جنوبی ایشیاء میں حالیہ پاک بھارت کشیدگی نے ایک بارپھرخطے کوایٹمی جنگ کے دہانے پرلاکھڑا کیا ہے۔بھارت کی جارحیت اورپاکستان کے نپے تلے جواب نے دنیاکومجبورکیاکہ وہ اس تنازعے کی سنگینی کوسمجھے۔اگرچہ امریکانے ابتدا میں لاتعلقی کامظاہرہ کیامگرحالات کی سنگینی نے اسے مداخلت پرمجبورکردیا۔
14فروری 2019ء کوپلوامہ حملے میں 40 بھارتی اہلکارہلاک ہوئے۔بھارت نے فوراپاکستان پرالزام لگایااورپلوامہ حملے کے بعدبغیرثبوت بالاکوٹ پرحملہ کرکے جنگ کوہوادی ۔ 26فروری کوبھارت نے بالاکوٹ میں فضائی حملے کادعویٰ کیاجو درحقیقت ایک خالی پہاڑی پرتھااوریہ حملہ محض درختوں پربم گرانے تک محدود رہا۔اس کے ردعمل میں27 فروری کو پاکستان نے موثرجوابی کارروائی کرتے ہوئے دوبھارتی طیارے مار گرائے اورایک پائلٹ کوگرفتارکرلیا۔ گرفتارپائلٹ ابھینندن کوانسانی ہمدردی اورامن کے جذبے کے تحت رہا کیاگیا،جسے دنیابھرمیں سراہاگیا۔پاکستان نے گرفتار پائلٹ ابھینندن کی رہائی کے ساتھ ایک سنجیدہ، بالغ اورذمہ دارریاست ہونے کاثبوت دیا۔بھارتی جنگی بیانیہ اورفضائی ناکامی نے اس کے عالمی امیج کومتاثر کیا۔ اس واقعے نے نہ صرف بھارت کی عسکری صلاحیت پر سوال اٹھائے بلکہ عالمی سطح پرپاکستان کی مدبرانہ حکمت عملی کوسراہاگیا۔
ابتدائی طورپرامریکی صدراوروزیرخارجہ نے جنگ سے لاتعلقی ظاہرکی۔لیکن جب بھارت کوجوابی ضرب پڑی،توامریکانے فوری جنگ بندی کاعمل شروع کردیا۔اس کامطلب امریکاکااصل ہدف جنوبی ایشیاء میں طاقت کاتوازن برقراررکھناہینہ کہ اصولی ثالثی۔ بھارت کی فوجی کمزوری اورسی پیک پرامریکی مفادات نے امریکاکومداخلت پرمجبورکیا۔
یاد رہے کہ ٹرمپ نے کشیدگی کے آغازپر انتہائی مضحکہ خیزاندازمیں کہاتھاکہ یہ دونوں ممالک صدیوں سے لڑرہے ہیں،ہمیں ان سے کوئی دلچسپی نہیں۔ امریکی وزیر خارجہ پومپیونے بھی شروع میں لاتعلقی ظاہر کی۔پاکستانی جوابی کارروائی کے فوری بعدامریکی پالیسی میں اچانک تبدیلی آگئی اورامریکافوری طورپرسرگرم ہوگیا۔ جیسے ہی بھارت کوفوجی وسفارتی ہزیمت کاسامناکرناپڑا، امریکاکی پالیسی یکایک تبدیل ہوگئی۔امریکی سفارت کارفوری طورپر متحرک ہوگئے،سیزفائرکی کوششیں ہوئیں اور خودٹرمپ نے مذاکرات اورکشمیرپرثالثی کی پیشکش کر دی۔ ٹوئٹرپر’’سیزفائر‘‘کااعلان امریکی خارجہ پالیسی کی سفارتی شرمندگی کی علامت تھا۔
یہ عمل کئی سوالات کوجنم دیتاہے۔کیا امریکا ثالث ہے یابھارت کاسہارا؟اگربھارت غالب ہوتا تو کیاامریکااتناسرگرم ہوتا؟بھارت کوجب شکست ہوئی توامریکاثالثی کے لئے میدان میں اترا۔ اگربھارت غالب ہوتاتوامریکاخاموش تماشائی بنارہتا۔بھارت نہ صرف پاکستان کے ہاتھوں فضائی شکست سے دوچارہوا، بلکہ لداخ میں بھی چین کے ساتھ تصادم میں اپنی کمزوری دکھاچکا ہے۔ 2020ء میں بھارت اورچین کے درمیان ’’ایل اے سی‘‘پرتصادم ہوا،جس میں بھارت کوعلاقائی نقصان اٹھاناپڑا۔بھارتی وزیردفاع راج ناتھ نے خود پارلیمان میں اعتراف کیاکہ چین نے لداخ کے کئی ہزارمربع کلومیٹرعلاقے پرقبضہ کررکھاہے۔اس کے ساتھ ہی بھارت کا سی پیک کوسبوتاژکرنے کامنصوبہ بھی چین اورپاکستان کی شراکت داری کے سامنے ناکام ہوچکاہے۔بھارت کی زمینی حقیقت کمزور ہوچکی ہے۔
