کورونا کی دستک: ذہن میں خوف ،خدشات اورسوالوں کابسیرا، کیا پھرہوگا لاک ڈاؤن؟
اشاعت کی تاریخ: 21st, May 2025 GMT
نئی دہلی (نیوز ڈیسک)کورونا کی دستک کے ساتھ لوگوں کے ذہن میں خوف وخدشات کے ساتھ ساتھ سوال بھی گھرکررہے ہیں۔ کیا پھر سے لاک ڈاؤن لگ سکتا ہے؟۔ نیا ویرینٹ کتنا خطرناک ہے؟اس کی علامات کیا ہیں؟کیا ماسک لگانا ہوگا؟کیا لاک ڈاؤن لگ سکتا ہے؟ وغیرہ وغیرہ کیونکہ لوگوں کے ذہنوں میں کورونا کی دوسری لہر کی یاد اب بھی تازہ ہیں۔
2021میں اپریل مئی کے مہینے میں کورونا کی دوسری لہرتباہ کن ثابت کوئی تھی۔ایسے میں لوگوں کے سوال اورخدشات فطری ہیں۔لہذا پہلے کورونا کی موجودہ صورتحال سے واقفیت ضروری ہے۔ ملک میں کورونا کے 257 معاملے سامنے آئے ہیں۔اس لیے گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے۔کورونا کے نئے معاملوں کے متعلق اندرپرستھ اپولو کے ڈاکٹر جتن آہوجا کا کہنا ہے کہ یہ اومیکرون کا ویرئنٹ ہے۔جسے اومیکرون سب ویرئنٹLF.
ڈاکٹرجتن آہوجا نے بتایا کہ ان کی اوپی ڈی میں گلا خراب ہونے ،سردی،زکام اورکھانسی کی شکایت لے کرمریض آرہے ہیں۔جانچ رپورٹوں میں مریضوں میں کورونا پازیٹو نہیں پایا جارہا ہے جبکہ انفلوئنزا۔ بی کے معاملے جانچ کے بعدسامنے آرہے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ مکمل علاج کرائیں ۔
نئے معاملوں کے سامنے آنے کے بعد کیا ماسک کی واپسی بھی ہوگی ؟اس سوال پر ڈاکٹرجتن آہوجا نے کہا کہ پہلی بار جب 2020 میں کورونا آیا تھا تب اس کے بارے میں لوگ لاعلم تھے اورنہ ہی اس سے بچنے کے لیے ٹیکہ کاری ہوئی تھی۔اب پورے ملک میں ٹیکہ کاری ہوچکی ہے اورہمارا جسم اس وائرس سے مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہے۔ڈاکٹر جتن آہوجا کا کہنا ہے کہ، اب ہر سال انفلوئنزا کی طرح یہ آتا ہے اورایک مدت کے بعدچلا جاتا ہے۔
کورونا کے نئے معاملوں سے دنیا بھرمیں تشویش
لہذا ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ کورونا پروٹوکول اختیار کریں۔ بھیڑ بھاڑ والے علاقوں میں جانے سے پرہیز کریں۔ماسک لگائیں اورسماجی فاصلہ رکھیں۔
مزیدپڑھیں:فیلڈ مارشل کے رینک کے ساتھ آرمی چیف کی تصویر سامنے آگئی
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: کا کہنا ہے کہ میں کورونا کورونا کی ا ہوجا
پڑھیں:
ہمارے احتجاج کے باعث قاضی فائز کو ایکسٹینشن نہ ملی، علی امین
