سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں سے متعلق نظرثانی درخواستوں پر آج منگل کو بھی سماعت جاری ہے۔ جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں گیارہ رکنی آئینی بینچ کیس کی سماعت کر رہا ہے، جسے سپریم کورٹ کے یوٹیوب چینل پر براہ راست نشر کیا جا رہا ہے۔

سماعت کے دوران وکیل فیصل صدیقی روسٹرم پر آئے تو جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ ’آپ ریویو کی حمایت کر رہے ہیں یا مخالفت؟‘ جسٹس جمال مندوخیل نے مزید کہا، ’آپ کو تو اس کی حمایت کرنی چاہیے تھی‘۔ جس پر فیصل صدیقی نے جواب دیا، ’ہمارا انداز محبت والا ہے، ہم ہار کر بھی جیت جاتے ہیں‘۔

بعد ازاں معروف وکیل سلمان اکرم راجہ بھی روسٹرم پر آ گئے۔ اس دوران جسٹس جمال مندوخیل نے ایک بار پھر فیصل صدیقی سے مکالمہ کرتے ہوئے پوچھا، ’آپ نظرثانی کو سپورٹ کر رہے ہیں یا مخالفت؟‘ جس پر فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ ’میں جسٹس مندوخیل کے فیصلے کو کسی حد تک سپورٹ کر رہا ہوں۔‘

انہوں نے مزید کہا، ’کبھی کبھار ہار کر بھی جیت جاتے ہیں۔‘ جس پر جسٹس امین الدین خان نے کہا، ’سب سے زیادہ متاثرہ آپ تھے‘، تو فیصل صدیقی نے مسکرا کر کہا، ’ہمیں تو سب سے زیادہ خوشی ہے‘۔

جسٹس مندوخیل نے سلمان اکرم راجہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ مرکزی کیس میں وہ پی ٹی آئی کی طرف سے سنی اتحاد کونسل کو سپورٹ کر رہے تھے، جس پر وکیل حامد خان نے کہا، ’جان بوجھ کر پی ٹی آئی کو فریق نہیں بنایا گیا‘۔ فیصل صدیقی نے نشاندہی کی کہ بینچ میں شامل اکثریت ججز نے مرکزی کیس نہیں سنا، اور موجودہ بینچ میں چھ نئے ججز شامل ہیں۔

انہوں نے مزید کہا، ’یہ آٹھ ججز کا نہیں، گیارہ ججز کا فیصلہ تھا‘۔ تاہم جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ نظرثانی کی درخواست صرف اقلیتی فیصلے کے خلاف دائر کی گئی۔ فیصل صدیقی نے وضاحت کی کہ نظرثانی درخواست میں جسٹس جمال مندوخیل کے فیصلے پر انحصار کیا گیا ہے، اور انہوں نے کہا، ’میں اپنی سات گزارشات عدالت کے سامنے رکھوں گا‘۔

فیصل صدیقی نے مزید کہا، ’پہلے اسی اعتراض کا جواب دوں گا کہ پی ٹی آئی فریق نہیں تھی تو ریلیف کیسے دیا گیا؟‘ انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی انتخابات تسلیم نہیں کیے اور ان کا انتخابی نشان واپس لے لیا، یہی وہ نکتہ تھا جہاں سے تنازعہ شروع ہوا۔

اس موقع پر جسٹس امین الدین خان نے کہا، ’یہ حقائق ہمارے سامنے نہیں ہیں‘، جس پر فیصل صدیقی نے کہا، ’اگر میں یہ حقائق نہیں بتاؤں گا تو نئے ججز کو تنازعہ سمجھ نہیں آئے گا‘۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے فیصلے کو سپریم کورٹ نے برقرار رکھا۔

جسٹس مسرت ہلالی نے سوال کیا، ’کیا اس فیصلے کو چیلنج کیا گیا تھا؟‘ فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ ’سلمان اکرم راجہ نے چیلنج کیا، اس کا ذکر رپورٹڈ فیصلے میں موجود ہے‘۔

جسٹس مسرت ہلالی نے کہا، ’سپریم کورٹ نے صرف انتخابی نشان کا فیصلہ کیا تھا، پارٹی برقرار تھی‘۔ جس پر فیصل صدیقی نے کہا، ’دس ججز نے قرار دیا کہ الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ فیصلے کی غلط تشریح کی‘۔

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا، ’کیا پی ٹی آئی نے اس فیصلے کی غلط تشریح کو چیلنج کیا؟‘ فیصل صدیقی نے جواب دیا، ’سلمان اکرم راجہ نے ریٹرننگ افسر کا فیصلہ چیلنج کیا تھا‘۔

