Express News:
2025-11-12@06:42:34 GMT

سرخ لکیر ناگزیر ہے!

اشاعت کی تاریخ: 27th, September 2025 GMT

اللہ بھلا کرے نت نئی ٹیکنالوجیز کے تعارف کا، ہر پانچ دس سال بعد کوئی نہ کوئی نئی ٹیکنالوجی ایسی آ جاتی ہے جو روزمرہ کے معمولات کو نئی اور انجانی ڈگر پر لے نکلتی ہے۔ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ متعارف ہوئے تو مواصلات اور کمیونیکیشن کی دنیا ہی بدل گئی۔

ای میلز، میسنجر وغیرہ کی صورت میں نیا ہائی ٹیک رئیل ٹائم جہان تخلیق ہو گیا۔ موبائل فونز اور اس کی نئی نئی قسموں، ماڈلز اور جدید فیچرز کا غلبہ ہوا تو تبدیلی کا سلسلہ مزید برق رفتار ہوتا چلا گیا۔

یوں صدیوں کے سفر سے کہیں زیادہ سفر گزشتہ تین دہائیوں میں طے پا گیا۔ رہی آگے کی بات تو بقول غالب کچھ یوں سجھائی دے رہا ہے:

ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یارب

ہم نے دشتِ امکاں کو ایک نقش پا پایا

گزشتہ 30/35 سالوں کو دوران ٹیکنالوجی کی دنیا میں بے تحاشہ اسٹارٹ اپس (Start ups) آئے، زیادہ رزق خاک ہوئے لیکن جو کامیاب ہوئے وہ انقلاب برپا کر گئے۔

ٹیکنالوجی کمپنیز کے حجم اس قدر پھیلے کہ اب دنیا کی 15/20 بڑی ٹیکنالوجی کمپنیز کی مالیت کئی ملکوں کی جی ڈی پی سے زائد ہے۔ ان ٹیک کمپنیز کے پاس اس قدر سافٹ پاور ہے جس سے انھوں نے ایک طرف بڑے بڑے ملکوں کے جمہوری اور قانونی نظام پر مکمل گرفت قائم رکھی ہے اور دوسری طرف عام انسانوں کی فکر، سوچ ، ڈیٹا اور معلومات کے اسباب پر بھی قبضہ کر رکھا ہے۔

الگوردم کا حساب کتاب صارفین کے مزاج اور سوچ کا مختار ہے۔ ٹیکنالوجی کمپنیز کو اپنے سائز کی وجہ سے عمومی طور پر ورلڈ آرڈر اور تمام ممالک کے قوانین سے نمٹنا آسان ہو گیا ہے۔

بہت سے ممالک ان بڑی ٹیک کمپنیز کو نکیل ڈالنے کی کوشش میں ہیں لیکن حقیقی صورتحال یہ ہے کہ معاملہ اب بہت حد تک نیشن اسٹیٹس کے ہاتھ سے نکل کر ’’گلوبلائزیشن‘‘ کی بے لگامی کے ہاتھ ہے۔

گزشتہ چند سالوں سے آرٹیفیشل انٹیلی جنس یعنی اے آئی کے نام سے نئی ٹیکنالوجی نے دھوم مچا رکھی ہے۔ امریکا اور چین کے درمیان اس نئی ٹیکنالوجی میں سبقت حاصل کرنے کو ٹیکنالوجی وار کا نام دیا گیا ہے۔

چین نے ڈیپ سیک پلیٹ فارم سے مقابل امریکی کمپنی سے کہیں کم قیمت پر شاندار پروڈکٹ لانچ کر کے دنیا کو حیران اور امریکا کو پریشان کر دیا۔ ٹیک کمپنیز کے درمیان مقابلے کی فضا میں آرٹیفیشل انٹیلی جنس میں اس تیزی سے ترقی ہوئی ہے کہ انسان اس کے ساتھ قدم ملانے کی کوشش میں ہانپ رہا ہے۔

آرٹیفیشل انٹیلی جنس اور اس کی مختلف پروڈکٹس سے جہاں بے تحاشہ آسانیاں پیدا ہوئی ہیں، وہیں دوسری طرف متعین رولز ریگولیشن نہ ہونے یا ناکافی ہونے کی وجہ سے مصنوعی ذہانت کی اگلی منزل کے بارے میں ماہرین خدشات کا اظہار کر رہے ہیں۔

