شہزاد رائے کی شرارت بھری واپسی: ’تیرا مکھڑا‘ اب آنٹیوں کے نام!
اشاعت کی تاریخ: 25th, May 2025 GMT
شہزاد رائے نے ایک بار پھر یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ صرف ایک سنگر نہیں، بلکہ اپنی بے ساختہ حسِ مزاح سے بھی مداحوں کو حیران کرنے کا ہنر رکھتے ہیں۔
حال ہی میں شہزاد رائے نے انسٹاگرام پر اپنا مشہور زمانہ گیت ’’تیرا مکھڑا حسیں جادو کرگیا‘‘ ایک نئے اور نہایت منفرد انداز میں پیش کیا، لیکن اس بار مخاطب لڑکیاں نہیں، بلکہ آنٹیاں تھیں۔
2002 میں ریلیز ہونے والا یہ ہٹ گانا، جس نے اس وقت نوجوان دلوں کی دھڑکن بڑھا دی تھی، اب دو دہائیوں بعد ایک ہنسی بھرے ٹوئسٹ کے ساتھ واپس آیا ہے۔ نئی ویڈیو میں شہزاد رائے کو وہی نغمہ گاتے سنا جاسکتا ہے، البتہ اب وہ بول کچھ یوں چھیڑتے ہیں: ’’میں نے دیکھی ہیں آنٹیاں بڑی حسین، لیکن تیرے جیسا کوئی نہیں!‘‘
View this post on InstagramA post shared by Shehzad Roy (@officialshehzadroy)
یہ تبدیلی نہ صرف سننے والوں کو چونکا گئی بلکہ سوشل میڈیا پر خوب داد بھی سمیٹ لی۔ انسٹاگرام پر پوسٹ کی گئی ویڈیو دیکھتے ہی دیکھتے وائرل ہو گئی اور کمنٹس کا طوفان امڈ پڑا۔ خواتین مداحوں کی بڑی تعداد نے شہزاد رائے کی اس چلبلی شرارت کو نہ صرف سراہا بلکہ کچھ نے تو یہ بھی اعتراف کیا کہ واقعی وقت نے انہیں ’’لڑکیوں سے آنٹیاں‘‘ بنا دیا ہے۔
ایک خاتون صارف نے ہنستے ہوئے لکھا، ’’لڑکیوں سے آنٹیوں تک کا سفر پہلی بار اتنا خوشگوار لگا ہے!‘‘ جب کہ ایک اور نے اپنے جذبات یوں بیان کیے، ’’یہ گانا سن کر بچپن یاد آ گیا، واقعی یہ ایک کلاسک ہے!‘‘
مداحوں نے نہ صرف ماضی کی یادوں کو تازہ کیا بلکہ شہزاد رائے سے یہ بھی گزارش کی کہ وہ انسٹاگرام پر اسی طرح ایکٹیو رہیں اور مزید ایسی دل کو بھا جانے والی ویڈیوز شیئر کرتے رہیں۔
یہ کوئی پہلا موقع نہیں جب شہزاد رائے نے اپنے اس مقبول گیت کو نئے انداز میں پیش کیا ہو۔ 2021 میں بھی انہوں نے اس کی ری میک ویڈیو ریلیز کی تھی، جو پرانی یادوں کی خوشبو لیے ایک نئی نسل کے دلوں تک پہنچی تھی۔ لیکن اس بار ان کا طنزیہ اور مزاحیہ انداز نہ صرف نیا پن لے کر آیا ہے بلکہ سامعین کو مسکرانے پر بھی مجبور کر رہا ہے۔
یقیناً شہزاد رائے کا یہ نیا ورژن، ان کے فن کی پختگی اور مزاح کی مہارت کا ایک دلچسپ امتزاج ہے، جس نے ایک بار پھر یہ ثابت کر دیا ہے کہ اچھا فن وقت کا محتاج نہیں ہوتا، وہ ہر عمر میں دل جیتنے کا ہنر رکھتا ہے، چاہے مخاطب ’’لڑکیاں‘‘ ہوں یا ’’آنٹیاں‘‘!