فیصل صدیقی نے بتایا کہ ریٹرننگ افسر نے سلمان اکرم راجہ کو پی ٹی آئی امیدوار تسلیم نہیں کیا، جس پر سلمان اکرم راجہ نے ہائیکورٹ سے رجوع کیا اور کیس ریمانڈ کر دیا گیا۔ جسٹس جمالمندوخیل نے پوچھا، ’کیا سلمان اکرم راجہ نے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی؟‘

جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے، ’پی ٹی آئی نے خود ہی سمجھ لیا تھا کہ وہ سیاسی جماعت نہیں رہی‘۔ جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا، ’پی ٹی آئی خود کو پارٹی سمجھتی تھی تب ہی ٹکٹ جاری کیے تھے‘۔

فیصل صدیقی نے بتایا کہ سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں کے حصول کے لیے درخواست دائر کی، جبکہ ن لیگ، پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور جے یو آئی نے بھی درخواستیں دائر کیں جن میں کہا گیا کہ سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں نہ دی جائیں بلکہ یہ نشستیں انہیں دی جائیں۔

جسٹس محمد علی مظہر نے فیصل صدیقی سے کہا، ’یہ اصل کیس تھا‘۔ فیصل صدیقی نے نشاندہی کی کہ ان جماعتوں کو ان کی متناسب نمائندگی کے مطابق نشستیں مل چکی تھیں، جبکہ مخصوص نشستوں سے متعلق قومی اور صوبائی اسمبلی کی 78 نشستیں ہیں جن پر تنازع ہے۔

انہوں نے خبردار کیا کہ ’اگر یہ نشستیں دیگر سیاسی جماعتوں کو دے دی جائیں تو حکومت کو دو تہائی اکثریت مل جائے گی، اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ یہ متنازعہ دو تہائی اکثریت ہو گی‘۔

فیصل صدیقی نے بتایا کہ ’جس روز انتخابی نشان الاٹ ہونا تھا، اسی روز سپریم کورٹ نے انٹرا پارٹی انتخابات کا فیصلہ دیا‘۔ جس پر جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا، ’جی ہاں، جو رات تک کیس سنا گیا اور فیصلہ دیا گیا‘۔

فیصل صدیقی نے کہا کہ اسی روز تحریک انصاف نے ایک نشان پر الیکشن لڑنے کے لیے تحریک انصاف نظریاتی کے ٹکٹس جمع کرائے، کچھ دیر بعد پی ٹی آئی نظریاتی کے چیئرمین نے میڈیا پر آ کر ٹکٹس سے انکار کر دیا، جس کے بعد الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کو نشان دینے سے انکار کر دیا۔

وکیل فیصل صدیقی نے دلائل دیتے ہوئے بتایا کہ مخدوم علی خان نے اعتراض اٹھایا تھا کہ یہ درخواست پشاور ہائیکورٹ میں قابلِ سماعت نہیں تھی۔

سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا، ’انتخابی نشان نہ دینا الیکشن کمیشن کا فیصلہ تھا یا سپریم کورٹ کا؟‘ جس پر فیصل صدیقی نے واضح کیا کہ ’انتخابی نشان نہ دینا الیکشن کمیشن کا فیصلہ تھا‘۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا، ’سپریم کورٹ میں تو صرف تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن کا مقدمہ تھا۔‘

فیصل صدیقی نے عدالت میں اکثریتی فیصلے کے پیرا گراف پڑھ کر سنائے۔ اس پر جسٹس امین الدین خان نے کہا، ’حقائق پر تو کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہے۔‘ جسٹس جمال مندوخیل نے نشاندہی کی کہ ’الیکشن کے دوران بھی تحریک انصاف نے سرٹیفیکیٹس جمع کروائے۔‘

جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ ’فیصلے میں آدھے جیتے ہوئے امیدواروں کو حق دیا گیا کہ کسی سیاسی جماعت میں جائیں، کیا بہتر نہ ہوتا کہ تمام امیدواروں کو یہ حق دیا جاتا؟‘ فیصل صدیقی نے جواب میں کہا، ’آپ درست کہہ رہے ہیں، میری ہار میں ہی میری جیت ہے۔‘

اس موقع پر جسٹس مسرت ہلالی نے سوال اٹھایا، ’آپ سنی اتحاد کونسل کے وکیل ہیں، آپ پی ٹی آئی کی نمائندگی کیسے کر سکتے ہیں؟‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’اسی نقطے پر مرکزی کیس میں بھی آپ سے سوال پوچھا گیا تھا، کیا آپ نے تحریک انصاف کی نمائندگی کے لیے اجازت لی ہے؟‘

