Express News:
2025-10-04@16:57:39 GMT

پروفی :(Profee) پاکستان رقم بھیجنے کا جدید اور تیز طریقہ

اشاعت کی تاریخ: 17th, May 2025 GMT

بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی بڑی تعداد کا ایک اہم مسئلہ ملک میں پیسوں کی منتقلی ہے۔ بے شمار آپشنز کی موجودگی کے سبب ان کے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ آسان، محفوظ اور فائدہ مند طریقہ کونسا ہے؟ اس مشکل کو دور کرنے کے لیے ہم آپ کو پروفی (Profee) کے بارے میں بتاتے ہیں جو اپنے سہل، تیز اور شفاف طریقے سے رقم کی منتقلی کو شاندار تجربے میں تبدیل کردیتی ہے۔

پروفی تیزی سے ترقی کرتی ہوئی ایک فن ٹیک کمپنی ہے جو دنیا کے 90 سے زائد ممالک میں محفوظ، قانونی اور ہموار بین الاقوامی ترسیلاتِ زر کی سہولت فراہم کرتی ہے۔ 2017 میں قائم کی گئی اس کمپنی کی آمدنی میں سالانہ 137 فیصد اضافہ ہورہا ہے۔ اس وقت پروفی کے صارفین کی تعداد 8 لاکھ تک پہنچ چکی ہے اور ہر ہفتے 10 ہزار نئے صارفین اس سے جُڑ رہے ہیں۔ کمپنی کو2024 میں Acquisition International's Global Excellence Awards  کی جانب سےBest International Money Transfer Solution کا اعزاز بھی حاصل ہوا ہے۔

روایتی طریقے اب مؤثر نہیں رہے

آپ اپنی رقم بینک یا کیش پک اپ کے ذریعے پاکستان بھیج سکتے ہیں، لیکن یہ عمل اکثر غیر ضروری حد تک پیچیدہ ہوجاتا ہے۔ بینک کے ذریعے رقم کی منتقلی مہنگی، وقت طلب اور غیر سہل ثابت ہوسکتی ہے۔ اکثر بینک زیادہ فیس اور غیر موافق ایکسچینج ریٹ فراہم کرتے ہیں، جو صارفین کے لیے پرکشش نہیں ہوتے۔ اس کے علاوہ، ان ٹرانزیکشنز میں کئی دن لگ سکتے ہیں، جس سے ان افراد کو پریشانی کا سامنا ہوسکتا ہے جنہیں فوری طور پر رقم درکار ہو۔ روایتی بینک منتقلی کے طریقۂ کار میں درکار دستاویزات بھی اکثر صارفین کے لیے الجھن کا باعث بنتی ہیں۔

نقد رقم وصول کرنے والی سروسز کی بھی ایک خاص حد ہوتی ہے۔ اکثر اوقات ان کے لیے کسی دفتر میں خود حاضر ہونا ضروری ہوتا ہے، جو ایک اضافی زحمت کا باعث بنتا ہے۔ اس کے علاوہ، بڑی رقم لے کر چلنا غیر محفوظ بھی ہوسکتا ہے اور اس سے ممکنہ خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔

اسمارٹ انتخاب، محفوظ ترسیل: پروفی کے ساتھ پاکستان رقم بھیجیں، آسانی اور اعتماد کے ساتھ۔

پروفی، پاکستان پیسے بھیجنے کے لیے ایک بہترین ایپ

پاکستان میں رقم بھیجنے کے میدان میں پروفی انقلاب لارہا ہے۔ پروفی نے ترسیلات کے روایتی تصور کو بدل کر صارفین کو ایک تیز، محفوظ اور فائدہ مند آپشن فراہم کیا ہے:

پہلی ٹرانزیکشن پر خصوصی فوائد

جب آپ پروفی کے ذریعے پہلی مرتبہ پاکستان میں رقم بھیجیں گے تو آپ کو نا صرف 0 فیصد فیس بلکہ ناقابل یقین ایکسچینج پرومو ریٹ بھی ملے گا۔

