‘آخری پیغام لکھ چکا تھا جو میرے جنازے پر پڑھا جاتا’، اداکار عدنان صدیقی نے موت کو کیوں یاد کیا؟
اشاعت کی تاریخ: 25th, May 2025 GMT
ہفتہ 24 مئی کو ملک کے مختلف علاقوں میں آندھی اور طوفان کے بعد بارش اور موسلا دھار بارش نے نظام زندگی درہم برہم کردیا، اس دوران کراچی سے لاہور جانے والی نجی ایئرلائنز کی پرواز بھی حادثے سے بال بال بچی۔
کراچی سے لاہور پہنچنے والی نجی ایئر لائنز کی پرواز نے رن وے ٹچ کیا تو طوفان کی زد میں آگئی، اس دوران مسافروں پر خوف طاری ہوگیا، اور کلمہ طیبہ کا ورد کرتے رہے۔
یہ بھی پڑھیں واشنگٹن طیارہ حادثہ: پاکستانی نژاد اسریٰ حسین کی آخری لمحات میں شوہر سے کیا بات ہوئی؟
اس دوران پائلٹ نے مہارت سے پرواز کو واپس اڑایا اور ایئر ٹریفک کنٹرول نے کراچی واپس موڑ دیا۔
اسی پرواز میں معروف پاکستانی اداکار عدنان صدیقی بھی موجود تھے، جن کا کہنا ہے کہ وہ اپنا آخری پیغام بھی لکھ چکے تھے جو ان کے جنازے میں پڑا جاتا۔
سوشل میڈیا پر اپنی ایک پوسٹ میں انہوں نے لکھا کہ گزشتہ روز میں نے موت کو قریب سے دیکھا جب ہوائی جہاز لرز اٹھا، ہر طرف افراتفری تھی اور لوگ چلا رہے تھے۔
View this post on Instagram
A post shared by Adnan Siddiqui (@adnansid1)
عدنان صدیقی نے لکھا کہ میں نے اس دوران پرسکون رہنے کی کوشش کی۔ تاہم مجھے اس بات کا درد محسوس ہوا کہ میں خاندان کو یہ بتائے بغیر دنیا سے جا رہا ہوں کہ میں ان سے کتنا پیار کرتا ہوں۔
اداکار نے لکھا کہ میں نے اس دوران جہاز کی محفوظ لینڈنگ کے لیے دعا کی، جب لوگ چیخ رہے تھے تو میں نے پرسکون انداز سے اپنا موبائل کھولا اور ایک نوٹ لکھا کہ جیسے یہ میرے جنازے پر پڑا جائےگا۔
یہ بھی پڑھیں امریکا میں لاپتہ جہاز کا ملبہ منجمد سمندر سے مل گیا، 10 افراد ہلاک
واضح رہے کہ گزشتہ روز ملک کے مختلف علاقوں میں آندھی اور طوفان کے باعث پیش آنے والے حادثات میں 14 افراد جاں بحق اور 50 سے زیادہ زخمی ہوگئے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews آخری پیغام آندھی اور طوفان پرواز جنازہ عدنان صدیقی موت نجی ایئرلائنز وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ا خری پیغام ا ندھی اور طوفان پرواز موت نجی ایئرلائنز وی نیوز لکھا کہ کہ میں
پڑھیں:
برصغیر میں رقص کی تاریخ
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 23 مئی 2025ء) بھرت مونی دریا کے کنارے پانچواں وید "نٹ شاستر" لکھنے میں منہمک ہے۔ بھرت مونی نے سوچا کہ ایک ایسی بھی صنف ہو جو بے زبان ہو لیکن جسم کی حرکات اور چہرے کے تاثرات کے ذریعے ادا ہو اور پھر نٹ شاستر میں"نٹہ"یعنی رقص وجود میں آیا۔
ویدوں اور نٹ شاستر میں رقص و موسیقی کا ذکر تفصیل سے ملتا ہے۔
نٹ شاستر سنسکرت زبان کا ایک قدیم اور معتبر صحیفہ ہے جسے "بھرت مونی" نے تقریباً دو ہزار قبل مسیح میں تصنیف کیا۔ یہ تصنیف صرف رقص ہی نہیں بلکہ قدیم ناٹک کے رہنما اصول مرتب کرنے والی دستاویز میں شمار ہوتی ہے۔ برصغیر میں رقص صدیوں سے ثقافت کا حصہ رہا۔ تاہم برطانوی راج کے دوران، رقص کو اکثر غیر مہذب یا غیر سنجیدہ سمجھا گیا، تب بھی آزاد ریاستوں کے نوابین نے رقص اور فنکاروں کو نہ صرف عزت و توقیر دی بلکہ مال و زر سے بھی نوازا۔(جاری ہے)
