پہلگام اورپاک بھارت کشیدگی پرغیرملکی صحافی کے سوالات، بھارتی وزیرخارجہ آئیں بائیں شائیں کرنے لگے
اشاعت کی تاریخ: 24th, May 2025 GMT
نئی دہلی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 24 مئی2025ء)بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر پاک بھارت کشیدگی میں امریکی کردار اور پہلگام واقعے سے متعلق غیر ملکی صحافی کے سوالوں پر آئیں بائیں شائیں کرنے لگے۔
(جاری ہے)
بھارتی ٹی وی کے مطابق دوران انٹرویو غیر ملکی صحافی نے بھارتی وزیر خارجہ سے سوال کیا کہ کیا پاک بھارت کشیدگی امریکی صدر ٹرمپ نے ختم کرائی غیر ملکی صحافی نے بھارتی وزیر خارجہ سے اگلا سوال کیا کہ آپ نے پہلگام میں 26 افراد کے قاتلوں کو پکڑ لیا ہی کیا ان کی گرفتاری کے لیے آپریشن جاری ہی اس سارے عمل میں امریکا کا کیا کردار تھا بعد ازاں بھارتی جماعت کانگریس نے یہ فوٹیج اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر لگاتے ہوئے پوچھا ہے ان کی زبان کیوں لڑکھڑا رہی ہی
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے
پڑھیں:
آپریشن سندور جاری مگر فی الوقت غیر فعال، جنگ بندی دوطرفہ معاملہ ہے، بھارتی وزیر خارجہ
بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر کا دعویٰ ہے کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان حالیہ عسکری کشیدگی کا خاتمہ براہ راست دو طرفہ بات چیت کا نتیجہ تھا، جس میں بین الاقوامی سطح پر اور بالخصوص امریکہ کی طرف سے کوئی ثالثی نہیں ہوئی تھی۔
خارجہ ایس جے شنکر ان دنوں جرمنی اور نیدرلینڈز جیسے یورپی ممالک کے دورے پر ہیں، جہاں وہ بھارت اور پاکستان کے درمیان حالیہ کشیدگی پر نئی دہلی کا موقف پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ڈچ ٹی وی کے ساتھ انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ بھارت نے پاکستان پر حملے کے لیے جو آپریشن سندور شروع کیا تھا، وہ اب بھی جاری ہے۔ تاہم وقتی طور پر یہ آپریشن غیر فعال ہے اور عسکریت پسندوں کی جانب سے کسی حملے کی صورت میں اسے دوبارہ شروع کیا جا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ آپریشن سندور کا تسلسل بھارت کے لیے ایک اسٹریٹیجک مقصد پورا کرتا ہے۔ انہوں نے کہا، ’’آپریشن جاری ہے، کیونکہ اس آپریشن میں ایک واضح پیغام ہے – 22 اپریل کو ہم نے جس طرح کی کارروائیاں دیکھی تھیں، اگر ایسی دوبارہ ہوئیں، تو ان کا جواب دیا جائے گا۔ ہم پھر دہشت گردوں کو نشانہ بنائیں گے۔ اگر دہشت گرد پاکستان میں ہیں، تو ہم انہیں وہاں بھی ماریں گے، جہاں وہ ہیں۔‘‘
انہوں نے واضح کیا کہ اگرچہ یہ آپریشن اصولی طور پر اب بھی قائم ہے، تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ فوجی کارروائی بھی جاری ہے۔
انہوں نے کہاکہ آپریشن جاری رکھنے کا مطلب ایک دوسرے کے ساتھ مسلسل لڑنا نہیں بلکہ فی الوقت لڑائی اور دیگر عسکری کارروائیوں کے خاتمے پر اتفاق ہے، اس لیے وقتی طور پر آپریشن غیر فعال ہے۔ البتہ وقت پڑنے پر دوبارہ بھی شروع بھی کیا جا سکتا ہے۔
بھارتی وزیر خارجہ نے اس بات پر بھی زور دیا کہ بھارت اور پاکستان کی حالیہ کشیدگی کے عروج پر جو جنگ بندی ہوئی، اس میں امریکہ سمیت کسی نے بھی کوئی ثالثی نہیں کی اور لڑائی ’’پاکستانی فوج کی جانب سے ہاٹ لائن پر بات چیت کرنے کے بعد‘‘ روکی گئی تھی۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ یہ پاکستانی فوج تھی، جس نے پیغام دیا کہ وہ فائرنگ بند کرنے کے لیے تیار ہیں اور ہم نے اسی کے مطابق جواب دیا۔‘‘ البتہ جے شنکر نے تسلیم کیا کہ امریکہ سمیت دیگر ممالک نے لڑائی پر تشویش کا اظہار کیا تھا اور دونوں فریقوں کو فون کالز بھی کی تھیں۔
بھارتی وزیر خارجہ نے کہاکہ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو اور نائب صدر جے ڈی وینس نے اس پر بات کی تھی۔ مسٹر روبیو نے مجھ سے اور جے ڈی وینس نے وزیر اعظم نریندر مودی سے بات کی تھی، تاہم ان کا کردار تشویش کا اظہار کرنے تک ہی محدود تھا۔
جے شنکر نے کہاکہ ہم سے جس نے بھی بات کی، امریکہ سمیت، ہم نے اس پر ایک بات بالکل واضح کر دی تھی کہ اگر پاکستانی جنگ بند کرنا چاہتے ہیں، تو یہ بات ہم ان سے سننا چاہتے ہیں اور ان کے جنرل کو ہمارے جنرل کو فون کر کے یہ کہنا پڑے گا۔ اور ایسا ہی ہوا۔
واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ حالیہ دنوں میں کئی بار یہ بات بہت واضح انداز میں کہہ چکے ہیں کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان ہونے والی حالیہ لڑائی انہی کی کوششوں کی بدولت رکی تھی۔ ٹرمپ نے دونوں ملکوں کے درمیان ثالثی کی بھی پیشکش کی ہے۔
تاہم چونکہ بھارت ثالثی کا مخالف ہے، اس لیے وہ پوری شدت سے اس بات کو مسترد کرتا آیا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں کسی بھی ملک نے کسی ثالث کا کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ امریکی صدر کے ان دعووں کے بارے میں جب جے شنکر سے پوچھا گیا کہ امریکی صدر نے جنگ بندی میں سہولت فراہم کی اور ثالثی کی پیشکش کی ہے، تو جے شنکر نے ایسے دعووں کو مسترد کرتے ہوئے کہاکہ یہ ہمارے اور پاکستانیوں کے درمیان کا معاملہ ہے۔ ہم اس سے دو طرفہ طور پر نمٹنے کی تجویز پیش کرتے ہیں۔
بھارتی وزیر خارجہ نے کشمیر پر نئی دہلی کے موقف کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر بھارت کا حصہ ہے۔ کوئی بھی ملک اپنی سرزمین کے کسی حصے پر مذاکرات نہیں کرتا۔ کشمیر کا ایک حصہ ایسا ہے جو 1947 اور 1948 سے پاکستان کے غیر قانونی قبضے میں ہے۔ جب وہ اس حصے کو چھوڑنے کی تجویز پیش کریں گے، تو ہم ان سے بات کرنا چاہیں گے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ یہ ایک سنجیدہ بات چیت ہونا چاہیے۔ یہ وہ ہے، جو ہمیں اپنے اور حکومت پاکستان کے درمیان کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن ہم اپنی سرزمین پر بات چیت نہیں کر رہے ہیں۔