مزاحمتی ذرائع کے مطابق ماضی میں بطور انسانی ڈھال کے طور پر استعمال ہونے والے ابو حمادان نے بتایا ہے کہ اسرائیلی فوجی یونیفارم اور سر پر کیمرے لگائے ہوئے تھے، 17 دن اسے اسرائیلی فوجی مختلف گھروں اور سرنگوں کا جائزہ لینے کے دوران اسے اپنے آگے رکھتے تھے اور خود پیچھے موجود رہتے تھے۔ اسلام ٹائمز۔ اسرائیلی فوجیوں کی جانب سے بندوق کے زور پر فلسطینیوں کو عمارتوں اور سرنگوں میں باقاعدہ طور پر انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرنا ایک عام  سا کام بن چکا ہے۔ بین الاقوامی میڈیا کے مطابق متعدد فلسطینیوں اور اسرائیلی فوجیوں نے غیر ملکی میڈیا کو بتایا ہے کہ فلسطینیوں کو باقاعدگی سے انسانی ڈھال بننے کے لیے مجبور کیا جاتا ہے۔ مزاحمتی ذرائع کے مطابق ماضی میں بطور انسانی ڈھال کے طور پر استعمال ہونے والے ابو حمادان نے بتایا ہے کہ اسرائیلی فوجی یونیفارم اور سر پر کیمرے لگائے ہوئے تھے۔

 ابو حمادان نے مزید بتایا ہے کہ 17 دن اسے اسرائیلی فوجی مختلف گھروں اور سرنگوں کا جائزہ لینے کے دوران اسے اپنے آگے رکھتے تھے اور خود پیچھے موجود رہتے تھے۔ انسانی ڈھال کے طور پر استعمال ہونے  والے متاثرہ فلسطینی نے مزید بتایا ہے کہ مجھے ہر رات ایک اندھیرے کمرے میں باندھ کر رکھا جاتا تھا اور اگلے دن پھر وہی سلسلہ دہرایا جاتا تھا۔ اے پی سے بات کرتے ہوئے 2 اسرائیلی فوجیوں نے بتایا ہے کہ ہمارے کمانڈر جانتے تھے کے ہم فلسطینیوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کر رہے ہیں لیکن وہ اس پر خاموش رہتے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: انسانی ڈھال کے طور پر استعمال اسرائیلی فوجی بتایا ہے کہ

پڑھیں:

حماس کے جان لیوا حملے

اسلام ٹائمز: گھات لگا کر حملوں کی کامیابی کا راز محدود پیمانے پر افراد کا استعمال اور دشمن پر اچانک وار کرنے میں پوشیدہ ہے۔ یوں حماس کو غزہ کے تمام علاقوں میں اپنے مجاہدین تعینات کرنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ فلسطینی مجاہدین موقع پا کر تیزی سے دشمن پر حملہ کرتے ہیں اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہاں سے غائب ہو جاتے ہیں۔ دوسری طرف صیہونی فوجی جب تک سنبھلتے ہیں اس وقت تک فلسطینی مجاہدین اپنی کاروائی مکمل کر کے جا چکے ہوتے ہیں۔ اس طرح صیہونی فوجی گویا بھوتوں کے خلاف لڑ رہے ہیں اور انہیں معلوم نہیں ہوتا مجاہدین کس وقت اور کہاں ان پر حملہ ور ہوں گے۔ اس نے صیہونی فوجیوں کو شدید نفسیاتی دباو کا شکار کر کے ان کے حوصلے پست کر دیے ہیں۔ وہ ہر وقت حملے کے خوف کا شکار ہوتے ہیں اور اس خوف نے انہیں مار ڈالا ہے۔ تحریر: علی احمدی
 