کم فیس اور بہترین ریٹس

صارفین کے لیے سہولت صرف پہلی ٹرانزیکشن پر نہیں ہے بلکہ بعد میں ہونے والی ٹرانزیکشنز پر بھی فیس انتہائی کم رہتی ہے اور خودکار مانیٹرنگ نظام کے ذریعے ہمیشہ بہترین ٹرانسفر ریٹ فراہم کیے جاتے ہیں۔

شفافیت

یہ سروس مکمل شفافیت کی ضمانت دیتی ہے جس میں کوئی پوشیدہ فیس نہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ اوورسیز پاکستانی اکثر ایسی صورتحال کا سامنا کرتے ہیں جہاں انہیں توقع سے کم رقم موصول ہوتی ہے۔ پروفی استعمال کرنے کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ جو رقم منتقلی کے وقت دکھائی جائے گی وہی وصول کنندہ کو موصول ہوگی۔

ٹرانزیکشنز کے مختلف طریقے

پیسوں کی فوری منتقلی کے لیے، آپ جیز کیش، ایزی پیسہ اور بینک کارڈز کے ذریعے پاکستان رقم بھیج سکتے ہیں اور یہ کام چند ہی منٹوں میں مکمل ہوجاتا ہے۔ اس کے علاوہ بینک اکاؤنٹس میں منتقلی کی سہولت بھی دستیاب ہے۔

آسان طریقہ کار

پروفی پاکستان میں آن لائن رقم بھیجنے کے آسان ترین ذرائع میں سے ایک ہے۔ اس کا موبائل-فرینڈلی پلیٹ فارم آپ کو کہیں سے بھی، کسی بھی وقت رقم بھیجنے کی سہولت فراہم کرتا ہے۔ بھیجنے والے آسان طریقہ کار کے ذریعے باآسانی رقم بھیج سکتے ہیں جبکہ رقم کو حاصل کرنے والے فرد کو کوئی ایپ ڈاؤن لوڈ کرنے، رجسٹریشن کرنے یا قطار میں لگنے کی ضرورت نہیں ہوتی، یعنی رقم بھیجنے والے اور وصول کرنے والے دونوں کے لیے آسانی ہے۔

پروفی، جو محفوظ ٹرانزیکشنز یقینی بنائے

پروفی کے لیے پیسوں کی محفوظ ٹرانزیکشز اہم ترین معاملہ ہے۔ پروفی ایک لائسنس یافتہ مالیاتی ادارہ ہے جو سخت حفاظتی اصولوں کی پیروی کرتا ہے، اس لیے آپ کی رقم ہر وقت محفوظ رہتی ہے۔

اگر آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ پاکستان میں آن لائن رقم کیسے بھیجی جائے، تو آئیے ہم آپ کو مختصراً طریقہ کار بتاتے ہیں۔ یہ اقدامات نہایت آسان ہیں اور آپ انہیں گھر بیٹھے یا دفتر میں ملنے والے وقفے کے دوران بھی سرانجام دے سکتے ہیں

پاکستان میں آن لائن رقم بھیجنے کے لیے پروفی پر رجسٹریشن کریں؛ اپنے موجودہ رہائشی ملک اور منزل کے طور پر پاکستان کا انتخاب کریں؛ جو رقم بھیجنا چاہتے ہیں اس کا تعین کریں؛ ادائیگی کا طریقہ منتخب کریں؛ اپنے وصول کنندہ کی تفصیلات درج کریں؛ اور آخر میں، ٹرانسفر کی تصدیق کریں۔

یہ واقعی اتنا ہی آسان ہے۔

پروفی کے ذریعے یورپی یونین سے کس طرح پاکستان رقم بھیجی جائے

پروفی ریفرل پروگرام کے ذریعے رقم بھیجیں اور انعام جیتیں

جب آپ پاکستان میں رقم بھیجنے کے لیے بہترین ایپس میں سے ایک پروفی پر رجسٹریشن کرتے ہیں تو آپ کو ایک ذاتی ریفرل لنک فراہم کیا جائے گا۔

اس کے بعد آپ اپنے دوستوں کو مدعو کرسکتے ہیں اور ہر کامیاب ریفرل پر درج ذیل انعام حاصل کرسکتے ہیں۔

آپ کے دوست کو پاکستان، ازبکستان، کرغزستان، بھارت، تاجکستان، کینیا، نائجیریا، فلپائن یا برازیل میں کم از کم 200 یورو کی پہلی رقم بھیجنی ہوگی.

