Jasarat News:
2025-09-27@23:28:07 GMT

مشتاق احمد خان اور قافلہ صمود؛ ضمیر کی گواہی

اشاعت کی تاریخ: 27th, September 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

250928-03-6

 

میر بابر مشتاق

دنیا کی تاریخ میں ایسے لمحات بار بار نہیں آتے جب کوئی ایک قافلہ، کوئی ایک صدا، کوئی ایک کردار پوری انسانیت کے ضمیر کو جھنجھوڑ دے۔ آج امت مسلمہ کی تاریخ کے اس نازک موڑ پر ایک قافلہ عزم و صبر کے ساتھ سفر کر رہا ہے۔ یہ قافلہ نہ دولت کے لالچ میں ہے، نہ شہرت کا طلبگار ہے، اور نہ ہی طاقت کے سامنے جھکنے کے لیے نکلا ہے۔ یہ قافلہ صمود ہے، مزاحمت ہے، سچائی کی گواہی ہے۔ اس قافلے میں شامل وہ لوگ ہیں جو جانتے ہیں کہ وقت کا سب سے بڑا امتحان یہ ہے کہ کون مظلوموں کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے اور کون ظالموں کے ساتھ سودے بازی کرتا ہے۔ انہی میں سے ایک نمایاں کردار سابق سینیٹر مشتاق احمد خان ہیں، جو جماعت اسلامی کے رہنما اور سید ابوالاعلیٰ مودودی کے فکری و روحانی فرزند ہیں۔ ان کی موجودگی اور قیادت اس قافلے کو نہ صرف وزن بخشتی ہے بلکہ اسے ایک فکری اور تحریکی تسلسل سے جوڑتی ہے۔

غزہ کی سرزمین اس وقت انسانی تاریخ کے بدترین المیے سے گزر رہی ہے۔ لاکھوں انسان بے گھر ہیں، ہزاروں شہید ہو چکے ہیں، بچے ملبے تلے دبے ہیں، اور دنیا کی بڑی طاقتیں محض تماشائی بنی بیٹھی ہیں۔ وہ اقوام متحدہ جو انصاف اور امن کے قیام کی دعویدار ہے، وہ عالمی ادارے جو انسانی حقوق کی دہائیاں دیتے ہیں، وہ سب اپنی آنکھوں کے سامنے یہ ظلم دیکھ رہے ہیں مگر ان کے لب سلے ہوئے ہیں۔ ایسے وقت میں جب دنیا کے بیش تر حکمران اور سیاستدان خاموش تماشائی ہیں، جب بیش تر مسلم ممالک کے رہنما عالمی طاقتوں کی خوشنودی کے لیے اپنی زبانوں پر تالے ڈالے ہوئے ہیں، ایسے وقت میں یہ قافلہ صمود اعلان کرتا ہے: ’’ہم غزہ کے ساتھ ہیں، چاہے جو بھی ہو جائے‘‘۔

سینیٹر مشتاق احمد خان کا یہ قدم محض سیاسی ایکٹویزم نہیں بلکہ ایک فکری وراثت کی تجدید ہے۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی نے اپنی پوری زندگی یہ پیغام دیا کہ مسلمان صرف اپنی سرحدوں کے اندر محدود نہیں بلکہ پوری امت ایک جسم ہے۔ اگر جسم کے ایک حصے کو تکلیف پہنچے تو پورا جسم بے چین ہو جاتا ہے۔ جماعت اسلامی کی سیاست کا محور یہی ہے کہ وہ امت کو ایک وحدت کے طور پر دیکھتی ہے۔ مشتاق احمد خان اسی فکر کے ترجمان ہیں۔ ان کا قافلہ میں شامل ہونا دراصل یہ اعلان ہے کہ مودودی کا فکری چراغ آج بھی جل رہا ہے اور یہ امت کے ضمیر کو روشنی دے رہا ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ دنیا کے سیاسی افق پر آج وہی کامیاب سمجھا جاتا ہے جو طاقتور کے ساتھ کھڑا ہو۔ مگر تاریخ نے بار بار یہ ثابت کیا ہے کہ اصل کامیابی طاقتور کے سامنے کھڑے ہونے میں ہے۔ مشتاق احمد خان اور قافلہ صمود کے یہ مسافر جانتے ہیں کہ ان کا راستہ آسان نہیں، انہیں رکاوٹوں، دھمکیوں اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کبھی سفری پابندیاں، کبھی ڈرون حملوں کا خطرہ، کبھی بیماری اور تھکن، مگر ان کے عزم میں لرزش نہیں آتی۔ اس لیے کہ وہ جانتے ہیں کہ یہ سفر صرف غزہ تک نہیں بلکہ یہ سفر تاریخ کے اوراق تک ہے۔ کل جب تاریخ لکھی جائے گی تو یہ قافلہ زندہ مثال کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔

