لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجیے
اشاعت کی تاریخ: 27th, September 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
250928-03-4
معوذ اسد صدیقی
گزشتہ بیس پچیس برس سے اقوامِ متحدہ کور کرتا رہا ہوں اور پاکستانی سیاست و خارجہ پالیسی کا ادنیٰ سا طالب علم ہوں یقین مانیں، کئی برسوں کے بعد وہ احساس پیدا ہوا ہے کہ پاکستان ایک منفرد عالمی مقام پر کھڑا ہے۔ ایک ایسا مقام جسے ہم نے پہلے کم ہی محسوس کیا تھا۔ یہ بھی سچ ہے کہ اس پیش رفت کو اندرونِ ملک کئی حلقے شک و تردد کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ہمارے حکمرانوں اور اسٹیبلشمنٹ کا ماضی شفاف نہیں رہا، اسی بنا پر عوام میں ان کی نیت پر مکمل اعتماد موجود نہیں۔ تاہم تاریخ یہ بتاتی ہے کہ اکثر اوقات ریاستی فیصلے مخصوص مفادات کے تابع رہے ہیں۔ پھر بھی موجودہ عالمی نظم اور حالات کچھ مختلف دکھائی دیتے ہیں۔ ایک خطرناک زمانے میں، جب عالمی محاذ بن رہے ہیں اور طاقتیں نئے اتحاد بنا رہی ہیں، پاکستان کو جو توجہ اور مقام ملا ہے وہ پہلے کم ہی دیکھا گیا ہے۔ امریکا، چین، سعودی عرب، دیگر عرب ریاستیں، ایران، روس اور ترکی— سب نے پاکستان کی طرف نظریں اُٹھا رکھی ہیں۔ بعض مواقع پر غیر متوقع اتحاد و خیرمقدم بھی سامنے آئے ہیں، جو ہمارے لیے حیران کن بھی ہیں اور معنی خیز بھی۔ اقوام متحدہ میں جو پذیرائی ملی وہ غیرمعمولی رہی۔ مگر اس عزت کا ایک تلخ پہلو بھی ہے: یہ مقام جزوی طور پر اس پس منظر کی وجہ سے ملا جس میں انڈیا جیسے دشمن نے ہم پر جنگ مسلط کی اور پاکستان نے بھر پور جواب دیا گناہگار ہونے کے باجود اللہ نے اپنا کرم کیا اور پھر راتوں رات ہماری قسمت بدلی، دنیا کا رُخ بدلا۔ دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ جنگ ہار جاتے تو پاکستان نہ صرف تہی دست ہوتا بلکہ اندرونی بحران کا شکار بھی ہو سکتا تھا۔ مگر قسمت کو کچھ اور منظور تھا اور آج کا پاکستان مختلف ہے۔ اور آج کا پاکستان انڈیا کی لونڈی بن جاتا جب بھی مودی صاحب چاہتے جو بھی چاہتے وہ کرتے؟؟
یہ تمام خوش خبریاں اور عزت اگرچہ باعث ِ تسکین ہیں، مگر ان کے ساتھ بڑی تشویش بھی وابستہ ہیں۔ سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان دوبارہ بین الاقوامی مفادات کا آلہ ِ کار بنے گا؟ کیا ہم اس میں شریک ہو جائیں گے کہ فلسطین کی قربانیوں کو پس ِ پشت ڈال کر کوئی بین الاقوامی سمجھوتا جائز ٹھیرایا جائے؟ جب ستر ہزار کے قریب افراد شہید ہو چکے ہوں اور لاکھوں بے گھر ہوں، تو یہ سوال محض اخلاقی نہیں بلکہ قومی ہوا کرتا ہے۔ ہماری پالیسیوں اور ہماری قیادت کا امتحان ہے۔ مزید برآں، وہ کامیابیاں جو آج ہمیں بین الاقوامی طور پر ملی ہیں، کیا ان کے حقیقی ثمرات عوام تک پہنچیں گے؟ یا یہ صرف چند خاندانوں، جغرافیائی مفادات اور طاقت کے مراکز کے لیے سود مند ثابت ہوں گے؟ اگر حکمران اور اسٹیبلشمنٹ اپنی قدیم سوچ ترک نہ کریں تو یہ مقام بھی وقتی اور استعمال شدہ ثابت ہو سکتا ہے۔ ہمارے لیے ذلت کا اگلا پڑاؤ بننے کا خطرہ ہمیشہ موجود ہے۔ لہٰذا ایک واضح راہ یہی ہے: بین الاقوامی کامیابی کو جمہوری شفافیت، معاشی بہتری اور عوامی بہبود سے جوڑا جائے۔ کامیابی تب حقیقی کہلائے گی جب اس کے ثمرات ملک کے عام شہری تک پہنچیں، جب ادارے جوابدہ ہوں اور فیصلے شفاف ہوں۔ بصورتِ دیگر بین الاقوامی توجہ محض آئینی اور سیاسی دکھاوے کے زمرے میں رہ جائے گی اور پھر اس عظمت کے بعد ڈر یہی ہوگا کہ اگلا مرحلہ ذلت ہو۔ کیونکہ الحمدللہ یہ عزت صرف حکمرانوں تک محدود نہیں بلکہ عام پاکستانی بھی اسے محسوس کر رہے ہیں۔ دنیا کے لوگوں کا پاکستانیوں کو دیکھنے کا نقطہ ٔ نظر بدل رہا ہے۔ جس طرح پہلے پاکستانیوں کی پہچان دبے دبے انداز میں یا محض ذاتی سطح پر رہتی تھی، اب پاکستان کا بھرپور تعارف عوام کے سامنے آیا ہے۔
جہاں تک مسلم ممالک کا تعلق ہے، اس فرق کو بھی نمایاں طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ایٹمی دھماکوں کے بعد مسلم دنیا میں پاکستانیوں کے ساتھ رویّے یکسر بدل گئے تھے۔ آج انڈیا پر سفارتی و سیاسی اور جنگی برتری حاصل کرنے اور دنیا کی توجہ اپنی طرف کھینچنے کے بعد وہی کیفیت ایک بار پھر دیکھی جا سکتی ہے۔ امریکا میں رہنے والے پاکستانی اس تبدیلی کو بخوبی محسوس کر سکتے ہیں۔ سوائے چند شکوہ کرنے والے بھائیوں کے، زیادہ تر خوش اور مطمئن نظر آتے ہیں۔ یہی گواہی غالباً عرب ممالک میں مقیم پاکستانی بھی دیں گے کہ وہاں عام عرب مسلمانوں میں پاکستانیوں کے ساتھ رویّے بدل گئے ہیں اور عزت و احترام میں اضافہ ہوا ہے۔ اللہ کرے کہ یہ دور پاکستان کے عوام کے فائدے میں ثابت ہو — ورنہ یہ عظمت عنقریب مایوسی میں بدل سکتی ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: بین الاقوامی کے بعد
پڑھیں:
عبدالواسع کے بیرونِ ملک دورے پر صابرحسین اعوان قائم مقام امیرصوبہ جماعت اسلامی مقرر
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
پشاور(آئی این پی )امیر جماعت اسلامی صوبہ عبدالواسع کے بیرونِ ملک دورے کے باعث ان کی عدم موجودگی میںصابر حسین اعوان قائم مقام امیر صوبہ جبکہ سہیل احمد بابر راہی قائم مقام قیم صوبہ جماعت اسلامی خیبر پختو نخوا وسطی ہوں گے۔انہوں نے امیر صوبہ کی ذمہ داری کا حلف اٹھایا۔ اس موقع پر مولانا ہدایت اللہ ، حاجی محمد اسلم (نائب امرا صوبہ)، ڈاکٹر محمد اقبال خلیل اور دیگر ذمہ داران بھی موجود تھے۔