اس کے بعد، آپ کو 25 یورو اور آپ کے دوست کو 10 یورو ملیں گے۔

آپ جتنے چاہیں دوستوں کو مدعو کرسکتے ہیں اس کی کوئی حد نہیں ہے۔

اپنے دوستوں کو پاکستان میں رقم بھیجنے کا آسان طریقہ بتائیں اور انعام حاصل کرنے کے موقع سے فائدہ اٹھائیں۔

پروفی پر ہی بھروسہ کیوں کریں؟

پروفی کو دنیا بھر میں قابلِ اعتماد سمجھا جاتا ہے اور اس کی پاکستان میں توسیع بیرونِ ملک مقیم ہر پاکستانی کے لیے ایک خوش آئند خبر ہے۔ ہزاروں پاکستانی تارکینِ وطن روزانہ پروفی پر بھروسہ کرتے ہیں تاکہ وہ اپنے اہلِ خانہ کو مالی معاونت فراہم کرسکیں، کاروبار کا آغاز کرسکیں یا تحفے کے طور پر رقم بھیج سکیں۔ پروفی کو Trustpilot پر 5/  4.4کی ریٹنگ حاصل ہے، جو اسے انڈسٹری کی اعلیٰ ترین خدمات میں شامل کرتی ہے۔

پروفی، پاکستان میں رقم بھیجنے کا ایک محفوظ اور آسان طریقہ فراہم کرکے ہزاروں پاکستانیوں کی زندگی کو پرسکون اور خوشگوار بنا رہا ہے۔

 

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پاکستان میں رقم بھیجنے رقم بھیجنے کے پاکستان رقم کرتے ہیں پروفی کے کے ذریعے سکتے ہیں کے لیے ہے اور

پڑھیں:

