آپس میں لڑنا بند کریں ہمارے دشمن بہت ہیں، مراد علی شاہ
اشاعت کی تاریخ: 25th, May 2025 GMT
کراچی (نیوز ڈیسک) وزیرِاعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا کہ پاک بھارت جنگ میں پاک فوج نے بڑی بہادری سے دشمن کو شکست دی۔
مراد علی شاہ نے آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیرِ اہتمام تین روزہ ’آرٹس المنائی فیسٹیول 2025ء‘ کے دوسرے روزخصوصی شر کت کی۔
پروگرام کا آغاز تلاوتِ کلام پاک سے کیا گیا، فیسٹیول میں پاکستان کا قومی ترانہ بجایا گیا جس کے احترام میں ہال میں موجود تمام لوگوں نے کھڑے ہوکر قومی ترانہ سنا، فیسٹیول میں پاک بھارت جنگ کے شہداء کو خراجِ تحسین پیش کیا گیا اور پاک فوج کی کامیابی کا جشن منایا گیا۔
انہوں نے کہا کہ آپس میں لڑنا بند کریں ہمارے دشمن بہت ہیں، آرٹس کونسل کے طلباء کا ملی جذبہ دیکھ کر بہت خوشی ہو رہی ہے، پاک بھارت جنگ میں پاک فوج نے بڑی بہادری سے دشمن کو شکست دی، فیسٹیول شہداءکے نام کرتا ہوں۔
اس موقع پر مراد علی شاہ نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ آرٹس المنائی فیسٹیول 2025ء میں پرفارم کرنے والے تمام فنکاروں کو مبارکباد دیتا ہوں، احمد شاہ کا گزار ہوں کہ انہوں نے مجھے اس فیسٹیول میں دعوت دی، آج بہت اچھی پرفارمنسز دیکھنے کو ملیں، ہمارے شاعروں اور فنکاروں نے زبردست ٹریبیوٹ پیش کیا۔
انہوں نے کہا کہ ہماری پوری قوم بھارت کی جنگ سے اکٹھی ہوئی، 1965ء کی جنگ میں قوم کے جذبے کے بارے میں سنتے تھے مگر 2025ء میں وہ جذبہ دیکھنے کو ملا، 7 مئی کو پاکستان کے 4 مقامات پر حملہ کیا گیا جس میں ہمارے معصوم بچے شہید ہوئے۔
وزیرِاعلیٰ سندھ نے مزید کہا کہ ہماری ائیر فورس نے اس وقت فوری طور پر جواب دیا اور افواج پاکستان نے بھارت کے 5 جہاز گرائے جس میں رافیل بھی شامل تھے۔ بھارت نے اسرائیلی ڈرونز بھیجے، 10 مئی کو پاکستان پر دوبارہ حملہ ہوا تب آپریشن’بنیان مرصوص‘ وجود میں آیا۔
Post Views: 4.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: مراد علی شاہ میں پاک کہا کہ
پڑھیں:
تھے تو آبا وہ ہمارے ہی مگر ہم کیا ہیں؟
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
جب گائوں والوں نے پتھر مار مار کر ہلاک کردیا تو ایک وہ جو اس کے ظاہر وباطن سے آگاہ تھا پہاڑی پر اسے دفناتے وقت کہہ رہا تھا ’’آج وہ نام برف پر ثبت ہوگیا ہے۔ برف پگھلے گی تو اس کا نام دریائوں اور نالوں کے پانیوں کے اوپر ثبت ہوگا‘‘۔ سوچیے وہ جن کا نام زمانوں پر ثبت ہے، جو معرکہ حق وباطل میں حق کی علامت اور جدوجہد کا نشان ہیں دس محرم الحرام جب برف کی ایک تہہ ایک سال گھل جاتا ہے ان کے نام کی قلمیں کچھ اور شدت اور حدت سے چمکنے لگتی ہیں تب ہر عہد اور ہر زمانہ سوائے اس کے کیا کہہ سکتا ہے کہ ’’ہمارے ہیں حسین‘‘
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین
جنت جسے کسی تزئین وآرائش کی ضرورت نہیں سیدنا حسین ؓ اس جنت کی زیب وزینت کرنے والے دو پھولوں میں سے ایک ہیں۔ وہ جنہوں نے سجدۂ شبیری کے حسن سے زمانے کو آگاہ کیا۔ دین کو اسم اور فکر نہیں عمل بنادیا۔ اقبال کے الفاظ میں: جب خلافت نے قرآن سے تعلق توڑ لیا اور حریت کے حلق میں زہر انڈیل دیا تو یہ حالت دیکھ کر سب سے بہتر امت کا وہ نمایاں تر جلوہ یوں اٹھا جیسے قبلے کی جانب سے گھنگور گھٹا اٹھتی ہے اور اٹھتے ہی جل تھل ایک کردیتی ہے (ترجمہ: در معنی حریت اسلامیہ وسرحادثہ کربلا)
اگلے اشعار میں اقبال فرماتے ہیں: یہ گھنگھور گھٹا کربلا کی زمین پر برسی اور چھٹ گئی۔ ویرانوں کو لالہ زار بنایا اور چل دی۔۔۔ قیامت تک کے لیے ظلم وجور اور مطلق العنانی کی جڑ کاٹ کر رکھ دی۔ امام حسین ؓ کی موج خون نے حریت کا بازار کھلا دیا۔۔۔ ان کا عزم پہاڑوں کی طرح پختہ، پا ئیدار، تیز اور کامیاب تھا۔ کیوں اس لیے کہ تلوار صرف دین کی عزت کے واسطے بے نیام ہوسکتی ہے۔ شام کی شوکت مٹ گئی۔ بغداد کا جاہ وجلال رخصت ہو گیا۔ غرناطہ کی شان وعظمت یاد بھی نہ رہی۔ اس کے مقابلے میں امام حسین ؓ کی مضراب ہمارے ساز کے تار اب تک چھیڑ رہی ہے اور اس سے نغمے نکل رہے ہیں۔ اب تک ان کے نعرہ تکبیر سے ہمارے ایمان تازہ ہوتے ہیں۔
اقبال نے تو کہہ دیا کہ ’’ان کے نعرہ تکبیر سے ہمارے ایمان تازہ ہوتے ہیں‘‘ لیکن کیا واقعی ایسا ہی ہے؟ یا پھر ہم مخصوص دن ان کی یاد منانے تک محدود ہوکررہ گئے ہیں؟ کبھی یوم ابوبکرؓ، کبھی عمر ؓ اور کبھی عثمان ؓ۔ ان اصحاب کی زندگیاں کن مقاصد کے لیے وقف تھیں؟ ان کی زندگیوں کا کیا پیغام تھا؟ نہ ہمیں یاد ہے اور نہ ہم یاد کرنے کی زحمت کرتے ہیں۔ ان زندگیوں سے ملنے والے اسباق کو موجودہ دور کے حقائق پر کس طرح منطبق کیا جاسکتا ہے؟ یہ آج ہمارا موضوع نہیں۔
واقعات کربلا (61 ہجری بمطابق 680ء) بیان کرنے کا اصل ہدف محض یزید کو لعن طعن کرنا نہیں ہونا چاہیے۔ ظالم تو ہر دور میں موجود رہے ہیں اور ایک دوسرے سے بڑھ کر شدت سے بروئے کار آرہے ہیں۔ اصل مقصد ان واقعات کے بیان سے یہ ہونا چاہیے کہ سیدنا حسین ؓ نے ظلم کو دیکھ کرکیا لائحہ عمل، کیا مزاحمتی موقف (Stance) اختیار کیا، ظلم کے سامنے کیسے ڈٹ گئے اور آج اس پر کیسے عمل کیا جاسکتا ہے۔
واقعات کربلا کا محرک یزید کی لوگوں سے اپنی خلافت کے حق میں بالجبر اور زبردستی بیعت تھی۔ اسلام کے نظام حکمرانی یعنی خلافت میں بیعت کی بہت اہمیت ہے۔ اسلامی ریاست وہ خلیفہ ہے جو کہ شریعت کو نافذ کرتا ہے۔ یہ ایک سیاسی اور تنفیذی وجود ہے جس کی ذمے داری ہے کہ وہ اسلام کے احکامات کو نافذ کرے، ان پر عمل کروائے اور دعوت وجہاد سے اسلام کو پوری دنیا تک پہنچائے۔ مسلمانوں پر ایک خلیفہ کا تقرر فرض ہے جو حکومت اور اتھارٹی کا حامل ہو اور یہ تقرر شرعی احکامات کے نفاذ کے لیے ہو نہ کہ محض اپنے اختیار اور حکومت کے لیے۔ خلیفہ صرف لوگوں کی بیعت کے ذریعے حکومت واختیار حاصل کرتا ہے۔ یہ اختیار امت کے پاس ہے وہ جسے چاہتی ہے اختیار عطا کرتی ہے۔ یزید اس اتھارٹی کو زبردستی حاصل کرنا اور خلیفہ کے عہدے کو غصب کرنا چاہتا تھا۔ یہ وہ مسئلہ تھا جس پر سیدنا حسین ؓ نے اصولی موقف اختیار کیا اپنی جان دے دی لیکن زور زبردستی یزید کی بیعت نہیں کی۔ اس وقت شریعت کے ایک حکم کی خلاف ورزی ہورہی تھی اور سیدنا حسین ؓ کھڑے ہوگئے۔ آج ایک حکم نہیں پوری کی پوری شریعت معطل ہے۔ معیشت سے لے کر عدالت تک ہی نہیں، سیاست، ریاست، حکومت الغرض زندگی کے ہر شعبہ میں کہیں شریعت کی حکمرانی نہیں لیکن کون ہے جو اس ظلم کے خلاف علم بغاوت بلند کررہا ہے؟