پاکستان کی سیاست میں ایسے کردار بہت کم ملتے ہیں جو ذاتی فائدے اور مفاد سے اوپر اٹھ کر امت کے مفاد کو ترجیح دیتے ہوں۔ سینیٹر مشتاق احمد خان انہی میں سے ایک ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ پاکستان کے عوام کے دل غزہ کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ ہمارے بچے غزہ کے بچوں کے لیے دعائیں کرتے ہیں، ہماری مائیں فلسطینی ماؤں کے آنسوؤں کو اپنا سمجھتی ہیں، ہمارے نوجوان فلسطینی نوجوانوں کو اپنا بھائی مانتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قافلہ صمود پاکستانی عوام کی آواز بھی ہے اور امت مسلمہ کے ضمیر کی گواہی بھی۔

یہ کالم محض ایک شخصیت کی تعریف کے لیے نہیں بلکہ ایک فکر کو اُجاگر کرنے کے لیے ہے۔ آج اگر مشتاق احمد خان غزہ کے مظلوموں کے ساتھ کھڑے ہیں تو یہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اصل سیاست کیا ہوتی ہے۔ سیاست اقتدار کے ایوانوں میں سودے بازی کا نام نہیں، بلکہ سیاست کا اصل مقصد انسانیت کی خدمت، حق کی حمایت اور ظلم کے خلاف مزاحمت ہے۔ یہی وہ سیاست ہے جو سید مودودی نے سکھائی اور یہی وہ سیاست ہے جو جماعت اسلامی آج تک جاری رکھے ہوئے ہے۔

ہمیں یہ بھی سوچنا چاہیے کہ اگر امت مسلمہ کے تمام حکمران اور سیاستدان اس قافلے کی طرح اٹھ کھڑے ہوں تو دنیا کے نقشے پر ظلم کا یہ باب زیادہ دیر باقی نہ رہے۔ اسرائیل کی جارحیت اور امریکا کی پشت پناہی اس وقت تک مضبوط ہے جب تک امت کے حکمران کمزور اور خاموش ہیں۔ جیسے ہی امت کی قیادت بیدار ہوگی، ظلم کی بنیادیں ہلنے لگیں گی۔ قافلہ صمود اسی بیداری کی ایک کرن ہے، جو اندھیروں میں روشنی پھیلا رہی ہے۔

آج کے دور میں جب میڈیا پر جھوٹ کی یلغار ہے، جب طاقتور اپنے ظلم کو قانون کا لبادہ پہنا کر پیش کر رہے ہیں، ایسے وقت میں یہ قافلہ اور سینیٹر مشتاق احمد خان کا کردار ایک زندہ دلیل ہے کہ ابھی بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو نہ بکتے ہیں، نہ ڈرتے ہیں اور نہ ہی جھکتے ہیں۔ یہ کردار ہمیں یاد دلاتا ہے کہ امت مسلمہ ابھی مکمل مردہ نہیں ہوئی۔ ابھی بھی ضمیر کی گواہی باقی ہے، ابھی بھی سچائی کی صدا زندہ ہے، ابھی بھی عزم و صمود کے چراغ بجھے نہیں۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اس قافلے کے قدموں کو استقامت دے، ان کے حوصلوں کو بلند کرے، ان کی حفاظت فرمائے، اور ان کے سفر کو کامیاب و سرخرو لوٹائے۔ یہ دعا صرف ایک قافلے کے لیے نہیں بلکہ پوری امت کے لیے ہے۔ کیونکہ جب یہ قافلہ کامیاب ہوگا تو دراصل یہ امت مسلمہ کی کامیابی ہوگی۔

تاریخ کا فیصلہ ہمیشہ مظلوموں کے حق میں ہوتا ہے۔ ظالم چاہے کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو، وہ ہمیشہ رسوا ہوتا ہے۔ آج اسرائیل اور اس کے حامی طاقتور نظر آتے ہیں، مگر آنے والی نسلیں انہیں مظالم کی علامت کے طور پر یاد رکھیں گی۔ اس کے برعکس آج یہ قافلہ چھوٹا لگتا ہے، کمزور دکھائی دیتا ہے، مگر آنے والی نسلیں اسے عزیمت اور سچائی کی علامت کے طور پر یاد کریں گی۔ یہی اصل کامیابی ہے، یہی اصل عزت ہے، اور یہی وہ وراثت ہے جو سینیٹر مشتاق احمد خان اور ان جیسے بہادر کردار اپنی امت کے لیے چھوڑ رہے ہیں۔

