Express News:
2025-07-10@19:38:18 GMT

گوٹ مِلک

اشاعت کی تاریخ: 25th, May 2025 GMT

’’تم مزید چارسو روپے ڈال کر پوری بکری خرید سکتے ہو‘ میں نے اتنا مہنگا دہی آج تک نہیں دیکھا‘‘ وہ مسکرا کر بولا ’’تم درست کہتے ہو‘ میری بیوی بھی مجھے روز طعنے دیتی ہے لیکن میں کیا کروں مسئلہ اعتبار کا ہے‘ یہ دہی اٹالین میاں بیوی بناتے ہیں اور ہم دس دوست اس کے خریدار ہیں‘‘ اس نے اس کے بعد مجھے ڈبہ دکھایا‘ پلاسٹک کے ڈبے پر اس کے نام کا اسٹیکر لگا تھا‘ وہ اس کے بعد بولا ’’یہ دس ڈبے نام کے ساتھ آتے ہیں‘ ہم یہاں سے پک کر لیتے ہیں‘ ہم اگر نہ لیں تو لائین میں اور لوگ بھی موجود ہیں‘ یہ ان کے پاس چلا جائے گا اور اس کے بعد مجھے نہیں ملے گا‘‘۔

میں نے حیرت سے کہا ’’لیکن پاکستان میں چار ہزار چھ سو روپے کلو کا دہی میں نے پہلی بار دیکھا اور وہ بھی بکری کے دودھ کا‘ یہ ثابت کرتا ہے ملک میں ایک طرف لوگ دو تین ہزار روپے کے لیے انکم سپورٹ پروگرام کی لائین میں لگتے ہیں اور دوسری طرف چار ہزار چھ سو روپے کا دہی خریدا جاتا ہے‘‘۔

وہ سن کر ہنسا اور بولا ’’یہ فرق دنیا کے ہر کونے میں ہے اور ہر دور میں رہتا ہے‘ خوش حال لوگ جتنے پیسوں میں ایک وقت کا کھانا کھاتے ہیں‘ وہ غریب آدمی کے پورے مہینے کا بجٹ ہوتا ہے‘ یہ فرق تھا‘ ہے اور رہے گا اور اگر یہ نہ رہے تو پھر دنیا میں کوئی شخص ترقی نہ کرے‘‘ وہ رک گیا‘ میں نے اس سے پوچھا ’’اس دہی میں آخر ایسی کون سی چیز ہے جس کی وجہ سے یہ مہنگا ہے؟‘‘۔

وہ ہنس کر بولا ’’میں نے تمہیں بتایا یہ اٹالین میاں بیوی بناتے ہیں‘ یہ اٹلی سے پاکستان آئے‘ لاہور میں چھوٹی سی فیکٹری لگائی‘ بکریوں اور گائیوں کا دودھ جمع کرتے ہیں‘ ان کا دہی جماتے ہیں‘ اسے گریک یوگرٹ میں تبدیل کرتے ہیں اور اپنے چند درجن گاہکوں کو بھجوا دیتے ہیں‘‘ وہ رک گئے‘میں نے عرض کیا ’’لیکن دہی تو دہی ہوتا ہے‘ دودھ بھی دودھ ہوتا ہے‘بکریاں اٹالین کو دیکھ کر دودھ تو نہیں بدلتیں‘ دہی جمانے کا طریقہ بھی ایک ہے‘ اٹالین جمائیں یا پاکستانی لہٰذا آپ تین سو روپے کلوکا دہی چھوڑ کر چار ہزار چھ سو روپے کلو میں کیوں خرید رہے ہو؟

حاجی بشیر اعوان سے سستا اور تازہ دہی کیوں نہیں لیتے؟‘‘ اس نے قہقہہ لگایا اور بولا ’’میں کھانے پینے کے معاملے میں کسی حاجی اور پاکستانی پر اعتبار نہیں کرتا‘ گورا خواہ کتنا ہی بے ایمان کیوں نہ ہو جائے‘ یہ کم از کم خوراک اور ادویات میں گڑ بڑ نہیں کرے گا‘ اس نے اگر پیکٹ پر گوٹ مِلک لکھ دیا تو پھر اس کے اندر واقعی گوٹ مِلک ہو گا‘ اس کی ڈسپرین بھی ڈسپرین ہی ہو گی ‘‘ وہ خاموش ہو گیا‘ میں نے بحث کے لیے منہ کھولا لیکن پھر خاموش ہو گیا‘ وہ بات درست کر رہا تھا۔

