سکھ تنظیم کا کہنا ہے کہ 7 اور 8 اپریل کی رات کو بھارت نے ڈرون کے ذریعے ننکانہ صاحب پر حملہ کیا، جسے پاکستانی افواج نے بروقت اور کامیابی سے ناکام بنایا۔ اسلام ٹائمز۔ سکھوں کے مقدس مقام ننکانہ صاحب پر بھارتی ڈرون حملے کے بعد دنیا بھر میں سکھ برادری میں شدید غم و غصہ پایا جا رہا ہے۔ سوئٹزرلینڈ میں قائم سکھ تنظیم MAAR نے اس حملے کو مذہبی آزادی پر کھلا حملہ قرار دیتے ہوئے بھارت کے خلاف عالمی فوجداری عدالت (آئی سی سی) میں باضابطہ شکایت درج کروا دی ہے۔ سکھ تنظیم کا کہنا ہے کہ 7 اور 8 اپریل کی رات کو بھارت نے ڈرون کے ذریعے ننکانہ صاحب پر حملہ کیا، جسے پاکستانی افواج نے بروقت اور کامیابی سے ناکام بنایا۔ تاہم، یہ واقعہ بھارت کے اس خطرناک رجحان کی ایک اور مثال ہے جس میں وہ نہ صرف سرحدی کشیدگی کو بڑھا رہا ہے بلکہ اقلیتوں کے مقدس مقامات کو بھی نشانہ بنا رہا ہے۔ MAAR کی جانب سے عالمی عدالت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ بھارت کی اس مبینہ جارحیت کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کرائی جائیں اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی پر اسے جوابدہ بنایا جائے۔

تنظیم کا کہنا ہے کہ مذہبی عبادت گاہوں پر حملے بین الاقوامی انسانی قوانین کی صریح خلاف ورزی ہیں، اور ایسے اقدامات کسی طور بھی مہذب دنیا میں قابلِ قبول نہیں ہو سکتے۔ سکھ تنظیم نے اس موقع پر تاریخی حوالہ بھی دیا کہ بھارت اس سے قبل 1971ء کی جنگ میں کرتارپور صاحب پر بھی بمباری کر چکا ہے، جو سکھوں کے جذبات اور مذہبی آزادیوں پر بار بار کیے گئے حملوں کی ایک تکلیف دہ یادگار ہے۔ MAAR نے واضح طور پر کہا کہ بھارت نہ صرف خطے کے امن کو داؤ پر لگا رہا ہے بلکہ سکھوں کی مذہبی آزادی اور ثقافتی شناخت پر بھی حملے کر رہا ہے۔ تنظیم نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ خاموش تماشائی بننے کے بجائے آگے بڑھے اور بھارت کو اس کے جارحانہ اقدامات پر روکے۔ تنظیم کا کہنا تھا کہ مذہبی اور ثقافتی مقامات کا تحفظ ہر حالت میں لازم ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب سیاسی یا عسکری کشیدگی اپنے عروج پر ہو۔ سکھ برادری کسی صورت اپنے مقدس مقامات پر حملے کو برداشت نہیں کرے گی اور اس ظلم کے خلاف ہر محاذ پر آواز بلند کرتی رہے گی۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: تنظیم کا کہنا سکھ تنظیم رہا ہے

پڑھیں:

شام میں استحکام کے لیے عالمی برادری کی مدد درکار، امدادی ادارے

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 23 مئی 2025ء) شام میں لاکھوں لوگوں کو جا بجا بکھرے بارودی مواد، بیماریوں اور غذائی قلت سے جان کا خطرہ لاحق ہے۔ اقوام متحدہ کے امدادی حکام نے کہا ہے کہ ملک کو استحکام کی راہ پر ڈالنے کے لیے عالمی برادری کی مزید مدد درکار ہے۔

امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر (اوچا) کی ڈائریکٹر ایڈیم ووسورنو نے کہا ہے کہ سالہا سال تک تکالیف اور مصائب کا سامنا کرنے والے لوگ اب تبدیلی محسوس کر رہے ہیں، تاہم ایک کروڑ 65 لاکھ لوگوں کو اب بھی انسانی امداد اور تحفظ درکار ہے۔

انہوں نے پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے (یو این ایچ سی آر) کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ گزشتہ سال دسمبر کے بعد بیرون ملک سے تقریباً پانچ لاکھ شامی پناہ گزین اپنے ملک واپس آئے ہیں۔

(جاری ہے)

اب تک 10 لاکھ سے زیادہ ایسے لوگوں کی بھی واپسی ہو چکی ہے جو سابق حکومت کے دور میں اندرون ملک بے گھر ہو گئے تھے۔

پناہ گزینوں کے خدشات

ایڈیم ووسورنو نے کہا ہے کہ تباہ شدہ گھر، ناکافی خدمات، روزگار کے مواقع کی کمی اور اَن پھٹے گولہ بارود سے لاحق خطرات بہت سے لوگوں کو واپسی سے روک رہے ہیں۔

