پشاور+ اسلام آباد (آئی این پی+ خبر نگار خصوصی) پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل اور لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے کہا ہم امن پسند لوگ ہیں اور امن ہمارا پہلا انتخاب ہے، لیکن بھارت نے دوبارہ حماقت کی ہمارا جواب پہلے سے زیادہ شدید ہو گا۔ خیبر پی کے کی مختلف جامعات کے ڈھائی ہزار طلبہ نے ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری سے ملاقات کی۔ اس موقع پر ترجمان پاک فوج نے کہا بھارت نے سوچا تھا ہم حملہ کریں گے اور پاکستان جواب نہیں دے گا، آپ نے دیکھا آپ سب کس طرح اپنے ملک کے پیچھے کھڑے ہوئے، پورا پاکستان کھڑا ہوا، اللہ کے کرم سے یہ آہنی دیوار کھڑی ہوئی، وہ تمام حکمت عملی جو ہندوستان اور مودی نے بنائی تھی، ہم نے اس کو ایک ایک کر کے غلط ثابت کیا، یہ قوم اور فوج ہمیشہ سے ایک مٹھی کی طرح تھی اور ایسے متحد رہے گی۔ لوگ سمجھتے تھے یہاں کے عوام اور فوج ایک دوسرے سے دور ہیں ہرگز نہیں۔ فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر نے فیصلہ کیا بھارت کے 26 مقامات پر ان کوجواب دوں گا، مظفرآباد میں بھارتی شیلنگ سے7سال کا ارتضیٰ شہید ہوا، جس بریگیڈ ہیڈکوارٹر کی شیلنگ سے ارتضیٰ شہید ہوا ہم نے اسے تباہ کیا۔ 6 اور7 مئی کو جن ہوائی اڈوں سے بھارتی طیارے اڑے ان کو تباہ کیا، کیا آپ کی فوج نے کسی ایک سویلین انفراسٹرکچر، کسی ایک سول آبادی کو نشانہ بنایا؟ نہیں، ہم امن پسند ہیں، امن کو ترجیح دیتے ہیں، ہمارا پہلا انتخاب امن ہے، اگر تم نے دوبارہ یہ حماقت کی تو ہمارا جواب اس سے بھی شدید ہو گا، اس خطے اور پاکستان میں جتنی دہشتگردی ہوتی ہے اس کے پیچھے بھارت کا چہرہ ہے۔ جو مساجد کو شہید کرتے ہیں، لوگوں کو ذبح کرتے ہیں ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں، ان کا خیبر پی کے اور پختونوں کی روایات سے کوئی تعلق نہیں، یہ دہشتگرد ہندوستان کے پیروکار ہیں، خارجی نور ولی کہتا ہے کہ شریعت میں اجازت ہے آپ کافر سے مدد لے سکتے ہیں، اسلام میں کفر اور حق آپس میں اکٹھے نہیں ہو سکتے، تُم اس ہندوستان سے مدد مانگتے ہو جو کشمیر کی بچیوں کی عزت کو پامال کرتا ہے۔ افغانستان ہمارا برادر پڑوسی اسلامی ملک ہے، مسئلہ ان کی اشرافیہ ہے، جن کو ہندوستانی پیسہ دیکر خریدتا ہے اور پاکستان کے خلاف استعمال کرتا ہے، اپنے افغان بھائیوں سے صرف یہ کہتے ہیں کہ تُم برائے مہربانی دہشتگردوں کو اپنے ملک میں جگہ دو نہ تُم بھارت کے آلہ کار بنو، خیبر پی کے کے غیور، بہادر عوام اور قبائل سے کہتا ہوں آج دوبارہ وقت آگیا ہے، کشمیر بنے گا پاکستان۔ خیبر پی کے کی جامعات کے ڈھائی ہزار سے زائد طلبہ نے ترجمان پاک فوج ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری کے ساتھ ایک ولولہ انگیز نشست میں شرکت کی۔ ہر طرف سبز ہلالی پرچموں کی بہار اور ملی نغموں کی گونج نے فضا کو جذبہ حب الوطنی سے بھر دیا۔ پاکستان ہمیشہ زندہ باد اور پاک فوج زندہ باد، کشمیر بنے گا پاکستان جیسے فلک شگاف نعروں نے ماحول کو گرما دیا۔ نشست کے دوران پختون طلبہ نے اپنے جوش و جذبے کا اظہار کرتے ہوئے کہا پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے والوں کو عبرت کا نشان بنا دیا جائے گا۔ ڈی جی نے کہا پاکستان میں جتنی دہشت گردی ہوتی ہے چاہے فتنہ خوارج ہو یا بلوچستان میں فتنہ الہندوستان، اس ایک ایک دہشت گردی اور ایک ایک شہید کے پیچھے ہندوستان کا چہرہ ہے۔ اسی طرح خارجی اور اسلام اکٹھے نہیں ہو سکتے، تم کشمیر کی بچیوں کی عزت کو پامال کرنے والے ہندوستان سے مدد مانگتے ہو۔ افغانستان ہمارا برادر پڑوسی اسلامی ملک ہے جو آپ کا پختون افغانی ہے وہ تو آپ کا بھائی ہے، مسئلہ ان کی اشرافیہ ہے، جن کو ہندوستان پیسہ دے کر خریدتا ہے اور پاکستان کے خلاف استعمال کرتا ہے۔

.