راولپنڈی میں میڈیا سے گفتگو میں علی امین گنڈاپور کا کہنا تھا کہ کابینہ کا اجلاس یہاں نہیں کریں گے اس طرح اجلاس نہیں ہوتے، پنجاب حکومت کے بس میں کچھ نہیں وہ صرف راستہ روک سکتے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے دعویٰ کیا ہے کہ ہمارے احتجاج کے باعث قاضی فائز عیسیٰ کو ایکسٹینشن نہ ملی، 4 اکتوبر کے احتجاج کے نتیجے یہ ٹارگٹ حاصل کیا اور عمران خان نے یہ ٹارگٹ دیا تھا۔ راولپنڈی میں میڈیا سے گفتگو میں علی امین گنڈاپور کا کہنا تھا کہ کابینہ کا اجلاس یہاں نہیں کریں گے اس طرح اجلاس نہیں ہوتے، پنجاب حکومت کے بس میں کچھ نہیں وہ صرف راستہ روک سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملاقات کی اجازت نہیں دیتے، 4، 5 گھنٹے بٹھا دیتے ہیں، یہاں بیٹھنے کے بجائے سیلاب زدہ علاقوں میں کام کر رہا تھا، سوشل میڈیا کو چھوڑیں، ہر بندے کو مطمئن نہیں کیا جاسکتا، مائننگ بل اور بجٹ بل پاس کرانے پر بھی ملاقات نہیں دی گئی۔ علی امین گنڈاپور کا کہنا تھا کہ ملاقات ہونے سے کلیئرٹی ہوتی ہے، یہ لوگ کلیئرٹی نہیں چاہتے، سینیٹ الیکشن پر بھی ملاقاتیں روکی گئیں، یہ چاہتے ہیں ملاقاتیں نہ ہو اور کنفیوژن بڑھتی رہے، ملاقات نہیں دیے جانے پر کیا میں جیل توڑ دوں؟ یہ ہر ملاقات پر یہاں بندے کھڑے کردیتے ہیں، میں چاہوں تو جیل جاسکتا ہوں لیکن جیل توڑنے سے کیا ہوگا۔
وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ ہمارے علاقوں میں سیلاب کی نوعیت مختلف تھی، پورے پہاڑی تودے اور مٹی آئی تھی، بستیوں کی بستیاں اور درخت بہہ گئے، سیلاب بڑا چیلنج تھا، ہم نے کسی حد تک مینیج کرلیا ہے، متاثرہ علاقوں میں ابھی امدادی کام جاری ہے، ہمارے صوبے میں 400 اموات ہوچکی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت نے ہمارے ساتھ کوئی وعدہ پورا نہیں کیا، صوبے میں فارم 47 کے ایم این ایز گھوم رہے ہیں لیکن کوئی خاطرخواہ امداد نہیں کی گئی، وفاقی حکومت کو جو ذمہ داری نبھانا چاہیے تھی ،نہیں نبھائی، میں اس پر سیاست نہیں کرتا، ہمیں ان کی امداد کی ضرورت بھی نہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ مجھےاس لیے ملنے نہیں دے رہے ان کا مقصد ہے پارٹی تقسیم ہو اور اختلافات بڑھتے رہیں، حکومت کی میں بات ہی نہیں کرتا، کیا آپ کو لگتا ہے یہ شہباز شریف کی یا مریم کی حکومت ہے، حکومت تو ان کی ہے نہیں۔
وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور نے دعویٰ کیا کہ ہمارے احتجاج کے باعث قاضی فائز عیسیٰ کو ایکسٹینشن نہ ملی، 4 اکتوبر کے احتجاج کے نتیجے یہ ٹارگٹ حاصل کیا اور عمران خان نے یہ ٹارگٹ دیا تھا۔ ان کا کہنا تھاکہ 4 اکتوبر کو بانی پی ٹی آئی نے کہا تھا سب نے آنا ہے، 4 اکتوبر کو پشاور سے نکلا اور 5 اکتوبر کو ٹارگٹ حاصل کرکے واپس لوٹا تھا، 24 سے 26 نومبر تک لڑائی لڑنا آسان نہیں تھا، 26 نومبر کو ہمارے لوگ گولیاں کھانے نہیں آئے تھے، حکومت نے شکست تسلیم کرکے گولیاں چلائیں۔