غزہ پر غاصب صیہونی رژیم کی فوجی جارحیت کے 737 ویں دن بیت حانون کے علاقے میں فیصلہ کن معرکہ ہوا جس میں صیہونی فوج کا سیکنڈ لیفٹیننٹ بنجمن ایسولین، جو اپنے افراد کے ساتھ گشت کر رہا تھا مارا گیا۔ اب تک اس علاقے میں حماس کئی بار چھاپہ مار کاروائیاں انجام دے چکی ہے۔ یہ علاقہ اسٹریٹجک لحاظ سے بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ یہاں عام طور پر صیہونی فوج گشت زنی کرتی رہتی ہے لیکن اس بار حماس کے ملٹری ونگ شہید عزالدین قسام بٹالینز نے ایک جان لیوا حملہ کیا اور صیہونی فوج کو بڑے جانی نقصان کا شکار کر دیا۔ مقامی ذرائع کے بقول پہلے ایک اسرائیلی ٹینک کو بم سے نشانہ بنایا گیا اور اس کے بعد جب امدادی ٹیمیں وہاں پہنچیں تو یکے بعد از دیگرے کئی بم دھماکے ہوئے جو پہلے سے نصب کئے گئے بموں کے ذریعے انجام پائے تھے۔
 
یوں چار بم دھماکے ہوئے اور ساتھ ہی حماس کے مجاہدین نے اسرائیلی فوجیوں پر فائرنگ کر دی۔ صیہونی ذرائع ابلاغ کے بقول یہ اب تک کا شدید ترین حملہ تھا جو نتسح یہودا یونٹ کے خلاف انجام پایا۔ یہ یونٹ اس سے پہلے مغربی کنارے میں بھی فلسطینیوں پر ظلم و ستم کرنے میں ملوث رہی ہے اور اس کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات بھی ہیں۔ حماس کی اس چھاپہ مار کاروائی نے صیہونی فوج کو شدید مشکل میں ڈال دیا اور آخرکار اسرائیلی جنگی طیارے ان کی نجات کے لیے آنے پر مجبور ہو گئے لیکن فائرنگ اور جھڑپوں کا سلسلہ صبح تک جاری رہا۔ صیہونی فوج نے اس معرکے میں 5 فوجیوں کی ہلاکت اور 14 فوجیوں کے زخمی ہونے کا اعتراف کیا ہے لیکن یوں دکھائی دیتا ہے کہ جانی نقصان اس سے کہیں زیادہ ہے۔
 
فوجی طاقت کے بل بوتے پر مقاومت کچل دینے کی حکمت عملی ناکام ہو چکی ہے۔ طوفان الاقصی آپریشن کے بعد صیہونی حکمرانوں نے غزہ میں سرگرم اسلامی مزاحمتی فورسز کو فوجی طاقت کے بل بوتے پر کچل دینے کی حکمت عملی اختیار کی تھی جو پوری طرح ناکام ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ اس حکمت عملی کے تحت اسلامی مزاحمت پر ہر طرف سے شدید دباو ڈالا گیا اور اسے مکمل طور پر ختم کر دینے کی کوشش کی گئی۔ لہذا صیہونی جنگی مشینری نے وسیع سطح پر غزہ میں داخل ہو کر خان یونس اور جبالیا سمیت وسیع علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ دوسری طرف حماس کے ملٹری ونگ شہید عزالدین قسام بٹالینز نے اپنا نقصان کم از کم کرنے کے لیے چھاپہ مار کاروائیوں کی حکمت عملی اختیار کی۔ وہ گھات لگا کر حملے کرتے ہیں اور یوں صیہونی فوج پر کاری ضرب لگاتے ہیں۔
 
گھات لگا کر حملوں کی کامیابی کا راز محدود پیمانے پر افراد کا استعمال اور دشمن پر اچانک وار کرنے میں پوشیدہ ہے۔ یوں حماس کو غزہ کے تمام علاقوں میں اپنے مجاہدین تعینات کرنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ فلسطینی مجاہدین موقع پا کر تیزی سے دشمن پر حملہ کرتے ہیں اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہاں سے غائب ہو جاتے ہیں۔ دوسری طرف صیہونی فوجی جب تک سنبھلتے ہیں اس وقت تک فلسطینی مجاہدین اپنی کاروائی مکمل کر کے جا چکے ہوتے ہیں۔ اس طرح صیہونی فوجی گویا بھوتوں کے خلاف لڑ رہے ہیں اور انہیں معلوم نہیں ہوتا مجاہدین کس وقت اور کہاں ان پر حملہ ور ہوں گے۔ اس نے صیہونی فوجیوں کو شدید نفسیاتی دباو کا شکار کر کے ان کے حوصلے پست کر دیے ہیں۔ وہ ہر وقت حملے کے خوف کا شکار ہوتے ہیں اور اس خوف نے انہیں مار ڈالا ہے۔
 