میں مدت سے بزنس سیشن کر رہا ہوں‘ ہم ان میں لوگوں کو بزنس کی ٹریننگ دیتے ہیں‘ ہمارے ہر سیشن میں کوئی نہ کوئی صاحب اپنی کام یابی کی کہانی سناتے ہوئے یہ ضرور بتاتے ہیں ہمارے والد نے ہمیں ایمان داری کی وصیت کی تھی‘ ہمیں انھوں نے وقت کی پابندی‘ زبان کے بھرم‘ پورا تولنے اور خالص اشیاء بیچنے کا درس دیا تھا اور آج الحمدللہ ہم ترقی کر رہے ہیں وغیرہ وغیرہ‘۔

میں اس کے جواب میں عرض کرتا ہوں بھائی یورپ میں کسی بزنس مین کو والد خالص اشیاء‘ ناپ تول میں برابری‘ بات پر کھڑا ہونے‘ وقت کی قدر اور ایمان داری کا درس نہیں دیتا‘ یہ ساری خصوصیات ان کی زندگی کا لازم حصہ ہیں‘ یہ لوگ سوچ ہی نہیں سکتے بزنس مین بے ایمان‘ جھوٹا اور کم تولنے والا ہوگا جب کہ ہمیں یہ خصوصیات باقاعدہ سمجھانی پڑتی ہیں اور ہم میں سے اگر کوئی صفر اعشاریہ صفر فیصد لوگ اپنے والد کی بات پر یقین کرلیں تو یہ کام یاب ہو جاتے ہیں‘۔

آپ اس مسلمان معاشرے کی ٹریجڈی دیکھیے‘ آپ کو کسی حاجی‘ کسی مومن اور کسی بزرگ پر یقین نہیں ہو گا‘ آپ جس پر کریں گے اپنانقصان کرلیں گے کیوں کہ اس کے اندر چھپا درندہ بس آپ کی چوک کا انتظار کر رہاہو گا‘ آپ کی چند سیکنڈ کے لیے آنکھ اِدھر سے اُدھر ہوئی نہیں اور اس نے آپ پر وار کیا نہیں‘ ہم کس قدر ’’ایمان دار‘‘ لوگ ہیں آپ اس کا اندازہ آب زم زم‘عجوہ کھجوروں اور شہد سے لگا لیجیے‘ کراچی کے چند مومنین آب زم زم فروخت کرتے تھے‘۔

تحقیق کے بعد معلوم ہوا انھوں نے کراچی میں آب زم زم کا پلانٹ لگایا ہوا تھا‘ ٹینکر کے پانی سے بوتل بھرتے تھے اور پھر اس میں تبرکاً تین چار قطرے آب زم زم ملادیتے تھے اور آب زم زم تیار‘ پاکستان میں اسی طرح سکھرکی کھجوروں کو کیمیکل میں ڈال کر عجوہ بھی بنا دیا جاتا ہے‘۔

آپ لوکل عجوہ کھا کر دیکھیں آپ کے منہ اور زبان پر چھالے نکل آئیں گے ‘ یہ اس کیمیکل کا کمال ہو گا جس کے ذریعے خالص عجوہ تخلیق کی جاتی ہے‘ آپ اسی طرح کسی شہد فروش کے پاس چلے جائیں آپ کو وہاں پیٹ تک داڑھی اور ماتھے پر محراب نظر آئے گا لیکن شہد یہ گھر میں تخلیق کریں گے اور اس میں یہ شہد کی مکھی کو کسی قسم کی تکلیف نہیں دیں گے‘۔

میں کافی لور ہوں لیکن میں نے کافی مکمل طور پر چھوڑ دی‘ ملک سے باہر جاتا ہوں تو کافی پی لیتا ہوں‘ پاک سرزمین پر یہ گستاخی نہیں کرتا‘ اس کی وجہ بہت دل چسپ ہے‘ مجھے چند ماہ قبل پیٹ میں درد اور منہ میں چھالوں کی شکایت ہو گئی‘ میں نے کافی چھوڑدی تو یہ شکایت ختم ہو گئی‘ میں نے احتیاطاً چیک کرنے کے لیے دوبارہ کافی شروع کی تو شکایت دوبارہ واپس آ گئی جب کہ یہ شکایت ملک سے باہر نہیں ہوتی تھی‘۔

