Express News:
2025-11-03@14:56:46 GMT

سندھ میں نشہ آور اشیاء کا بڑھتا ہوا استعمال

اشاعت کی تاریخ: 25th, May 2025 GMT

انسان فطری طور پر ایک جاندار ہے، اسے زندہ رہنے کے لیے کھانا پینا بے حد ضروری ہے، لیکن قدرتی خوراک کے علاوہ اگر ہم سگریٹ، مین پڑی، گٹکے ،ماوا جیسی غیر ضروری غذائیں استعمال کریں گے تو ہماری صحت اور ساکھ ضرور متاثر ہوگی۔کچھ عرصہ پہلے ایک غیر ملکی نشریاتی ادارہ پاکستان میں تیزی سے بڑھتے کینسر، بالخصوص منہ کے کینسر بارے ایک رپورٹ میں جو حقائق پیش کر رہا تھا وہ اس قدر ہولناک اور ہوش ربا تھے جنھیں سن کر انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔

گٹکا، چھالیہ، ماوا اور مین پوری وغیرہ دراصل’’گٹکے‘‘ ہی کی مختلف اشکال ہیں۔ ماہرین کہتے ہیں یہ ایک قسم کا مصالحہ ہے جو جوتری، لونگ، الائچی، پستہ، چونا، تیزاب، پسا ہوا شیشہ، افیون اور مختلف قسم کے کیمیائی اور نشہ آور مادوں پر مشتمل ہوتا ہے۔

اس کی تیاری میں جو چھالیہ استعمال ہوتی ہیں عمومی طور پر اسے پھپھوندی (فنگس)لگ چکی ہوتی ہے جس کے استعمال سے جگر اور پھیپھڑوں کے کینسر میں بتدریج اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔

 سندھ بھر میں بڑھتے ہوئے گٹکے اور مین پوری کی فروخت نے نوجوان نسل کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ مضر صحت گٹکا اور مین پوری کی فروخت کی وجہ سے شہریوں میں منہ، زبان اور حلق میں کینسر جیسی مہلک بیماریاں پھیل رہی ہیں۔

گٹکے کی صورت میں نوجوانوں میں سرایت کرنے والے زہر کو پاکستان میں پھیلانے کا ذمے دار بھارت ہے۔مقامی طور پر گٹکے کی تیاری کے علاوہ بھارت سے بھی سمندری و خشکی کے راستے ممنوعہ گٹکوں کی اسمگلنگ کی جاتی ہے۔کراچی و اندرون سندھ انڈین گٹکے کی مختلف برانڈز بھی مقبول ہیں۔گٹکا کا استعمال آلودگی اور گندگی میں اضافہ بن کر دوسروں کے لیے بھی تکلیف کا باعث بن رہا ہے۔

گٹکا اور اس جیسی دیگر اشیاکا مضر صحت اور ماحول دشمن ہونے کی بنا پر مشرق وسطی کے بعض ممالک میں اس پر پابندی عائد ہے۔سندھ کے عوام میں مقبول نشہ گٹکا سگریٹ سے زیادہ مضراور خطرناک ہے۔ گٹکا کھانے والے کا سب سے پہلے منہ متاثر ہوتا ہے۔

اس کا زیادہ استعمال اور اس میں موجود کانچ کے ذرات منہ کے نرم گوشت کو سخت کر دیتے ہیں جس کے سبب منہ پورا کھولنا اور زبان کا ہونٹوں سے باہر نکالنا دشوار ہو جاتا ہے، نیز چونے کا مسلسل استعمال منہ کی جلد کو پھاڑ کر چھالا بنا دیتا ہے جو بعد میں منہ کا السر بن جاتا ہے، اگر متاثرہ شخص فورا چھالیہ، گٹکا، مین پوری وغیرہ کا استعمال ترک نہیں کرتا تو یہی السر آگے چل کر کینسر کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ گٹکا کھانے والے کی پہلے پہل آواز میں خرابی پیدا ہوتی ہے جو بڑھتے بڑھتے گلے کے کینسرتک پہنچ جاتی ہے۔