لیکن وقت کے ساتھ برطانوی تسلط بڑھتا گیا اور ہندوستانی فن و ثقافت روبہ زوال ہونے لگے۔آزادی کے بعد، ہندوستان اور پاکستان دونوں ملکوں میں اس فن کو زندہ کرنے کی کوششیں ہوئیں، مگر پاکستان میں خاص طور پر ضیا الحق کے آمرانہ دور میں رقص پر پابندی عائد کر دی گئی، جس نے اس کی ترقی کو سخت نقصان پہنچایا۔ یہاں کلاسیکی رقص کو غیر اسلامی سمجھا جاتا رہا، تاہم ناہید صدیقی، نگہت چوہدری، نجمہ بلوچ، شیما کرمانی اور دیگر فنکاروں نے بالخصوص کتھک کے ذریعے، اس فن کی شمع کو روشن رکھا۔
بھارت میں فنون لطیفہ بالخصوص تھیٹر اور رقص کو حکومت کی خاص سرپرستی حاصل رہی اور حکومت کی جانب سے آٹھ کلاسیکی رقص کی اقسام کو باضابطہ تسلیم کیا گیا ہے۔ ہر رقص کسی نہ کسی علاقے، زبان، مذہب اور ثقافتی روایت سے جڑا ہوا ہے اور ان سب کی جڑیں نٹ شاستر سے جڑی ہیں۔
بھرت ناٹیم
جنوبی بھارت، خاص طور پر تمل ناڈو کا رقص، جو قدیم مندروں میں وشنو اور شیو کی پوجا کے دوران پیش کیا جاتا تھا۔
اس میں زاویہ دار حرکات، نیم بیٹھا ہوا انداز (آرا منڈی)، چہرے کے تاثرات (ابھینئے)، ہاتھوں کے اشارے (مندرائیں) اور پیروں کی تھپتھپاہٹ (تتکار) اہم عناصر ہیں جو کرناٹک موسیقی پر پرفارم کیے جاتے ہیں۔ زمین سے جڑا یہ رقص سخت محنت کا متقاضی ہے۔ بھرت ناٹیم ایک مخصوص تہہ دار ساڑھی پہن کر کیا جاتا ہے۔ بھاری زیورات، گہرے میک اپ خصوصاً آنکھوں کی بناوٹ کو کاجل سے مزید نمایاں کیا جاتا ہے۔ گھنگھرو بھی اس رقص کا لازمی جز ہیں۔اس میں "بھاؤ" (جذبہ) اور "راس" (تاثر) کا امتزاج بہت اہم ہے۔ "راس" وہ داخلی ربط ہے جو فنکار اور ناظرین کے درمیان پیدا ہوتا ہے۔ "نواراسا" یعنی نو بنیادی جذبات جیسے شِرِنگار (محبت)، کرون (غم) اور ہاسیہ (خوشی) کو چہرے کے مخصوص تاثرات سے پیش کیا جاتا ہے۔
کتھک
کتھک شمالی ہندوستان، خصوصاً اتر پردیش کا رقص ہے۔
کتھک سنسکرت کے لفظ "کتھا" سے آیا ہے یعنی کہانی۔ اس رقص کی ابتدا مندروں میں رادھا کشن کی مذہبی کہانیاں سنانے سے ہوئی۔ بعد ازاں مغلیہ درباروں میں اسے ایک درباری فن کی حیثیت حاصل ہوئی۔یہ رقص کلاسیکل موسیقی جس میں طبلہ اور ستار نمایاں حیثیت رکھتے ہیں پیش کیا جاتا ہے۔ اس میں چکر، چشم طشتری، چشم و ابرو کے اشارے، گھنگھرو کی تال اور نرم سیال حرکات کے ذریعے رامائن، مہابھارت، صوفی کلام اور درباری روایات کو مجسم کیا جاتا ہے۔
کتھک میں کہانی گوئی، جذبات کا تدریجی ارتقاء اور تال کی پیچیدگی اسے ممتاز بناتے ہیں۔اس رقص کے لیے چوڑی دار پاجامہ و پشواز، گھاگرا چولی خاص پہناوے اور پاؤں میں گھنگھرو اس رقص کی شان میں اضافہ کرتے ہیں۔اوڈیسی
اوڑیسہ کا رقص، جو جگن ناتھ مندر کی عبادات سے شروع ہوا۔ اس کی شناخت تین جھکاؤ والی حرکات، گردن و کمر کے مخصوص زاویوں، اور نرم، لچک دار انداز سے ہوتی ہے۔
