(گزشتہ سے پیوستہ)
پاکستان نے اسرائیل کے جدید ہاروپ ڈرون کوکامیابی سے تباہ کرکے اس کی ناقابل تسخیرحیثیت کو چیلنج کرکے اپنی ٹیکنالوجی کی سبقت کو منوالیاہے۔پاکستان نے اسرائیلی ساختہ ہاروپ ڈرون کونہ صرف تباہ کیابلکہ الیکٹرانک وارفیئر کے ذریعے اسےجام بھی کیا۔اس کامیابی نے پاکستان کی الیکٹرانک وار فیئر صلاحیتوں کی جہاں زبردست نشاندہی کی ہے وہاں ان کے ہاں اوربھی بہت سے حیران کردینے والی صلاحیتیں بھی موجودہیں۔یہ واقعہ ایک سائبروارفیئرصلاحیت کے اظہارکے طورپرپیش کیاگیا۔تاہم، انڈیا اور اسرائیل اپنی خفت اور بدنامی کے خوف سے نہ تو اس دعوے کی کوئی سرکاری تصدیق کررہے ہیں اور نہ ہی اس کی تردیدلیکن پاکستانی حکام نے عالمی میڈیا کے سامنے ان کے شواہد رکھ دیئے ہیں جس کے بعد ان ملکوں کے دفاعی ماہرین کوچھپنے کے لئے کوئی جگہ نہیں مل رہی کہ انہوں نے کس طرح دنیا کے سامنے اپنے ان ہتھیاروں کوناقابل تسخیر ہونے کا دعوی کیاتھا۔یہ واقعہ ایک دفاعی کامیابی کے طورپردنیا کے سامنے آگیاہے اوروہ تمام ممالک جوان ہتھیاروں کی خریداری میں دلچسپی لے رہے تھے، انہوں نے فی الحال ان منصوبوں سے ہاتھ کھینچ لیاہے لیکن حالیہ بیانات سے دکھائی دے رہاہے کہ بھارت اور اسرائیل کی شراکت پراس کاکوئی مستقل اثرنہیں پڑالیکن بھارتی اپوزیشن کی جماعتیں اب مل کرمودی سے اس شکست کاحساب مانگ رہی ہیں۔
بھارت نے یواے ای،سعودی عرب، قطر خاص طورپرخلیج جیسے ممالک کے ساتھ معاشی اور سٹریٹجک تعلقات بہتربنائے ہیں لیکن کشمیرپرعرب لیگ نے ہمیشہ پاکستان کی حمایت کی ہے۔اوآئی سی نے مقبوضہ کشمیرمیں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پربارہا بھارت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ بھارت نے ان تعلقات کوالگ رکھتے ہوئے عرب دنیا کو اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات پرقائل کرلیا ہے۔ باوجود اس کے،عرب ممالک بھارت کوایک بڑی منڈی کے طور پردیکھتے ہیں،اسی لئے وہ اس کی اسلام مخالف پالیسیوں کواکثرنظر اندازکرتے ہیں لیکن یہ بات بھی درست ہے کہ عرب ممالک اب بھارت کوایک معاشی ضرورت سمجھتے ہیں،نہ کہ اسلامی اخوت کے تناظرمیں پرکھتے ہیں۔
عرب ممالک پاکستان کوایک مسلم ملک کےطورپرترجیح دیتے ہیں،خاص طور پر کشمیر کو’’مسلم مسئلہ‘‘ کے طورپردیکھاجاتاہے۔ پچھلی کئی دہائیوں سے پاکستان کاعرب ممالک کوفوجی تعاون بھی جاری ہے۔پاکستانی فوجی افسران سعودی عرب،متحدہ عرب امارات اور دیگر عرب ممالک کی فوجی تربیت میں مددکرتے ہیں لیکن دوسری طرف انڈیا کوعرب ممالک سے تیل درآمد کرنا پڑتا ہے اورانڈیاکی کوشش ہے کہ یہ معاشی تعلق سیاسی حمایت میں تبدیل ہوجائے۔