Daily Sub News:
2025-05-28@02:35:39 GMT

پی۔ٹی۔آئی  اور ‘معمولِ نو ‘  (NEW NORMAL)

اشاعت کی تاریخ: 26th, May 2025 GMT

پی۔ٹی۔آئی  اور ‘معمولِ نو ‘  (NEW NORMAL)

پی۔ٹی۔آئی  اور ‘معمولِ نو ‘  (NEW NORMAL) WhatsAppFacebookTwitter 0 26 May, 2025 سب نیوز

تحریر: عرفان صدیقی

                اپریل 2022 میں، تحریکِ عدم اعتماد، کے ذریعے محرومِ اقتدار ہونے کے بعد تحریکِ انصاف کے سامنے ایک راستہ تو وہی تھا جو جمہوری فکر کی حامل، سیاست کا وسیع تجربہ رکھنے والی بالغ فکر جماعتیں اختیار کیا کرتی ہیں۔ وہ سیدھے سبھائو  اپوزیشن بینچوں پر بیٹھ جاتی۔ صرف دو  ووٹوں کی برتری سے قائم،  معجونِ مرکب جیسی مخلوط حکومت کا ناطقہ بند کئے رکھتی  اور سائفر جیسے ناٹک رچانے اور  فوج کو نشانے پر رکھ لینے کے بجائے تحمل اور  استقامت کے ساتھ انتخابات کی طرف پیش قدمی کرتی۔

                گذشتہ تین برس میں، اس کے سفر کو ایسا سفرِ رائیگاں قرار دیا جاسکتا ہے  اور  وہ قومی سیاست کی ایسی داستانِ عبرت بن چکی ہے جس کے ہر صفحے پر اُس کے بانی کی بے حکمتی، انا پرستی، ہٹ دھرمی ، خُود شکنی اور سیاسی فہم وفرست سے محرومی کے نوشتے رقم ہیں۔

                تحریکِ عدم اعتماد کی چاپ سنتے ہی، عمران خان نے پہلے ہدف کا تعین کرتے ہوئے، تحریکِ عدم اعتماد کو ”رجیم چینج” (حکومتی تبدیلی) کی عالمی سازش قرار دیا۔ سائفر لہراتے ہوئے اُسے امریکی اور مقامی ”میرجعفروں، میر صادقوں” کی ملی بھگت کا نام دیا۔ مظلومی سے جڑے جرات وبہادری کے خود تراش نظریے کو ”ہم کوئی غلام ہیں؟” ”غلامی نامنظور” اور ”آزادی” جیسے انقلابی نعرے دیے۔ اسی دوران جنرل باجوہ سے ملاقاتوں میں التماس کی کہ پی۔ڈی۔ایم کو فارغ کرکے اُنہیں پھر سے وزارت عظمی کی  مسند پر بٹھا دیا جائے۔ اس کے عوض جنرل باجوہ کو  تاحیات آرمی چیف بنانے کی پیشکش کی۔

                عمران خان کا دوسرا  اہم ہدف یہ تھا کہ پاکستان معاشی طورپر سنبھلنے نہ پائے اور  دیوالیہ قرار پاکر زمیں بوس ہوجائے۔ اس ہدف کے لئے اُنہوں نے دلجمعی سے بھرپور مہم چلائی۔ اگست 2022 میں خان صاحب کے وزیرخزانہ شوکت ترین کی آڈیو سامنے آئی جس میں وہ خیبرپختون خوا  اور پنجاب کے وزرائے خزانہ کو تلقین کرتے پائے گئے کہ آئی۔ایم۔ایف کو عدم تعاون کے خطوط لکھے جائیں تاکہ پاکستان کو کوئی نیا پروگرام نہ مل پائے۔ 23 مئی 2024 کو عمران خان نے اڈیالہ  جیل سے آئی۔ایم۔ایف  کو ایک طویل خط میں تنبیہہ کی کہ وہ ”انتخابات کا آڈٹ” کئے بغیر پاکستان کو قرض دینے سے باز رہے۔ اس خط کے تین ہفتوں بعد، 15 مارچ کو پی۔ٹی۔آئی نے واشنگٹن میں آئی۔ایم۔ایف کے ہیڈکوارٹرز کے سامنے ایک شعلہ صفت مظاہرہ کیا۔ فروری 2025 میں عمران خان کے حکم پر پی۔ٹی۔آئی کے مرکزی راہنما عمرایوب نے آئی۔ایم۔ایف کے کنٹری ہیڈ برائے پاکستان سے ملاقات میں ایک فتنہ پرور خط حوالے کیا جس کے ساتھ پاکستان کی ”غزہ” جیسی صورت حال بارے ایک بھاری بھرکم ”ڈوزئیر” بھی منسلک تھا۔ عرضداشت یہ تھی کہ پاکستان کو دیوالیہ پن کے بحرِ ظلمات میں غرق ہونے دیا جائے۔ پاکستان کی معاشی ناکہ بندی کے لئے عمران خان نے جنوری 2024 میں سمندر پار پاکستانیوں سے پُرزور اپیل کی کہ وہ اپنی رقوم پاکستان نہ بھیجیں۔ یہ اپیل عین اُس دن جاری کی گئی جس دن پی۔ٹی۔آئی اور حکومت کے مابین مذاکرات کی بساط بچھ رہی تھی۔