یہ رقص جے دیو کی نظموں، کرشن لیلا اور اوڈیسی موسیقی پر مبنی ہوتا ہے۔ سلک کی ساڑھی، چاندی کے زیورات اور سر پر تاج اس کے مخصوص پہناوے ہیں۔کچھی پوڑی
آندھرا پردیش کا کلاسیکی رقص، جو مندروں میں برہمن مرد اداکاروں کی جانب سے عبادتی انداز میں پیش کیا جاتا تھا۔ بھرت ناٹیم سے ملتے جلتے انداز کے ساتھ اس میں اداکاری کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔
کرناٹک موسیقی پر مبنی یہ رقص رامائن و مہا بھارت کی کہانیوں کو پیش کرتا ہے۔منی پوری
شمال مشرقی بھارت، منی پور کا مخصوص رقص، جو کرشن بھکتی تحریک سے جڑا ہے۔ منی پوری موسیقی اور پکھاوچ میں پرویا یہ رقص نرم، شائستہ اور روحانیت سے لبریز ہوتا ہے۔ اس رقص کی حرکات، گول فراک جیسی ساڑھی، سر پر دوپٹہ اور ہلکے زیورات اسے نہایت لطیف بنا دیتے ہیں۔
کتھاکلی
کیرالہ کا تھیٹر نما رقص، جس میں صرف مرد فنکار حصہ لیتے ہیں۔ کرناٹک اور پیرا دیسی (لوک) موسیقی پر کیے جانے والے اس منفرد رقص میں رنگین چہرے، بھاری لباس، درشتی سے بھرپور حرکات اور خاموش تاثراتی تھیٹر ڈرامہ بھی شامل ہوتا ہے۔ رامائن و مہابھارت کی کہانیوں کو ڈرامائی انداز کے ساتھ پیش کرنے والا یہ رقص دیکھنے والے کو وجدانی کیفیت میں لے جاتا ہے۔
موہنی آٹم
موہنی کا مطلب "دل موہ لینے والی" جبکہ آٹم کا مطلب رقص۔ کیرالہ کا ایک اور اہم رقص، جسے مندر کی عبادات سے جوڑا جاتا ہے، جس میں موہنی (وشنو کا نسوانی روپ) اور رادھا کشن کے عشق کو کرناٹک موسیقی میں پرو کر ایک روحانی وجد میں پیش کیا جاتا ہے۔ سنہری کناروں سے مزین سفید لباس، نرم حرکات اور نسوانی لطافت اس رقص کی نمایاں خوبیاں ہیں۔
ساتریا
آسام سے تعلق رکھنے والا رقص، جو شنکر دیو کی بھکتی تحریک سے پیدا ہوا۔ مٹھوں میں عبادات کے دوران مرد و خواتین اس رقص کے ذریعے کرشن کی کہانیاں اور وشنو کی بھکتی پیش کرتے ہیں۔
رابندر رقص
روایتی کلاسیکی رقص کے ساتھ ساتھ، رابندر ناتھ ٹیگور کی تخلیق کردہ ایک منفرد صنف رابندر رقص بھی قابل ذکر ہے۔ یہ کوئی مخصوص کلاسیکی صنف نہیں، بلکہ ایک جمالیاتی امتزاج کی ایک نئی جہت ہے، جس میں مغربی بیلے، جاوی، جاپانی، بنگالی لوک اور ہندوستانی کلاسیکی رقص کے عناصر کو شامل کیا گیا ہے۔
ٹیگور نے شانتِی نکیتن اور وِشوا بھارتی یونیورسٹی میں رقص کو تعلیم، جمالیات اور روحانی اظہار کا ذریعہ بنایا۔ ان کے "رقص ناتک" جیسے چترنگدا، شاپموچن، چنڈالیکا اور شیور نرتن رقص، موسیقی اور ڈرامے کا حسین امتزاج ہیں۔ یہ رقص کلاسیکی پابندیوں سے آزاد ہوتے ہوئے بھی "ابھینئے" (جذباتی اظہار) پر بھرپور زور دیتا ہے۔یہ تمام رقص کی اقسام بھرت مونی کی مرہون منت ہیں، جس نے نٹ شاستر میں ان کی بنیاد رکھی اور تمام اقسام کے لیے ایک فریم ورک مہیا کیا۔
فنون لطیفہ چاہے وہ موسیقی ہو یا تھیٹر یا رقص ہو، معاشرے کا روشن دان ہوتے ہیں، جہاں سے تازہ ہوا اور روشنی آتی ہے اگر انہیں ہی بند کر دیا جائے تو معاشرہ میں حبس بڑھنے لگتا ہے۔ معاشرے کی کھڑکیاں اور روشن دان کھلے رہیں گے تو تازہ فضا میں سانس لینا آسان ہو گا۔نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