ذریعہ: Nawaiwaqt

کلیدی لفظ: اور پاکستان خیبر پی کے اور پاک پاک فوج ایس پی

پڑھیں:

پاک ایران ہندوستان تعلقات

اسلام ٹائمز: ایران اور ہندوستان کے مابین تعلقات کی نوعیت کا سوال ایک ایسا سوال ہے جسے بین الاقوامی تعلقات کے قوانین و ضوابط کو مد نظر رکھ کر کرنا چاہیئے۔ آخر پاکستان کے بھی اس ملک سے تعلقات ہیں جسے ایران آج کی سب سے بڑی طاغوتی طاقت اور اس مملکت کے سربراہ کو شیطان بزرگ کہتا ہے۔ لیکن ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کی پاکستان اور ایران کے باہمی تعلقات بین الاقوامی تعلقات میں اپنی ایک الگ پہچان رکھتے ہیں۔ نیز یہ کہ دونوں ممالک کی عوام کے باہمی رشتے کی گہرائی خلیج فارس اور بحیرہء عرب کی گہرائی سے زیادہ ہے۔ تحریر: پروفیسر سید تنویر حیدر نقوی

بین الاقوامی تعلقات سے مراد بین الاقوامی قوانین کے تحت قوموں، ملکوں اور انفرادی سطح پر باہمی تعلقات ہیں۔ اس حوالے سے دنیا کی اقوام ایک ہی خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔ البتہ قوموں کے مابین مختلف قسم کے تنازعات کی بھی ایک تاریخ ہے۔ یہ تنازعات بعض اوقات جنگوں کی صورت میں بھی نمودار ہوتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود عام طور پر قوموں اور ملکوں کے باہمی تعلقات مختلف دائروں میں اپنا سفر جاری رکھتے ہیں۔ مثلاً ہندوستان اور پاکستان کے مابین جنگ و جدل کی ایک تاریخ ہے۔ انڈیا نے پاکستان کے جنم لینے کے بعد ہی اس نوزائدہ مملکت کی شہ رگ، کشمیر کو اپنی گرفت میں لے لیا تھا۔

اس کے بعد ہندوستان نے پاکستان کی عین جوانی میں اس کے بدن کے ایک حصے کو اس کے تن سے جدا کر دیا تھا۔ لیکن اس کے باوجود بین الاقوامی تعلقات کا لحاظ کرتے ہوئے ہمارے ہندوستان سے سفارتی تعلقات قائم ہیں۔ انڈیا سے ہمارے تعلقات میں اتار چڑھاؤ باقی رہتا ہے۔ کبھی ہم اس سے دوستی کی باتیں کرتے ہیں اور کبھی اس سے دشمنی پر اتر آتے ہیں۔ لیکن اس مدوجزر کے باوجود ہمارے آپسی تعلقات مکمل ختم نہیں ہوتے۔ ہمارے انڈیا کے ساتھ سفارتی تعلقات کے ساتھ ساتھ تجارتی اور ثقافتی تعلقات بھی ہیں جو حالات کے مطابق کم یا زیادہ ہوتے رہتے ہیں۔

سر مطلب یہ کہ کسی ملک کے کسی ملک سے ایک خاص پیمانے تک باہمی تعلقات سے مراد یہ ہر گز نہیں ہوتا کہ ان ملکوں کے مابین جو اصولی اور نظریاتی اختلافات ہوتے ہیں ان پر لکیر کھینچ دی جاتی ہے۔ بعض صورتوں میں کاٹ کھانے والے اختلافات اپنا وجود باقی رکھتے ہیں لیکن امن عالم قائم رکھنے کے لیے انہیں رسی سے باندھ کر رکھنا پڑتا ہے۔ ایران بھی ہمارا ایک ایسا برادر، ہمسایہ اور اسلامی ملک ہے جو بین الاقوامی برادری کا ایک حصہ ہے۔ اس کے بھی دنیا میں دوست دشمن موجود ہیں۔ کئی ایسے ممالک ہیں جن کے ساتھ اس کے اصولی اختلاف اپنے مقام پر موجود ہیں۔ ان میں سے ایک بھارت بھی ہے۔

