امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ غزہ معاہدے کی سب کو خواہش ہے، موت اور تاریکی کا یہ دور ختم ہوناچاہیے۔ خوشی ہے کہ مشرق وسطیٰ کی برادری سے بات چیت جاری ہے۔

صدر ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر ایک پوسٹ میں لکھا کہ گزشتہ چار روز سے بھرپور مذاکرات جاری ہیں۔ خطے کے تمام ممالک مذاکرات میں شریک ہیں۔

ان کا پوسٹ میں کہنا تھا کہ ہم نے یرغمالیوں کو بھی واپس لانا ہے، حماس کو بھی بات چیت کا پوری طرح علم ہے جبکہ اسرائیل کو بھی ہر مرحلے پر باخبر رکھا جا رہا ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا مزید یہ کہنا تھا کہ اِن مذاکرات کاحصہ ہونا ایک فخر کی بات ہے، ہم نے ایک مکمل اور دائمی امن قائم کرنا ہے۔

ٹرمپ نے اشارہ دیا کہ پیر کے روز انہیں واشنگٹن میں نیتن یاہو سے ملاقات کرنا ہوگی تاکہ معاہدے کو حتمی شکل دی جا سکے۔

منگل کے روز عرب اور مسلم رہنماؤں کے ساتھ ملاقات میں صدر ٹرمپ نے امریکی منصوبہ پیش کیا تھا جس میں جنگ کے خاتمے، یرغمالیوں کی رہائی اور غزہ میں ایک غیر حماس حکومتی ڈھانچے کے قیام کی تجویز شامل تھی۔

عرب اور مسلم رہنماؤں نے اس منصوبے کا خیرمقدم کیا تھا تاہم اسرائیل اور حماس نے تاحال اس پر کھل کر اظہار نہیں کیا تھا۔

جمعہ کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں نیتن یاہو نے اپنی ہٹ دھرمی برقرار رکھتے ہوئے کہا تھا کہ حماس کے 7 اکتوبر 2023 کے حملے سے شروع ہونے والی جنگ اُس وقت تک جاری رہے گی جب تک اسرائیل اپنے تمام اہداف حاصل نہیں کر لیتا۔ اس بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے ابھی تک ٹرمپ کے منصوبے کو قبول کرنے کا فیصلہ نہیں کیا ہے۔

Post Views: 1.

ذریعہ: Daily Mumtaz

پڑھیں:

اختلافات میں شدت، امریکا نے غزہ سیزفائر معاہدے کی فیصلہ سازی سےاسرائیل کو باہر کردیا

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

امریکا اور اسرائیل کے درمیان غزہ میں سیز فائر اور انتظامی معاملات پر اختلافات میں اضافہ ہو گیا ہے۔

ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق، ایک اسرائیلی عہدیدار نے انکشاف کیا ہے کہ امریکا نے غزہ کے لیے قائم سول ملٹری کوآرڈینیشن سینٹر (CMCC) میں اسرائیل کو ثانوی حیثیت دے دی ہے، جبکہ تمام اہم فیصلے خود کر رہا ہے۔

رپورٹس کے مطابق یہ مرکز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے 20 نکاتی امن منصوبے کے تحت قائم کیا گیا ہے، جس کا مقصد اقوام متحدہ کی منظوری سے ایک بین الاقوامی استحکام فورس (ISF) کے ذریعے غزہ کا کنٹرول سنبھالنا اور وہاں سے اسرائیلی افواج کا انخلا یقینی بنانا ہے۔

امریکی منصوبے کے مطابق ISF میں تقریباً 20 ہزار فوجی شامل ہوں گے جنہیں دو سالہ مینڈیٹ کے تحت تعینات کیا جائے گا۔ تاہم امریکا اپنی افواج اس فورس کا حصہ نہیں بنائے گا بلکہ ترکی، قطر، مصر، متحدہ عرب امارات، انڈونیشیا اور آذربائیجان جیسے ممالک سے شرکت کے لیے رابطے کر رہا ہے۔

اسرائیل نے ترکی کی ممکنہ شمولیت پر اعتراض اٹھایا ہے، جبکہ عرب ممالک حماس سے ممکنہ جھڑپوں کے خدشے کے باعث محتاط رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔ اسی دوران امریکا نے اپنے امن منصوبے کی تمام شقوں کو اقوام متحدہ کی قرارداد میں شامل کر لیا ہے، جس کے تحت غزہ کا انتظام “بورڈ آف پیس” سے فلسطینی اتھارٹی کو منتقل کیا جائے گا، بشرطیکہ وہ اصلاحاتی پروگرام پر عمل مکمل کرے۔

یہ صورتحال واضح کرتی ہے کہ غزہ کے مستقبل میں اسرائیل کا کردار محدود جبکہ امریکا کا اثر و رسوخ مسلسل بڑھ رہا ہے۔

ویب ڈیسک مقصود بھٹی

متعلقہ مضامین

  • مکالمہ ہمارا پل، تعاون ہمارا راستہ ہونا چاہیے، چیئرمین سینیٹ کا بین الاپارلیمانی کانفرنس سے خطاب
  • امریکا اور بھارت نئے اقتصادی و سکیورٹی معاہدے کے قریب، صدر ٹرمپ کا انکشاف
  • نئے تجارتی معاہدے کے بعد بھارت جلد ہی امریکا کو دوبارہ پسند کرے گا، صدر ٹرمپ
  • صیہونی رژیم جنگبندی کے معاہدے پر عمل پیرا نہیں، حماس
  • امریکا نے غزہ سیزفائر معاہدے کی فیصلہ سازی سے اسرائیل کو الگ کردیا
  • اختلافات میں شدت، امریکا نے غزہ سیزفائر معاہدے کی فیصلہ سازی سےاسرائیل کو باہر کردیا
  • اختلافات میں شدت، امریکا نے غزہ سیز فائر معاہدے کی فیصلہ سازی سے اسرائیل کو باہر کر دیا
  • رفح کی سرنگوں میں حماس فورسز کی موجودگی سے اسرائیل کو لاحق خوف
  • امریکہ بھارت دفاعی معاہدہ: پاکستان اور چین کیلئے نیا چیلنج
  • جنوبی افریقا میں جی 20اجلاس منعقد ہونا افسوسناک ہے‘ٹرمپ