میزائل ڈیفنس شیلڈگولڈن ڈومکے منصوبے کی نئی تفصیلات کا اعلان
اشاعت کی تاریخ: 22nd, May 2025 GMT
واشنگٹن (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 22 مئی2025ء)امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 175 ارب ڈالر کی میزائل ڈیفنس شیلڈگولڈن ڈومکے اپنے منصوبے کی نئی تفصیلات کا اعلان کیا ہے۔ عرب ٹی وی کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ نے سپیس فورس کے جنرل مائیکل گیوٹلین کو اس منصوبے کی سربراہی سونپنے کا اعلان بھی کیا ہے۔امریکا اس میزائل ڈیفنس شیلڈ کے ذریعے چین اور روس کی جانب سے ممکنہ حملوں کے خطرات کا سدباب کرے گا۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے رواں برس جنوری میں اس پروگرام سے متعلق ایک حکم نامہ جاری کیا تھا جس کے تحت ایسے سینکڑوں سیٹلائٹس کا نیٹ ورک قائم کرنا تھا جو آنے والے میزائل کا پتا لگانے، ان کا تعاقب کرنے اور انہیں تباہ کرنے کی صلاحیت کا حامل ہو گا۔انہوں نے وائٹ ہاوس میں ایک پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ امریکا کی سپیس فورس کے جنرل مائیکل گیوٹلین اس منصوبے کے منتظم ہوں گے۔(جاری ہے)
ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ گولڈن ڈوم ہمارے وطن کی حفاظت کرے گا۔انہوں نے یہ بھی بتایا کہ کینیڈا نے بھی اس پروگرام کا حصہ بننے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ 175 ارب ڈالر کا یہ پروگرام ان کی مدتِ صدارت کے آخر یعنی جنوری 2029 تک فعال ہو جائے گا تاہم انڈسٹری کے ماہرین اس منصوبے کی تکمیل کے دورانیے اور لاگت سے متعلق زیادہ پریقین نہیں ہیں۔انہوں نے امریکا کے سابق صدر رونالڈ ریگن کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کئی برس قبل رونالڈ ریگن یہ سسٹم قائم کرنا چاہا تھا لیکن اس وقت ان کے پاس ٹیکنالوجی نہیں تھی۔ڈونلڈ ٹرمپ کا اشارہ اس خلائی ڈیفنس سسٹم کی جانب تھا جسے عام طور پر سٹار وارز کہا جاتا ہے اور اسے صدر رونالڈ ریگن نے تجویز کیا تھا۔ڈونلڈ ٹرمپ کے گولڈن ڈوم کو بھی سیاسی مخالفت اور فنڈز سے متعلق غیریقینی کا سامنا ہے۔امریکاکے سینٹر آف سٹریٹیجک اینڈ انٹرنیشنل سٹڈیز سے وابستہ ٹام کراکو نے کہا کہ اس کا ڈیٹا پوائنٹ 175 ارب بتایا گیا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اس کے لیے کتنی مدت درکار ہو گی۔ یہ غالبا 10 برس ہوں گے۔دوسری جانب رواں ماہ کانگریس کے بجٹ آفس نے تخمینہ لگایا ہے کہ گولڈن ڈوم پر دو دہائیوں میں 831 ارب ڈالر لاگت آئے گی۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ڈونلڈ ٹرمپ منصوبے کی
پڑھیں:
ایرانی میزائلوں سے تل ابیب اور دیگر شہروں میں تباہی کی مزید تفصیلات سامنے آ گئیں