                عمران خان کا تیسرا  اہم ہدف (جس کی منصوبہ بندی وہ اپنے عہد حکومت ہی میں کرچکے تھے) یہ تھا کہ جنرل عاصم منیر کو کسی طور آرمی چیف نہ بننے دیا جائے۔ آئی۔ایس۔آئی کا سربراہ ہوتے ہوئے، جنرل عاصم سے ”دوگستاخیاں” سرزد  ہوچکی تھیں۔ پہلی یہ کہ انہوں نے ٹھوس شواہد اور  دستاویزات کے ساتھ وزیراعظم عمران کو بتایا تھا کہ اُن کا گھر کرپشن کا گڑھ بن چکا ہے۔ دوسری یہ کہ نیک نفس جرنیل نے دوٹوک انداز میں انکار کردیا کہ وہ خان صاحب کے سیاسی مخالفین کے خلاف جعلی مقدمات بنائیں اور انہیں جیل میں ڈالیں۔ عاصم منیر سے خفگی اتنی بڑھی کہ انہیں صرف سات ماہ  اکیس دن بعد ڈی۔جی۔آئی ایس آئی کے منصب سے ہٹا کر کنیزِ حرم جیسا کردار  ادا کرنے والے فیض حمید کو کمان سونپ دی گئی۔ عاصم منیر کا راستہ روکنے کے لئے خان صاحب نے آخری فیصلہ کن یلغار، تقرری کے اعلان سے دو  دن قبل کی جب وہ زخمی ٹانگ لئے، تھکا دینے والا سفر طے کرکے راولپنڈی پہنچے۔ عوام کا مجمع ایک دو ہزار سے آگے نہ بڑھا تو مایوس ہوکر واپس چلے گئے۔ جنرل باجوہ نے آخری لمحے تک عاصم منیر کی بھرپور مخالفت کی لیکن ایک فیصلہ لوحِ قضا وقدر پر کندہ ہوچکا تھا۔ عمران فیض حمید گٹھ جوڑ نے ہمت نہ ہاری۔ 9 مئی 2023 کو تین سو کے لگ بھگ فوجی تنصیبات، فضائیہ کے اڈوں اور شہدا کے مزاروں کی تاخت وتاراج بھی فوج کے اندر ارتعاش پیدا کرکے عاصم منیر کا تختہ الٹنے کی سازش تھی۔

                سید عاصم منیر سے مخاصمت کے ساتھ ساتھ، خان صاحب نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو بھی نیزے کی اَنی پہ رکھا ہوا تھا۔ اُن کے چہرے پر رُسوائیاں تھوپ کر گھر بھیجنے کے لئے بڑے پاپڑ بیلے گئے لیکن قاضی صاحب، وقت آنے پر چیف جسٹس بنے اور پوری تمکنت کے ساتھ اپنی معیاد پوری کی۔ عمران خان نے اپنے ڈھب کی عدلیہ تخلیق کرنے کے لئے بھی بڑے جتن کئے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ سے چھ جج صاحبان کا مکتوب گرامی طلوع ہونے کے بعد اڈیالہ جیل سے بھی رنگا رنگ خطوط آنے لگے۔ پھر خود عدالتیں بھی مشقِ سخن میں شامل ہوگئیں خان صاحب کی شاخِ آرزو  پر  کونپلیں پھوٹ ہی رہی تھیں کہ چھبیسویں آئینی ترمیم آگئی اور ”انقلاب”جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔

                اب برسرِ زمین حقیقت یہ ہے کہ سارے اہداف اور سارے منصوبے گورستانِ تاریخ کا رزق ہوچکے ہیں۔ سائفر کے ناٹک اور بیسیوں جلسوں کے باوجود کسی انقلاب نے انگڑائی نہیں لی۔ عوام اب اس کارِلاحاصل سے لاتعلق ہوچکے ہیں۔ ”فائنل کال” کی بڑی ہزیمت نے پی۔ٹی۔آئی کے دست وبازو کی قوت کا بھانڈا پھوڑ دیا ہے۔ آئی۔ایم۔ایف کا پروگرام کامیابی سے جاری ہے۔ معیشت اپنے پائوں پر کھڑی  ہوچکی ہے اور  اللہ کے فضل وکرم سے دیوالیہ پن کا خطرہ بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ خان صاحب کی اپیل کے باوجود سمندر پار سے ترسیلات زر نئے  ریکارڈ قائم کر رہی ہیں۔ سید عاصم منیر، بھارت کے خلاف جنگ میں فتحِ مبین کے بعد فیلڈ مارشل کے بلند ترین منصب پر فائز ہوچکے ہیں۔ خان صاحب کی سپاہِ سوشل میڈیا کا نشانہ بننے والی پاک فوج، اہل وطن کے دلوں کے بہت قریب آگئی ہے۔ ”صداقت وامانت” کی سنداتِ فضیلت بانٹنے اور ”گُڈ ٹو سی یو” کہہ کر استقبال کرنے والی عدلیہ قصّہ ماضی ہوچکی۔ سپریم کورٹ فوجی عدالتوں سے دی جانے والی سزائوں کی توثیق کرچکی۔ سپریم کورٹ ہی کی ہدایت کے مطابق 14 اگست تک انسدادِ دہشت گردی کی عدالتیں 9 مئی کے ملزموں کے مقدر کا فیصلہ کرنے جا رہی ہیں۔ فیض حمید کا کورٹ مارشل، فیصل ہونے کو ہے۔ خود فریبی کی کارگاہ میں تراشا گیا، ڈونلڈ ٹرمپ نامی مسیحا، اڈیالہ جیل سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتا۔

                یہ ہے وہ نیو نارمل (New Normal) یا ”معمولِ نو”، جو پاکستان میں نہایت مضبوطی کے ساتھ خیمے گاڑ چکا ہے۔ اس ”معمولِ نو” کی چولیں عمدگی کے ساتھ ایک دوسرے میں پیوست ہیں۔ مودی کی بے سروپا جنگجوئی نے پاکستانیت کے احساس کو نئی جِلا بخشی ہے۔ اس توانا اور تازہ دم  ”معمولِ نو” کے سامنے ایک ایسا شکست خوردہ گروہ ہے جو  اپنے تمام پتے کھیل چکاہے۔ اسٹیلبشمنٹ کے دروازے پر دستک دیتے دیتے  اس کے ہاتھوں سے لہو  رسنے لگا ہے لیکن کوئی شنوائی نہیں ہو  رہی۔

                ایسے میں ایک بار پھر شاہراہوں کو بندکرنے، عوام کو سڑکوں پہ لانے اور انقلاب بپا کرنے کے منصوبے بن رہے ہیں۔ ”معمولِ نو” (New Normal) یہ سب کچھ دیکھ رہا ہے، مسکرا  رہا ہے۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرجو جماعت پارلیمنٹ میں نہ ہو اس میں آزاد کیسے شامل ہوسکتے ہیں؟ سنی اتحادکونسل مخصوص نشتوں کی حقدار نہیں، ججز آئینی بینچ معصومیت کا قتل: پاکستان میں بھارت کی پراکسی جنگ گرمی کی لہر فطرت کا انتقام یا انسانوں کی لاپروائی؟ جوائنٹ فیملی سسٹم میں پھنسی لڑکیاں: جدید سوچ، پرانے بندھن ایک پُرامن قوم، ایک زوردار انتباہ پاکستان میں نوجوان نسل اور سگریٹ نوشی عنوان: پاکستان میں اقلیتی برادریوں کا کردار اور درپیش چیلنجز TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: پی ٹی آئی