منہ، گلے، خوراک کی نالی اور معدے کینسر کے مریضوں میں سے 60 فیصد سے لے کر 70 فیصد تعداد گٹکا کھانے والوں کی ہوتی ہے۔گٹکا کے اجزاترکیبی ایسے ہیں جن کا استعمال صحت کے لیے مضر ہے,تاہم انسانی جانوں سے کھیلنے والے اور کم پیسہ لگا کر زیادہ منافع کمانے والے اس میں بعض خطرناک اشیابھی شامل کرتے ہیں۔

معیاری تمباکو مہنگا ہونے کی وجہ سے انتہائی غیر معیاری تمباکو استعمال کیا جاتا ہے۔ گٹکاکا کتھا مہنگاہونے کے سبب اس میں متبادل کے طور پر کمیلے سے حاصل کردہ جانوروں کا خون ڈرائی کرکے شامل کیا جاتا ہے، چھالیہ کی جگہ میں کجھور کی گٹھلیاں اور لکڑی کا برادہ شامل کیا جاتا ہے۔

تمباکو میں موجود نیکوٹین کو منہ میں زیادہ جذب کرنے اور اس کا نشہ دوبالا کرنے کے لیے کانچ کے باریک ذرات استعمال کیے جاتے ہیں۔ جب کہ خشک گٹکے میں مضر صحت تیز کیمیکلز اور مختلف اقسام کے فلیورز استعمال کیے جاتے ہیں۔گٹکے کے اندر گھٹیا کوالٹی کا کریش تمباکو اور شیشے کو بھی کریش کرکے گٹکے میں ملایا جاتا ہے۔

طبی ماہرین کے مطابق کچھ نوجوان اپنی آواز گٹکے کھانے کی وجہ سے کھو چکے ہیں۔ ماہرین کے مطابق جب گٹکا کھانے والا گٹکا استعمال کرتا ہے تو ہلکے ہلکے زخم اس شیشے کی وجہ سے منہ میں لگتے ہیں جس سے وہاں نیکوٹین بھر جاتا ہے جس کی وجہ سے نوجوان چند دنوں میں اس کے عادی ہوجاتے ہیں۔

ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ پان کھانے سے انسان کو 25 سے30 سال میں منہ یا گلے کا کینسر ہوتا ہے،لیکن گٹکا کھانے والا انسان 5 سال میں ہی اس موذی مرض کا شکار ہوجاتا ہے،ایک میڈیکل اسٹڈی میں بتایاگیا ہے کہ پاکستان میں جن لوگوں کو منہ کا کینسر ہوتا ہے ان میں 90 فیصد لوگوں کو منہ کا کینسر صرف گٹکا کھانے کی وجہ سے ہوتا ہے۔

تمباکو، سگریٹ اور سگار میں نکوٹین، کیمیکلز اور زہریلے عناصر ہوتے ہیں جو انسانی صحت کے لیے انتہائی نقصان دہ ہیں۔ ان مصنوعات کا استعمال منہ، دانت اور پھیپھڑوں کے کینسر جیسی بیماریوں کا باعث بن سکتا ہے۔ یہ لت منہ کی بیماریوں اور بالخصوص کینسر کی ایک بڑی وجہ ہے۔

چیونگم کا مسلسل استعمال منہ کے چھالوں، دانتوں کی خرابی اور بالآخر کینسر کا باعث بن سکتا ہے۔ چکنائی والے چاول کھانے سے انسانی جسم خشک یا پانی کی کمی کا شکار رہتا ہے۔ڈاکٹروں کے مطابق نکوٹین اور دیگر زہریلے عناصر خون کی روانی کو متاثر کرتے ہیں جس کی وجہ سے جمع شدہ دولت بچوں کی تعلیم کے بجائے بیماریوں پر خرچ ہوتی ہے۔