کئی ماہرین کے مطابق اے آئی سے پیدا شدہ آسانیاں اور سہولتیں اپنی جگہ لیکن اس ٹیکنالوجی کے اگلے قدموں سے جڑے ہوئے خدشات انتہائی خوفناک ہیں۔ اسی بناء پر معروف سائنس دان اسٹیفن ہاکنگ نے پیشین گوئی کی تھی کہ اگر مصنوعی ذہانت انسانی کنٹرول سے باہر ہو گئی تو عین ممکن ہے یہ نسل انسانی کو ہی تباہ کر ڈالے۔

آج کے دور میں مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence) سب سے انقلابی اور تیز رفتار ٹیکنالوجی ہے۔ یہ صحت، تعلیم، معیشت، زراعت اور سیکیورٹی سمیت تقریباً ہر شعبے میں انقلاب برپا کر رہی ہے لیکن جہاں اس کے فوائد غیرمعمولی ہیں، وہیں اس کے خطرات بھی تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔

اس پس منظر میں رواں ہفتے ’’Global Call for AI Red Lines‘‘ کے نام سے ایک اوپن لیٹر جاری ہوا ہے جس نے سکے کے دوسرے رخ کے خدشات کا کھل کر اظہار کیا ہے۔

اس خط پر دنیا بھر کی دو سو سے زیادہ سرکردہ شخصیات نے دستخط کیے ہیں، جن میں نوبل انعام یافتہ سائنسدان، سابق عالمی رہنما، ماہرینِ ٹیکنالوجی اور محققین شامل ہیں۔

اس اوپن لیٹر میں کہا گیا ہے کہ دنیا کو فوراً کچھ واضح ’’سرخ لکیریں‘‘ یعنی ریڈ لائنز طے کرنی ہوں گی جنھیں عبور کرنے کی کسی بھی اے آئی ٹیکنالوجی کو اجازت نہ ہو۔ مقصد یہ ہے کہ ٹیکنالوجی کی رفتار سے انسانیت کو نقصان نہ پہنچے اور ترقی قابو سے باہر نہ ہو جائے۔

اس اوپن لیٹر میں ظاہر کیے گئے چند بنیادی خدشات اور تجاویز کچھ یوں ہیں:

.

1 خود ترقی پذیر نظام (Self-Improving AI): وہ سسٹم جو اپنی کاپی یا اپ گریڈ خود بنا سکیں، ان پر پابندی عائد کی جائے۔

.2 فریب یا جعلی شناخت (Deceptive AI): ایسی ٹیکنالوجی جو انسان کی طرح بولے یا نظر آئے اور دوسروں کو دھوکا دے، قابلِ قبول نہیں ہونی چاہیے۔

.3 تباہ کن صلاحیتیں (Catastrophic Capabilities): وہ نظام جو بڑے پیمانے پر سائبر حملے یا تباہی مچا سکیں، ان کی تیاری روکنا ضروری ہے۔

.4 خودکار ہتھیار (Autonomous Weapons): ایسے ہتھیار جو انسانی کنٹرول کے بغیر فیصلے کریں، عالمی سطح پر ممنوع قرار دیے جائیں۔

یہ خدشات بے بنیاد نہیں ہیں بلکہ یہ عملی مظاہر سے ثابت ہیں۔ آج ڈیپ فیک وڈیوز اور مصنوعی آوازیں اتنی حقیقی لگتی ہیں کہ حقیقت اور جعل سازی میں فرق مشکل ہو گیا ہے۔

سیاسی عمل میں مداخلت، جعلی خبروں کی یلغار اور سوشل میڈیا پر پروپیگنڈا اسی کا نتیجہ ہے۔ دوسری طرف بڑی ٹیک کمپنیاں مسلسل مسابقت میں نئی ایجادات کر رہی ہیں جن پر مؤثر کنٹرول ممکن نہیں۔ یہ صورت حال عالمی سطح پر عدم استحکام کو جنم دے سکتی ہے۔

پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک جو ٹیکنالوجیز کے لیے دوسرے ممالک اور ٹیک کمپنیوں پر تکیہ کرتے ہیں، ان کے لیے بھی ان خدشات کو سیریس لینے کی ضرورت ہے۔ ففتھ جنریشن اور سوشل میڈیا کی سونامی میں فیک نیوز، پروپیگنڈا، سنسنی اور نفرت بیچنا ہمارے ہاں پہلے ہی بہت آسان ہے۔

قسم ہا قسم کی ایپس اور ہاتھوں میں اینڈرائڈ فون کی موجودگی میں اے آئی کی مدد سے کچھ بامقصد اور زیادہ تر بے مقصد/پروپیگنڈا کونٹینٹ کا جادو ابھی سے سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ ہمیں ان ریڈلائنز کا ادراک بھی ضروری ہے اور اس کے استعمال کے لیے مناسب باؤنڈریز بھی طے کرنے کی ضرورت ہے۔

’’Global Call for AI Red Line‘‘ پر دستخط کرنے والے ماہرین متفق ہیں کہ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو شتر بے مہار اے آئی کی جدت انسانی بقا کے لیے خطرہ بھی بن سکتی ہے۔

فیصلہ نسل انسانی کے ہاتھ میں ہے کہ ریڈ لائن کا تعین کرکے ٹیکنالوجی کو اپنے قابو میں رکھنے میں کامیاب ہو سکے گی یا پھر آسانیوں کی تلاش، منافع کی ہوس اور مقابلے کی دوڑ میں خود کو اے آئی کے رحم پر چھوڑ دے گی!

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: نئی ٹیکنالوجی ئی ٹیکنالوجی اے ا ئی کے لیے گیا ہے

پڑھیں:

پاکستان کو سرمایہ کاری کا مرکز بنانے کیلیے پالیسیوں میں استحکام ناگزیر ہوگیا

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

ملکی معیشت میں پائیدار اور طویل المدتی سرمایہ کاری کو یقینی بنانے کے لیے فوری اور ٹھوس اقدامات کی ضرورت پر زور دیا جا رہا ہے۔

حالیہ عرصے میں کئی بین الاقوامی کارپوریشنز کے پاکستان سے اپنے کاروبار کو سمیٹنے اور نئی غیر ملکی سرمایہ کاری کے رجحان میں تشویشناک کمی نے ملک کی اقتصادی منصوبہ بندی پر ایک نئی اور سنجیدہ بحث کا آغاز کر دیا ہے۔

معاشی مبصرین اور مالیاتی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ پاکستان کا اصل مسئلہ قدرتی وسائل کی کمی یا مارکیٹ کا محدود حجم نہیں ہے، بلکہ پالیسی سازی میں غیر متوقع صورت حال اور ریاستی اداروں کے اندر گہری ناپائیداری وہ بنیادی رکاوٹیں ہیں جو بیرونی سرمایے کو دور رکھتی ہیں۔

سرمایہ کاری کے عالمی رجحانات پر مبنی تحقیقات یہ واضح کرتی ہیں کہ دنیا بھر کے سرمایہ کار اپنے سرمائے کی حفاظت اور ترقی کے لیے کسی بھی چیز سے زیادہ طویل مدتی استحکام کو ترجیح دیتے ہیں۔ شفاف قانونی فریم ورک اور ایسے معاہدے جو وقت کے ساتھ ساتھ قابلِ عمل رہیں، سرمایہ کاروں کے فیصلے کی بنیاد ہوتے ہیں۔

اس کے برعکس پاکستان میں سرمایہ کاری سے متعلق قوانین اور مراعات میں مسلسل اور بار بار کی جانے والی تبدیلیاں، بین الاقوامی سرمایہ کاروں کو شک و شبہ میں ڈالتی ہیں اور انہیں یہاں مستقل بنیادوں پر سرمایہ لگانے سے روکتی ہیں۔

خطے کے کئی ممالک ویتنام، بنگلا دیش اور ملائیشیا نے پالیسیوں میں تسلسل اور حکومتی فیصلوں میں یکسانیت کے ذریعے عالمی سطح پر سرمایہ کاروں کا بھروسا جیتا ہے۔ ان ممالک نے ایک ایسا قابلِ اعتماد ماحول فراہم کیا ہے جس میں کاروبار کرنے والی کمپنیاں بغیر کسی خوف کے کئی دہائیوں پر محیط منصوبہ بندی کر سکتی ہیں۔

