صیہونی فوج کا فلسطینیوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرنے کا اعتراف
اشاعت کی تاریخ: 25th, May 2025 GMT
مزاحمتی ذرائع کے مطابق ماضی میں بطور انسانی ڈھال کے طور پر استعمال ہونے والے ابو حمادان نے بتایا ہے کہ اسرائیلی فوجی یونیفارم اور سر پر کیمرے لگائے ہوئے تھے، 17 دن اسے اسرائیلی فوجی مختلف گھروں اور سرنگوں کا جائزہ لینے کے دوران اسے اپنے آگے رکھتے تھے اور خود پیچھے موجود رہتے تھے۔ اسلام ٹائمز۔ اسرائیلی فوجیوں کی جانب سے بندوق کے زور پر فلسطینیوں کو عمارتوں اور سرنگوں میں باقاعدہ طور پر انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرنا ایک عام سا کام بن چکا ہے۔ بین الاقوامی میڈیا کے مطابق متعدد فلسطینیوں اور اسرائیلی فوجیوں نے غیر ملکی میڈیا کو بتایا ہے کہ فلسطینیوں کو باقاعدگی سے انسانی ڈھال بننے کے لیے مجبور کیا جاتا ہے۔ مزاحمتی ذرائع کے مطابق ماضی میں بطور انسانی ڈھال کے طور پر استعمال ہونے والے ابو حمادان نے بتایا ہے کہ اسرائیلی فوجی یونیفارم اور سر پر کیمرے لگائے ہوئے تھے۔
ابو حمادان نے مزید بتایا ہے کہ 17 دن اسے اسرائیلی فوجی مختلف گھروں اور سرنگوں کا جائزہ لینے کے دوران اسے اپنے آگے رکھتے تھے اور خود پیچھے موجود رہتے تھے۔ انسانی ڈھال کے طور پر استعمال ہونے والے متاثرہ فلسطینی نے مزید بتایا ہے کہ مجھے ہر رات ایک اندھیرے کمرے میں باندھ کر رکھا جاتا تھا اور اگلے دن پھر وہی سلسلہ دہرایا جاتا تھا۔ اے پی سے بات کرتے ہوئے 2 اسرائیلی فوجیوں نے بتایا ہے کہ ہمارے کمانڈر جانتے تھے کے ہم فلسطینیوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کر رہے ہیں لیکن وہ اس پر خاموش رہتے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: انسانی ڈھال کے طور پر استعمال اسرائیلی فوجی بتایا ہے کہ
پڑھیں:
فلسطینیوں کی نسل کشی اور جبری بیدخلی
اسرائیلی جنگی جنون ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا ہے، اسرائیلی فوج غزہ پٹی کے سب سے گنجان آباد شہر غزہ سٹی میں داخل ہوگئی ہے، 40 فیصد شہریوں کو جنوب کی طرف دھکیل دیا گیا، رات بھر تباہی، بمباری اور گولہ باری میں مزید 90 فلسطینی شہید اور سیکڑوں زخمی ہوگئے ہیں۔
غزہ پر اسرائیلی جارحیت شدت اختیار کر گئی ہے۔ قابض اسرائیل کی جانب سے امریکا کی کھلی حمایت کے ساتھ غزہ میں جو جنگی جنون مسلط کیا گیا ہے، وہ اب محض ایک علاقائی تنازعہ نہیں رہا، بلکہ مکمل طور پر ایک منظم نسل کشی کی صورت اختیار کرچکا ہے۔
یہ نسل کشی صرف توپ و تفنگ، میزائل اور بمباری تک محدود نہیں، بلکہ اس کا دائرہ روزمرہ زندگی کی ہر بنیاد کو ختم کرنے تک پھیل چکا ہے۔ شہری آبادی، اسپتال، اسکول، پناہ گاہیں، پانی کے ذخائر، بجلی کی لائنیں، خوراک کے مراکز اور مواصلاتی نظام سب کچھ اسرائیلی جارحیت کا نشانہ بن چکے ہیں۔
بین الاقوامی برادری بارہا اپیلیں کر چکی ہے، عالمی عدالت انصاف واضح احکامات جاری کر چکی ہے، انسانی حقوق کی تنظیمیں مسلسل خبردار کر رہی ہیں، لیکن سب کچھ ایک ایسی دیوار سے ٹکرا رہا ہے جو طاقت، ہٹ دھرمی اور مفادات سے بنی ہوئی ہے۔
غزہ جو پہلے ہی دنیا کا سب سے بڑا کھلا قید خانہ تصور کیا جاتا تھا، اب ایک کھلا قبرستان بنتا جا رہا ہے۔ ہزاروں فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں بڑی تعداد بچوں اور خواتین کی ہے۔
لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں، جنھیں زبردستی جنوبی علاقوں میں دھکیل دیا گیا ہے جہاں پہلے سے وسائل کی شدید قلت ہے۔ اسرائیلی فوجی آپریشن اس حد تک پہنچ چکا ہے کہ اب غزہ شہر جیسے مرکزی علاقے بھی مکمل طور پر کھنڈر بن چکے ہیں۔
یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اسرائیل فلسطینی قوم کو اجتماعی سزا دینے کے منصوبے پر عمل پیرا ہے ، اس مقصد کے حصول کے لیے ریاستی طاقت کو نہایت منظم طریقے سے استعمال کیا جا رہا ہے۔ ایسا نہیں کہ دنیا کو ان جرائم کا علم نہیں۔
اقوام متحدہ کے مختلف ادارے، خود بین الاقوامی میڈیا، غیر جانبدار انسانی حقوق کی تنظیمیں اور حال ہی میں اقوام متحدہ کے آزاد تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ نے واضح طور پر ان اقدامات کو نسل کشی قرار دیا ہے۔
پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان تمام شواہد کے باوجود اسرائیل کو روکنے والا کون ہے؟ کیا عالمی قانون صرف کمزور ممالک پر لاگو ہوتا ہے؟ کیا انسانی حقوق صرف یورپ یا امریکا کے شہریوں کے لیے مخصوص ہیں؟
امریکا، جو اسرائیل کا سب سے بڑا اتحادی ہے، نہ صرف فوجی اور مالی معاونت فراہم کر رہا ہے بلکہ اقوام متحدہ میں اسرائیل کے خلاف پیش کی جانے والی تمام قراردادوں کو ویٹو بھی کرتا رہا ہے۔
ہیومن رائٹس واچ اور دیگر معتبر اداروں کی رپورٹس کے مطابق امریکا کی یہ شراکت محض حمایت تک محدود نہیں رہی بلکہ یہ ممکنہ طور پر اسرائیل کے جنگی جرائم میں معاونت کے زمرے میں آتی ہے۔
امریکا کا دہرا معیار عالمی انصاف کے لیے ایک امتحان بن چکا ہے، اگر روس کی جانب سے یوکرین میں کی گئی فوجی کارروائی کو عالمی قانون کی خلاف ورزی کہا جا سکتا ہے، تو اسرائیل کے اقدامات کو اس سے بری الذمہ کیسے قرار دیا جا سکتا ہے؟ یہ دوعملی عالمی امن کی بنیادوں کو کھوکھلا کر رہی ہے۔
جرمنی، فرانس، برطانیہ جیسے ممالک نے ایک جانب یوکرین کے لیے ہمدردی کے سمندر بہائے، مگر فلسطین کی بربادی پر ان کی زبانیں گنگ ہیں۔ یہی دہرا معیار دنیا کو یہ سبق دے رہا ہے کہ انسانی اقدار بھی مفادات کے تابع ہو چکی ہیں۔
غزہ کے بچوں کی زندگیاں، ان کے مستقبل، ان کے خواب اور ان کی امیدیں عالمی سیاست کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں۔ ادھر مسلم دنیا کی حالت یہ ہے کہ محض مذمتی بیانات اور دعاؤں تک محدود ہو گئی ہے۔ اسلامی تعاون تنظیم ہو یا عرب لیگ، ان کے اجلاسوں سے نہ مظلوم کی مدد ہوئی ہے اور نہ ہی ظالم کی جارحیت میں کوئی کمی آئی ہے۔
فلسطینی عوام کی مزاحمت کو اکثر عالمی میڈیا ’’ دہشت گردی‘‘ کے زمرے میں رکھ کر پیش کرتا ہے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ بین الاقوامی قوانین کے مطابق کسی بھی مقبوضہ قوم کو مزاحمت کا حق حاصل ہے۔ فلسطینی اپنی بقا کے لیے لڑ رہے ہیں، وہ دہشت گرد نہیں بلکہ حریت پسند ہیں۔ ان کی جدوجہد کو تسلیم کیے بغیر نہ کوئی مذاکرات کامیاب ہوں گے، نہ کوئی قیام امن ممکن ہوگا۔
مغربی میڈیا اکثر اسرائیلی بیانیے کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے جب کہ فلسطینی عوام کی حالت زار کو یا تو نظر انداز کرتا ہے یا غیر واضح انداز میں پیش کرتا ہے۔ صحافیوں کی شہادتیں، میڈیا دفاتر پر بمباری، معلومات کی ترسیل پر قدغن، یہ سب اس لیے کیا جا رہا ہے تاکہ سچ دنیا تک نہ پہنچ سکے۔
یہی وجہ ہے کہ سوشل میڈیا اور غیر سرکاری صحافتی ذرایع ہی آجکل حقیقی تصاویر اور وڈیوز دنیا کے سامنے لا رہے ہیں۔