ایران جہاں ایک جانب بھارت سے ایک حد تک اپنے تجارتی تعلقات استوار کیے ہوئے ہے، وہاں دوسری جانب وہ کشمیریوں کے حوالے سے اپنا ایک اصولی موقف رکھتا ہے، ان کے حقوق کی کھل کر بات کرتا ہے اور ان پر ہونے والے مظالم کی مذمت کرتا ہے۔ ایران کے نہ صرف بھارت سے تعلقات ہیں بلکہ بھارت سے بڑھ کر اس کے ایسے ممالک سے بھی اچھے تعلقات ہیں جن کے ساتھ وہ بھارت سے زیادہ اپنے تحفظات رکھتا ہے۔ مثلاً ایران کا ایک اور ہمسایہ ملک ترکی بھی ہے۔ بین الاقوامی مفادات کے تناظر میں ترکی نے بعض حوالوں سے ایران کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ مثلاً ترکی ہی وہ ملک ہے جس نے شام میں ایران کی ایک حامی حکومت کے خاتمے اور اس کی جگہ جولانی حکومت کو برسراقتدار لانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

اس کے علاوہ وہ ترکی ہی ہے جس نے اس سے قبل  بشارالاسد کی حکومت کو گرانے کے لیے دنیا بھر کے تکفیریوں کو مجتمع کر کے اور انہیں تربیت دے کر انہیں اپنی سرحد سے شام میں داخل کیا۔ ترکی کے اسرائیل سے بھی سفارتی تعلقات ہیں۔ لیکن ان سب باتوں کے ہوتے ہوئے بھی ایران کے اس ملک سے ایسے سفارتی، تجارتی اور اقتصادی تعلقات ہیں جو کئی میدانوں میں ہندوستان سے بھی زیادہ گہرے ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں کشیدگی کے حوالے سے ترکی کئی فورموں پر ایران کے ساتھ کھڑا نظر آتا ہے۔

اسی طرح ایران کے ہمسایے میں ایک اور مسلم ملک آذربائیجان ہے جس کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی اور دفاعی نوعیت کے تعلقات ہیں اور ایران کے مقابلے میں اسرائیل کی طرف اس کا جھکاؤ زیادہ ہے نیز اس پر ایران کے دفاع کو کمزور کرنے کے حوالے سے کئی طرح کے الزامات بھی ہیں لیکن اس کے باوجود ایران کئی سطحوں پر انڈیا کے مقابلے میں آذربائیجان سے زیادہ قریب ہے۔ لہذا ان تمام حقائق کو دیکھ کر ایران پر اس اعتراض کی یہ گنجائش باقی نہیں رہتی کہ اس کے انڈیا سے تعلقات کیوں ہیں؟ امر واقعہ یہ ہے کہ حالیہ پاکستان ہندوستان محدود جنگ میں ایران اور ہندوستان کے مابین تعلقات میں کافی سرد مہری آ چکی ہے اور ایران اور پاکستان ایک دوسرے سے زیادہ قریب آئے ہیں۔

ایران اور ہندوستان کے مابین تعلقات کی نوعیت کا سوال ایک ایسا سوال ہے جسے بین الاقوامی تعلقات کے قوانین و ضوابط کو مد نظر رکھ کر کرنا چاہیئے۔ آخر پاکستان کے بھی اس ملک سے تعلقات ہیں جسے ایران آج کی سب سے بڑی طاغوتی طاقت اور اس مملکت کے سربراہ کو شیطان بزرگ کہتا ہے۔ لیکن ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کی پاکستان اور ایران کے باہمی تعلقات بین الاقوامی تعلقات میں اپنی ایک الگ پہچان رکھتے ہیں۔ نیز یہ کہ دونوں ممالک کی عوام کے باہمی رشتے کی گہرائی خلیج فارس اور بحیرہء عرب کی گہرائی سے زیادہ ہے۔ 

متعلقہ مضامین

  • پاکستان اور کشمیر کو کوئی طاقت جدا نہیں کر سکتی’، ‘ڈی جی آئی ایس پی آر کا مظفر آباد کا دورہ
  • ڈی جی آئی ایس پی آر کا دورہ مظفر آباد
  • سرینڈر اور پاکستان کے حکمرانوں کی تاریخ
  • افغان طالبان اور بھارت کا گٹھ جوڑ بے نقاب(سابق افغان جنرل کے ہوشرباانکشاف)
  • افغان طالبان اور بھارت کا گٹھ جوڑ بے نقاب، سابق جنرل کے ہوشربا انکشاف
  • مہاجرین جموں و کشمیر سے ہمارا لازوال رشتہ ہے، چوہدری لطیف اکبر
  • افغان طالبان اور بھارت کا گٹھ جوڑ بے نقاب؛سابق جنرل کے ہوشرباانکشاف
  • اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کی افغانستان کے خلاف قرارداد کیا روس کے ردعمل میں منظور کی گئی؟
  • کوئی بھی پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو نشانہ بنانے کی جرات نہیں کرسکتا: ڈی جی آئی ایس پی آر
  • پاک ایران ہندوستان تعلقات