Post Views: 2.ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
پاکستان اور افغانستان، امن ہی بقا کی ضمانت ہے
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251103-03-3
پاکستان اور افغانستان، تاریخ، ثقافت، مذہب اور جغرافیہ کے ایسے رشتے میں بندھے ہوئے ہیں کہ ایک کا استحکام دوسرے کے بغیر ممکن نہیں۔ دونوں ممالک کی سرحدیں نہ صرف زمین کے ٹکڑوں کو جوڑتی ہیں بلکہ صدیوں پر محیط مشترکہ تہذیبی اور دینی رشتے کو بھی، اس پس منظر میں دفتر ِ خارجہ کے ترجمان طاہر اندرابی کا یہ بیان کہ ’’پاکستان کو امید ہے کہ 6 نومبر کو افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کا نتیجہ مثبت نکلے گا‘‘، ایک خوش آئند پیش رفت ہے۔ تاہم یہ امید اسی وقت نتیجہ خیز ثابت ہوسکتی ہے جب دونوں ممالک باہمی احترام، ذمے داری اور تحمل کے ساتھ آگے بڑھیں۔ ترجمان دفتر ِ خارجہ کے مطابق پاکستان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات کا دوسرا دور استنبول میں ہوا، جو چار دن جاری رہا۔ پاکستان نے مثبت نیت کے ساتھ مذاکرات میں حصہ لیا اور اپنی اس واضح پوزیشن پر قائم رہا کہ افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونا چاہیے۔ پاکستان کی جانب سے ’’فتنہ الخوارج‘‘’’ اور ’’فتنہ الہندوستان‘‘ جیسی دہشت گرد تنظیموں کی موجودگی پر جو تشویش ظاہر کی گئی، وہ قومی سلامتی سے جڑی ہوئی ہے۔ افغانستان کی موجودہ حکومت اگر واقعی خطے میں امن چاہتی ہے تو اسے ان گروہوں کے خلاف عملی، شفاف اور قابل ِ تصدیق کارروائی کرنا ہوگی۔ لیکن دوسری طرف افسوس کی بات یہ ہے کہ بعض وزراء کے غیر ذمے دارانہ بیانات سفارتی کوششوں کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ جماعت ِ اسلامی پاکستان کے نائب امیر پروفیسر محمد ابراہیم خان نے بجا طور پر تنبیہ کی ہے کہ ’’پاکستانی وزراء کے غیر ذمے دارانہ بیانات صورتحال کو مزید بگاڑ رہے ہیں‘‘۔ انہوں نے وزیر دفاع خواجہ آصف اور وزیر اطلاعات عطا تارڑ کے اشتعال انگیز جملوں کو غیر سنجیدہ اور قومی مفاد کے منافی قرار دیا۔ ان کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ ’’وزیر ِ دفاع کا یہ کہنا کہ اگر مذاکرات ناکام ہوئے تو جنگ ہوگی، بے وقوفی کی انتہا ہے‘‘۔ ایسے بیانات نہ صرف امن کی کوششوں کو سبوتاژ کرتے ہیں بلکہ دشمن عناصر کو تقویت دیتے ہیں۔ پروفیسر ابراہیم نے اس نکتہ پر بھی زور دیا کہ اگر پاکستان واقعی امن چاہتا ہے تو اسے پشتون نمائندوں کو مذاکراتی ٹیم میں شامل کرنا چاہیے، جو افغان سماج اور ان کی روایات کو بہتر سمجھتے ہیں۔ یہ ایک نہایت اہم تجویز ہے، کیونکہ افغانستان کے ساتھ مکالمے میں لسانی و ثقافتی حساسیت کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ طالبان حکومت کے رویے میں ماضی کے مقابلے میں تبدیلی آئی ہے، اور اب وہ اصلاح کی سمت بڑھ رہے ہیں، یہی وہ لمحہ ہے جسے پاکستان کو مثبت مکالمے کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔ یہ ادراک بھی ضروری ہے کہ طالبان حکومت نے اپنی سرزمین پر دہشت گرد تنظیموں کی موجودگی کو تسلیم کیا ہے، لیکن عملی اقدامات کے بجائے مختلف جواز پیش کیے جا رہے ہیں۔ اس طرزِ عمل سے نہ صرف پاکستان کے سلامتی خدشات بڑھتے ہیں بلکہ افغانستان کے عالمی تشخص کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔ اگر طالبان قیادت خطے میں پائیدار امن کی خواہاں ہے تو اسے اب بین الاقوامی وعدوں کی پاسداری اور دہشت گرد گروہوں کے خاتمے کے لیے واضح روڈ میپ دینا ہوگا۔ پاکستان کی جانب سے قطر اور ترکیہ کے تعمیری کردار کو سراہنا قابل ِ تحسین ہے، تاہم اس کے ساتھ ساتھ ہمیں داخلی سطح پر بھی سنجیدگی، تدبر اور وحدت کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ وزارتِ دفاع اور وزارتِ اطلاعات کے ذمے داران کو سمجھنا چاہیے کہ ان کے الفاظ صرف ذاتی رائے نہیں بلکہ ریاستی مؤقف کا عکس سمجھے جاتے ہیں۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات کشیدگی کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ دونوں ممالک کی سلامتی، معیشت اور سیاسی استحکام ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کابل اور اسلام آباد نے مکالمے، تعاون اور بھائی چارے کا راستہ اپنایا، پورا خطہ مستحکم ہوا۔ اسی لیے اب وقت آگیا ہے کہ جنگ کی زبان نہیں بلکہ اعتماد، احترام اور شراکت داری کی زبان بولی جائے۔ آخرکار، حقیقت یہی ہے کہ پاکستان اور افغانستان میں امن ہی دونوں ممالک کی بقا کا راز ہے۔ یہی امن اس خطے کے عوام کے لیے ترقی، تعلیم، روزگار اور امید کا دروازہ کھول سکتا ہے۔ اب فیصلہ دونوں حکومتوں کے ہاتھ میں ہے، وہ چاہیں تو دشمنی کی دیوار اونچی کر لیں، یا پھر اعتماد کی ایک ایسی مضبوط بنیاد رکھ دیں جس پر آنے والی نسلیں فخر کر سکیں۔