گرم راتوں کے درجہ حرارت میں مسلسل اضافہ جسم کو ٹھنڈا ہونے کا موقع نہ دینے کے باعث مزید خطرناک ثابت ہو رہا ہے۔

ڈاکٹروں نے خبردار کیا ہے کہ زیادہ گرمی اور نمی کے طویل اثرات لوگوں کی صحت پر گہرے اثرات مرتب کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سر درد، چکر آنا، تھکاوٹ، پٹھوں میں کھچاؤ، ڈی ہائیڈریشن اور نیند کی خرابی کے کیسز میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔

خاص طور پر وہ افراد جو دمے یا دیگر سانس کی بیماریوں کا شکار ہیں، انہیں شدید مشکلات پیش آ رہی ہیں کیونکہ زیادہ نمی سانس کی تکلیف کو بڑھا سکتی ہے۔ہائی نمی جسم کے قدرتی ٹھنڈک کے عمل میں رکاوٹ ڈالتی ہے، جس کی وجہ سے جسم کو زیادہ گرمی برداشت کرنے میں مشکل پیش آتی ہے، اور اس سے ہیٹ اسٹروک یا ہیٹ ایکزاؤسٹن کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

ہیٹ اسٹروک سے بچاؤ کے لیے احتیاطی تدابیر
ڈاکٹر آر ایس مشرا، پرنسپل ڈائریکٹر انٹرنل میڈیسن، فورٹس ہسپتال نے ہیٹ سے متعلق بیماریوں سے بچنے کے لیے چند اہم حکمت عملیوں کا ذکر کیا ہے:

پانی اور الیکٹرولائٹس سے بھرپور مشروبات پی کر ہائیڈریٹ رہیں۔

ہلکے اور سانس لینے والے کپڑے پہنیں اور ہیٹ یا سن گلاسز کا استعمال کریں۔

سورج کی تیز ترین گرمی کے اوقات (صبح 10 سے شام 4 تک) میں باہر کی سرگرمی سے پرہیز کریں۔

اگر باہر کام کر رہے ہیں تو باقاعدگی سے وقفے لیں اور سایے میں رہیں۔

ہیٹ اسٹروک کی علامات جیسے چکر آنا، پٹھوں میں کھچاؤ اور الجھن محسوس ہونا جانیں اور ان کی موجودگی میں فوراً مدد حاصل کریں۔

ٹھنڈک کے طریقے جیسے پنکھے، ٹھنڈے شاور یا گیلے کپڑے کا استعمال کریں۔

ہلکی اور پانی سے بھرپور غذائیں کھائیں اور خطرے کے شکار گروپ جیسے بوڑھے افراد اور بچوں کی نگرانی کریں۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

پڑھیں:

ماہرین کا بجلی کے پیچیدہ نرخوں کو سادہ اور موثر بنانے پر زور

 سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ پالیسی انسٹیٹیوٹ (SDPI) کے زیراہتمام ”بجٹ کے بعد بجلی کی قیمتوں پر مکالمہ: مالی ترجیحات اور ٹیرف اصلاحات کے اثرات“ کے عنوان سے ایک سیشن کا انعقاد کیا گیا۔ اس مباحثے میں توانائی کے شعبے سے وابستہ ماہرین اور پالیسی سازوں نے شرکت کی، جنہوں نے پاکستان کے توانائی کے شعبے کو درپیش چیلنجز خصوصاً بجلی کے نرخوں کے موجودہ پیچیدہ نظام پر تفصیل سے گفتگو کی۔ ماہرین نے پالیسی سازی کے عمل میں تمام متعلقہ شراکت داروں کی شمولیت کو ناگزیر قرار دیا۔

سیشن کی نظامت ایس ڈی پی آئی کے سینئر ریسرچ ایسوسی ایٹ عبیدالرحمٰن ضیاء نے کی، جبکہ توانائی کے شعبے سے وابستہ ماہرین میں انسٹی ٹیوٹ آف الیکٹریکل اینڈ الیکٹرانکس انجینئرز پاکستان (IEEEP) کے صدر طاہر بشارت چیمہ، انرجی اینالسٹ اور صنعت کار ریحان جاوید، سینئر انرجی ایسوسی ایٹ ایس ڈی پی آئی ڈاکٹر خالد ولید اور ایس ڈی پی آئی کے پروگرام منیجر احد نذیر، یو ایس پاکستان سینٹر فار ایڈوانسڈ اسٹڈیز ان انرجی (یو ایس پی سی اے ایس۔ای) کے پرنسپل ڈاکٹر عدیل وقاص، سابق سی ای او پاکستان ٹیکسٹائل کونسل اور اب ایک آزاد کنسلٹنٹ شیخ محمد اقبال شامل تھے۔