تحقیق کی تو پتا چلا کراچی کے ایک بزنس مین پاکستان میں کافی کے بڑے سپلائر ہیں‘ روسٹڈ کافی بینز پر ٹیکس زیادہ ہے چناں چہ یہ لاطینی امریکا‘ افریقہ اور یو اے ای سے بوریوں میں خام کافی بینز لاتے ہیں‘ انھیں کراچی میں روسٹ کرتے ہیں اور مختلف پیکٹوں میں بھر کر مختلف کافی شاپس کو سپلائی کر دیتے ہیں‘ ان کی روسٹنگ میں کوئی ایسی خرابی ہے جس کی وجہ سے معدے میں السر پیدا ہونے لگتا ہے‘ یہ لوگ کوئی کیمیکل استعمال کرتے ہیں یا پھر بھٹیوں کی صفائی کا خیال نہیں رکھتے یا پھر ان کے پیکٹ کے اندرونی استر میں کوئی غیرمعیاری کیمیکل لگا ہوتا ہے جس کی وجہ سے کافی پینے والوں میں تیزابیت پیدا ہو جاتی ہے‘۔

دوسری خرابی دودھ ہے‘ دودھ اس ملک میں صدر اور وزیراعظم کو بھی خالص نہیں ملتا‘ دودھ میں اگر کیمیکل ہو اور اسے کافی کے ساتھ ملایا جائے تو یہ انسانی معدے میں تیزابیت پیدا کر دیتا ہے اور تیسری خرابی کافی مشینیں ہیں‘ کافی کی ہرمشین کو رات کے وقت نمک سے آدھ سے ڈیڑھ گھنٹے تک صاف کرنا پڑتا ہے‘۔

ہماری زیادہ تر کافی شاپس میں یہ تکلیف نہیں کی جاتی چناں چہ مشین کی نلکیوں میں کافی کی تہہ جم جاتی ہے اور یہ دھات کے ساتھ مل کر کیمیکل ری ایکشن کرتی ہے‘ یہ بھی معدے کے لیے خطرناک ہوتی ہے لہٰذا ملک میں زیادہ تر لوگ کافی کے بعد ہیوی نس محسوس کرتے ہیں جب کہ یورپ اور امریکا میں تینوں چیزوں کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔

 میرے پاس چند دن قبل ایک صاحب تشریف لائے‘ یہ اپنے امام صاحب کے ڈسے ہوئے تھے‘ امام صاحب کے ساتھ ان کا عقیدت کا رشتہ تھا‘ امام نے انھیں ایک دن اعتماد میں لے کر بتایا ان کا ایک عزیز لوگوں کو باہر بھجواتا ہے اگر آپ کا کوئی بندہ ہو تو مجھے بتایے گا‘ صاحب نے اپنا سالا ان کے حوالے کر دیا‘ امام صاحب نے پانچ لاکھ روپے لے کر اسے باہر بھجوا دیا‘ وہ واقعی پہنچ گیا‘ امام صاحب پر ان کا اعتماد بڑھ گیا‘ اگلی مرتبہ تین لوگ دیے گئے‘ وہ بھی پہنچ گئے‘ تیسری مرتبہ دس لوگوں کے پیسے جمع کرائے گئے‘۔

اس کے بعد امام صاحب غائب ہو گئے اور دس لوگوں کے پیسے اسے ’’ٹھک‘‘ گئے یوں پیسہ اور ایمان دونوں گئے‘ مجھے ایک دوست نے بتایا‘ میں ایک نیک آدمی سے گائے کا دودھ خریدتا تھا‘ دو مہینے تک خالص دودھ ملتا رہا لیکن پھر بیوی نے شکایت کی پتیلی میں پاؤڈر جمع ہو جاتا ہے اور کناروں پر تیل لگ جاتا ہے‘ انھوں نے تحقیق کی تو پتا چلا نیک دودھ فروش پانی میں مِلک پاؤڈر گھول کر اس میں کھانے کا تیل ملا دیتا تھا اور بالائی پیدا کرنے کے لیے اس میں چائنہ کا کیمیکل ملا دیتا تھا یوں خالص دودھ تیار ہو جاتا تھا‘۔

