امریکی فوج عظیم یا مظلوم ؟
اشاعت کی تاریخ: 27th, September 2025 GMT
کیا ہم جانتے ہیں کہ دنیا میں دبنگ کارروائیوں والے امریکا کے اندازاً پانچ لاکھ سابق فوجیوں کو نفسیاتی اور دماغی مسائل کا سامنا ہے۔
حال ہی میں ایک رپورٹ کے مطابق محکمہ دفاع کی اس بات کا کوئی اندازہ نہیں ہے کہ کتنے فوجیوں کا علاج ہو رہا ہے یا ان کی موجودہ حالت کیسی ہے۔
امریکا کے فوجیوں کی وائرل وڈیوز میں اکثر دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے ذمے داروں، رہنماؤں سے کھلم کھلا ان ممالک میں جہاں انھیں دہشت گردی کرنے اور ان کے مطابق دہشت گردی سے روکنے کے لیے بھیجا جاتا رہا ہے جس میں افغانستان کا نام سرفہرست ہے۔
افغانستان میں جنگ کے حوالے سے جڑی خبریں اورکارروائیاں ان کے لیے اذیت کا سبب بنتی ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ وہ عام انسان ہیں وہ ایک ترقی یافتہ ملک کی فوج کا حصہ تھے جہاں اعلیٰ ترین سہولیات کے ساتھ سخت ترین آزمائشوں اور مراحل سے گزر کر پہنچایا جاتا ہے۔
وہ ذہنی اور جسمانی طور پر ان جنگی آزمائشوں کے لیے تیار ہوتے ہیں لیکن پھر بھی ایسا نہیں ہوا یا ان کے صبر و استقامت میں دراڑیں پڑ رہی ہیں وہ چٹخ رہی ہیں اور اب کھلم کھلا احتجاج سامنے آ رہا ہے۔
فلسطین کے حوالے سے بھی عام عوام کے علاوہ فوجی طبقے سے بھی احتجاج کی صدائیں بلند ہو رہی ہیں۔ اس لیے کہ انسان جسمانی طور پرکتنا بھی مضبوط ہو ناانصافی انسانی دماغ پر منفی اثرات چھوڑتی ہے جو بعد میں گمبھیر مسائل کے طور پر ابھرتی ہے جس کے نتیجے میں انسان اپنی جان تک لے لیتا ہے۔
امریکی ٹیکس دینے کے عمل میں ذمے دار ہیں یا نہیں البتہ ان کے ٹیکس کو جس بے دردی سے جنگوں پر لٹایا گیا ہے ایک تکلیف دہ صورت حال ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ دو کھرب ڈالرز سے لڑی جانے والی جنگ کے نتائج کیا ظاہر کر رہے ہیں۔
افغانستان کی حالیہ پوزیشن کے مناظر میں ذمے داران غلطی تسلیم کرنے میں پس و پیش کر رہے ہیں جب کہ سرکار سے تنخواہ لے کر کام کرنے والے بھی طبعی طور پر ان پیچیدہ اور دشوار مقامات پر جنگ لڑنے والوں اور اپنی زندگی کے قیمتی ایام ضایع کرنے والوں سے کوئی ہمدردی نہیں رکھتے، ان کے لیے یہ سب کوئی معنی ہی نہیں۔
ایک ہی ملک کے تنخواہ داروں کے درمیان یہ تضادات سوال اٹھاتے ہیں۔امریکا کے سابق فوجیوں کے احساسات و جذبات اسی نوعیت کے ہیں، ان کے لیے وہ تمام فوجی تمغے کوئی معنی نہیں رکھتے ان کے روبوٹک ذہنوں کو بنانے میں جس قدر محنت کی گئی تھی۔ انسانی جذبات اور احساسات ان پر حاوی آ ہی گئے۔
وہ سوال کرتے ہیں کہ انھوں نے یہ جنگ کس کے لیے لڑی ۔ باہر سے آ کر لڑنے والے اور سکھانے والے فعال نہ رہے تھے بلکہ خود اعصابی اور جسمانی الجھنوں میں گھر گئے۔