پڑھیں:

ٹرمپ کو پاکستان سے کیا کام ہے؟

ٹرمپ دوبارہ صدر بننے کے بعد سے ٹروتھ سوشل پر اکثر پاکستان کے حق میں پوسٹ کرتا دکھائی دیتا ہے۔ 10 مئی کو ایسی ہی ایک پوسٹ میں ٹرمپ نے کہا کہ ‘پاکستان ٹیلنٹڈ لوگوں کا ملک ہے، ہمیں فخر ہے کہ ہم ان کے ساتھ مل کر دہشتگردی کے خلاف لڑ رہے ہیں’۔

17 مئی کو تو لٹ ہی پڑگئی۔ فاکس نیوز کو ایک انٹرویو میں ٹرمپ نے پاکستان کو ‘دنیا کے بہترین اور باصلاحیت لوگوں’ کا ملک بھی قرار دے دیا جو بہترین پراڈکٹ تیار کرتے ہیں۔ ایسا کہتے ہوئے وہ یہ کہنا نہیں بھولا کہ انڈیا نے امریکی پراڈکٹ پر سب سے زیادہ ٹیرف عائد کر رکھے ہیں۔

انڈیا کو لتاڑنے پر تو چلیں آج کل ہمارا خوش ہونا بنتا ہے۔ لیکن سوچنے کی بات تو ہے کہ ایسی کون سی ہماری بہترین پراڈکٹ ہیں جن کا ٹرمپ بھی مداح ہے۔ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ وہ اپنے وعدوں پر عمل کرنے والا شخص ہے، اپنے لوگوں سے میں نے کہہ دیا کہ وہ انڈیا کے ساتھ جنگ بندی کے بعد فوری طور پر پاکستان کے ساتھ ٹریڈ میں اضافہ کریں۔

5 مارچ کو صدر بننے کے بعد اپنے پہلے اسٹیٹ آف دی یونین خطاب میں پاکستان واحد ملک تھا جس کا ڈونلڈ ٹرمپ نے شکریہ ادا کیا۔ پاکستان نے کابل ایئر پورٹ پر 2021 میں خود کش حملے میں مدد کرنے والے دہشتگرد کو پکڑنے میں مدد دی تھی۔ پاک بھارت تناؤ کے دوران بھی اور جنگ بندی کے بعد بھی ٹرمپ کا انداز بیان مودی سرکار کے لیے پریشان کن ہی رہا ہے۔

رئیر ارتھ اور کریٹکل منرل، دفاع اور ٹیکنالوجی میں برتری کے لیے اہم ہیں۔ منرل کی سپلائی چین اور ذخائر پر چین کا کنٹرول ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کی معاشی حکمت عملی میں ‘ری شورنگ’ یعنی منرل کے لیے چین پر انحصار کم کرنا اہم ترجیح ہے۔ پاکستان اپنے معدنی ذخائر کی وجہ سے اہمیت اختیار کرچکا ہے۔

پاکستان اب ڈیجیٹل معیشت کی جانب بڑھ رہا ہے۔ اسٹیٹ بینک اب سنٹرل بینک ڈیجیٹل کرنسی متعارف کرانے پر کام کر رہا ہے۔ بائنانس کے بانی چانگپینگ ژاؤ بھی اس شعبے میں پیش قدمی کے لیے پاکستانی حکومت کو غیر رسمی مشاورت فراہم کر رہے ہیں۔ اس شعبے میں سرمایہ کاری کے لیے پاکستان اپنے آبادی اور معیشت کے سائز کی وجہ سے بھی ایک پرکشش ملک ہے۔