فیصل صدیقی نے وضاحت دی، ’کیس کے حقائق کی وجہ سے مجھے اس اجازت کی ضرورت نہیں۔‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’سپریم کورٹ کے فیصلے پر الیکشن کمیشن نے عملدرآمد نہیں کیا، لہٰذا وہ امیدوار آج بھی سنی اتحاد کونسل کے ہیں، جب تک فیصلے پر عملدرآمد نہیں ہوتا، ان امیدواروں کو سنی اتحاد کونسل کا مانا جائے گا۔‘

Post Views: 4.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: جسٹس امین الدین خان نے فیصل صدیقی نے جواب دیا جسٹس جمال مندوخیل نے جس پر فیصل صدیقی نے سلمان اکرم راجہ نے انہوں نے مزید کہا سنی اتحاد کونسل الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف سپریم کورٹ خان نے کہا چیلنج کیا پی ٹی آئی خان نے کہ نے کہا کہ بتایا کہ کا فیصلہ کے فیصلے کورٹ میں دائر کی دیا گیا

پڑھیں:

پالیسی ریٹ برقرار رکھنے کا فیصلہ کاروباری ماحول کو متاثر کرے گا،فیصل معیز خان

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

کراچی(بزنس رپورٹر)صدر نارتھ کراچی ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری (نکاٹی)فیصل معیز خان نے اسٹیٹ بینک کی جانب سے پالیسی ریٹ کو 11فیصد پربرقرار رکھنے کے فیصلے پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پالیسی ریٹ کو برقرار رکھنے کا فیصلہ کاروباری ماحول کو سخت متاثر کرے گا، اس فیصلے سے سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی ہوگی اور معیشت کے استحکام کیلئے جو کوششیں حکومت اور فیلڈ مارشل جنرل سیدعاصم منیر کی جانب سے کی جارہی ہیں،وہ متاثر ہوسکتی ہیں۔ فیصل معیزنے کہا کہ بزنس کمیونٹی پاکستان کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے اورایکسپورٹرز ملک کو قیمتی زرمبادلہ کما کر دیتے ہیں اورجب انکی راہ میں ہی روڑے اٹکائے جائیں گے تو ایکسپورٹ بھی متاثر ہونگی،ضرورت اس بات کی ہے کہ ایک سازگار مانیٹری پالیسی جس میں شرح سود سنگل ڈیجٹ میں ہو، صنعتی پیداوار میں اضافہ، روزگار کے مواقع پیدا کرنے اور قیمتوں کے استحکام کے لیے ضروری ہے۔صدر نکاٹی نے کہا کہ بزنس کمیونٹی کی جانب سے اسٹیٹ بینک سے یہ مطالبہ کیا جاتا رہا ہے کہ وہ شرح سود کو سنگل ڈیجٹ پر لائے تاکہ معیشت کی ضروریات کے مطابق وہ اہنی پالیسیوں کومعیشت کی ترقی کے ساتھ ہم آہنگ کر سکیں۔ انہوں نے اسٹیٹ بینک سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے فیصلے پر نظرثانی کرے اور کاروباری طبقے کے لیے سازگار ، قرض لینے کی لاگت میں کمی اور معیشت کے فروغ کیلئے شرح سود کو سنگل ڈیجٹ پر لایا جائے۔

متعلقہ مضامین

  • جسٹس محسن اختر کیانی نے اسلام آباد کے بلدیاتی انتخابات نہ ہونے پر سوال اٹھا دیا
  • اسلام آبادہائیکورٹ چیئرمین پی ٹی اے جنرل حفیظ الرحمان کو عہدے پر بحال کردیا
  • ماہ رنگ بلوچ کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی درخواست منتقل کرنیکی استدعا
  • پالیسی ریٹ برقرار رکھنے کا فیصلہ کاروباری ماحول کو متاثر کرے گا،فیصل معیز خان
  • ایمان مزاری کی غیر حاضری، کیس دوسرے بینچ کو منتقل کرنے کی استدعا مسترد
  • اسلام آباد ہائیکورٹ نے سپریم جوڈیشل کونسل کے فیصلے تک جسٹس طارق جہانگیری کو عدالتی کام سے روک دیا
  • سی سی ڈی کے قیام کیخلاف درخواست، لاہورہائیکورٹ نے وکیل کو پٹیشن میں ترمیم کی مہلت دیدی
  • جسٹس طارق محمود جہانگیری کو سپریم جوڈیشل کونسل کے فیصلے تک بطور جج کام سے روکنے کا حکم
  • ای سی ایل کیس: ایمان مزاری غیر حاضر، کیس منتقل کرنے کی استدعا
  • پانامہ کیس فیصلے سے متعلق مبینہ آڈیو لیک معاملہ پر کمشن تشکیل دینے کی درخواست خارج