وہ صاحب اگلے دن دودھ لے کر نیک آدمی کے گھر پہنچ گئے‘ گھر والوں نے بتایا مولوی صاحب نماز کے لیے مسجد گئے ہوئے ہیں‘ وہ دودھ کی بالٹی لے کر مسجد پہنچ گئے اور اس کے بعد نیک آدمی کی نیکی پوری مسجد کے سامنے کھول دی‘ مسجد میں انھیں نیا تجربہ ہوا‘ لوگ ’’نیک آدمی‘‘ کی مذمت کے بجائے انھیں سمجھانے میں مصروف ہو گئے‘ آدھے نمازیوں کا کہنا تھا ’’آپ کو کم از کم مسجد کا احترام کرنا چاہیے تھا جب کہ آدھے فرما رہے تھے ’’چھڈو جی چھڈو‘ جانے دیں‘ دل بڑا رکھیں‘ برداشت کریں‘ اللہ کے نزدیک برداشت اور وسعت قلبی کا بہت بڑا مقام ہے‘‘ وہ صاحب دودھ کی بالٹی مسجد میں رکھ کر واپس آ گئے۔

میں نے سوچا جس ملک میں یہ صورت حال ہو اس میں یہ بے چارہ پاکستانی بکری کا پاکستانی دہی اٹالین سے کیوں نہ خریدے؟

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: اس کے بعد نیک آدمی میں کوئی کرتے ہیں ہوتا ہے جاتا ہے ملک میں کے ساتھ ہیں اور سو روپے میں یہ کے لیے اور اس ہے اور کی وجہ کا دہی

پڑھیں:

آہ شکیل فاروقی۔ باتیں ان کی یاد رہیں گی

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

متین فکری
ممتاز براڈ کاسٹر، ادیب، شاعر، دانشور اور کالم نگار محترم شکیل فاروقی بھی اللہ کے حضور پیش ہوگئے، انااللہ واناالیہ راجعون۔

موت سے کس کو رستگاری ہے
آج وہ، کل ہماری باری ہے

ریڈیو پاکستان اسلام آباد میں شکیل فاروقی صاحب سے پہلی ملاقات کا منظر آج بھی آنکھوں کے سامنے پھر رہا ہے۔ ہم ڈائریکٹر کرنٹ افیئر سید نذیر بخاری کے کمرے میں بیٹھے ان کے ساتھ حالات حاضرہ کے موضوع پر گفتگو کررہے تھے کہ ایک صاحب اچانک کمرے میں داخل ہوئے اور سلام و دعا کے بعد بات چیت میں شریک ہوگئے۔ تاہم تعارف ابھی باقی تھا۔ ہم نے پہلی کرتے ہوئے کہا کہ خاکسار کو متین فکری کہتے ہیں ایک قومی اخبار سے وابستہ ہوں، ریڈیو پاکستان کے لیے حالات حاضرہ پر تبصرہ بھی لکھتا ہوں، اس سلسلے میں یہاں آنا جانا رہتا ہے۔ اس طرح دوستوں سے ملاقات بھی ہوجاتی ہے، اگرچہ مجھے یہ سہولت حاصل ہے کہ یہاں باقاعدگی سے آنا نہیں پڑتا۔ ڈائریکٹر کرنٹ افیئر مجھے ٹیلی فون پر موضوع بتادیتے ہیں، میں اپنے دفتر میں تبصرہ لکھ کر ٹیلی فون پر مطلع کرتا ہوں تو ریڈیو کا ایک اہلکار گاڑی پر آکر مسودہ لے جاتا ہے۔ (واضح رہے کہ یہ وہ زمانہ تھا جب ریڈیو پر بھی فیکس کی سہولت دستیاب نہ تھی) شکیل صاحب بڑے صبر سے یہ سب کچھ سنتے رہے پھر مسکراتے ہوئے بولے ’’متین صاحب آپ کو کون نہیں جانتا ہر دوسرے دن ریڈیو پر آپ کا نام گونجتا ہے۔ ’’تبصرہ آپ نے سنا اسے متین فکری نے تحریر کیا‘‘ البتہ میرا تعارف ضروری ہے۔ خاکسار کو شکیل فاروقی کہتے ہیں میں بھی ریڈیو پاکستان میں ملازم ہوں اس کی ہندی نشریات کی نگرانی کرتا ہوں۔ ’’مجھے الگ کمرے میں جا کر حالات حاضرہ میں تبصرہ لکھنا تھا اس لیے میں اپنی نشست سے اُٹھتے ہوئے بولا ’’اچھا شکیل صاحب اجازت دیجیے پھر ملاقات ہوگی‘‘۔

’’اجازت کیسی، آپ میرے ساتھ میرے دفتر چلیں گے وہاں چائے پر تعارف کا دوسرا رائونڈ ہوگا‘‘۔

