شہید حسن نصراللہ عالم اسلام کے عظیم رہنماء تھے، علامہ مقصود ڈومکی
اشاعت کی تاریخ: 26th, September 2025 GMT
مہدی آباد کے دورے کے موقع پر علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا کہ سید مقاومت کی پہلی برسی کے موقع پر ہم اس عظیم مجاہد کو سلام عقیدت پیش کرتے ہیں جسکی پوری زندگی جہاد فی سبیل اللہ میں گذری۔ اسلام ٹائمز۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی رہنماء علامہ مقصود علی ڈومکی نے مہدی آباد کا دورہ کیا، جہاں انہوں نے غالب حسین گولاٹو، زوار دلدار حسین، فضل حسین ڈومکی اور دیگر افراد سے ملاقات کی۔ اس موقع پر انہوں نے غالب حسین گولاٹو کو عمرہ کی سعادت حاصل کرنے پر ہار پہنا کر مبارکباد پیش کی۔ اس موقع پر مجلسِ علماء مکتب اہل بیت کے ضلعی صدر علامہ سیف علی ڈومکی اور ایم ڈبلیو ایم عزاداری ونگ کے ضلعی رہنماء نور الدین گولاٹو بھی ان کے ہمراہ تھے۔
اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا کہ سید مقاومت کی پہلی برسی کے موقع پر ہم اس عظیم مجاہد کو سلام عقیدت پیش کرتے ہیں جس کی پوری زندگی جہاد فی سبیل اللہ میں گذری۔ وہ جو وقت کے فرعون کے لیے خوف کی علامت تھا، جو مظلوموں اور بے سہاروں کے لیے امید کی کرن تھا۔ جو رہبر معظم کو توانا بازو اور قابل فخر کمانڈر تھا۔
انہوں نے کہا کہ سید مقاومت، شہید سید حسن نصر اللہ عالم اسلام اور عالمِ تشیع کے وہ عظیم رہنما تھے جنہوں نے اپنی پوری زندگی عصرِ حاضر کے فرعونوں اور عالمی استکباری قوتوں کے خلاف جدوجہد میں بسر کی۔ ہم ان کے مشن اور فکر سے تجدید عہد کرتے ہیں کہ ان کے راستے کو جاری رکھیں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ وادی تیراہ میں جو افسوسناک واقعہ پیش آیا اس پر پوری قوم غمزدہ ہے۔ آئین اور قانون کی روشنی میں ریاستی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ معصوم اور بے گناہ افراد کے قتل ناحق پر فوری غیر جانبدارانہ تحقیقات کرائیں اور مظلوم خاندانوں کو انصاف فراہم کیا جائے۔
علامہ مقصود علی ڈومکی نے اسرائیل کی جانب سے گلوبل صمود فلوٹیلا پر حملے کی شدید مذمت کی۔ انہوں نے حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ اس فلوٹیلا کی سکیورٹی کے حوالے سے فوری اور سنجیدہ اقدامات کرے۔ انہوں نے کہا کہ عرب ممالک، اسلامی ممالک اور او آئی سی کو بھی اس ضمن میں مؤثر کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ فلسطینی عوام کے حق میں اٹھنے والی عالمی آواز کو دبایا نہ جا سکے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: علامہ مقصود علی ڈومکی نے نے کہا کہ انہوں نے
پڑھیں:
امن عالم کے لیے تعلیمات نبویؐ سے راہ نمائی
دنیا کی تاریخ میں اگر کسی شخصیت کی سیرت کو جامعیت اور آفاقیت کے ساتھ دیکھا جاتا ہے تو وہ صرف نبی اکرم ﷺ کی ذات اقدس ہے۔ آپؐ کی زندگی کا ہر گوشہ انسانیت کے لیے راہ نمائی اور ہر دور کے مسائل کا حل پیش کرتا ہے۔ دینِ اسلام میں سیاست اور سفارت کو الگ تھلگ نہیں رکھا گیا بل کہ ان کو اخلاقیات اور عدل کے ساتھ جوڑ کر معاشرتی نظام کی بنیاد بنایا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج کے دور میں جب دنیا طاقت کی کش مکش اور انتشار میں گھری ہوئی ہے، سیرتِ نبویؐ کی یہ جہت اور بھی زیادہ اہم ہو جاتی ہے۔ مدینہ کی ریاست کا قیام اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ ﷺ کی سیاسی و سفارتی حکمت عملی کس قدر بصیرت افروز تھی۔ آپ ﷺ نے میثاقِ مدینہ کے نام سے ایک ایسا تحریری معاہدہ تشکیل دیا جو مختلف مذاہب اور قبائل کو ایک ریاستی ڈھانچے میں جمع کرتا تھا۔ اس معاہدے کے مطابق سب شہری یک ساں حقوق رکھتے تھے، سب کو اپنی مذہبی آزادی حاصل تھی اور مدینہ کی حفاظت سب کی مشترکہ ذمہ داری قرار دی گئی۔ یہ انسانی تاریخ کا پہلا ایسا معاہدہ تھا جس نے کثیر المذاہب معاشرت کو قانونی اور اخلاقی تحفظ دیا۔