پرانے ظالموں پر تنقید کرنا، ان کی مذمت کرنا، سخت ترین الفاظ میں انہیں برابھلا کہنا بہت آسان ہے لیکن موجودہ ظالموں کے خلاف یا تو ہم خاموش رہتے ہیں یا پھر ان کے معاون بن جاتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ اسلام نے ظالم کن لوگوں کو قرار دیا ہے۔ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کا فرمان ہے ’’اور جو اللہ کی اتاری ہوئی شریعت کے مطابق فیصلے نہیں کرتے وہی ظالم ہیں‘‘۔ (المائدہ: 44) یہ صریح، واضح اور کھلا حکم ہے۔ کوئی مشابہات میں ڈھکی چھپی بات نہیں۔ اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ یا رسول اللہؐ کے ذریعے بتائے ہوئے احکام میں سے کسی ایک کا انکار بھی کفر ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے حکمران، ہمارے اولی الامراللہ ربّ العزت کے نازل کردہ احکام کے مطابق حکم دے رہے ہیں، حکومت کررہے ہیں یا کسی اور نظام کے احکامات اور قوانین کے مطابق؟ کیا ہمارے اس نظام جمہوریت میں اللہ اور رسولؐ کے احکام کے مطابق فیصلے کیے جارہے ہیں۔ تو پھر اس نظام اور اسے نافذ کرنے والے ظالموں کے خلاف ہمارا رویہ کیا ہے۔ کیا ہم ان کے خلاف بھی اسی طرح احتجاج کررہے ہیں، انہیں اسی طرح لعن طعن کررہے ہیں جس طرح یزید کو کررہے ہیں۔ کیا ہم بھی ظالم کا ساتھ دینے والوں میں سے نہیں ہیں؟؟
دنیا کے کچھ فوائد سمیٹنے، کچھ ترقیاں کرنے، کچھ دولت حاصل کرنے کے لیے جو لوگ ظالموں کا ساتھ دے رہے ہیں انہیں ابن زیاد اور شمر کے انجام سے سبق لینا چاہیے جنہیں قاتل حسینؓ، لعین اور بدبخت اور جہنم کا ایندھن کہہ کر یاد رکھا جاتا ہے۔ آج کون ہے جو ان کے لیے کلمہ خیر کہنے والا ہے۔ وہ شاہ سے بڑھ کر شاہ کے وفادار بنے اور نواسہ رسول کے قتل کے مرتکب ہوگئے۔ اتنا گھنائونا جرم صرف دنیاوی عہدے، ترقی اور دولت کے لیے۔ آج جو ظالموں کے معاون ہیں، ان کے ظلم کے ساتھ کھڑے ہیں، ان کے لیے کام کررہے ہیں، ان کی پردہ پوشی کررہے ہیں، ان کے ظلم کو جواز مہیا کررہے ہیں خواہ وہ سیاسی ہو، عسکری ہو، مذہبی ہو یا صحافت اور میڈیا کے حوالے سے ہو وہ اپنا انجام سوچ رکھیں اللہ کی عدالت میں وہ کس انجام سے دوچار ہوں گے۔
سیدنا حسین ؓ نے اسلام کے ایک حکم کو معطل ہوتے دیکھا تو اس کے خلاف ڈٹ گئے اور ظالموں کی طرف کسی طرح کا جھکائو اور صلح کا رویہ اختیار نہیں کیا۔ پیش کش کی گئی بیعت دے دیں ہم آپ کو جانے دیں گے لیکن آپ نے اپنی اور اپنے کنبے کے کئی افراد کی شہادت قبول کرلی لیکن ظالموں کے ساتھ کسی بھی درجے میں کمپرومائز نہیں کیا۔ اس میں سبق یہ ہے کہ ہمیں صرف اپنی ذات ہی کو نہیں اپنے پورے کنبے اور خاندان کو اس راہ پر چلنے کے لیے تیار کرنا ہے۔ کربلا کے واقعات محض قصے کہانیاں نہیں ہیں ہمارے لیے راہ ہدایت اور راہ عمل ہیں جن پر چل کر ہمیں اپنے آپ کو ہی نہیں اپنے اہل خانہ کو بھی جہنم کے شعلوں سے بچانا ہے۔ اس کے لیے ہم نے کیا منصوبہ بندی کی ہے؟؟