بیس برسوں میں امریکی فوجیوں کی اندازاً تین ہزار اموات ہوئیں جب کہ ان کے انخلا کے بعد جدید ہتھیار و اوزار کا ایک ذخیرہ تھا جو بڑے بازاروں تک میں فروخت کے لیے موجود تھا صرف یہی نہیں بلکہ ان کے ہتھیار ان پر ہی آزمائے بھی گئے کیونکہ امریکی فوجی ماہرین کے سکھائے افغانی فوجی کابل کے محاصرے کے بعد بنا لڑائی کے ہی ہتھیار ڈال کر یہ ثبوت فراہم کر گئے کہ یہ سب ایک ہی قوم کے ہیں۔
امریکی فوج پچاس ممالک میں سرگرم عمل ہے۔ پچاس ممالک میں اپنی افواج بھیجنے کے حوالے سے ایک بڑی تعداد میں نوجوان بے روزگاری سے بچ سکتے ہیں۔ درحقیقت نوجوانوں کو نائن الیون کے واقعے کے بعد اپنے ملک سے محبت میں فوج میں بھرتی ہوئے بھی تھے لیکن عراق اور افغانستان میں صورت حال طول پکڑتی گئی اور جذبے سرد پڑتے گئے۔
لیکن حکومتوں کا کیا کریں جو اپنی انگلی کے اشارے سے سارے معاملات سنبھالنے کا عہد تو کرتے ہیں لیکن کیا لڑائی کے لیے روبوٹ فوجی فراہم کر سکتے ہیں؟
امریکی فوج سکڑ رہی ہے، اس کی تعداد میں گھٹاؤ دیکھا جا رہا ہے خود امریکا کے نوجوانوں میں آرمی کے حوالے سے نااہلیت کے کئی مسائل ہیں جنھیں نظرانداز کر کے بھی بھرتی کا کام کیا جا رہا ہے، کیونکہ اس وقت جس تعداد کے متمنی ہیں وہ نہایت قلیل ہے۔
2022 اور 2023 میں فوج میں بھرتی کے حوالے سے پچیس فی صد کمی دیکھی گئی تھی۔ 2022 میں ’’ مستقبل کے فوجی‘‘ کے حوالے سے پروگرام تشکیل دیا گیا تھا، پرکشش مراعات سے امید تھی کہ لوگ اس جانب آئیں گے لیکن مسائل اب بھی گمبھیر ہیں۔
’’ ہمارے بھانجے کو اچھی نوکری کی تلاش تھی، اسے امریکی فوج میں مراعات کے ساتھ اچھی سیلری میں چارم نظر آیا اور اس نے امریکی آرمی جوائن کر لی۔‘‘
ایک پاکستانی فیملی کا چشم و چراغ امریکا میں پیدا ہوا، پلا بڑھا اور پڑھائی کے بعد فوج کی جانب بڑھا، وجہ مضبوط حیثیت اور شعبہ تھا۔
’’ ہمارے بھائی نے امریکی آرمی میں اپلائی کیا، اسے وہاں سلیکٹ کر لیا گیا اور پھر ہمارے سارے گھر والے بھی امریکا شفٹ ہو گئے، ہمیں وہاں کا ویزہ آسانی سے مل گیا تھا۔‘‘
برسوں پہلے کی کہانی یاد آ گئی تھی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ امریکن آرمی میں مختلف ممالک کے علاوہ پاکستان سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی شامل ہیں۔
پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں پانچ لاکھ سے زائد امریکی فوجی ہلاک ہوئے تھے، اس کے بعد ویت نام کی جنگ میں اندازاً ساٹھ ہزار امریکی فوجی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے یہ ایک طویل جنگ تھی جس میں امریکی فوج کی مداخلت نے ویت نام میں مسائل کا انبار کھڑا کر دیا تھا تو خود امریکا کو بھی جانی اور مالی نقصان کا بڑا خمیازہ بھگتنا پڑا تھا۔