منشیات کی لعنت انسان کو جسمانی اور ذہنی طور پر کمزور کر دیتی ہے جس سے وہ اپنی روزمرہ کی ذمے داریوں کو صحیح طریقے سے ادا کرنے سے قاصر ہو جاتا ہے۔ یہ غیر قانونی کاروبار غریبوں کی معاشی تباہی کا ایک بڑا سبب ہے۔ منشیات کے عادی زیادہ تر مزدور، مزدور اور کم آمدنی والے ہوتے ہیں، جو اپنی محنت کی کمائی کا بڑا حصہ منشیات پر خرچ کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ان کے گھر کا چولہا بمشکل جلتا ہے۔ یہ غیر قانونی، غیر اخلاقی کاروبار کچھ لوگوں کے لیے دولت کا ذریعہ بنتا ہے، لیکن یہ عام لوگوں کی زندگیوں کو المناک انجام تک پہنچا دیتا ہے۔

میتھم فیٹامائن، گٹکا اور ماوا جیسی نشہ آور اشیاء جو ہمارے معاشرے خصوصاً ٹھٹھہ، بدین اور ساحلی علاقوں میں تیزی سے عام ہو رہی ہیں، معاشرے میں نہ صرف انفرادی بلکہ اجتماعی تباہی کا باعث بن رہی ہیں۔ یہ لت نہ صرف صحت کو تباہ کرتی ہے بلکہ معیشت، اخلاقیات، معاشرتی نظام اور آنے والی نسلوں کو بھی بری طرح متاثر کرتی ہے۔

اس کے پھیلاؤ کے ذمے دار بہت سے عوامل ہیں جن میں پولیس، عدالتیں، سماجی تنظیمیں اور سول سوسائٹی شامل ہیں جو یا تو اپنا کردار ادا کرنے کو تیار نہیں یا پھر اس غیر قانونی کاروبار کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ ہمیں اس کے بارے میں کیا کرنا ہے؟ ان کی مجرمانہ خاموشی بالآخر ایک دن ہمارے دروازے پر دستک دے گی۔

منشیات کے عادی افراد اپنے گلے کے مسائل کی وجہ سے اسپتالوں پر بوجھ بڑھا دیتے ہیں جس کے نتیجے میں حکومت کو علاج کے لیے مزید وسائل مختص کرنے پڑتے ہیں۔نئی نسل کی تباہی: بچے اور نوجوان بھی چھوٹی عمر میں ہی مین پری، گٹکے اور ماوے کے جال میں پھنس جاتے ہیں۔

ایسے ماحول میں پروان چڑھنے والی نسل تعلیم، تربیت اور اخلاقیات سے محروم ہے جس سے پوری قوم یا مخصوص ساحلی علاقوں کا مستقبل داؤ پر لگ جاتا ہے۔ ٹھٹھہ اور بدین میں قانون نافذ کرنے والے اداروں، عدلیہ، سماجی تنظیموں اور سول سوسائٹی کو اس گھناؤنے فعل کا نوٹس لینا چاہیے۔

 ضرورت اس امر کی ہے کہ گٹکے کے استعمال و خرید و فروخت کرنے والوں کے خلاف مستقل بنیادوں پر قانونی کارروائی کی جائے۔ہمارے معاشرے سے اگر گٹکے کی لعنت ختم نہ کی گئی تو جو نوجوان طبقہ ابھی تک اس لعنت سے محفوظ ہے وہ بھی اس کی زد میں آجائے گااور ایک دن یہ سب سے بڑا جان لیوا مرض بن جائے گا۔ سندھ حکومت کو چاہیے کہ فوری طور پر اس کاروبار کا قلع قمع کرے تاکہ نئی نسل بربادی سے بچ جائے جب کہ اس حوالے سے والدین کو بھی اپنے بچوں پر کڑی نظر رکھنے کی ضرور ت ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کا استعمال کا باعث بن کی وجہ سے جاتے ہیں کے کینسر مین پوری جاتا ہے ہوتی ہے ہوتا ہے ہیں جس کے لیے