یادرہے کہ بھارت کاگلگت کولداخ سے توڑنے کامنصوبہ (جیسے سیاچن گلیشیئرپرکنٹرول)چین اورپاکستان کی مشترکہ حکمت عملی کی وجہ سے ناکام ہوا تھا۔ سی پیک کی کامیابی نے بھارت کوعلاقائی اثرات سے دوچارکیاہواہے بلکہ ان ناکامیوں نے بھارت کی فوجی ساکھ کوبھی متاثرکیاہے،جس سے امریکامیں یہ سوال اٹھاکہ کیابھارت واقعی چین کے خلاف ’’کواڈ‘‘ کا مضبوط اتحادی بن سکتاہے۔مودی حکومت کی کمزوریوں کوامریکاکے لئے تشویش کاباعث قراردیاجارہا ہے۔
توکیایہ ثالثی دراصل بھارت کوفیس سیونگ مہیاکرنے کی کوشش تھی؟کیاامریکاواقعی کشمیرکے مسئلے کو سنجیدگی سے حل کرناچاہتا ہے یامحض جیوپالیٹیکل مقاصدحاصل کرنااس کاہدف ہے ؟ دراصل یہ ثابت ہو گیا کہ امریکا کی ثالثی دراصل مودی حکومت کوفیس سیونگ دینے کی کوشش تھی۔اسی لئے یہ حقیقت ہے کہ سیزفائرکا ٹوئٹرپر اعلان، مودی حکومت کے لئے فیس سیونگ کاراستہ بنایاگیا۔
سیزفائرکے بعدتیزی کے ساتھ اس بیانیے کوتقویت دی جارہی ہے کہ امریکا کی مداخلت کا بنیادی مقصدایٹمی جنگ اورخطے کے عدمِ استحکام کوروکناتھا،نہ کہ صرف بھارت یاپاکستان کی فوجی پوزیشن۔ تاہم، بھارت کی کمزوریاں امریکاکے لئے تشویش کاباعث ہیں، کیونکہ وہ چین کے خلاف اپنی حکمت عملی کے لئے بھارت پر انحصارکرتا ہے۔ اگربھارت طاقتورہوتا،تو شائد امریکا کی سفارتی کوششیں یکساں نہ ہوتیں،لیکن ان کالہجہ اورطریقہ کارمختلف ہوسکتاتھا۔
ٹرمپ نے کئی مواقع پرکشمیرپرثالثی کی خواہش کااظہارکیاہے،جس کی سب سے نمایاں مثال 2019ء میں ان کادعوی ٰتھاکہ ’’مودی نے مجھے کشمیر پرثالث بننے کوکہا تھا‘‘۔ تاہم، بھارت نے فوری طورپراس دعوے کومستردکردیاتھا۔اب ٹرمپ کی طرف سے دوبارہ غیر جانبدارجگہ پرمذاکرات کی بات اسی سلسلے کی کڑی ہے۔اس کی صداقت کوسمجھنے کے لئے درج ذیل نکات اہم ہیں۔
بھارت ہمیشہ سے کشمیرکواپنا’’اندرونی معاملہ‘‘ قرار دیتاآیاہے اورکسی بھی تیسرے فریق کی مداخلت کومستردکرتاہے۔2019ء میں کشمیرکی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعدیہ مؤقف مزیدسخت ہوگیاہے۔ سیزفائر کروانے میں امریکاکایہ مفادبھی ہوسکتاہے کہ ٹرمپ کی پیشکش کاتعلق امریکاکی خطے میں اپنی سفارتی موجودگی بڑھانے اورچین کے اثرات کوکم کرنے کی کوششوں سے ہوسکتاہے۔ اس کے علاوہ،ٹرمپ اپنی خارجہ پالیسی کو ’’امن کے ایجنڈے‘‘کے طورپرپیش کرناچاہتے تھے تاکہ ان کی سیاسی میرٹ کوتقویت ملے۔