سعودی عرب،یواے ای اوردیگرچندخلیجی ممالک نے انڈیامیں غیرمعمولی سرمایہ کاری بھی کررکھی ہے جس کی بناپران ممالک کی طرف سے انڈیاکی کشمیرپالیسی پرتنقیدسے گریزکیاجارہا ہے۔ اب ضرورت اس امرکی ہے کہ ہمارے مقتدرحلقے ایمانداری کے ساتھ سرجوڑکربیٹھیں اوراپنی سابقہ غلطیوں سے سبق حاصل کرتے ہوئے ایسی نئی تجارتی پالیسیاں مرتب کریں جس سے اس میدان میں انڈیاکی برتری کوختم کیاجاسکے۔
بھارت-اسرائیل تعلقات کاسکیورٹی محوراوران کے مابین تعلقات تب زیادہ مضبوط ہوتے ہیں جب بھارت اورپاکستان کے درمیان کشیدگی اورتنائو بڑھتا ہے، جب بی جے پی حکومت برسرِاقتدارہوتی ہے،جب بھارت میں مسلم مخالف جذبات کوانتخابی سیاست میں استعمال کیاجاتاہے۔اہم نکتہ یہ ہے کہ یہ تعلقات صرف خارجہ پالیسی نہیں بلکہ داخلی سیاسی مفادات سے بھی جڑے ہوتے ہیں۔ بھارت اوراسرائیل کے تعلقات ایک پیچیدہ مگرمسلسل مضبوط ہونےوالی دوستی کی عکاسی کرتےہیں۔ یہ تعلقات نہ صرف دفاعی بلکہ نظریاتی ، سفارتی اورسٹریٹجک سطح پرگہرائی اختیارکرچکے ہیں۔بھارت اور اسرائیل کے تعلقات کا جغرافیائی سیاست، نظریاتی ہم آہنگی، اور دفاعی ضرورت پرگہراانحصارہے۔یہ تعلقات وقت کے ساتھ محض سفارتی سطح پرنہیں بلکہ عوامی بیانیے اورداخلی سیاست کاحصہ بن چکے ہیں۔
پاکستان کے لئے یہ چیلنج ہے کہ وہ ان تعلقات کا توازن علاقائی سٹریٹجک حکمت عملی اورسفارتی کوششوں سے قائم رکھے،جبکہ مسلم دنیاکوبھی ایک واضح، متفقہ مؤقف اختیار کرنا ہوگاجبکہ اب یوں محسوس ہورہاہے کہ’’یہودہنوداتحاد‘‘امت مسلمہ کے لئے کس قدرخطرناک ثابت ہو سکتاہے،کچھ خلیجی ممالک کی طرف سے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات اوربھارت میں عرب ممالک کی سرمایہ کاری کودیکھتے ہوئے بین الاقوامی تعلقات کے پیچیدہ اورحقیقت پسندانہ تجزیے کے سامنے کمزورپڑتے دکھائی دے رہے ہیں۔
سوال یہ ہےکہ کیاواقعی یہود وہنوداتحاد اسلام کے خلاف ہے؟کیایہ بیانیہ زیادہ تر انتہا پسند مذہبی اورنظریاتی حلقوں میں رائج ہے،اس کازمینی حقائق سے کوئی تعلق نہیں؟یہ بیانیہ جس کی بنیاد تین نکات پرمبنی ہے اوراب روزِروشن کی طرح ہمارےسامنے بھی آچکی ہے، جس سےانکارکسی بھی صورت میں ممکن نہیں رہا۔ دونوں ممالک میں مسلم اقلیتیں ہیں اور ان کے ساتھ حکومتی رویہ اکثرانسانیت سوزاوروحشیانہ رہاہے (کشمیر، غزہ)اس کی بڑی مثالیں ہیں اورآج تک وہاں پربسنے والے مسلمانوں پرہونے والے مظالم کی ہوشربا داستانیں تو عالمی میڈیاپر ہر روزدکھائی جارہی ہیں۔ خود غزہ میں فلسطینی مسلمانوں کومارنے کے لئے ہندو افراد کو بھرتی کیا گیا اور مودی حکومت نے بیشتربی جے پی کے متعصب ہندو نوجوانوں کو اس کام کے لئے بھیجا ہے۔ سخت گیرقوم پرست جماعتیں(بی جے پی اور لیکود ) برسر اقتدار ہیں جن کی پالیسیوں کو اکثر’’اسلام مخالف‘‘قرار دیا جاتا ہے اور اس کاعملی مشاہدہ بھی ہمارے سامنے ہے۔
