خادم حرمین شریفین شاہ سلمان کا ذاتی خرچ پر ایک ہزار فلسطینیوں کو حج کرانے کا اعلان
اشاعت کی تاریخ: 20th, May 2025 GMT
سعودی عرب(نیوز ڈیسک)خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے اپنے ذاتی خرچ پر ایک ہزار فلسطینی شہدا، قیدیوں اور زخمیوں کے اہل خانہ کو حج کرانے کی ہدایت کی ہے۔
سعودی گزٹ کی رپورٹ کے مطابق یہ اقدام ’خادم حرمین شریفین کے مہمانانِ حج، عمرہ اور زیارت پروگرام‘ کے تحت کیا جا رہا ہے، جسے وزارتِ اسلامی امور، دعوت و ارشاد نافذ کر رہی ہے۔
وزیر اسلامی امور، دعوت و ارشاد اور پروگرام کے عمومی نگران شیخ عبداللطیف آل الشیخ نے شاہ سلمان اور ولی عہد و وزیراعظم شہزادہ محمد بن سلمان کا اس فیاضانہ اقدام پر شکریہ ادا کیا، انہوں نے کہا کہ یہ اقدام مملکت کی مسلسل حمایت، فلسطینی عوام کے ساتھ یکجہتی، اور اسلامی اخوت کو مضبوط بنانے کے عزم کی عکاسی کرتا ہے۔
شیخ عبداللطیف آل الشیخ نے زور دیا کہ یہ اقدام قیادت کی جانب سے فلسطینیوں کے لیے مناسکِ حج کی ادائیگی میں آسانی پیدا کرنے کی کوششوں کا تسلسل ہے۔
انہوں نے بتایا کہ وزارت نے فوری طور پر ایک جامع منصوبے پر عمل درآمد شروع کر دیا ہے، جس کے تحت فلسطینی عازمین حج کو اپنے وطن سے روانگی سے لے کر ان کی واپسی تک مکمل سہولتیں اور خدمات مہیا کی جائیں گی، تاکہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں ان کا قیام آرام دہ ہو۔
انہوں نے کہا کہ اس پروگرام کا آغاز (1417ھ) سے اب تک دنیا بھر کے مختلف ممالک سے 64 ہزار سے زائد عازمین حج کی میزبانی کی جا چکی ہے، جو اسلام اور مسلمانوں کی خدمت میں مملکت کی مسلسل کوششوں اور عالم اسلام کے مرکز و قبلہ کی حیثیت سے اس کے کردار کی گواہی ہے۔
پاک بھارت جنگ بندی دوطرفہ تھی، اس میں ٹرمپ کا کوئی کردار نہیں، بھارتی سیکرٹری خارجہ
.ذریعہ: Daily Ausaf
پڑھیں:
پاکستانی وزرا کے بیانات صورتحال بگاڑ رہے ہیں، پروفیسر ابراہیم
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
پشاور(اے اے سید) جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر پروفیسر محمد ابراہیم نے جسارت کے اجتماع عام کے موقع پر شائع ہونے والے مجلے کے لیے اے اے سید کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام سے جماعت اسلامی کو خودبخود تقویت نہیں ملے گی، تاہم اگر ہم اپنے بیانیے کو ان کے ساتھ ہم آہنگ کریں تو اس سے ضرور فائدہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ طالبان کا پہلا دور 1996ء سے 2001ء تک اور دوسرا دور 2021ء سے جاری ہے۔ پہلے دور میں طالبان کی جماعت اسلامی کی سخت مخالفت تھی، مگر اب ان کے رویّے میں واضح تبدیلی آئی ہے اور ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ ‘‘پہلے وہ بہت تنگ نظر تھے، لیکن اب وہ افغانستان کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔پروفیسر ابراہیم کے مطابق امیرالمؤمنین ملا ہبۃ اللہ اور ان کے قریب ترین حلقے میں اب بھی ماضی کی کچھ سختیاں باقی ہیں، جس کی ایک مثال انہوں نے انٹرنیٹ کی 2 روزہ بندش کو قرار دیا۔ انہوں نے بتایا کہ ستمبر کے آخر میں پورے افغانستان میں انٹرنیٹ اس بنیاد پر بند کیا گیا کہ اس سے بے حیائی پھیل رہی ہے، لیکن دو دن بعد طالبان حکومت نے خود اس فیصلے کو واپس لے لیا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اب اصلاح کی سمت بڑھ رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ موجودہ طالبان حکومت بہرحال ایک بڑی تبدیلی ہے اور جماعت اسلامی کو اس سے فکری و نظریاتی سطح پر فائدہ پہنچ سکتا ہے۔افغانستان اور پاکستان کے تعلقات پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ گزشتہ دہائی میں دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کے گہرے منفی اثرات ہوئے ہیں۔ ‘‘آج بھی دونوں طرف سے ایک دوسرے کے خلاف شدید پروپیگنڈا جاری ہے، اور ہمارے کچھ وفاقی وزراء اپنے بیانات سے حالات مزید خراب کر رہے ہیں۔پروفیسر ابراہیم نے وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف اور وزیر اطلاعات عطا تارڑ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ‘‘ان کی زبان کسی باشعور انسان کی نہیں لگتی۔ وزیرِ دفاع کا یہ کہنا کہ ‘اگر مذاکرات ناکام ہوئے تو جنگ ہوگی’ بے وقوفی کی انتہا ہے۔انہوں نے کہا کہ خواجہ آصف پہلے یہ بیان بھی دے چکے ہیں کہ افغانستان ہمارا دشمن ہے، اور ماضی میں انہوں نے محمود غزنوی کو لٹیرا قرار دے کر تاریخ اور دین دونوں سے ناواقفیت ظاہر کی۔انہوں نے وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ کے اس بیان پر بھی سخت ردعمل دیا کہ ‘‘ہم ان پر تورا بورا قائم کر دیں گے۔پروفیسر ابراہیم نے کہا یہ ناسمجھ نہیں جانتا کہ تورا بورا امریکی ظلم کی علامت تھا جس نے خود امریکا کو شکست دی۔ طالبان آج اسی کے بعد دوبارہ حکومت میں ہیں۔ ایسی باتیں بہادری نہیں، نادانی ہیں۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کو جنگ نہیں بلکہ بات چیت، احترام اور باہمی اعتماد کے ذریعے تعلقات کو بہتر بنانا ہوگا، کیونکہ یہی خطے کے امن اور استحکام کی واحد ضمانت ہے۔