بھارتی خاتون کی شناخت چرا کر فحش AI مواد کرکے 5 دنوں میں لاکھوں کمانے والے کا اب انجام کیا ہوگا؟
اشاعت کی تاریخ: 24th, July 2025 GMT
بھارتی ریاست آسام کے شہر دبروگڑھ سے تعلق رکھنے والی ایک گھریلو خاتون کی شناخت چرا کر، ان کے چہرے کا استعمال کرتے ہوئے مصنوعی ذہانت (AI) کے ذریعے ایک جعلی انسٹاگرام ماڈل “Babydoll Archi” تخلیق کی گئی، جو نہ صرف وائرل ہو گئی بلکہ سوشل میڈیا پر 14 لاکھ فالوورز حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی — حالانکہ حقیقت میں ایسی کوئی عورت موجود ہی نہیں تھی۔
بے بی ڈول آرچی کی مقبولیتبے بی ڈول آرچی کے انسٹاگرام پر وائرل ہونے کی بنیادی وجہ اس کی ویڈیوز اور تصاویر تھیں، جن میں سے ایک ویڈیو میں وہ لال ساڑھی میں رومانوی انداز میں رقص کر رہی تھی، جبکہ ایک دوسری تصویر میں اسے معروف امریکی فحش اداکارہ کینڈرا لسٹ کے ساتھ دکھایا گیا تھا۔
جلد ہی بے بی ڈول آرچی گوگل پر ٹرینڈ کرنے لگی، میمز بننے لگے، اور پھر اس کے مداحوں کے صفحات بھی تخلیق ہو گئے۔ تاہم، جب اس کے پیچھے موجود حقیقت سامنے آیا، تو سب حیران رہ گئے کہ آرچی دراصل ایک ڈیپ فیک تھی، جس میں ایک حقیقی بھارتی خاتون ’سانچی‘ (فرضی نام) کا چہرہ استعمال کیا گیا۔
پولیس تحقیقات اور سابق بوائے فرینڈ کی گرفتاریسانچی کے بھائی نے 11 جولائی کو پولیس میں شکایت درج کروائی، جس کے بعد معاملے کی تہہ تک جانے پر پتہ چلا کہ یہ سب کچھ سانچی کے سابق بوائے فرینڈ پرتیم بورا نے ’انتقام‘ کی نیت سے کیا تھا۔
تحقیقاتی ٹیم کی سربراہ، پولیس افسر سِجل اگروال کے مطابق ملزم پرتیم بورا ایک مکینیکل انجینئر اور خودساختہ AI ماہر ہے، جس نے سانچی کی نجی تصاویر لے کر ان میں ترمیم کی اور پھر انہیں ڈیپ فیک ویڈیوز و تصاویر میں تبدیل کر کے انسٹاگرام پر اپ لوڈ کیا۔
پولیس نے پرتیم بورا کو 12 جولائی کی شام گرفتار کر کے اس کا لیپ ٹاپ، موبائل فونز، ہارڈ ڈرائیوز اور بینک ریکارڈ قبضے میں لے لیا۔
مالی فائدہ اور سوشل میڈیا کی خاموشیپولیس کے مطابق بے بی ڈول آرچی کے لنک ٹری (Linktree) پر تقریباً 3,000 سبسکرائبرز تھے، اور اندازہ ہے کہ بورا نے اس جعلی شناخت سے 10 لاکھ بھارتی روپے کمائے، جن میں سے صرف 5 دنوں میں 3 لاکھ روپے حاصل کیے گئے۔
سانچی کے اہلِ خانہ کا کہنا ہے کہ انہیں اس پورے معاملے کا علم اس وقت ہوا جب مین اسٹریم میڈیا اور نیوز پورٹلز پر آرچی کو بطور ’انفلوئنسر‘ پیش کیا جانے لگا — یہاں تک کہ خبریں گردش کرنے لگیں کہ وہ امریکی فحش انڈسٹری میں شامل ہونے والی آسام کی پہلی خاتون بننے جا رہی ہے۔
پولیس کے مطابق انسٹا گرام سے حاصل شدہ معلومات کی مدد سے بورا کا پتہ چلایا گیا، اور شکایت کنندہ سانچی سے اس کی شناخت کی تصدیق کروا کر گرفتاری عمل میں لائی گئی۔
انسٹاگرام اور AI ٹیکنالوجی کا غیر اخلاقی استعمالانسٹاگرام نے بے بی ڈول آرچی کا اکاؤنٹ (جس پر 282 پوسٹس تھیں) پبلک سے ہٹا دیا ہے، تاہم سوشل میڈیا پر اس کی تصاویر اور ویڈیوز اب بھی گردش کر رہی ہیں، اور ایک نیا انسٹاگرام اکاؤنٹ ان سب کو دوبارہ شیئر کر رہا ہے۔
