برطانیہ، فرانس اور جرمنی کا ایران کے ایٹمی پروگرام پر پابندیوں کے لیے اقوام متحدہ کو خط
اشاعت کی تاریخ: 13th, August 2025 GMT
لندن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔13 اگست ۔2025 )برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے ایران کے ایٹمی پروگرام پر سخت انتباہ کے ساتھ اقوام متحدہ کو خط لکھا اور دوبارہ پابندیوں کا عندیہ دیا ہے رپورٹ کے مطابق برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے اقوام متحدہ کو ایک خط لکھا جس میں بتایا گیا ہے کہ اگر اگست کے آخر تک کوئی سفارتی حل نہ نکلا تو وہ ایران کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے اقوام متحدہ کی پابندیاں دوبارہ عائد کرنے کے لیے تیار ہیں.
(جاری ہے)
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرس اور سلامتی کونسل کو بھیجے گئے خط میں تینوں یورپی طاقتوں نے کہا کہ وہ تمام سفارتی وسائل استعمال کرنے کے لیے پرعزم ہیں تاکہ ایران ہتھیار بنانے والا ایٹمی پروگرام نہ تیار کرے جب تک تہران مقررہ آخری تاریخ پر عمل نہیں کرتا ای 3 گروپ کے نام سے جانے جانے والے ممالک کے وزرائے خارجہ نے اس اسنیپ بیک میکانزم کے استعمال کی دھمکی دی ہے جو 2015 کے بین الاقوامی معاہدے کا حصہ تھا، جس نے اقوام متحدہ کی پابندیوں کو نرم کیا تھا اس معاہدے کے تحت جو اکتوبر میں ختم ہو رہا ہے، معاہدے کے کسی بھی فریق کو پابندیاں دوبارہ بحال کرنے کا حق حاصل ہے. تینوں ممالک نے ایران کو اقوام متحدہ کے ایٹمی نگرانی ادارے، بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) کے ساتھ تعاون معطل کرنے پر انتباہات جاری کیے ہیں یہ صورتحال اس کے بعد پیدا ہوئی جب اسرائیل نے جزوی طور پر ایران کی ایٹمی صلاحیت کو تباہ کرنے کے لیے جون میں اس کے ساتھ 12 دن کی جنگ شروع کی اور امریکا نے بھی اس جنگ کے دوران اپنی بمباری کی کارروائی کی. فرانس کے وزیرخارجہ ژاں نوئل بارو، برطانیہ کے ڈیوڈ لیمی اور جرمنی کے جوہان ویڈفل نے خط میں کہا کہ ہم نے واضح کر دیا ہے کہ اگر ایران اگست 2025 کے آخر تک سفارتی حل تک پہنچنے کے لیے تیار نہیں ہے یا توسیع کے موقع کا فائدہ نہیں اٹھاتا، تو ای 3 اسنیپ بیک میکانزم کو متحرک کرنے کے لیے تیار ہیں تینوں ممالک 2015 کے جامع مشترکہ منصوبے (جے سی پی او اے) کے دستخط کنندگان تھے جس میں امریکا، چین اور روس بھی شامل تھے جس کا مقصد ایران کو ایٹمی ہتھیار کے لیے یورینیم کی افزودگی کم کرنے کی ترغیب دینا تھا. امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2018 میں امریکا کو اس معاہدے سے باہر نکال دیا اور نئی پابندیاں عائد کرنے کا حکم دیا یورپی ممالک نے کہا کہ وہ معاہدے پر قائم رہیں گے تاہم ان کا خط اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ وزرائے خارجہ کے مطابق ایران نے معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے وزرائے خارجہ نے خط میں لکھا کہ ای 3 ایران کے ایٹمی پروگرام کی وجہ سے پیدا شدہ بحران کے حل کے لیے سفارتی کوششوں کے لیے مکمل طور پر پرعزم ہیں اور وہ مذاکراتی حل تک پہنچنے کی کوشش جاری رکھیں گے. خط میں کہا گیا ہے کہ ہم بھی مکمل طور پر تیار ہیں اور ہمارے پاس قانونی جواز موجود ہے کہ اگر اگست 2025 کے آخر تک کوئی قابل قبول حل نہ نکلا تو جے سی پی او اے کی ایران کی غیر کارکردگی کے حوالے سے اسنیپ بیک میکانزم کو متحرک کریںواضح رہے کہ امریکا پہلے ہی ایران کے ساتھ ایٹمی سرگرمیوں پر رابطے شروع کر چکا تھا لیکن یہ رابطے اسرائیلی حملوں کے بعد معطل کر دیے گئے جو ایران کی ایٹمی تنصیبات پر جون میں کیے گئے. ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی نے پچھلے ماہ اقوام متحدہ کو خط بھیجا اور کہا کہ یورپی ممالک کے پاس پابندیاں دوبارہ عائد کرنے کا قانونی حق نہیں ہے جبکہ یورپی وزرائے خارجہ نے اس الزام کو بنیاد سے خالی قرار دیا انہوں نے زور دیا کہ جے سی پی او اے کے دستخط کنندگان کے طور پر وہ واضح اور غیر مبہم قانونی جواز کے ساتھ اقوام متحدہ کے متعلقہ پروویژنز استعمال کر کے ایران کے خلاف پابندیاں دوبارہ بحال کرنے کے لیے اسنیپ بیک میکانزم کو متحرک کرنے کے مجاز ہیں.
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ایران کے ایٹمی پروگرام پابندیاں دوبارہ اقوام متحدہ کو کرنے کے لیے اور جرمنی کے ساتھ کہا کہ
پڑھیں:
میانمار میں قیدیوں پر منظم تشدد کے ناقابلِ تردید شواہد سامنے آگئے
اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ میانمار کے حراستی مراکز میں قیدیوں پر منظم اور سنگین تشدد کے ناقابل تردید شواہد مل چکے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ان مظالم میں ملک کی اعلیٰ سطحی شخصیات اور فوجی کمانڈرز ملوث پائے گئے ہیں۔
اقوام متحدہ کے تحقیقاتی ادارے IIMM کے مطابق قیدیوں کو بدترین جسمانی اذیتیں دی گئیں جن میں مارپیٹ، بجلی کے جھٹکے، گلا گھونٹنا، اور پلاس سے ناخن نکالنے جیسے اذیت ناک واقعات شامل ہیں۔ بعض واقعات میں قیدی تشدد کی شدت کے باعث اپنی جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ بچوں کو والدین کے بغیر اور قانونی جواز کے بغیر حراست میں رکھا گیا۔ اقوام متحدہ نے واضح کیا ہے کہ انہیں ملک میں معلومات حاصل کرنے اور رسائی کے لیے 24 سے زائد بار درخواستیں دی گئیں، مگر تمام مسترد کر دی گئیں۔
تحقیقات میں یہ بھی بتایا گیا کہ 2021 میں فوجی بغاوت کے بعد ہزاروں شہریوں کو حراست میں لیا گیا، جب کہ فوجی سربراہ من آنگ ہلائنگ نے ہنگامی حالت ختم کر کے خود کو ملک کا عبوری صدر مقرر کر لیا تھا۔
رپورٹ میں 2017 میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف ہونے والی فوجی کارروائیوں کو بھی شامل کیا گیا ہے، جنہیں عالمی سطح پر نسل کشی کے مترادف قرار دیا جاتا رہا ہے۔
اقوام متحدہ نے اس صورتحال پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے بین الاقوامی برادری سے مؤثر اقدامات کا مطالبہ کیا ہے تاکہ میانمار میں انسانی حقوق کی پامالی کو روکا جا سکے۔