میں نے انہیں بتایا کہ مجھے حالات حاضرہ پر تبصرہ لکھنا ہے اس میں کم از کم ایک گھنٹہ تو لگے گا۔

کہنے لگے ’’ٹھیک ہے آپ تبصرہ لکھیے۔ جب کام ختم ہوجائے تو انٹر کام پر اطلاع دیجیے میں آپ کو آکر لے جائوں گا‘‘۔

میں نے تبصرہ مکمل کیا تو شکیل صاحب کو اطلاع دی وہ مجھے تیسری منزل پر اپنے کمرے میں لے گئے چائے کا آرڈر شاید انہوں نے پہلے سے دے رکھا تھا تھوڑی دیر میں پُرتکلف چائے آگئی اور ہم نے چائے کی چُسکی لیتے ہوئے ایک دوسرے کو اپنی رام کہانی سنائی۔

یہ نشست کوئی گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ جاری رہی اس دوران ہم نے ایک دوسرے کا مکمل تعارف حاصل کیا اس میں فیملی کا تعارف بھی شامل تھا۔ میں شکیل صاحب کے پاس سے اُٹھا تو ہماری دوستی پکی ہوچکی تھی۔ نہایت شستہ، شائستہ اور وضعدار شخصیت کی حیثیت سے ان کا تعارف دل میں گھر کر گیا تھا۔ پھر ملاقاتیں معمول بن گئیں۔ جب بھی ریڈیو پاکستان اسلام آباد جانا ہوتا شکیل صاحب سے لازماً ملاقات ہوتی اور طویل گپ شپ رہتی۔ وہ صحافت، سیاست، ادب اور شاعری کے بارے میں بڑی نپی تلی رائے رکھتے تھے۔ خود بھی شاعر تھے لیکن کبھی اپنی شاعر سنانے کی کوشش نہیں کی۔ میں نے انہیں فیملی کے ساتھ گھر پر دوپہر کی دعوت دی جو انہوں نے بخوشی قبول کرلی اور ماڈل ٹائون ہمک اسلام آباد میں بچوں کے ساتھ تشریف لے آئے۔ فیملی آپس میں گھل مل گئی، خواتین اپنے دکھڑے رونے لگیں اس گھریلو ماحول میں ہم نے دوپہر کا کھانا کھایا۔ پھر شام تک ہمارا ساتھ رہا۔

شکیل صاحب ریٹائر ہو کر کراچی چلے گئے تو کراچی میں بھی موبائل پر ان سے رابطہ رہا۔ کئی سال پہلے میرا کراچی جانا ہوا تو انہیں اطلاع دی اپنی قیام گاہ کا پتا بتایا تو اگلے دن ملاقات کے لیے تشریف لے آئے، چہرہ سفید ڈاڑھی سے نور واعلیٰ نور تھا۔ گلے ملے اور دیر تک باتیں کرتے رہے۔ شکیل صاحب اب ہم میں نہیں ہیں لیکن ان کی باتیں ہمیشہ یاد رہیں گی۔

متعلقہ مضامین

  • آہ شکیل فاروقی۔ باتیں ان کی یاد رہیں گی
  • بینک کا گوشوارہ آمدن ثابت کرنے کے لیے کافی نہیں‘ عدالت عظمیٰ
  • بینک کا گوشوارہ آمدن ثابت کرنے کیلئے کافی نہیں، سپریم کورٹ کا بڑا فیصلہ آگیا
  • بینک کا گوشوارہ کافی نہیں۔ آمدن ثابت کرنے اور ٹیکس سے متعلق سپریم کورٹ کا بڑا فیصلہ
  • بینک کا گوشوارہ آمدن ثابت کرنے کیلئے کافی نہیں ،سپریم کورٹ کا بڑا فیصلہ
  • بینک کا گوشوارہ آمدن ثابت کرنے کے لیے کافی نہیں، سپریم کورٹ کا ٹیکس سے متعلق کیس میں فیصلہ
  • لاہور اور کراچی کی شاندار تقریبات (آخری قسط)
  • اسیرانِ لاہور کا خط اور پی۔ٹی۔آئی
  • سندھ فوڈ اتھارٹی ضلع کیماڑی کا چھاپا، دودھ کے نمونے حاصل
  • ہم امریکہ کو ایران کیخلاف جارحیت کا اصلی ذمےدار سمجھتے ہیں، جنرل ابوالفضل شکارچی