یہودی قبائل اور دیگر غیر مسلم گروہوں کے ساتھ تعلقات میں بھی آپؐ نے رواداری اور معاہدات کی پاس داری کو ترجیح دی۔ جب تک یہ قبائل معاہدوں پر قائم رہے، آپ ﷺ نے ان سے حسنِ سلوک کیا۔ لیکن جب انہوں نے بدعہدی کی اور جنگ مسلط کی تو آپ ﷺ نے دفاعی حکمت عملی اپنائی۔ اس رویے نے یہ واضح کیا کہ اسلامی سیاست طاقت کے بے جا استعمال کی نہیں بل کہ انصاف اور عہد کی پاس داری کی ضامن ہے۔
آپ ﷺ نے قیصرِ روم ہرقل کو خط بھیجا۔ یہ نصرانی حکم ران تھا، اس لیے آپ ﷺ نے خط کی ابتدا عیسیٰ علیہ السلام کی رسالت کا ذکر کر کے کی تاکہ اس کے مذہبی جذبات سے ہم آہنگی پیدا ہو۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ عیسیٰ علیہ السلام اﷲ کے نبی اور بندے ہیں، اور اﷲ کی طرف سے وہی پیغام لائے جو پہلے انبیائے کرامؑ لاتے رہے۔ اس میں یہ حکمت تھی کہ ہرقل کو یہ بات باور کرائی جائے کہ اسلام مسیحیت کا منکر نہیں بل کہ اس کی تکمیل ہے۔ اس خط میں مکالمے کی زبان تھی، ٹکراؤ کی نہیں، تاکہ نصرانی دنیا کو اسلام کے قریب لایا جا سکے۔
کسریٰ فارس نوشیرواں کو بھیجے گئے خط میں آپ ﷺ نے اسلام کی طرف دعوت دی۔ فارس چوں کہ مجوسیت (آتش پرستی) کا مرکز تھا اور اپنی سلطنت و طاقت پر نازاں تھا، اس لیے آپ ﷺ نے خط میں سیدھی دعوتی بات کی کہ ’’اسلام قبول کرو تو دنیا و آخرت میں کام یابی پاؤ گے۔‘‘ اس میں یہ حکمت تھی کہ غرور میں ڈوبا ہُوا بادشاہ بہ راہِ راست کلام کو سن سکے۔ لیکن اس نے خط چاک کر دیا، اور آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اﷲ اس کی سلطنت بھی ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا۔‘‘ اور پھر ایسا ہی ہُوا۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سفارت میں حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ ہر فریق کے مزاج کے مطابق خطاب کیا جائے۔
نجاشی حبشہ کو بھی خط لکھا گیا۔ نجاشی پہلے ہی مسلمانوں کو پناہ دے چکا تھا اور وہ مسیحی علماء کے قریب تھا۔ اس لیے آپ ﷺ نے خط میں قرآن کی آیات شامل کیں جن میں عیسیٰ علیہ السلام اور سیدہ مریم علیہا السلام کا ذکر تھا۔ اس کی حکمت یہ تھی کہ اسے قرآن کے اس پیغام سے رُوشناس کرایا جائے جو اس کے دل کے قریب ہو۔ نجاشی نے وہ خط پڑھ کر آنسو بہائے اور فوراً اسلام قبول کر لیا۔ مصر کے حاکم مقوقس کو خط لکھا گیا۔ وہ بھی عیسائی دنیا سے تعلق رکھتا تھا۔ آپ ﷺ نے نرم لہجے میں دعوت دی۔ اگرچہ اس نے اسلام قبول نہ کیا، لیکن اس نے خط کی عزت کی، سفیر کو خوش دلی سے رخصت کیا اور نبی کریم ﷺ کو تحائف بھیجے۔ اس کی حکمت یہ تھی کہ اگر اسلام قبول نہ بھی کرے تو کم از کم مسلمانوں کے ساتھ خیر سگالی کا تعلق قائم ہو۔ اسی طرح بحرین کے بادشاہ منذر بن ساوی اور عمان کے حکم ران جیفر و عبد جیسے لوگوں کو بھی خطوط بھیجے گئے۔ ان خطوط میں بہ راہِ راست، سادہ اور واضح دعوت تھی کیوں کہ یہ لوگ مذہبی بحث سے زیادہ تجارتی اور سیاسی تعلقات میں دل چسپی رکھتے تھے۔