پڑھیں:

مصنوعی ذہانت

مصنوعی ذہانت کے استعمال سے جہاں عالمی معاشروں میں حیران کن تبدیلیاں آرہی ہیں وہاں ذرایع ابلاغ اور خبریں بھی ایک نئے اور پیچیدہ عہد میں داخل ہو رہی ہیں۔ ایک ایسا عہد جس میں ’’خبر‘‘ محض اطلاع نہیں بلکہ ایک ڈیجیٹل تشکیل بن چکی ہے۔ آج کسی خبر کی سچائی پر یقین کرنے سے پہلے قاری کو یہ سوچنا پڑتا ہے کہ کیا یہ خبر انسان نے بنائی ہے یا مشین نے؟

مصنوعی ذہانت یعنی اے ائی (Artificial Intelligence) لمحوں میں تصویر، آواز یا وڈیو کو اس طرح بدل دیتی ہے کہ سچ اور جھوٹ کے درمیان فرق مٹ جاتا ہے۔ یہی وہ خطرہ ہے جو دنیا بھر کے میڈیا کو درپیش ہے اور جس سے پاکستان بھی اب لاتعلق نہیں رہ سکتا۔

ڈیجیٹل فریب کی اس نئی دنیا نے کچھ ہی عرصے میں ’’جنریٹو اے آئی‘‘ (Generative AI) نے خبر کے معیار، رفتار اور اعتبار کو یکسر بدل کر رکھ دیا ہے۔ ChatGPT، Midjourney، Runway، Sora جیسے ٹولز نہ صرف مواد تخلیق کرتے ہیں بلکہ مکمل حقیقت کو بھی بدل کر رکھ دیتے ہیں۔

اس ٹیکنالوجی کی ایک خطرناک صورت ڈیپ فیک (Deepfake) ہے۔ ڈیپ فیک کے استعمال سے ایسی جعلی وڈیوز بنائی جاتی ہیں جو دیکھنے میں بالکل اصلی لگتی ہیں۔

مثال کے طور پر 2024کے امریکی صدارتی انتخابات سے قبل ایک ڈیپ فیک آڈیو سامنے آئی جس میں صدر جوبائیڈن کی آواز میں ووٹروں کو پیغام دیا گیا۔ بعدازاں انکشاف ہوا کہ یہ مصنوعی آواز تھی۔

بھارت میں بھی 2023 کے ریاستی انتخابات کے دوران مشہور شخصیات کی جعلی وڈیوز وائرل ہوئیں جنھوں نے انتخابی بیانیے کو متاثر کیا۔ اسی طرح پاکستان کے سوشل میڈیا پر مختلف سیاست دانوں اور بااثر افراد کی ایسی فیک وڈیوز گردش کر رہی ہیں جن کو دیکھ کر انسان صرف حیران اور پریشان ہی نہیں ہوتا بلکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اگر یہ عمل جاری رہا تو آگے کیا ہوگا۔

حالیہ برسوں میں متعدد وڈیوز اور بیانات توڑمروڑ کر پھیلائے گئے۔ کئی مرتبہ تو پرانی وڈیوز کو نئے عنوانات کے ساتھ وائرل کیا گیا، جس سے غلط فہمیاں اور انتشار پیدا ہوا۔

 ہمارے ہاں سوشل میڈیا پر نہ تو فیکٹ چیکنگ یونٹس ہیں اور نہ ہی ایتھکس کی تربیت ہے۔ نتیجتاً افواہیں خبروں سے زیادہ تیزی سے پھیلتی ہیں لیکن اگر دوسری طرف دیکھیں تو یہ چیلنج دراصل ایک موقع بھی ہے۔ اگر پاکستان کا میڈیا اس ٹیکنالوجی کو مثبت انداز میں اپنائے تو خبر کے حصول کی رفتار، تحقیق اور تجزیے کی نئی راہیں کھل سکتی ہیں۔