صیہونی رژیم نے غزہ میں ایک نئی چال چلی ہے اور وہاں اپنے ایجنٹوں کو حماس کے خلاف سرگرم عمل کر دیا ہے۔ غزہ میں بدنام زمانہ اسمگلر یاسر ابوشباب کو اسلحہ فراہم کر کے اس کے گروہ کو "عوامی محاذ" کا نام دے دیا گیا ہے۔ یہ غزہ میں دشمن کا ففتھ کالم ہے جو فلسطینی مجاہدین کے خلاف غداری کا مرتکب ہو رہا ہے۔ یاسر ابوشباب کا تعلق ترابین نامی خانہ بدوش قبیلے سے ہے جو صحرائے نقب اور سینا میں مقیم ہیں۔ گذشتہ چند ہفتوں کے دوران حماس کے مجاہدین نے اس گروہ کے خلاف بھی متعدد کاروائیاں کیں ہیں اور اس کے 50 افراد کو واصل جہنم کیا ہے۔ سیکورٹی امور کے تجزیہ کار اینڈریاس کریگ اس بارے میں لکھتے ہیں: "اگرچہ اہل غزہ کی اکثریت کی نظر میں عوامی محاذ نامی گروہ ایک مجرم اور غیرقانونی گروہ ہے لیکن اس گروہ کا اصلی مقصد مزاحمتی فورسز کو نقصان پہنچانا ہے۔"
 
تل ابیب کے سیکورٹی پالیسی میکرز اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ غزہ میں حماس کا خاتمہ ممکن نہیں ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ خود اسرائیل کے قیام سے پہلے صیہونی جتھے جیسے ہاگانا، لحی اور ایرگون چھاپہ مار کاروائیاں انجام دیتے رہے ہیں اور انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ زیر زمین گروہ کا خاتمہ ناممکن ہے۔ لہذا اب وہ حماس کو محدود کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں اور یہ کہ مکمل خاتمے کی بجائے حماس کو اتنا کمزور کر دیا جائے کہ وہ اسرائیل کے لیے خطرہ نہ بن سکے۔ لہذا اب وہ کوئی بھی ایسی جنگ بندی قبول نہیں کریں گے جس کے نتیجے میں غزہ کی پٹی پر حماس کی حکومت دوبارہ برقرار ہو جائے اور اس کی طاقت بحال ہو جائے۔ اس کام کے لیے وہ خطے کے عرب حکمرانوں سے تعاون حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ صیہونی حکمران غزہ میں جاری عربی عبری ٹکراو کو عربی عربی ٹکراو میں تبدیل کرنے کی سازش بنا رہے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • یورپی یونین سے مذاکرات کے بعد اسرائیل دکھاوے کیلیے غزہ میں انسانی بحران کم کرنے پر رضامند
  • اسرائیل کی چالاکی، غزہ جنگ بندی کے بدلے تعمیر نو کی شرائط پر قطر کو استعمال کرنے کی کوشش
  • حماس کے جان لیوا حملے
  • اسرائیل کا متنازع منصوبہ: غزہ کے 6 لاکھ شہریوں کی جبری نقل مکانی کا انکشاف
  • یمنی فوج کیجانب سے صیہونی بحری جہاز کیخلاف مزاحمتی آپریشن کی ویڈیو فوٹیج جاری
  • انتہا پسند اسرائیلی وزرا کی غزہ میں امداد بند کرنے اور فلسطینیوں کو بھوکا مارنے کی دھمکی
  • اسپین کی عدالت کا اسرائیلی وزیراعظم کیخلاف جنگی جرائم کی تحقیقات شروع کرنے کا فیصلہ
  • غزہ سے جبری بےدخلی، فلسطینیوں کو رفح کے ملبے پرکیمپ میں زبردستی منتقل کرنے کا منصوبہ
  • مناسب وقت پر ایران پر عائد پابندیاں بھی اٹھائی جا سکتی ہیں‘ایران کے ساتھ مذاکرات طے کر لیے ہیں.ڈونلڈ ٹرمپ
  • غزہ میں فلسطینی مجاہدین کی بڑی کارروائی، 6 صیہونی فوجی واصل جہنم، 10 زخمی