ہم گذشتہ 5 ماہ سے غزہ میں کوئی امداد نہیں پہنچا سکے، انروا
اشاعت کی تاریخ: 15th, August 2025 GMT
فلسطینی پناہ گزینوں کیلئے اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی (UNRWA) نے اعلان کیا ہے کہ غزہ کی پٹی میں معذور افراد کو بڑے چیلنجز کا سامنا ہے اور وہ کسی بھی چیز تک رسائی سے محروم ہو چکے ہیں اسلام ٹائمز۔ فلسطینی پناہ گزینوں کے لئے اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی - انروا (UNRWA) نے غاصب صیہونی رژیم کے مجرمانہ محاصرے کی وجہ سے غزہ کی پٹی میں پیدا ہونے والے انسانی بحران پر ایک بار پھر خبردار کیا ہے۔ سوشل میڈیا پر جاری ہونے والے اپنے بیان میں انروا کا لکھنا ہے کہ غزہ میں معذور افراد کو اپنی روزمرہ زندگی اور ضروری خدمات تک رسائی میں بہت زیادہ چیلنجز کا سامنا ہے اور وہ ہر چیز سے محروم ہو چکے ہیں، حتی خوراک، امداد اور صحت کی دیکھ بھال کی سہولیات سے بھی! اقوام متحدہ کی ذیلی ایجنسی نے وضاحت کرتے ہوئے لکھا کہ دیگر غیر سرکاری امدادی تنظیموں کی طرح، انروا کو بھی گذشتہ 5 ماہ سے زائد کے عرصے سے غزہ کی پٹی میں داخلے سے روکا جا رہا ہے درحالیکہ مصر و اردن میں موجود ہمارے گودام خوراک، ادویات و حفظان صحت کے سامان سے بھرے پڑے ہیں جو 6 ہزار ٹرک پر مشتمل امدادی سامان کے حامل ہیں۔ انروا نے مزید لکھا کہ ہم غزہ میں جنگ بندی اور امداد کے داخلے کی اجازت کا مطالبہ کرنے والی اقوام متحدہ کے تحت موجود دیگر این جی اوز کے ساتھ کھڑے ہیں!
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: اقوام متحدہ
پڑھیں:
استثنیٰ کسی کے لیے نہیں
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251118-03-3
قانون سب کے لیے برابر ہے اسلام ایک ایسا کامل نظامِ حیات ہے جو عدل، انصاف اور مساوات کی بنیاد پر قائم ہے۔ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا: ’’تم سے پہلی امتیں اسی لیے ہلاک ہوئیں کہ جب ان میں کوئی شریف جرم کرتا تو اسے چھوڑ دیتے، اور جب کوئی کمزور کرتا تو اس پر حد قائم کرتے‘‘۔ (بخاری)
یہ فرمانِ نبویؐ اس حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ اسلامی معاشرہ تبھی سلامت رہ سکتا ہے جب احتساب سب کے لیے یکساں ہو، خواہ وہ حاکم ِ وقت ہو یا عام شہری۔سیدنا عمرؓ کا عدل اور قانون کی بالادستی اسلامی تاریخ کا روشن باب سیدنا عمر فاروقؓ کا دورِ خلافت ہے۔ وہ خلیفہ ہونے کے باوجود خود کو قانون سے بالا نہیں سمجھتے تھے۔ ایک موقع پر جب اْن سے بیت المال کے کپڑے کے اضافی حصے کے متعلق سوال ہوا تو انہوں نے اپنے بیٹے عبداللہ بن عمرؓ کو گواہ بنا کر وضاحت پیش کی۔ یہی وہ طرزِ حکمرانی تھا جس نے اسلامی نظام کو دنیا کے سامنے عدل و انصاف کی مثال بنا دیا۔ اہل ِ بیت اطہار بھی قانون کے تابع اسی اصول کی سب سے عظیم مثال سیدنا علیؓ کے دورِ خلافت میں اس وقت سامنے آئی جب ایک یہودی کے ساتھ مقدمہ پیش ہوا۔ خلیفہ ٔ وقت ہونے کے باوجود سیدنا علیؓ قاضی کے سامنے مدعی کے طور پر کھڑے ہوئے، اور جب قاضی نے گواہی ناکافی ہونے پر فیصلہ اْن کے خلاف دیا، تو انہوں نے اس فیصلے کو تسلیم کر لیا۔
اسی طرح نبیؐ کی چہیتی بیٹی سیدہ فاطمہؓ کے بارے میں بھی رسولِ اکرمؐ نے فرمایا تھا ’’اگر فاطمہ بنت ِ محمد بھی چوری کرے تو میں اس کا ہاتھ کاٹ دوں گا‘‘۔ (بخاری) یہ اس بات کا اعلان تھا کہ اسلام میں کوئی مقدس گائے (Sacred Cow) نہیں، شریعت کے دائرے میں سب برابر ہیں۔ آج ملک کی سلامتی کے اداروں، عدلیہ پارلیمنٹ اور قانون نافذ کرنے والے تمام کے لیے پیغام ہے کہ ہمارے معاشرے کی اصلاح اسی وقت ممکن ہے جب تمام ادارے، سیاسی، عدالتی، عسکری یا مذہبی قرآن و سنت کے پابند بنیں۔ خلافِ شریعت کوئی فیصلہ نہ کیا جائے، اور احتساب کا نظام بلا امتیاز نافذ کیا جائے۔ بدقسمتی سے آج قانون کمزور کے لیے تلوار اور طاقتور کے لیے ڈھال بن چکا ہے۔ یہ روش اسلامی اصولوں سے انحراف ہے اور قوموں کی بربادی کی علامت ہے قرآن کہتا ہے ’’اِنَّ اللَّہَ اَمْرْ بِالعَدلِ وَالاِحسَان‘‘ (النحل: 90) یعنی اللہ عدل اور احسان کا حکم دیتا ہے۔ امت ِ مسلمہ کے لیے یہی پیغامِ ہے کہ عدل قائم کیجیے، احتساب سب کا کیجیے، اور قانون کو ہر درجہ پر مقدم رکھیے۔ یہی اسلامی نظام کی روح اور حقیقی عدلِ عمرؓ کا تسلسل ہے۔