بیشتر پناہ گزینوں کا کہنا ہے کہ اپنے ملک یا علاقوں میں واپسی کے لیے تحفظ ان کی پہلی ترجیح ہے۔ اگرچہ ملک میں تشدد اور لڑائی میں بڑی حد تک کمی آ چکی ہے لیکن کئی جگہ مقامی سطح پر تناؤ کے باعث لوگوں کے خدشات برقرار ہیں۔

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) میں شعبہ ہنگامی طبی امور کے ڈائریکٹر الطاف موسانی نے کہا ہے کہ طویل جنگ کے بعد ملک بھر میں جا بجا بکھرا گولہ بارود شہریوں کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے۔

دسمبر 2024 کے بعد اس گولہ بارود سے کم از کم 909 اموات ہو چکی ہیں جن میں 400 خواتین اور بچوں کی ہیں۔ © UNICEF/Rami Nader ہیضے اور اسہال کا پھیلاؤ

ڈاکٹر موسانی نے بتایا ہے کہ ملک کے بہت سے علاقوں میں ہیضے اور شدید اسہال جیسی بیماریوں کا پھیلاؤ بڑھ رہا ہے۔

اب تک ہیضے کے 1,444 مریض سامنے آ چکے ہیں جن میں سے سات کی موت واقع ہو گئی ہے۔ لاطاکیہ اور حلب میں پناہ گزینوں کی آبادیوں کے قریب اس وبا کی شدت دیگر علاقوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔

انہوں نے خبردار کیا ہے کہ شام میں 416,000 سے زیادہ بچوں کو غذائی قلت کا خطرہ لاحق ہے جبکہ پانچ سال سے کم عمر کے نصف سے زیادہ بچوں کو شدید درجے کی غذائی قلت کا سامنا ہے جبکہ انہیں اس کا علاج میسر نہیں۔

پابندیوں کے خاتمے کا خیرمقدم

انہوں نے بتایا ہے کہ امدادی وسائل کی قلت کے باعث ستمبر 2024 کے بعد ملک کے شمال مغربی علاقے میں زچہ بچہ کے نصف ہسپتال غیرفعال ہو چکے ہیں۔ شام میں امدادی کارروائیوں کے لیے مالی وسائل کی پہلے ہی سخت قلت ہے۔ 'اوچا' میں شعبہ ارتباط کے سربراہ رمیش راجاسنگھم نے گزشتہ دنوں سلامتی کونسل کو بتایا تھا کہ ملک کو رواں سال جون تک 2 ارب ڈالر کے امدادی وسائل کی ضرورت ہے جن میں سے اب تک 10 فیصدہی مہیا ہو سکے ہیں۔

ڈاکٹر موسانی کا کہنا ہے کہ ہسپتالوں کو مالی وسائل کے علاوہ تربیت یافتہ عملے اور سازوسامان کی کمی بھی درپیش ہے۔ ایک دہائی تک جاری رہنے والی جنگ کے نتیجے میں 50 تا 70 فیصد طبی عملہ ملک چھوڑ چکا ہے اور طبی ڈھانچے پر سرمایہ کاری کی اشد ضرورت ہے۔

ایڈیم ووسورنو نے کہا ہے کہ امریکہ اور یوپی یونین کی جانب سے شام پر پابندیاں اٹھانا امید افزا اقدام ہے جس کے اثرات اشیا اور خدمات کی فراہمی پر بھی دکھائی دیں گے اور ملک میں امدادی کارروائیوں کی انجام دہی آسان ہو جائے گی۔

متعلقہ مضامین

  • ننکانہ صاحب پر بھارتی ڈرون حملہ ،سکھ برادری کا عالمی عدالت سے رجوع 
  • سکھوں کی عالمی عدالت میں دُہائی: بھارت کے خلاف کارروائی کا مطالبہ
  • سکھ تنظیم کی ننکانہ صاحب پر بھارتی ڈرون حملے کے خلاف عالمی عدالت میں شکایت
  • بھارت کی جنگی جنونیت پر سکھ برادری کا عالمی عدالت سے رجوع: ننکانہ صاحب پر ڈرون حملے کی مذمت
  • عالمی برادری تنازعہ کشمیر کے حل کیلئے فوری مداخلت کرے، حریت کانفرنس
  • شام میں استحکام کے لیے عالمی برادری کی مدد درکار، امدادی ادارے
  • مودی کا جنگی جنون؛ پہلگام حملے کی آڑ میں روہنگیا مسلمانوں پر دہشتگردی کا الزام
  • عالمی برادری کو بھارت کے جوہری اثاثوں کے بارے میں زیادہ فکرمند ہونا چاہیے، دفترخارجہ
  • پیکا ایکٹ میں طلبی، شمیم نقوی نے عدالت سے رجوع کرلیا