ان سب خطوط کا مشترکہ نکتہ یہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ہر ایک سے اس کے مذہب، مزاج اور سیاسی پس منظر کے مطابق خطاب کیا۔ یہ سفارت کاری کا وہ اعلیٰ معیار ہے جو آج کے دور میں بھی خارجہ پالیسی کا راہ نما اصول بن سکتا ہے۔ آج جب دنیا کے ملک باہمی تعلقات میں صرف مفاد اور طاقت کو دیکھتے ہیں، سیرتِ نبویؐ ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ اصل کام یابی تعلقات میں مکالمہ، حکمت اور دوسروں کی نفسیات کو سمجھنے میں ہے۔
امن اور جنگ کے معاملات میں بھی آپ ﷺ نے ایسے اصول طے کیے جو آج بھی عالمی قوانین سے بلند تر ہیں۔ جنگ میں کبھی عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کو نشانہ بنانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ کھیتوں، درختوں اور عبادت گاہوں کو نقصان نہ پہنچانے کی ہدایت کی گئی۔ اس طرزِ عمل نے یہ ثابت کیا کہ حتیٰ کہ جنگ جیسے سخت موقع پر بھی اسلام انسانیت اور عدل کو مقدم رکھتا ہے۔ تجارت اور معاشی تعلقات کے ذریعے بھی آپ ﷺ نے سفارت کو فروغ دیا۔ تجارتی قافلوں، معاہدوں اور نمائندوں کے ذریعے مختلف قوموں اور قبائل سے تعلقات قائم کیے گئے۔ یہ تعلقات نہ صرف معیشت کو مستحکم کرتے تھے بل کہ سفارتی پل کا کردار بھی ادا کرتے تھے۔ اس کا سب سے بڑا مقصد یہ تھا کہ دشمن کو بھی دوست میں بدلا جا سکے اور اختلاف کو مفاہمت میں تبدیل کیا جا سکے۔
اگر ہم جدید سیاسی فلسفوں پر نظر ڈالیں تو ہمیں لبرل ازم، ریئل ازم اور کثیر المذاہب معاشرت جیسے نظریات دکھائی دیتے ہیں۔ لبرل ازم انسانی حقوق اور جمہوری آزادی پر زور دیتا ہے، لیکن یہ اصول نبی اکرم ﷺ نے اس وقت نافذ کیے جب دنیا غلامی کے اندھیروں میں ڈوبی ہوئی تھی۔ ریئل ازم طاقت اور مفاد کی سیاست کو مرکزی حیثیت دیتا ہے، مگر آپ ﷺ نے طاقت کو بھی عدل اور اخلاق کے تابع بنایا۔ سوشل کنٹریکٹ تھیوری شہریوں اور ریاست کے درمیان معاہدے کی بات کرتی ہے، لیکن میثاقِ مدینہ اس سے صدیوں پہلے اس تصور کو عملی شکل دے چکا تھا۔ اسی طرح کثیر المذاہب معاشرت کا جو فلسفہ آج دیا جا رہا ہے، وہ دراصل مدینہ کی ریاست میں سب سے پہلے عملی صورت میں سامنے آیا۔
ان تمام پہلوؤں کا تقابلی جائزہ لینے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ نبوی تعلیمات جدید فلسفوں سے نہ صرف ہم آہنگ ہیں بل کہ کئی حوالوں سے ان سے بلند تر ہیں۔ عدل و مساوات، مذہبی آزادی، معاہدات کی پاس داری، اور امن و جنگ کے اصول سب ہی ایسے ہیں جنہوں نے انسانی تاریخ میں ایک منفرد معیار قائم کیا۔
آج کے دور میں جب دنیا بدامنی، جنگوں اور طاقت کی سیاست میں گھری ہوئی ہے، نبی اکرم ﷺ کی سیرت ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے۔ آپ ﷺ کی حکمت عملی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ امن قائم کرنے کا سب سے بہترین طریقہ انصاف، رواداری اور مکالمہ ہے۔ مسلم دنیا اگر ان اصولوں کو اپنائے تو نہ صرف اپنے داخلی مسائل حل کر سکتی ہے بل کہ عالمی سطح پر بھی امن و بھائی چارے کے قیام میں کلیدی کردار ادا کر سکتی ہے۔ اسلام کی اصل حکمتِ عملی یہی ہے کہ طاقت کو انصاف کے تابع رکھا جائے، دشمن کو نفرت سے نہیں بل کہ مکالمے اور حکمت سے قریب کیا جائے اور تعلقات کو تصادم کے بہ جائے خیر سگالی پر قائم کیا جائے۔ یہی وہ روشنی ہے جو صحرائے عرب سے اٹھی اور آج بھی دنیا کے ہر اندھیرے کو اجالنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ سیرتِ نبویؐ کا پیغام صرف مسلمانوں کے لیے نہیں بل کہ پوری انسانیت کے لیے ہے۔ یہ ایک ایسا راہ نما ماڈل ہے جو ہر زمانے اور ہر خطے میں انسانیت کو امن، عدل اور فلاح کی راہ دکھاتا ہے۔