تل ابیب میں 5 مختلف مقامات پر 480 عمارتوں کو نقصان پہنچا۔ رامات گان میں 3 علاقوں میں 237 عمارتیں متاثر ہوئیں، جن میں سے 10 کو شدید نقصان پہنچا۔ بات یام میں سپاہ پاسداران انقلاب کے صرف ایک میزائل سے 78 عمارتیں متاثر ہوئیں، جن میں سے 22 مکمل طور پر گرانے کے لیے نشان زد ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ 12 روزہ جنگ کے دوران اسرائیل میں ایرانی میزائل حملوں سے ہونے تباہی کی مزید تفصیلات سامنے آ گئی۔ تسنیم نیوز کے عبرانی ڈیسک کے مطابق تل ابیب میں 5 مختلف مقامات پر 480 عمارتوں کو نقصان پہنچا۔ رامات گان میں 3 علاقوں میں 237 عمارتیں متاثر ہوئیں، جن میں سے 10 کو شدید نقصان پہنچا۔ بات یام میں سپاہ پاسداران انقلاب کے صرف ایک میزائل سے 78 عمارتیں متاثر ہوئیں، جن میں سے 22 مکمل طور پر گرانے کے لیے نشان زد ہیں۔ ایران اور اسرائیل کے درمیان 12 روزہ تصادم کے خاتمے کے تقریباً ایک ہفتے بعد، بہت سے شہری اپنے گھروں کو واپس لوٹے تو ایرانی میزائلوں کے زیریں ڈھانچوں اور گھروں کو پہنچنے والے تباہی کے مناظر دیکھ کر حیران رہ گئے یہاں تک کہ شہری علاقوں میں بھی۔ اگرچہ حملوں کے زیادہ تر ہدف فوجی اور انٹیلی جنس کے اہداف تھے، لیکن آباد علاقوں کے قریب ہونے کی وجہ سے شہری املاک، گاڑیوں اور گھروں کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچا۔
اخبار ہآرٹز کے نامہ نگار نے متاثرہ علاقوں کی کیفیت کو یوں بیان کیا: "12 دنوں کی لڑائی کے دوران، ایک مستقل معمول بن گیا تھا کہ حملوں کے بعد ہر جگہ افراتفری، سڑکوں پر پانی، بکھرے ہوئے فائر ہوز، الارم، ہوا میں گرد اور ہر طرف بھاگتے ہوئے لوگ۔ 12 گھنٹے بعد تلاش اور شناخت کا عمل ختم، پھر ایک پرسکون معمول شروع ہوتا، عمارتوں کے سامنے محافظ کھڑے ہوتے، اور حیران رہائشی اپنے سامنے تباہی کو دیکھتے۔ کبھی کبھار، عمارت کا کوئی اور حصہ شیشہ یا کنکریٹ گر جاتا۔" رامات گان میں ایک خاندان کو اپنی گاڑی کی طرف بھاگتے دیکھا گیا جو ملبے کے نیچے دب گئی تھی، صرف یہ جاننے کے لیے کہ بچانے کے لیے کچھ نہیں بچا۔ پورے اسرائیل میں تباہی کا دائرہ وسیع ہے، ہزاروں عمارتیں متاثر ہوئیں، دروازوں اور کھڑکیوں میں معمولی نقصان سے لے کر مکمل عمارتوں کے گرنے تک۔ لیکن ایک چیز مشترک ہے، بے گھر رہائشی، ٹوٹی ہوئی یادیں، اور وہ صدمہ جو ان کے ساتھ کئی سالوں تک رہے گا۔
عبرانی میڈیا کے نئے اعداد و شمار کے مطابق تل ابیب کے 5 علاقوں میں 480 عمارتیں متاثر ہوئی ہیں، رامات گان میں 237 متاثرہ عمارتیں ہیں، جن میں سے 10 کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ بات یام میں صرف ایک میزائل سے 78 عماتیں متاثر ہوئیں، جن میں سے 22 کو گرانے کا فیصلہ کیا گیا ہے کونکہ میزائل کے دھماکے کی لہر نے عمارتوں کو بنیاد سے ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اسرائیل کی ٹیکس اتھارٹی نے تقریباً 33,000 متاثرہ عمارتوں کے لیے مالی امداد کی درخواستیں وصول کی ہیں، جبکہ 4,450 درخواستیں نجی املاک کے نقصان کے معاوضے کے لیے دائر کی گئی ہیں جبکہ 4,119 درخواستیں متاثرہ گاڑیوں کے معاوضے کے لیے دائر کی گئی ہیں۔