بین الاقوامی عدالت انصاف نے جنوری میں واضح ہدایات دی تھیں کہ اسرائیل فوری طور پر ایسے تمام اقدامات بند کرے جن سے فلسطینی عوام کو نسل کشی کا خطرہ لاحق ہو اور یہ کہ غزہ میں انسانی امداد کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے، مگر ان احکامات پر نہ کوئی عملدرآمد ہوا، نہ ہی عالمی برادری کی جانب سے اسرائیل پر کوئی مؤثر دباؤ ڈالا گیا، اگر عدالتِ انصاف کے فیصلے بھی طاقتور ممالک کے مفادات کے تابع ہو جائیں تو پھر عالمی قانون اور انصاف کا وجود بے معنی ہو جاتا ہے۔
پاکستان نے ہمیشہ فلسطینی عوام کی حمایت کی ہے اور یہ ایک مثبت امر ہے، لیکن موجودہ حالات میں محض بیانات کافی نہیں۔ پاکستان کو چاہیے کہ اقوام متحدہ میں ایک فعال اور قائدانہ کردار ادا کرے، اسلامی ممالک کو ایک لائحہ عمل پر متفق کرے، انسانی امداد فراہم کرے، اور عالمی عدالت میں اسرائیلی جرائم کے ثبوت پیش کرے۔ یہ صرف ایک سفارتی ضرورت نہیں بلکہ ایک اخلاقی فریضہ ہے۔
سات اکتوبر 2023سے قابض اسرائیل نے امریکا کی حمایت سے غزہ میں کھلی نسل کشی مسلط کر رکھی ہے جس میں قتل عام، قحط، تباہی اور جبری بے دخلی شامل ہیں۔ یہ سب کچھ عالمی برادری کی اپیلوں اور عالمی عدالت انصاف کے احکامات کو نظرانداز کرتے ہوئے کیا جا رہا ہے۔
یونیسف نے انتباہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ کے لاکھوں بچے شدید صدموں کا شکار ہیں،غزہ میں بچوں کے درمیان ’دماغی جھلی کے خطرناک انفیکشن‘ کے بڑھتے ہوئے کیسز ایک نئی اور ہولناک انسانی تباہی کا پیش خیمہ ہیں۔ اس بیماری میں مبتلا سیکڑوں بچوں کی تصدیق ہو چکی ہے۔
دراصل قابض اسرائیلی کی مسلط کردہ جنگ اور محاصرے کے نتیجے میں غزہ کی صحت کی سہولیات تباہ ہو چکی ہیں۔ بچوں کے دودھ کی مسلسل قلت، شدید غذائی قلت اور قحط کے عالم میں بچوں کی کمزور ہوتی حالت نے صورتحال کو نہایت خوفناک بنا دیا ہے۔
بنجمن نیتن یاہو کی قیادت میں قابض اسرائیلی فوج کی جانب سے غزہ کی آبادی کو جان بوجھ کر بھوکا رکھنا اور ان کی بنیادی زندگی کی سہولتوں کو نشانہ بنانا کھلی درندگی کا ثبوت ہے۔ یہ انسانی المیہ دنیا کی بدترین تباہ کاریوں میں شمار ہونے لگا ہے اور اب اس کے سب سے کمزور اور معصوم شکار، یعنی بچے موت کے دہانے پر کھڑے ہیں۔
اسرائیل نے مشرق وسطیٰ کے ممالک لبنان، شام، یمن اور ایران پر بمباری کی ہے، اور امریکی غیر سرکاری تنظیم کے مطابق اسرائیل نے غزہ اور مقبوضہ مغربی کنارے میں سب سے زیادہ بیس ہزار سے زائد حملے کیے۔
فلسطین کا مسئلہ محض ایک سیاسی تنازعہ نہیں بلکہ انسانیت، انصاف اور ضمیر کا مسئلہ ہے۔ آج غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ تاریخ کے سیاہ ترین ابواب میں لکھا جائے گا، اور کل ہماری نسلیں ہم سے سوال کریں گی کہ جب معصوم بچوں کو بموں سے اڑایا جا رہا تھا، جب مائیں اپنے بچوں کی لاشیں اٹھائے رو رہی تھیں، جب انسانی زندگیاں ملبے کے نیچے دم توڑ رہی تھیں، تو تم کیا کر رہے تھے؟ کیا تم خاموش تماشائی بنے رہے؟ یا تم نے ظلم کے خلاف آواز اٹھائی؟
اگر اقوام عالم خاموش رہیں تو کل نہ صرف فلسطینی عوام مکمل طور پر تباہ ہو جائیں گے، بلکہ عالمی انصاف، انسانی ہمدردی اور اخلاقی سچائی کے تمام دعوے جھوٹ ثابت ہو جائیں گے۔ فلسطین کی پکار صرف ایک قوم کی نہیں، پوری انسانیت کی پکار ہے۔ اور جو اس پکار پر لبیک نہیں کہے گا، وہ تاریخ کے کٹہرے میں کھڑا ہوگا، اقوام متحدہ، عالمی عدالت، انسانی حقوق کی تنظیمیں، آزاد میڈیا اور سب سے بڑھ کر عام عوام، سب کو متحد ہو کر اس ظلم کے خلاف کھڑا ہونا ہوگا۔