دنیا کے بڑے خبررساں ادارے اے آئی کو مددگار ٹول کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ نیوز ٹریسر ایک ایسا خودکار ٹول ہے جو سوشل میڈیا پر خبروں کی اصلیت اور جعلی پن کی جانچ کرتا ہے۔

ایک اور ٹریسر ایسا بھی ہے جو تصاویر وڈیو اور اعداد وشمار کی اے آئی الگورتھم استعمال کر کے تصدیق کرتا ہے۔ پاکستانی ابلاغ کے ادارے بھی اگر چاہیں تو انھی ماڈلز کو اپنا سکتے ہیں۔

اس وقت سب سے اہم سوال یہ ہے کہ پاکستانی میڈیا کس طرح فیک اور اصلی خبر میں تمیز کر سکتا ہے یا اصلی خبر کی تیزرفتار جانچ پڑتال کیسے ممکن ہے؟ اس کے لیے درج ذیل اقدامات کرنے کی فوری ضرورت ہے۔

ہر نیوز روم میں فیکٹ چیکنگ یونٹ قائم کیا جائے۔صحافیوں کے لیے اے آئی اور ڈیجیٹل ایتھکس کی تربیت کو لازمی قرار دیا جائے۔اگر کوئی تصویر یا وڈیو اے آئی سے تیار کی گئی ہو تو اس کی وضاحت لازمی ہو۔

یونیورسٹیوں، میڈیا ریگولیٹرز اور نیوز اداروں کو مل کر ایک قومی پالیسی وضع کرنی چاہیے تاکہ ٹیکنالوجی کا استعمال ذمے داری سے ہو۔پاکستان کی بعض یونیورسٹیوں نے ’’ڈیجیٹل جرنلزم‘‘ میں مصنوعی ذہانت کے ماڈیول شامل کیے ہیں لیکن یہ ابھی ابتدائی کوششیں ہیں۔

اگر ہم نے ابھی سے تیاری نہ کی تو مستقبل میں ’’خبر‘‘ شاید انسان نہیں بلکہ الگورتھم لکھے گا۔ پھر سوال یہ نہیں رہے گا کہ خبر کیا ہے؟ بلکہ یہ ہوگا کہ کس نے بنائی؟

مصنوعی ذہانت کے اس دور میں اصل امتحان مشین کا نہیں، انسان کے شعور کا ہے۔ خبر کی سچائی، اعتماد اور اخلاقیات کو زندہ رکھنا اب ہماری ذمے داری ہے ۔ مصنوعی ذہانت نے پاکستان سمیت دنیا کو ایک نئے فکری چوراہے پر لا کھڑا کیا ہے۔

یہ ٹیکنالوجی اگر درست سمت میں استعمال ہو تو میڈیا کو زیادہ بااعتماد، تیز اور معیاری بنا سکتی ہے لیکن اگر غفلت برتی تو سچ اور فریب کے درمیان فرق مٹ سکتا ہے ۔

متعلقہ مضامین

  • کوکنگ آئل اور ہماری صحت
  • شادی کی خوشیاں غم میں بدل گئیں
  • ایشیاء میں بڑھتا معاشی بحران
  • مصنوعی ذہانت
  • امریکا کی 5 فیصد آبادی میں کینسر جینز کی موجودگی، تحقیق نے خطرے کی گھنٹی بجا دی
  • ایوب خان کے پڑپوتے کے گھر چوری، سابق صدر کی یادگار اشیاء بھی غائب
  • جاپان: بے روزگار شخص نے فوڈ ڈیلیوری ایپ سے 1000 سے زائد کھانے مفت حاصل کرلیے
  • کیماڑی تھانہ جیکسن، ایس ایچ او گٹکا ماوا کنگ کے سامنے بے بس نکلا
  • فیلڈ مارشل ایوب خان کے پڑپوتے کے گھر چوری، سابق صدر کی یادگار اشیاء بھی غائب
  • سعودی عرب میں کینسر کی روک تھام سے متعلق نئی مہم کا اعلان