ٹرمپ مودی کشیدگی کی وجہ پاکستان سے ٹرمپ کی قربت

پروفیسر شاداب احمد صدیقی

مودی کی ہٹ دھرمی اور انا نے خطہ میں عدم استحکام پیدا کر دیا ہے ۔جنگ میں شکست فاش ہوئی جو کہ مودی نے مسلط کی تھی۔اگر جنگ زیادہ طویل ہوتی تو بہت زیادہ تباہی اور انسانی ہلاکتوں کا خدشہ تھا۔اس وقت جنگ بندی میں ٹرمپ نے اہم کردار ادا کیا۔بھارت نے خود جنگ بندی پر سکون کا سانس لیا کیونکہ بہت بری طرح بھارت کی فضائیہ رافیل طیارے پاکستان ائیر فورس نے تباہ کر دیے ۔پاکستانی افواج مسلسل بھارت کی حدود میں پیشرفت کر رہی تھی۔مودی کے ہتھیار ڈالنے پر بھارت کی اپوزیشن اور عوام نے اظہار برہمی اور ناراضی کا اظہار کیا۔
ٹرمپ اور مودی کے درمیان تعلقات کی خرابی کی اصل وجہ بظاہر پاک بھارت جنگ اور اس کے بعد پیدا ہونے والا بحران بنا۔ مئی میں کشمیر میں ہونے والے حملوں اور جھڑپوں نے خطے کو ایک بار پھر خطرناک موڑ پر لا کھڑا کیا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس موقع پر خود کو ثالث ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کی اور اعلان کیا کہ جنگ بندی کا کریڈٹ انہیں جاتا ہے ۔ یہ وہ اعلان تھا جسے پاکستان نے خوش آمدید کہا اور کئی حلقوں نے ٹرمپ کو نوبیل امن انعام کا مستحق قرار دیا۔ مگر یہی معاملہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے لیے ناقابل برداشت تھا۔ مودی حکومت نے اس پر سخت ردعمل دیا اور دونوں رہنماؤں کے تعلقات میں تناؤ کی پہلی بڑی دراڑ یہیں سے پیدا ہوئی۔پاکستان کی جانب سے ٹرمپ کو امن کا سفیر قرار دینے اور نوبیل امن انعام کے لیے نامزد کرنے کی مہم نے مودی کو مزید مشتعل کر دیا۔ بھارت کے لیے یہ صورت حال اس وجہ سے زیادہ پریشان کن تھی کہ عالمی سطح پر پاکستان کی سفارتی پوزیشن بہتر دکھائی دینے لگی تھی، جبکہ بھارت یہ تاثر دینے میں ناکام رہا کہ وہ ہی خطے کا بڑا اور فیصلہ کن کردار ہے ۔ ٹرمپ نے اس دوران پاکستان کے ساتھ توانائی، کرپٹو کرنسی اور معدنیات کے شعبوں میں بڑے معاہدے کیے ۔ یہ معاہدے نہ صرف پاکستان کے لیے معاشی لحاظ سے اہم تھے بلکہ بھارت کے لیے یہ ایک واضح پیغام بھی تھے کہ امریکا اب خطے میں توازن قائم کرنے کے لیے اسلام آباد کے ساتھ نئے باب کا آغاز کر رہا ہے ۔
اسی پس منظر میں ٹرمپ نے مودی سے اپنی نوبیل امن انعام کی مہم میں حمایت طلب کی۔ مگر مودی نے یہ مطالبہ ماننے سے انکار کر دیا۔ یہ انکار صرف انکار نہیں تھا بلکہ ٹرمپ کی انا کو چیلنج کرنے کے مترادف تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ دونوں رہنماؤں کے درمیان تعلقات مزید کشیدہ ہو گئے۔ ٹرمپ نے اس کا بدلہ لینے کے لیے بھارت پر بھاری ٹیرف عائد کر دیے ۔ اگست میں امریکی صدر نے بھارت پر 50 فیصد ٹیرف لگا دیا، جس نے بھارتی معیشت کو ہلا کر رکھ دیا۔ یہ اقدام واضح کرتا تھا کہ ٹرمپ اپنے ذاتی سیاسی مقاصد کے لیے عالمی تجارتی نظام کو بھی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے ۔
مودی نے اس صورتحال کا جواب عالمی سطح پر اپنی خارجہ پالیسی کے ذریعے دیا۔ انہوں نے چین کے صدر شی جن پنگ کی دعوت پر سات سال بعد بیجنگ کا دورہ کیا۔ اس دورے کے دوران انہوں نے روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے ساتھ قریبی رابطہ کیا۔ یہ سفارتی سرگرمیاں دراصل امریکا کو یہ پیغام دینے کے لیے تھیں کہ بھارت کسی ایک ملک پر انحصار نہیں کرے گا اور اپنی خارجہ پالیسی کو کثیر جہتی رکھے گا۔ تاہم اس سب کے باوجود مودی نے چین کے فوجی پریڈ میں شریک نہ ہو کر یہ باور کرا دیا کہ بھارت اور چین کے تعلقات میں بنیادی بداعتمادی بدستور موجود ہے اور یہ قریبی تعلقات کسی بھی وقت محدود ہو سکتے ہیں۔ٹائم میگزین کے کالم نگار کے مطابق ٹرمپ اور مودی کے درمیان اصل تنازع روس نہیں بلکہ کشمیر میں ہونے والی جھڑپیں تھیں۔ ٹرمپ کی ثالثی کی کوشش اور اعلان کہ جنگ بندی کا کریڈٹ انہیں جاتا ہے ، بھارت کے لیے ناقابل قبول تھا۔ پاکستان نے ٹرمپ کے اس کردار کو نہ صرف تسلیم کیا بلکہ انہیں نوبیل امن انعام کے لیے مستحق قرار دینے کی فضا بھی بنائی۔ یہ وہ نکتہ تھا جس نے مودی کو سب سے زیادہ ناراض کیا۔ اس کے بعد ٹرمپ کے پاکستان کے ساتھ معاہدے اور مودی سے نوبیل مہم کی حمایت کی فرمائش نے تعلقات کو مزید خراب کر دیا۔