ریحان جاوید نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ توانائی کے شعبے میں نجکاری کے لیے حکومت کو اپنے طرزِ عمل میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے، تاکہ مسابقتی مستقبل کو حقیقت کا روپ دیا جاسکے۔ انہوں نے کے۔الیکٹرک کی نجکاری کے بعد اس کے دائرہ اختیار میں تکنیکی اور خدمات کے شعبے میں بہتری کو سراہتے ہوئے اسے دیگر ڈسٹری بیوشن کمپنیوں (DISCOs) کے لیے قابلِ تقلید ماڈل قرار دیا۔ اداروں کو نجی سرمایہ کاری بڑھانے کے لیے ایسی مثبت پیش رفت کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے، نہ کہ ایسی رکاوٹیں کھڑی کی جائیں جو اصلاحاتی عمل اور حتمی مقاصد کے حصول میں حائل ہوجائیں۔

ریحان جاوید نے تجویز دی کہ قومی سطح پر ایسے ٹیرف متعارف کرائے جائیں جو صنعتی شعبے کی ضروریات سے مطابقت رکھتے ہوں۔ جس سے صنعتیں اپنی پیداوار اور آپریشنل منصوبہ بندی مؤثر انداز میں کرسکیں اور بجلی کی لاگت کی منصفانہ تقسیم بھی یقینی بنائی جاسکے گی۔ انہوں نے نیٹ میٹرنگ کے چیلنجز اور بجلی چوری سے متعلق قواعد و ضوابط کی کمی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس مسئلے کے حل کے لیے مؤثر قانون سازی اور سخت نگرانی ناگزیر ہے، تاکہ توانائی کے شعبے میں بہتری اور شفافیت کو یقینی بنایا جا سکے۔

طاہر بشارت چیمہ نے بجلی کے نرخوں کے فرسودہ اور غیر موثر نظام پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ ٹیرف اسٹرکچر 1960 کی دہائی میں تشکیل دیا گیا تھا، جس میں کوئی خاص تبدیلی نہیں ہوئی ہے۔ اُس وقت ٹیرف اسٹرکچر کا بنیادی مقصد بجلی کے بوجھ کو کم کرنا تھا، یہ ایسا مقصد ہے جو آج غیر متعلقہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک کی بڑھتی ہوئی توانائی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے موجودہ ٹیرف نظام میں اصلاحات ضروری ہیں۔ زائد بجلی کے استعمال پر ”ہول سیل ریٹس“ جیسے تصورات متعارف کرانا چاہیے۔ ٹیرف کا تعین ڈسٹری بیوشن کمپنیز (DISCOs)، جنریشن کمپنیز (GENCOs) اور آزاد بجلی پیدا کرنے والے ادارے (IPPs) کے دائرہ کار اختیار میں نہیں، یہ کام حکومت کرتی ہے اور اُس کی ہی ذمہ داری ہے کہ وہ موجودہ نظام کو وقت کے تقاضوں کے مطابق اپ ڈیٹ کرے۔ بشارت چیمہ نے کہا کہ ڈسٹری بیوشن کمپنیوں میں سرمایہ کاری بڑھانا وقت کی اہم ضرورت ہے، کیونکہ ان اداروں کو محدود فنڈنگ اور بعض علاقوں میں ناقص آپریشنل کارکردگی کے باعث شدید مشکلات کا سامنا ہے۔

طاہر چیمہ نے کہا کہ بجلی کے بلوں پر عائد بھاری ٹیکسز کم کیے جائیں۔ موجودہ بجلی کا نظام بظاہر فیڈرل بورڈ آف ریونیو (FBR) کے لیے آمدن بڑھانے کا ایک ذریعہ ہے۔ انہوں نے بجلی کے بلوں سے ٹی وی لائسنس فیس کے خاتمے اور بعضDISCOs کے بورڈز کو خودمختار بنانے جیسے اقدامات کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ بجلی کی چوری بڑھنا تشویشناک ہے۔ اس جرم کی روک تھام کی کوششوں کے نتیجے میں ڈسکوز کے نمائندوں کو جان سے مارنے کی دھمکیاں مل رہی ہیں۔ توانائی کے شعبے کے مسائل کا حل صرف نجکاری نہیں، بلکہ اس شعبے کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے زیادہ جامع نقطہ نظر کی ضرورت ہے۔