اسرائیل اوربھارت دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنی کارروائیوں کو’’اسلام پسند شدت پسندی‘‘سے جوڑتے ہیں اوران کے اکثر متعصب رہنماتودونوں ممالک سے مسلمانوں کومکمل ختم کرنے کے درپے ہیں لیکن غزہ اور کشمیر میں تو ساری دنیا نے دیکھ لیا کہ حقیقی دہشت گردکون ہیں۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: اسرائیل کے عرب ممالک بھارت اور ممالک کی کے سامنے ہیں لیکن کے ساتھ ہیں اور ہے اور اور اس کے لئے
پڑھیں:
سعودی عرب میں پاکستانی وفد کا شاندار استقبال، دوطرفہ تعلقات میں نئی جہت قرار
پاکستان اور سعودی عرب کے سفارتی تعلقات، دوستی، محبت اور بھائی چارے کی اعلیٰ مثال ہے، سعودی عرب نے پاکستان کا ہمیشہ مشکل وقت میں ساتھ دیا ہے۔ پاکستان اور سعودی عرب کے مابین تاریخی برادرانہ لازوال تعلقات باہمی اعتماد اور اسلامی بھائی چارے پر مبنی ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ سعودی عرب میں پاکستانی وفد کا شاندار استقبال، پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات میں نئی جہت قرار۔ وزیراعظم پاکستان شہباز شریف اور آرمی چیف فیلڈ مارشل سید عاصم منیر اس وقت سعودی عرب میں موجود ہیں۔
دوحہ میں وزیراعظم شہباز شریف اور سعودی ولی عہد کی ملاقات میں طے پایا تھا کہ دونوں کی جلد دوبارہ ملاقات ہو گی۔ آج وزیراعظم کا استقبال سعودی شاہی فضائیہ کی جانب سے بے مثال انداز میں کیا گیا، پاکستان اُن چند ممالک میں شامل ہے جنہیں سعودی عرب اس قدر عزت و تکریم دیتا ہے۔
پاکستان اور سعودی عرب کے سفارتی تعلقات، دوستی، محبت اور بھائی چارے کی اعلیٰ مثال ہے، سعودی عرب نے پاکستان کا ہمیشہ مشکل وقت میں ساتھ دیا ہے۔ پاکستان اور سعودی عرب کے مابین تاریخی برادرانہ لازوال تعلقات باہمی اعتماد اور اسلامی بھائی چارے پر مبنی ہیں، پاکستان کے عوام سعودی عرب کو اپنا دوسرا گھر سمجھتے ہیں۔
خانہ کعبہ اور روضہ رسولؐ کی موجودگی کے باعث پاکستانی عوام کی سعودی عرب سے گہری مذہبی وابستگی بھی ہے۔ وزیراعظم کے فقید المثال استقبال کے بعد اسلام آباد انتظامیہ کو فوری احکامات جاری کیے گئے، ان احکامات کے تحت دارالحکومت کی عمارتوں کو روشنیوں سے سجایا گیا ہے۔
اس وقت پاک سعودی ٹاور سمیت اسلام آباد کو روشنیوں سے سجایا گیا ہے، یہ تمام اقدامات وزیراعظم کے دورہ سعودی عرب کے تناظر میں کیے گئے ہیں۔