالیسیوں نے کئی امریکی یونیورسٹیوں کو اسرائیل پر براہِ راست تنقید سے اجتناب پر مجبور کیا۔ اسرائیلی یونیورسٹی بن گوریون کے صدر نے ان اقدامات کو دردناک اور اجتماعی سزا کی ایک شکل قرار دیا۔