اب تک میٹا (Meta) نے اس کیس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا، حالانکہ حالیہ مہینوں میں AI ٹولز کے ذریعے جنسی نوعیت کی جعلی ویڈیوز کی تشہیر کرنے والے اشتہارات کو پلیٹ فارم سے ہٹانے کی خبریں سامنے آ چکی ہیں۔
قانونی ماہرین کی رائے: خواتین اور AI کا استحصالمصنوعی ذہانت کی ماہر اور وکیل میگھنا بال کا کہنا ہے ’جو سانچی کے ساتھ ہوا، وہ انتہائی افسوسناک ہے لیکن اسے مکمل طور پر روکنا تقریباً ناممکن ہے۔‘
ان کے مطابق متاثرہ خاتون عدالت جا کر ‘حقِ فراموشی’ (Right to be Forgotten) کی اپیل کر سکتی ہیں، مگر انٹرنیٹ سے تمام نشانات مکمل طور پر مٹانا بہت مشکل ہوتا ہے۔
میگھنا بال نے مزید کہا کہ ’یہ دراصل خواتین کے خلاف انتقامی کارروائی کا تسلسل ہے، اب AI نے اسے آسان بنا دیا ہے۔ ایسے کیسز یا تو بہت کم رپورٹ ہوتے ہیں یا متاثرہ فرد کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ وہ کس استحصال کا شکار بن چکی ہے۔‘
قانونی چارہ جوئی اور ممکنہ سزاپرتیم بورا کے خلاف پولیس نے جنسی ہراسانی، فحش مواد کی اشاعت، بدنامی، جعلسازی، شناخت چرانے اور سائبر کرائم کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا ہے۔ اگر جرم ثابت ہو گیا تو اسے 10 سال تک قید کی سزا ہو سکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیے اخلاقیات پر مصنوعی ذہانت کے ساتھ ایک مکالمہ
سوشل میڈیا پر اس واقعے کے بعد شدید غم و غصے کا اظہار کیا جا رہا ہے، اور مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ ایسے معاملات کے لیے سخت تر قوانین بنائے جائیں۔
کیا AI اخلاقی کنٹرول سے باہر ہو چکی ہے؟یہ کیس صرف ایک عورت کی شناخت کے چرانے کا معاملہ نہیں، بلکہ یہ ڈیپ فیک، مصنوعی ذہانت، پرائیویسی اور خواتین کے تحفظ کے حوالے سے کئی سنجیدہ سوالات کو جنم دیتا ہے۔
کیا موجودہ قوانین ایسے جرائم کی روک تھام کے لیے کافی ہیں؟ کیا تکنیکی پلیٹ فارمز پر ذمہ داری عائد کی جانی چاہیے؟ اور سب سے بڑھ کر، کیا AI ٹیکنالوجی انسانی عزت و حرمت سے بالا ہو گئی ہے؟
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بھارت بھارتی ریاست آسام بے بی ڈول آرچی ڈیپ فیک.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بھارت بھارتی ریاست ا سام ڈیپ فیک مصنوعی ذہانت سوشل میڈیا پرتیم بورا کی شناخت سانچی کے کے مطابق ڈیپ فیک
پڑھیں:
مقبوضہ جموں و کشمیر بھارت کا حصہ نہیں ہے، کبھی تھا نہ کبھی ہوگا، پاکستانی مندوب
پاکستان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بھارتی سفارت کاروں کو لاجواب کر دیا، من گھڑت بھارتی دعوؤں کا جواب دیتے ہوئے پاکستان نے واضح کیا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر بھارت کا حصہ نہیں ہے، نہ کبھی تھا اور نہ ہی کبھی ہوگا، یہ ایک متنازع علاقہ ہے، جس کا حتمی فیصلہ اقوامِ متحدہ کی نگرانی میں رائے شماری کے ذریعے وہاں کے عوام کو خود کرنا ہے۔
جنرل اسمبلی میں انسانی حقوق کی رپورٹ پیش کیے جانے پر بھارتی نمائندے کے ریمارکس کے جواب میں پاکستان کے فرسٹ سیکریٹری سرفراز احمد گوہر نےجواب دیتے ہوئے کہا کہ میں بھارت کے بلاجواز دعوؤں کا جواب دینے کے اپنے حقِ جواب (رائٹ آف رپلائی) کا استعمال کر رہا ہوں۔
