پی ٹی آئی کی نئی احتجاجی تحریک کا لائحہ عمل کیا ہو گا؟ جنید اکبر نے بتادیا
اشاعت کی تاریخ: 26th, May 2025 GMT
---فائل فوٹو
پاکستان تحریکِ انصاف نے احتجاجی تحریک کی قیادت کے لیے ایک بار پھر وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور پر اعتماد کا اظہار کیا ہے۔
صوبائی صدر اور چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی جنید اکبر نے کہا ہے کہ پارٹی نے فیصلہ کیا ہے، نئی احتجاجی تحریک کی قیات علی امین گنڈاپور کریں گے لیکن مختلف وقتوں میں مختلف افراد اس کو لیڈ کریں گے، کسی ایک بندے پر بوجھ نہیں ڈالا جائے گا۔
’جیو نیوز‘ سے گفتگو کے دوران جنید اکبر نے بتایا کہ احتجاج سے پہلے صوابی یا پھر مارگلہ کے پہاڑوں میں ٹینٹ ویلیج بنا کر جمع ہوں گے، وہاں سے اسلام آباد کی جانب بڑھیں گے، جس دن اسلام آباد میں احتجاج یا دھرنا ہوگا اسی دن ان شہروں میں بھی دھرنا دیا جائے گا۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات شیخ وقاص اکرم کا کہنا ہے کہ کوئی یہ نہیں سمجھے کہ دوبارہ احتجاجی تحریکیں نہیں چلیں گی۔
انہوں نے کہا کہ خیبر پختون خوا یا اسلام آباد کے قریبی علاقوں کے لوگ مارگلہ ٹینٹ ولیج میں قیام کریں گے، اکثریت کی رائے ہے کہ کراچی، کوئٹہ یا پنجاب کے لوگ اسلام آباد نہ آئیں۔
جنید اکبر کا کہنا تھا کہ اگر ہم اسلام آباد میں دھرنا دیتے ہیں تو ملک بھر کے شہروں میں دھرنا دیا جائے گا، صوابی شاہراہ پر دھرنا دیا جائے گا جبکہ مارگلہ سے اسلام آباد کی طرف بڑھیں گے۔
جنید اکبر نے یہ بھی کہا ہے کہ ماضی کی خامیوں کو دور کرتے ہوئے اکثریت کی رائے سے فیصلہ ہوگا، کسی ایک بندے پر بوجھ نہیں ڈالا جائے گا۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: احتجاجی تحریک جنید اکبر نے اسلام آباد جائے گا
پڑھیں:
بار الیکشن: انڈیپنڈنٹ گروپ ’’اسٹیٹس کو‘‘ بر قرار رکھ سکتا ہے
اسلام آباد:کچھ ڈویژنوں میں حیران کن نتائج آنے کے باوجود حکومت کا حمایت یافتہ انڈیپنڈنٹ گروپ کی جانب سے بار میں حکومت کے حق میں اسٹیٹس کو بر قرار رکھے جانے کا امکان ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ اسلام آباد بار کونسل کے انتخابی نتائج کے اسلام آباد ہائی کورٹ کے پانچ ججوں خصوصاً جسٹس طارق محمود جہانگیری پر سنگین اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ وہ موجودہ حکومت کی گڈ بک میں نہیں ہیں۔
انڈیپنڈنٹ گروپ جسے حکومت کے حامی حصے کے نام سے جانا جاتا ہے، نے اسلام آباد اور خیبر پختو نخوا (کے پی) بار کونسلز میں اکثریت حاصل کر لی ہے۔ دوسری جانب 26 ویں آئینی ترمیم کیخلاف پروفیشنل گروپ کو بلوچستان بار کونسل میں اکثریت مل گئی۔ سندھ بار کونسل میں دونوں گروپوں نے تقریباً برابر نشستیں حاصل کی ہیں۔ اگلے دو ہفتوں میں کسی ایک فریق کو اکثریت مل سکتی ہے۔
پنجاب بار کونسل میں بھی یہی صورتحال ہے جہاں دونوں گروپ اکثریت کے دعوے کر رہے ہیں تاہم صورتحال سرکاری نتائج کے اعلان کے بعد واضح ہوگی۔ بتایا گیا ہے کہ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب 6 نومبر کے بعد نتیجے کا اعلان کریں گے۔ لاہور اور گوجرانوالہ ڈویژن میں انڈیپینڈنٹ گروپ کو حیران کن نتائج ملے جہاں پروفیشنل گروپ اکثریت کا دعویٰ کر رہا ہے۔ انڈیپنڈنٹ گروپ پنجاب بار کونسل کی 45 نشستوں پر کامیابی کا دعویٰ کر رہا ہے۔
پروفیشنل گروپ کے ایک سینیئر ممبر مقصود بٹر نے کہا ہے کہ پنجاب میں ان کے گروپ اور انصاف لائرز فورم (آئی ایس ایف) کی جانب سے 40 کے قریب امیدواروں نے الیکشن جیت لیا ہے۔ سینیئر وکلا حیران ہیں کہ خیبر پختونخوا (کے پی) میں پی ٹی آئی کی مقبولیت کے باوجود پارٹی لیگل ونگ کے پی بار کونسل میں اکثریت حاصل نہیں کر سکی۔
مہا راجا ترین ایڈووکیٹ نے کہا کہ اسلام آباد بار کونسل کے انتخابی نتائج کا نہ صرف عمران خان کے مقدمات پر بلکہ پوری پی ٹی آئی سے متعلق نچلی عدالتوں میں زیر التوا مقدمات پر بھی سنگین اور لطیف اثرات مرتب ہوں گے۔
اس انتخابی دھچکے کے بعد عدالتی کارروائیوں میں شفافیت اور بر وقت سماعت کے امکانات مزید کم ہو گئے ہیں۔ تاہم چوہدری فیصل حسین کا کہنا ہے کہ انڈیپنڈنٹ گروپ کی کامیابی کا یہ مطلب نہیں کہ تمام وکلا 26 ویں آئینی ترمیم کی حمایت کر رہے ہیں۔
دریں اثنا، دونوں گروپوں کی نظریں دسمبر کے مہینے میں منعقد ہونے والی پاکستان بار کونسل پر ہیں۔ پروفیشنل گروپ کی جانب سے بیرسٹر صلاح الدین احمد کو پاکستان بار کونسل کے لیے امیدوار نامزد کرنے کا امکان ہے۔ پی بی سی میں کل 23 سیٹیں ہیں۔ صوبائی بار کو نسلوں کے ممبران پانچ سال کی مدت کے لیے منتخب ہوتے ہیں۔
پروفیشنل گروپ کے ایک رکن کو توقع ہے کہ اس وقت وہ پاکستان بار کونسل میں اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ تاہم سینیئر وکلا کا خیال ہے کہ انڈیپنڈنٹ گروپ کے رہنما خاص طور پر وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ اور احسن بھون کو بار کی سیاست کا بہت تجربہ ہے۔ اسی طرح اس گروپ کو حکومت کی حمایت کا فائدہ حاصل ہے۔
موجودہ صورتحال میں پی بی سی الیکشن میں انڈیپنڈنٹ گروپ کو شکست دینا آسان نہیں۔ صوبائی بار کونسلز کے انتخابات ہوتے ہی مجوزہ 27 ویں آئینی ترمیم جلد پارلیمنٹ میں پیش کیے جانے کا امکان ہے۔