پورے اسرائیل میں حکام غیر مستحکم عمارتوں کو جلد از جلد کبھی کبھار چند دنوں میں گرانے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ گرنے کے خطرات کو روکا جا سکے۔ لیکن اس رفتار کے پیچھے صدمے اور خوف کی یادوں کو دلوں سے مٹانے کی کوشش بھی چھپی ہوئی ہے۔ بہت سے معاملات میں رہائشیوں کو اپنا سامان نکالنے کے لیے بہت کم وقت دیا جاتا ہے۔ بات یام میں ایک خاندان کی مدد کرنے والے شخص نے بتایا: "کیبنٹ، ہوم فرنٹ کمانڈ، میونسپلٹی اور پولیس کے ساتھ ایک ہفتے کی دوڑ دھوپ کے بعد ہمیں بتایا گیا کہ ہمارے پاس سامان نکالنے کے لیے ڈھائی گھنٹے ہیں۔ پھر وقت کم کر دیا گیا۔ آخر میں ہمارے پاس 15 منٹ اور 2 بیگ تھے۔ یہ معلوم نہیں کہ ہم دوبارہ کچھ لینے کے لیے واپس جا سکیں گے۔"
ہوم فرنٹ کمانڈ کے اہلکاروں نے اعتراف کیا: "متاثرہ علاقوں میں نقصان کا دائرہ ہماری توقعات کے مطابق ہے۔ ہمارے تربیتی مراکز ایسی ہی صورتحال کی مشق کرتے ہیں۔" انہوں نے مزید کہا کہ نئی عمارتیں زیادہ مضبوط ہیں، لیکن تباہی سے محفوظ نہیں۔ ادھر IDF کے ایک اعلی افسر نے وضاحت کی: "دھماکے اور دباؤ کی لہروں کا اثر جگہ جگہ مختلف ہوتا ہے۔ یہ اس پر منحصر ہے کہ عمارت کا ڈھانچہ توانائی کو جذب کر کے گرنے سے روکتا ہے یا نقصان قریب کی عمارت تک پہنچ جاتا ہے اور تباہی کا دائرہ بڑھ جاتا ہے۔" ان کے مطابق، تل ابیب اور رامات گان میں، جہاں وسیع پیمانے پر تباہی ہوئی، میزائلوں نے براہ راست عمارتوں کو نشانہ نہیں بنایا بلکہ سڑکوں پر گرے لیکن دباؤ کی لہروں نے ارد گرد کی تمام عمارتوں کو تباہ کر دیا۔
ہوم فرنٹ کمانڈ کے ایک اور افسر نے کہا: "یہ کسی پورے شہری ماحول کی تباہی جیسا لگتا ہے۔ یہ وہی نتائج ہیں جو ہم نے لبنان میں پیدا کیے تھے لیکن یہاں، لبنان کے برعکس، ہلاکتوں کی تعداد کم تھی، کیونکہ شہریوں کے پاس محفوظ پناہ گاہوں تک رسائی تھی۔" جمعرات، 19 جون کو، جب ایک ایرانی میزائل تیسری بار رامات گان میں گرا، تو "رشونیم" محلے کے ایک رہائشی ران ماس نے سوچا کہ میزائل اس کے گھر کے بالکل سامنے گرا ہے۔ وہ قریبی پناہ گاہ میں تھا اور اسے اپنے پیروں تلے زمین ہلتی ہوئی محسوس ہوئی۔ 36 سالہ ماس نے کہا: "ہم نے فاصلے پر دھماکوں کی آوازیں سنی، لیکن جب میزائل اتنے قریب سے ٹکرایا تو اسے نظر انداز کرنا ناممکن تھا۔ یہ میرے گھر سے تقریباً 300 میٹر کے فاصلے پر گرا، لیکن اس قسم کے ایرانی میزائل نے پورے محلے کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا۔"
جب وہ پناہ گاہ سے باہر آیا تو اس نے دیکھا کہ دکان کی تمام کھڑکیاں ٹوٹی ہوئی ہیں، شٹر ٹوٹے ہوئے ہیں اور اسے فوراً احساس ہوا کہ اس کا گھر محفوظ نہیں ہے۔ پہلے تو مشرق کی طرف کھڑکیاں برقرار دکھائی دیتی تھیں، لیکن جب وہ اپارٹمنٹ کے قریب پہنچا تو اسے معلوم ہوا کہ صرف وہی کھڑکیاں رہ گئی ہیں۔ باقی تمام کھڑکیاں اڑا دی گئی تھیں، دروازے ہوا میں اڑ گئے تھے، اور سامنے کا دروازہ اکھڑ چکا تھا۔ حکام کی سفارش پر، ماس ایک انخلاء کے مرکز اور وہاں سے تل ابیب کے نیو زیڈک محلے کے ایک ہوٹل میں منتقل ہو گیا۔ تب سے، وہ اپارٹمنٹ کی تزئین و آرائش شروع کرنے کی کوشش کرنے کے لیے ہر چند دنوں بعد واپس آ رہا ہے۔ رامات گان میونسپلٹی نے اطلاع دی ہے کہ ماس کے رہنے والے علاقے میں مزید 107 عمارتوں کو نقصان پہنچا ہے۔ رمت گان میں مجموعی طور پر 257 عمارتوں کو نقصان پہنچا، جن میں سے 10 کو خطرناک سمجھا جاتا ہے جنہیں مسمار کیے بغیر کوئی دوسرا راستہ نہیں۔