ایس ڈی پی آئی کے پروگرام منیجر احد نذیر نے توانائی کے غیر موثر استعمال پر توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ ملک میں توانائی کا بڑا حصہ غیرپیداواری مقاصد کے لیے استعمال ہورہا ہے۔ بجلی کی پیداوار کے لیے روایتی ایندھن کا انحصار ایک سنگین مسئلہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ توانائی شعبے کے موجودہ اسٹرکچر کے اہم مسائل بجلی کی پیداوار کے لیے روایتی ایندھن پر انحصار اور گردشی قرض ہیں، جس کی وجہ وہ بجلی گھر ہیں جو اپنی عمر پوری کرچکے ہیں مگر اب بھی استعمال کیے جارہے ہیں۔

ڈاکٹر خالد ولید نے کہا کہ پاکستان میں پیداوار کے لیے بجلی کی طلب میں اضافہ ضروری ہے۔ سبسڈی نظام میں اصلاحات کی جائیں، خاص طور پر کراس سبسڈی میں، جس میں 54 فیصد آبادی کو رعایتی نرخ (پروٹیکٹیڈ ٹیرف) پر بجلی فراہم کی جارہی ہے۔ انہوں نے توانائی کے شعبے میں مسابقتی مارکیٹ کے قیام اور بجلی کی خریداری معاہدوں میں اصلاحات کی اہمیت پر زور دیا۔

ڈاکٹر عدیل وقاص نے ٹیکنالوجی کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ اسمارٹ میٹرز اور ڈیجیٹائزیشن بجلی کے نظام میں انقلابی تبدیلی لاسکتی ہیں۔ اسمارٹ میٹرز اور خودکار نظام نہ صرف انسانی مداخلت اور بدعنوانی کو کم کرسکتے ہیں بلکہ آپریشنل کارکردگی اور شفافیت میں بھی نمایاں بہتری لاسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت توانائی کے مستقبل کی تشکیل کے لیے مقامی اداروں اور انجینئرز کو ذمہ داریاں سونپے۔

شیخ محمد اقبال نے بجلی صارفین کے درمیان کراس سبسڈی کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اگر اس پالیسی پر نظر ثانی کی جائے تو بجلی کے استعمال کے رجحانات میں نمایاں تبدیلی آ سکتی ہے۔

پینل میں شامل ماہرین نے پاکستان کے توانائی کے شعبے کو درپیش چیلنجز پر جامع گفتگو کی، جن میں بجلی کی پیداوار ی لاگت میں اضافہ، زائد پیداواری صلاحیت کے باوجود مؤثر استعمال نہ ہونا، ٹیرف اصلاحات کی ضرورت اور مالیاتی پالیسیوں کے بجلی کی قیمتوں پر اثرات شامل ہیں۔ انہوں نے اس شعبے میں انتظامی خامیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے شفافیت، شراکت داروں کی شمولیت اور نجکاری کے لیے زیادہ جامع نقطہ نظر کی اہمیت پر زور دیا۔

سیشن کا اختتام پاکستان میں پائیدار اور مساوی توانائی کے مستقبل کو یقینی بنانے کے لیے فوری اور جامع اصلاحات کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے ہوا۔ مباحثے میں اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ صرف مارکیٹ پر مبنی پالیسیوں پر انحصار کافی نہیں، بلکہ ایک متوازن حکمتِ عملی کی ضرورت ہے جس میں حکومتی نگرانی، پالیسی سپورٹ اور نجی شعبے کی شمولیت ہو۔

اشتہار

متعلقہ مضامین

  • گلگت بلتستان میں شدید ترین گرمی کا 55سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا
  • گلگت بلتستان میں شدید ترین گرمی کا 55سالہ رکارڈ ٹوٹ گیا
  • ماہرین کا بجلی کے پیچیدہ نرخوں کو سادہ اور موثر بنانے پر زور
  • فیلڈ مارشل عاصم منیر نے دشمن کو خبردار کردیا
  • آئندہ 6 سے 12 گھنٹوں کے دوران شدید بارشوں اور طوفانی ہواؤں کا خطرہ
  • کراچی والوں نے شدید گرمی کا توڑ کیا نکالا؟
  • برازیل میں منعقدہ ‘برکس’ اجلاس میں ٹرمپ کی تجارتی پالیسیوں پر شدید تحفظات
  • چلاس اور بونجی میں گرمی عروج پر، 28 سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا
  • تل ابیب میں گرما گرمی، وزیراعظم اور آرمی چیف کے درمیان شدید جھڑپ
  • نئے ’دلائی لاما‘ کی تقرری پر بیان بازی، چین نے بھارت کو خبردار کردیا