پاکستان کو بھی اپنی معیشت کا رخ موڑنے اور ایک پرکشش سرمایہ کاری کی منزل بننے کے لیے ان علاقائی حریفوں کے نقش قدم پر چلنے کی ضرورت ہے۔

ماہرینِ اقتصادیات اور تجزیہ نگاروں نے ملک میں پائیدار سرمایہ کاری کے لیے چھ بنیادی اور لازمی اقدامات تجویز کیے ہیں۔

ان اقدامات میں سب سے اہم پالیسیوں میں پیش بینی  لانا ہے، جس کا مطلب ہے کہ حکومتی پالیسیاں ایک مقررہ مدت تک غیر متغیر رہیں تاکہ کاروباری برادری طویل المدتی فیصلے کر سکے۔

دوسرا اہم نقطہ شفاف اور سادہ ٹیکس نظام کا قیام ہے، تاکہ ٹیکس کے قوانین ہر کسی کے لیے واضح اور سمجھنے میں آسان ہوں۔ تیسرا، غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے منافع کی آسان منتقلی کو یقینی بنانا ضروری ہے تاکہ وہ بغیر کسی رکاوٹ کے اپنا کمایا ہوا منافع واپس اپنے ملک بھیج سکیں۔

اسی طرح چوتھا قدم برآمدات پر خصوصی توجہ مرکوز کرنا ہے، جو ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کو بڑھانے اور غیر ملکیوں کے لیے پاکستان کی مارکیٹ کو زیادہ پرکشش بنانے کا سبب بنے گا۔

پانچواں اہم اقدام تنازعات کے تیز رفتار اور مؤثر حل کا ایک ایسا نظام قائم کرنا ہے جو کسی بھی کاروباری تنازعے کو فوراً اور غیر جانبدارانہ طریقے سے نمٹا سکے۔

چھٹا بنیادی اور جامع قدم ادارہ جاتی استحکام کو یقینی بنانا ہے، تاکہ تمام حکومتی ادارے سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لیے ایک ہی صفحے پر اور مستقل مزاجی کے ساتھ کام کریں۔

تجزیہ کاروں کا یہ موقف ہے کہ دنیا پاکستان کے اندر موجود اقتصادی صلاحیت، اس کے جغرافیائی محل وقوع اور نوجوان افرادی قوت کی اہمیت سے بخوبی واقف ہے، مگر یہ صلاحیت اس وقت تک بے معنی رہے گی جب تک پاکستان اپنی اندرونی تنظیم نو نہیں کرتا۔

اب وقت آ گیا ہے کہ محض صلاحیت پر انحصار کرنے کے بجائے ملک اپنے انتظامی نظام میں پیش بینی کا عنصر شامل کرے اور بین الاقوامی سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کرے تاکہ اس اقتصادی صلاحیت کو حقیقت میں بدل کر ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا جا سکے۔

متعلقہ مضامین

  • کیا پاک افغان ایک اور لڑائی ناگزیر ہے، بھارت افغانستان تزویراتی الحاق کیا رنگ دکھائے گا؟
  • ایران کے جوہری پروگرام پر خطرناک تعطل، اسرائیل کو خدشات
  • ٹیکنالوجی کی دنیا میں نیا سنگ میل: دنیا کا سب سے چھوٹا سپر کمپیوٹر تخلیق
  • معرکۂ حق کے بعد فوجی ڈھانچے میں تبدیلی ناگزیر تھی، رانا ثنا
  • بلوچستان: سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر 12 تا 14 نومبر بس سروس معطل، مسافروں کے لیے مشکلات
  • بلاشبہ ترقی اور امن کا راز سائنس اور ٹیکنالوجی میں پنہاں ہے، ملک خدا بخش
  • فرسودہ غلامانہ نظام سے نجات ناگزیر ہے‘ خالد صدیقی
  • پاکستان کو سرمایہ کاری کا مرکز بنانے کیلیے پالیسیوں میں استحکام ناگزیر ہوگیا
  • پاکستان اور چین کا نیا سنگِ میل ، خلائی تعاون میں تاریخی پیش رفت
  • پنجاب میں سیکیورٹی خدشات برقرار،دفعہ 144 میں مزید7 روز کی توسیع