یہ وہی جنگ تھی جہاں امریکی فوجیوں نے نفسیاتی اور جسمانی طور پر عذاب جھیلے، یہ ایک الگ حقیقت ہے کہ مظالم کی ایک طویل کہانی نے ویت نام میں خونی تاریخ رقم کی۔ امریکی فوجیوں کی نفسیات سے جڑے مسائل لیے ویت نام کی جنگ کی صدائیں اب بھی ایوانوں میں گونجتی ہیں۔
امریکی فوج کو یہاں ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا تھا جسے اخلاقی قدروں پر سنبھالنے کی کوشش کی تھی۔امریکی فوجی مداخلت کا تیسرا دور افغانستان میں دس سال جاری رہا، 2021 میں بظاہر اس طویل جنگ کا اختتام ہوا اور بات جہاں سے شروع ہوئی تھی وہیں ختم ہوئی۔
طالبان نے پندرہ اگست 2021 کو کابل پر قبضہ کر لیا تھا اور اقتدار کی کرسی سنبھالی۔ دو ہزار سے زائد امریکی فوجیوں کی ہلاکت اور بیس ہزار سے زائد زخمی فوجیوں نے امریکی حکومتوں کا کیا بگاڑ لیا۔
غزہ میں ہونے والی یک طرفہ جنگ جہاں بظاہر حماس کھڑا نظر آ رہا ہے اور اسرائیل کی آرمی قتل و غارت گری مچا رہی ہے، امریکی فوج کا عملی طور پر مظاہرہ نظر نہیں آرہا لیکن مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک میں امریکی فوج موجود ہے؟ کیا امریکی فوجی روبوٹ کی مانند فلسطین کی جنگ میں ایک بار پھر دھکیلے جائیں گے، کیا ماضی کی طرح ان کی نفسیاتی الجھنیں اور مسائل کا حل تلاش کیا جاسکتا ہے یا بس مشینی پاور۔۔۔!
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: امریکی فوجیوں امریکی فوجی کے حوالے سے امریکی فوج ممالک میں امریکا کے فوجیوں کی ویت نام کی فوج رہا ہے کے لیے کے بعد
پڑھیں:
ڈونلڈ ٹرمپ نے شہباز شریف اور فیلڈ مارشل کو عظیم رہنما اور شاندار شخصیت قرار دے دیا
—فائل فوٹوامریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وزیر اعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل کو عظیم رہنما اور شاندار شخصیت قرار دے دیا۔
وزیراعظم شہباز شریف اور فیلڈ ماشل عاصم منیر سے ملاقات سے قبل ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ بات کہی تھی۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ شہباز شریف اور عاصم منیر شاندار شخصیت ہیں۔
واضح رہے کہ وزیراعظم شہباز شریف اور فیلڈ ماشل عاصم منیر کی امریکا کے صدر ٹرمپ ڈونلڈ سے اہم ملاقات ہوئی تھی۔
اس موقع پر وزیراعظم کا کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ دنیا بھر میں تنازعات کے خاتمے کے لیے مخلصانہ کوششوں میں مصروف ہیں۔
وزیر اعظم ہاؤس کے مطابق وزیر اعظم نے امریکا کے صدر کو دورۂ پاکستان کی دعوت دیتے ہوئے صدر ٹرمپ کو امن کی علمبردار شخصیت قرار دیا اور پاک بھارت جنگ میں جرات مردانہ کردار پر ان کی ستائش کی۔
وزیر اعظم نے کہا تھا کہ صدر ٹرمپ نے پاک بھارت جنگ بندی سے جنوب ایشیاء میں بڑا سانحہ ہونے سے روک دیا۔