Right of Reply by First Secretary Sarfaraz Ahmed Gohar
In Response to Remarks of the Indian Delegate
During the General Debate on Presentation of the Report of Human Rights Council
(31 October 2025)
*****
Mr. President,
I am using this right of reply to respond to the India’s… pic.twitter.com/XPO0ZJ6w6q
— Permanent Mission of Pakistan to the UN (@PakistanUN_NY) October 31, 2025
انہوں نے کہا کہ میں بھارتی نمائندے کی جانب سے ایک بار پھر دہرائے گئے بے بنیاد اور من گھڑت الزامات پر زیادہ بات نہیں کرنا چاہتا، بلکہ اس کونسل کے سامنے صرف چند حقائق پیش کرنا چاہوں گا۔
سرفراز احمد گوہر نے کہا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر بھارت کا حصہ نہیں ہے، نہ کبھی تھا اور نہ ہی کبھی ہوگا، یہ ایک متنازع علاقہ ہے، جس کا حتمی فیصلہ اقوامِ متحدہ کی نگرانی میں رائے شماری کے ذریعے بھارت کے غیر قانونی طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام کو کرنا ہے، جیسا کہ سلامتی کونسل کی متعدد قراردادوں میں مطالبہ کیا گیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ کشمیر کی یہ متنازع حیثیت اقوامِ متحدہ اور بین الاقوامی برادری دونوں تسلیم کرتے ہیں، اقوامِ متحدہ کے تمام سرکاری نقشوں میں بھارت کے غیر قانونی طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر کو متنازع علاقہ دکھایا گیا ہے۔
سرفراز گوہر نے کہا کہ بھارت پر اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 25 کے تحت قانونی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل درآمد کرے اور کشمیری عوام کو ان کا حقِ خودارادیت استعمال کرنے کی اجازت دے۔
انہوں نے کہا کہ بارہا، اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے ہائی کمشنرز، خصوصی نمائندے، سول سوسائٹی تنظیمیں، اور آزاد میڈیا نے بھارت کے غیر قانونی طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔
پاکستان کے فرسٹ سیکریٹری نے کہا کہ آج کے انتہا پسند اور ناقابلِ برداشت بھارت میں، سیکولرازم کو ہندوتوا نظریے کے بت کے سامنے قربان کر دیا گیا ہے، وہ ہندو بنیاد پرست عناصر جو حکومت میں عہدوں، سرپرستی اور تحفظ سے لطف اندوز ہو رہے ہیں، اس کے مرکزی کردار ہیں، انتہا پسند ہندو تنظیموں نے کھلے عام مسلمانوں کی نسل کشی کے مطالبات کیے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جینو سائیڈ واچ نے خبردار کیا ہے کہ بھارت اور مقبوضہ جموں و کشمیر میں مسلمانوں کی نسل کشی کا حقیقی خطرہ موجود ہے۔
انہوں نے جنرل اسمبلی کے صدر کو مخاطب کرتےہوئے کہا کہ ہم ایک بار پھر زور دیتے ہیں کہ بھارتی حکومت کو چاہیے کہ وہ بھارت کے غیر قانونی طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام کے حوالے سے اپنی بین الاقوامی انسانی حقوق کی ذمہ داریاں پوری کرے، اور بھارتی نمائندے کو مشورہ دیں کہ وہ توجہ ہٹانے کے حربے ترک کرے۔