ادھرپاکستان نے ہمیشہ کشمیرپرثالثی کاخیرمقدم کیاہے،کیونکہ وہ جانتاہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت کشمیرکے عوام کو حق خودارادیت دیاجاناچاہیے۔ تاہم ٹرمپ کی پیشکش زیادہ تر’’علامتی‘‘ہے۔بھارت کی مخالفت اورامریکاکی موجودہ انتظامیہ کی خاموشی کودیکھتے ہوئے اس پرعملدرآمدکاامکان نہ ہونے کے برابرہے۔
سوال یہ ہے کہ کیاامریکابھارت کوفوجی طور پر دوبارہ مضبوط ہونے کاموقع دے رہاہے؟اس کاجواب خطے کی جیوپولیٹکس اور امریکا ،چین کشمکش میں تلاش کیا جا سکتاہے۔لداخ میں چین کے ہاتھوں اورپاکستان کے ساتھ گزشتہ جھڑپوں میں بھارت کی فوجی کمزوریاں اوراس کی کارکردگی پرسوالات اٹھے ہیں۔امریکا کے لئے یہ تشویش کاباعث ہے کہ کواڈمیں بھارت کاکردار کمزور نہ ہوجائے۔
(جاری ہے)
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: میں بھارت بھارت کی کی فوجی کے ساتھ کے لئے چین کے
پڑھیں:
ڈونلڈ ٹرمپ کی نیتن یاہو سے گرما گرمی، ٹیلیفونک گفتگو کشیدگی میں بدل گئی
واشنگٹن/تل ابیب ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 27 مئی 2025ء ) امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو سے ٹیلیفونک گفتگو کے دوران گرما گرمی ہوگئی۔ اسرائیلی میڈیا کے مطابق وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان ایران کے حوالے سے گرما گرم اختلاف پایا گیا، دونوں رہنماؤں کے درمیان ٹیلی فونک رابطے میں ہونے والی بات چیت کے دوران شدید اختلاف اس وقت پیدا ہوا جب ٹرمپ نے مبینہ طور پر نیتن یاہو سے کہا کہ "میں ایرانیوں کے ساتھ سفارتی حل چاہتا ہوں، مجھے اچھی ڈیل کرنے کی اپنی صلاحیت پر یقین ہے"، اس دوران انہوں نے مبینہ طور پر ایک معاہدے میں اپنی دلچسپی پر بھی زور دیا جو دونوں فریقوں کے مفادات کو پورا کرے گا۔ بتایا گیا ہے کہ امریکی صدر اور اسرائیلی وزیراعظم کی بات چیت کا لہجہ پہلے کے دعوؤں سے متصادم دکھائی دیا جس سے پتا چلتا ہے کہ دونوں رہنماؤں نے باہمی افہام و تفہیم کے ساتھ اپنی کال ختم نہیں کی، تاہم اس معاملے پر اپنے ردعمل میں نیتن یاہو کے دفتر نے اس بات کی تردید کی کہ اسرائیلی وزیراعظم کی ٹرمپ کے ساتھ "کشیدہ بات چیت" ہوئی ہے، نیتن یاہو اور ٹرمپ "اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت پر متفق ہیں کہ ایران جوہری ہتھیار حاصل نہ کرے"۔(جاری ہے)
معلوم ہوا ہے کہ نیتن یاہو اور ٹرمپ کے درمیان تناؤ کی خبریں امریکی ہوم لینڈ سیکیورٹی کی سیکریٹری کرسٹی نوئم کے دورے کے فوراً بعد سامنے آئی، جنہوں نے فاکس نیوز کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ "صدر ٹرمپ نے مجھے خاص طور پر وزیراعظم نیتن یاہو سے بات کرنے کے لیے بھیجا کہ مذاکرات کیسے ہو رہے ہیں اور یہ کتنا ضروری ہے کہ ہم متحد رہیں اور اس مذاکراتی عمل کو چلنے دیں"، تاہم اس موقع پر وضاحت کرنے کے لیے پوچھے جانے پر انہوں نے یہ بتانے سے انکار کر دیا کہ "امریکی صدر کا ذاتی پیغام اسرائیلی وزیراعظم کو کیا تھا"۔