میر بابر مشتاق.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: سینیٹر مشتاق احمد خان جانتے ہیں کہ قافلہ صمود نہیں بلکہ کے طور پر یہ قافلہ کی گواہی اس قافلے ابھی بھی کے ساتھ کے لیے غزہ کے امت کے

پڑھیں:

ڈی جی آئی ایس پی آر جنرل احمد شریف کا جامعہ عروۃ الوثقیٰ کا دورہ

ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر کا طلبہ سے خطاب میں کہنا تھا کہ ملک کے نوجوان پاکستان کا مستقبل ہیں، آپ محنت کریں، اور ملک کو عظیم بنانے میں کردار ادا کریں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر جنرل احمد شریف نے طلبہ کے سوالات کے جوابات بھی دیئے۔ اسلام ٹائمز۔ ڈی جی آئی ایس پی آر جنرل احمد شریف نے لاہور میں جامعہ عروۃ الوثقیٰ میں طلبہ و طالبات اور اساتذہ کیساتھ خصوصی نشست کی۔ ڈی جی آئی ایس پی آر جنرل احمد شریف کے جامعہ پہنچنے پر شاندار استقبال کیا گیا اور پاکستان زندہ باد، پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الااللہ کے نعرے لگائے گئے۔ سربراہ جامعہ عروۃ الوثقیٰ علامہ سید جواد نقوی نے قومی شعور کی بیداری کو نئی نسل کی تعلیم و تربیت کیلئے لازم قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہم پاک فوج کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ طلبہ و طالبات نے کامیاب آپریشن بنیان المرصوص اور بھارت کیخلاف تاریخی فتح پر افواج پاکستان کو خراج تحسین پیش کیا۔

طلبہ کا کہنا تھا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر جنرل احمد شریف نے جس وسعت قلبی سے ہمارے سوالوں کے جواب دیئے ہیں وہ انتہائی خوش آئند اور ہمارے لئے حوصلہ افزا ہیں۔ طلبہ و طالبات نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلائے جانیوالے منفی پروپیگنڈہ کے حوالے سے شکوک و شبہات دور ہوگئے۔علامہ سید جواد نقوی نے کہا کہ پاک فوج نے دہشت گردی کیخلاف بڑی قربانیاں دی ہیں، ہم پاک فوج کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ نوجوان ملک کا مستقبل ہیں، نوجوان محنت کریں، آگے بڑھیں اور ملک کے دفاع کیلئے اپنا کردار ادا کریں۔

انہوں نے کہا کہ پاک فوج نے ملک کا دفاع کیا، آپریشن بنیان المرصوص نے پاکستان کی ساکھ کو بحال کیا اور آج پوری دنیا بھارت کو چھوڑ کر پاکستان کی طرف ہے اور پوری دنیا میں پاکستان کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • محکمہ داخلہ پنجاب میں انسدادِ منی لانڈرنگ و کاؤنٹر ٹیرر فنانسنگ کے حوالے سے اجلاس
  • اسرائیل 48 گھنٹے میں صمود فلوٹیلا پر بڑا حملہ کر سکتا ہے، گریٹا تھنبرگ کا ویڈیو پیغام
  • ڈی جی آئی ایس پی آر جنرل احمد شریف کا جامعہ عروۃ الوثقیٰ کا دورہ
  • ہم نے "صمود" امدادی قافلے کی حفاظت کیلئے اپنی بحریہ تعینات کر دی، سپین
  •  سماجی عدل صرف اسلامی نظام ہی فراہم کرسکتا ہے‘ڈاکٹر مشتاق
  • صمود فلوٹیلا: ظلم کے اندھیروں میں روشنی کا چراغ
  • اسپین کا غزہ امدادی صمود فلوٹیلا پر ڈرون حملوں کے باوجود سفر جاری رکھنے کا عزم
  • صمود فلوٹیلا سے اظہارِ یکجہتی کے لیے اسلام آباد پریس کلب کے باہر احتجاجی مظاہرہ
  • بھارتی کپتان سوریا کمار کا مشتاق احمد سے مصافحہ، ’اب ان کی دیش بھگتی کہاں گئی‘