ٹرمپ خاندان سے منسلک ‘ورلڈ لبرٹی فنانشل’ نے پاکستان کرپٹو کونسل کے ساتھ ایک ایم او یو پر بھی سائن کیے ہیں۔ اس کا مقصد پاکستان کو ایک اسٹیبل کوائن کے ذریعے عالمی مالیاتی نظام میں ایک متبادل رسائی فراہم کرنا ہے۔ ٹرمپ کے داماد جئرڈ کشنر بھی اس منصوبے میں دلچسپی لے رہے ہیں۔ کشنر پہلے ہی مڈل ایسٹ میں ایسے ہی ہائی ٹیک سے متعلق سرمایہ کاری منصوبے کامیابی سے چلا رہے ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے دوبارہ انتخاب کے بعد پاکستان نے واشنگٹن کی بڑی لابنگ فرم بی جی آر گروپ کی خدمات حاصل کرلی تھیں۔ اس کے نتیجے میں امریکی محکمہ تجارت اور سرمایہ کاری سے وابستہ کئی اعلیٰ شخصیات، جیسے کہ ڈیوڈ ملر ( یو ایس ایکسپورٹ امپورٹ بنک کے سابق ڈائریکٹر) اور الینا بارٹلیٹ (ٹرمپ کی مہم کی فنانس ڈائریکٹر)، اسلام آباد پہنچیں۔

پاکستانی وزارت تجارت اور منصوبہ بندی کمیشن کے ساتھ ان کی ملاقاتوں میں توانائی، انفراسٹرکچر اور بلاک چین ( کریپٹو، بینک ٹرانزیکشن کی ڈیجیٹل اور محفوظ ٹیکنالوجی ) کے منصوبوں پر بات چیت ہوئی۔ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے حال ہی میں ایک بیان میں کہا ہے کہ 2000 میگاواٹ بجلی اے آئی ڈیٹا سنٹر اور کریپٹو کے لیے مختص کی جا رہی ہے۔ ڈیٹا سنٹر کے لیے توانائی بنیادی اوربڑی ضرورت ہوتی ہے۔

ٹیکنالوجی میں برتری کے لیے کریٹکل منرل اہم ترین ہیں۔ اب تک یوکرین، روس، کسی حد تک افغانستان اور پاکستان کی منرل سائٹ ہی بڑی حد تک چین سے بچی ہوئی ہیں۔ پاکستان میں گلگت بلتستان، فاٹا، بلوچستان ان سب جگہ یہ ذخائر موجود ہیں۔ امریکا کو اپنی ٹیکنالوجی میں برتری برقرار رکھنی ہے تو پاکستان افغانستان سے صرف منرل ہی نہیں حاصل کرنے بلکہ جاری دہشت گردی اور بدامنی کا خاتمہ بھی کرنا ہے۔

اس حوالے سے ٹرمپ کے ان بیانات کو اہمیت دینے کی ضرورت ہے۔ جن میں وہ پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف قابل فخر پارٹنر بتا رہا ہے۔ پاکستان کی یہ نئی اہمیت ہی بتاتی ہے کہ کیوں ٹرمپ انڈیا پر پاکستان کو ترجیح دے رہا ہے اور اسے پاکستان سے کیا کام ہے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

وسی بابا

وسی بابا نام رکھا وہ سب کہنے کے لیے جن کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔ سیاست، شدت پسندی اور حالات حاضرہ بارے پڑھتے رہنا اور اس پر کبھی کبھی لکھنا ہی کام ہے۔ ملٹی کلچر ہونے کی وجہ سے سوچ کا سرکٹ مختلف ہے۔ کبھی بات ادھوری رہ جاتی ہے اور کبھی لگتا کہ چپ رہنا بہتر تھا۔

بائنانس پاکستان ڈونلڈ ٹرمپ کرپٹو مائننگ منرلز

متعلقہ مضامین

  • صدارتی تقریر
  • خان صاحب کا اڈیالہ جیل سے پہلا انٹرویو
  • ٹرمپ کو پاکستان سے کیا کام ہے؟
  • پی۔ٹی۔آئی اور ’معمولِ نو (NEW NORMAL)
  • ریحام رفیق کا ڈانس اور چہرے کے تاثرات ‘بیہودہ’ قرار
  • 91 فیصد پاکستانی عمران خان کے ساتھ کھڑے ہیں، فوری رہا کیا جائے، حلیم عادل شیخ
  • عبدالواحد صاحب،’اسے ڈھونڈتے میرؔ کھوئے گئے‘
  • ‘آخری پیغام لکھ چکا تھا جو میرے جنازے پر پڑھا جاتا’، اداکار عدنان صدیقی نے موت کو کیوں یاد کیا؟
  • عمران خان کی پرول پر رہائی کا معاملہ عدالتیں دیکھیں گی، یوسف رضا گیلانی