پاکستان اور کشمیر کو کوئی طاقت جدا نہیں کر سکتی’، ‘ڈی جی آئی ایس پی آر کا مظفر آباد کا دورہ
اشاعت کی تاریخ: 12th, July 2025 GMT
ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری ہلالِ امتیاز (ملٹری) نے مظفر آباد کا دورہ کیا اور آزاد جموں و کشمیر کی سول سوسائٹی کے ساتھ خصوصی نشست کی۔
رپورٹ کے مطابق پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری اور سول سوسائٹی کے درمیان سوال و جواب کی جامع نشست کا اہتمام کیا گیا۔
اس موقع پر حاضرین نے کہا کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ تھی، ہے اور ہمیشہ رہے گی، پاکستان اور کشمیر کو دنیا کی کوئی طاقت جدا نہیں کر سکتی۔
کشمیری عوام نے پاک فوج سے محبت کا اظہار کرتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر کو کشمیری ثقافتی لباس پیش کیا۔
بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے پر پاک فوج کو خراج تحسین پیش کیا گیا، شرکاء نے پاکستان اور کشمیر کے جھنڈے لہرا کر پاکستان سے یکجہتی کا اظہار کیا۔
کشمیری سول سوسائٹی نے نعرے لگائے کہ کشمیری عوام کل بھی پاکستان کے ساتھ تھے اور ہمیشہ پاکستان کے ساتھ رہیں گے، کشمیر بنے گا پاکستان
.
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
حریت رہنما پروفیسر عبدالغنی بٹ کے جنازے میں شرکت پر پابندی، کشمیری سیاستدان برہم
محبوبہ مفتی نے سخت ردعمل ظاہر کرتے کہا کہ سیاسی قیادت کو نظر بند کرنے کا فیصلہ جموں و کشمیر کی سخت اور غیر جمہوری حقیقت کو عیاں کرتا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ جموں و کشمیر کی کئی سیاسی لیڈروں نے انہیں خانہ نظربند کر کے آزادی پسند لیڈر اور حریت کانفرنس کے سابق چیئرمین پروفیسر عبدالغنی بٹ کے جنازے میں شرکت سے روکنے کا الزام عائد کرتے ہوئے انتظامیہ کے اس اقدام کی سخت مذمت کی ہے۔ جموں و کشمیر کی سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے سخت ردعمل ظاہر کرتے کہا کہ سیاسی قیادت کو نظر بند کرنے کا فیصلہ "جموں و کشمیر کی سخت اور غیر جمہوری حقیقت" کو عیاں کرتا ہے۔ انہوں نے سماجی رابطہ گاہ ایکس پر ایک پوسٹ میں لکھا کہ صرف اس لئے گھروں میں نظر بند کیا گیا کہ ہم سوپور جا کر پروفیسر عبدالغنی بٹ کے انتقال پر تعزیت نہ کر سکیں۔ محبوبہ مفتی نے بی جے پی پر یہ بھی الزام عائد کیا کہ وہ دکھ اور بے چینی کو سیاسی مفاد کے لئے ہتھیار بنا رہی ہے۔
پروفیسر بٹ کے قدیم ساتھی اور پیپلز کانفرنس کے سربراہ سجاد لون نے بھی الزام عائد کیا کہ انہیں سوپور جانے سے روکنے کے لیے گھر میں نظر بند کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ میں نہیں سمجھتا اس کی کوئی ضرورت تھی، پروفیسر صاحب ایک پُرامن شخصیت کے مالک تھے اور برسوں سے عملی سیاست سے الگ ہو چکے تھے، ان کو آخری الوداع کہنا سب کا حق تھا۔ ادھر میرواعظ کشمیر مولوی محمد عمر فاروق، جو ان کے دیرینہ ساتھی رہے ہیں، نے الزام عائد کیا کہ حکام نے جنازہ جلد بازی میں کرایا اور انہیں بٹ کی تجہیز و تکفین میں شرکت کی اجازت نہیں دی گئی۔
انہوں نے ایک پوسٹ میں کہا کہ یہ ناقابلِ بیان دکھ ہے کہ حکام نے پروفیسر صاحب کے جنازے کو عجلت میں نمٹا دیا۔ انہون نے کہا "مجھے گھر میں بند رکھا گیا اور آخری سفر میں شریک ہونے کے حق سے محروم کر دیا گیا، ان کے ساتھ میری رفاقت اور رہنمائی کا رشتہ 35 سال پر محیط تھا، اتنے لوگوں نے ان کا آخری دیدار کرنے کی خواہش کی تھی، مگر ہمیں اس حق سے بھی محروم رکھنا ظلم ہے"۔