امریکا کے 50فیصد ٹیرف کے اعلان کے بعد بھارتی حکومت پر اندرونی دباؤ بھی بڑھ گیا۔ ایک طرف مقامی صنعت کار اور تاجر برادری پریشان تھی، تو دوسری طرف بھارت کی عالمی سطح پر کمزور ہوتی پوزیشن نے مودی کو مجبور کیا کہ وہ نئی راہیں تلاش کریں۔ چین اور روس کے ساتھ تعلقات مضبوط کرنے کی کوشش اسی دباؤ کا نتیجہ تھی۔ لیکن بھارت کے لیے یہ بھی ممکن نہ تھا کہ وہ مکمل طور پر امریکا سے تعلقات توڑ لے ، کیونکہ دفاعی، ٹیکنالوجی اور سرمایہ کاری کے میدان میں امریکا اب بھی ایک بڑی طاقت ہے ۔یہ ساری صورت حال ظاہر کرتی ہے کہ ٹرمپ اور مودی کی لڑائی ذاتی انا اور عالمی سیاست کے امتزاج سے پیدا ہوئی۔ ٹرمپ نے ثالثی کا کریڈٹ لے کر خود کو امن کا سفیر ثابت کرنے کی کوشش کی، پاکستان نے اس کردار کو تسلیم کر کے ان کے نوبیل انعام کے امکانات کو بڑھایا، لیکن بھارت نے اسے اپنی توہین سمجھا۔ پھر معاہدے ، نوبیل مہم کی حمایت کا انکار، بھاری ٹیرف اور چین و روس کی طرف مودی کا جھکاؤ، یہ سب عوامل ایک دوسرے سے جڑ کر امریکا اور بھارت کے تعلقات میں ایسی دراڑ لے آئے جس نے عالمی سیاست کو متاثر کیا۔
اب جبکہ کچھ اشارے مل رہے ہیں کہ امریکا اور بھارت تعلقات میں دراڑ کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، سوال یہ ہے کہ کیا یہ تعلقات دوبارہ اعتماد کی سطح پر بحال ہو سکیں گے ؟ خطے کے امن کے لیے اصل سوال یہ ہے کہ کیا پاک بھارت تعلقات میں کوئی بہتری آ سکتی ہے ؟ کیونکہ جب تک کشمیر کا تنازع حل نہیں ہوتا، ٹرمپ یا کوئی اور رہنما ثالثی کے دعوے کرتے رہیں، امن محض ایک خواب رہے گا۔ امریکا، چین اور روس اپنی اپنی بساط پر کھیلتے رہیں گے ، مگر اصل بوجھ پاکستان اور بھارت پر ہے کہ وہ اپنے عوام کے مستقبل کو جنگ کی نذر کرتے ہیں یا امن کی طرف قدم بڑھاتے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمی برادری خصوصاً اقوام متحدہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کرے ۔ پاکستان اور بھارت دونوں کو چاہیے کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ مذاکرات کی راہ اپنائیں اور اپنی توانائیاں جنگ کی تیاری کے بجائے عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کریں۔ امریکا جیسے طاقتور ملک کو بھی چاہیے کہ وہ ثالثی کو ذاتی مفاد کے بجائے حقیقی امن کے لیے استعمال کرے ۔ اگر یہ اقدامات کیے جائیں تو نہ صرف ٹرمپ اور مودی جیسے رہنماؤں کی سیاست خطے پر منفی اثر ڈالنے سے رُک سکتی ہے بلکہ جنوبی ایشیا میں ایک پائیدار امن کی بنیاد بھی رکھی جا سکتی ہے۔
٭٭٭

متعلقہ مضامین

  • اگر بھارت نے نئی جارحیت کی کوشش کی تو پاکستان کا جواب سخت ہوگا، آئی ایس پی آر
  • پاکستان خطے میں ایک عظیم ملک کے طور پر ابھر رہا ہے، گورنر سندھ
  • پاکستان خطے میں ایک عظیم ملک کے طور پر ابھر رہا ہے۔ گورنر سندھ
  • پاکستان میں نیا پنشن سسٹم نافذ کردیا گیا
  • ٹرمپ مودی کشیدگی کی وجہ پاکستان سے ٹرمپ کی قربت
  • سائنس دانوں نے بیٹری کو تیزی سے چارج کرنیکا طریقہ ڈھونڈ نکالا
  • پی آئی اے اس ماہ برطانیہ کے لیے اپنی پروازوں کا دوبارہ آغاز کرے گی
  • ا مریکا اور پاکستان میں مثبت پیش رفت
  • کامیڈی کنگ عمر شریف کو مداحوں سے بچھڑے 4 برس بیت گئے
  • ایس 400