FBR نے بحریہ ٹاؤن کے خلاف 26 ارب روپے کی ٹیکس وصولی کے لیے بڑااقدام اٹھالیا
اشاعت کی تاریخ: 23rd, May 2025 GMT
اسلام آباد: فیڈرل بورڈ آف ریونیو (FBR) نے ملک کے معروف رئیل اسٹیٹ گروپ بحریہ ٹاؤن (پرائیویٹ) لمیٹڈ کے خلاف 26 ارب روپے سے زائد کے ٹیکس واجبات کی وصولی کے لیے اہم اقدام اٹھا لیا ہے۔ ڈپٹی کمشنر انکم ٹیکس (IR)، زون IV، یونٹ XIII، بڑے ٹیکس دہندگان کے دفتر، اسلام آباد کی جانب سے جاری کردہ حکم نامے کے تحت چھ افسران کو بحریہ ٹاؤن کے مختلف دفاتر میں بطور ریسیور تعینات کر دیا گیا ہے۔ یہ کارروائی انکم ٹیکس ریکوری رولز 2002 کے قاعدہ 179 کے تحت عمل میں لائی گئی ہے۔
سرکاری دستاویز کے مطابق مقرر کیے گئے افسران میں محمد نواز، عقیل رفیق، محمد سجاد، ملک خورشید محمد، محمد حسیب طاہر اور منتاب محمود شامل ہیں، جنہیں بحریہ ٹاؤن کے راولپنڈی اور اسلام آباد میں واقع مختلف ہیڈ آفسز میں تعینات کیا گیا ہے۔ ان افسران کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ کمپنی کے خلاف بقایا ٹیکس کی وصولی کا بندوبست کریں۔
دستاویز میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ بحریہ ٹاؤن کو کسی بھی قسم کی کاروباری منتقلی یا اثاثوں کے چارج کرنے سے روک دیا گیا ہے کیونکہ کمپنی کا کاروبار اب باقاعدہ طور پر انکم ٹیکس قوانین کے تحت منسلک کر دیا گیا ہے۔ ایف بی آر کے مطابق بحریہ ٹاؤن پر ٹیکس سال 2020 اور 2022 کے دوران 26,124,468,901 روپے کی رقم واجب الادا ہے۔
نوٹیفکیشن میں کمپنی کے مختلف دفاتر بشمول بحریہ ٹاؤن فیز IV، فیز VIII اور بحریہ انکلیو میں اس نوٹس کو چسپاں کرنے کی ہدایات بھی دی گئی ہیں، تاکہ کمپنی کو باضابطہ طور پر مطلع کیا جا سکے۔ ایف بی آر کے مطابق یہ اقدام ملکی مالیاتی نظم و ضبط اور قانون کی بالادستی کو یقینی بنانے کی ایک بڑی پیش رفت ہے۔
.ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: بحریہ ٹاؤن دیا گیا ہے
پڑھیں:
ٹیکس چوروں کے گرد گھیرا تنگ، اربوں کے اثاثوں والے افراد کی لسٹ جاری
فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے انکشاف کیا ہے کہ کچھ ٹیکس دہندگان اربوں روپے مالیت کے اثاثے اور پرتعیش طرزِ زندگی رکھتے ہیں، مگر اپنے ٹیکس گوشواروں میں صرف معمولی آمدن ظاہر کرتے ہیں۔
ایف بی آر کے مطابق یہ افراد لگژری گاڑیاں، مہنگے برانڈڈ کپڑے، گھڑیاں اور بیگز استعمال کرتے ہیں اور غیرملکی دورے کرتے ہیں، لیکن انکم ٹیکس ڈیکلریشن میں بہت کم آمدن رپورٹ کرتے ہیں۔
ایف بی آر کے لائف اسٹائل مانیٹرنگ سیل نے ممکنہ ٹیکس چوروں کی تفصیلات ہیڈکوارٹرز اور متعلقہ ریجنل ٹیکس دفاتر کو بھیج دی ہیں تاکہ ان کے خلاف کارروائی کی جا سکے۔
مزید پڑھیں: سینیٹرز نے ٹیکس فراڈ میں ملوث افراد کو 10 سال قید سزا کی تجویز کو مسترد کردیا
لاہور کی ایک فنانشل ٹیکنالوجی کمپنی کے سی ای او کے پاس 30 لگژری گاڑیاں موجود ہیں، جن کی مجموعی مالیت 2.741 ارب روپے ہے۔ ان میں لیمبورگینی، رولز رائس فینٹم اور دیگر مہنگی گاڑیاں شامل ہیں، مگر ٹیکس ریٹرنز میں ان کا کوئی ذکر نہیں۔
ایک لاہور کی ٹریول انفلوئنسر نے 2021 سے 2025 کے دوران 25 سے زائد ممالک کا سفر کیا، لیکن آمدن صرف 4.42 لاکھ سے 37.9 لاکھ روپے ظاہر کی۔
اسلام آباد کی ایک ماڈل اور سوشل میڈیا انفلوئنسر نے 13 ممالک کا سفر کیا اور مہنگی جواہرات، برانڈڈ کپڑے، لگژری بیگ، رولیکس گھڑیاں اور دیگر قیمتی اثاثے خریدے، مگر آمدن صرف 35 لاکھ سے 54.9 لاکھ روپے ظاہر کی۔
ایف بی آر نے کہا ہے کہ یہ جانچ ایسے وقت میں کی گئی ہے جب ٹیکس وصولی کا نظام اپنے سالانہ ہدف 14.13 ٹریلین روپے کے حصول میں مشکلات کا سامنا کر رہا ہے اور جولائی تا اکتوبر 2025 کے دوران 274 ارب روپے کی کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔
مزید پڑھیں: سولر پینلز اور انٹرنیٹ مہنگے ہونے کا امکان، ایف بی آر نے آئی ایم ایف کو تجاویز دیدیں
ایک فِن ٹیک کمپنی کے سی ای او اور بانی نے اپنی مہنگی گاڑیوں اور دیگر اثاثوں کے ذریعے اپنے پرتعیش طرزِ زندگی کو نمایاں کیا، لیکن ٹیکس ریٹرنز میں ان کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ ان کے گوشواروں کا جائزہ لینے سے ظاہر ہوا کہ ان کی آمدنی اور اثاثوں میں نمایاں تضاد موجود ہے۔
مثال کے طور پر، انہوں نے 2019 سے 2025 تک آمدنی میں بار بار ترمیم کی، جس سے کاروباری سرمایہ اور سونے کی مقدار میں بھی اضافہ ظاہر کیا گیا، حالانکہ ان کی اصل زندگی انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں گزری ہے اور زرعی زمین کی ملکیت نہیں ہے۔
ایف بی آر کے مطابق، ان افراد کے خلاف باضابطہ تحقیقات اور کارروائی جاری ہے تاکہ ٹیکس چوری کی روک تھام کی جا سکے اور ملک میں ٹیکس کلچر کو فروغ دیا جا سکے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ارپ پتی آمدن کم ایف بی آر ٹیکس چور لگژری لائف