گوانگشی جہاں 12 قبائل انار کے بیجوں کی طرح جُڑے ہیں
اشاعت کی تاریخ: 27th, May 2025 GMT
بیجنگ سے اُڑن کھٹولا (جہاز) کے ذریعے گوانگشی کے شہر ناننگ پہنچا۔ روانگی سے پہلے میں اس دور دراز چینی علاقے کے بارے میں زیادہ نہیں جانتا تھا۔ 2200 کلومیٹر سے زائد اس سفر کا مقصد محض اس خطے سے آشنائی تھا۔ جیسے ہی پہنچا، ایسا محسوس ہوا جیسے کوئی نیا شہر تعمیر ہو رہا ہے کیونکہ پہلی نظر تعمیراتی سرگرمیوں پر پڑی۔ ایک ہوٹل میں قیام کیا اور اگلے ہی دن شہر کو کھوجنے نکل پڑے۔
اس خطے کی نمایاں ترقی، مختلف صنعتوں کی موجودگی، بین الاقوامی تجارت و نقل و حمل، آٹوموٹو، الیکٹرانکس اور زرعی شعبوں میں سرمایہ کاری، مواصلاتی راستوں کی توسیع، اور شہروں کی جدید ظاہری شکل، یہ سب واضح کرتے ہیں کہ چین کی حکومت تمام علاقوں اور قومیتوں کو یکساں توجہ دیتی ہے، خواہ وہ نسلی یا ثقافتی اقلیت سے تعلق رکھتے ہوں۔
چین کے اقلیتی گروہوں سے متعلق مغربی میڈیا کا منفی پروپیگنڈہ اس سرزمین میں آکر دھڑام سے گرتا ہے۔ یہاں آپ کو ترقی کرتا، محنتی، پُرامن اور زندہ دل معاشرہ دکھائی دے گا۔ جنوبی چین کا خوبصورت علاقہ گوانگشی اپنی نسلی اور ثقافتی رنگا رنگی کے لیے مشہور ہے۔ یہاں 12 نسلی اقلیتیں آباد ہیں، جو خطے کی قریباً 5 کروڑ کی آبادی میں 1.
ابتدائی طور پر یہ تنوع پیچیدہ محسوس ہوتا ہے، لیکن جب آپ اس خطے کو دیکھنا شروع کرتے ہیں تو سوالات کے جوابات خود بخود ملنے لگتے ہیں۔
مزید پڑھیں: چائنا میں صرف بیجنگ اور شنگھائی ہی نہیں بلکہ ’ گوانگشی‘ بھی ہے
گوانگشی کے اس دورے میں ہم نے ناننگ شہر میں واقع ’تاریخ و ثقافت میوزیم‘ کا دورہ کیا۔ یہ میوزیم مقامی اقوام کی تہذیب، برانز کے قدیم ڈھول، چٹانوں پر بنی تصویریں، اور ہزاروں سال پرانے اوزاروں کے ذریعے ہمیں تاریخ کی گہرائیوں میں لے گیا۔ یہاں آکر اندازہ ہوا کہ ان 12 قبائل نے کس طرح صدیوں سے اتحاد، ہم آہنگی اور یکجہتی کو پروان چڑھایا۔ وہ کبھی نسلی شناخت کو فاصلے کی دیوار نہیں بننے دیتے۔
میوزیم میں موجود ہر لباس، ہر رسم، ہر شے گواہی دے رہی تھی کہ یہاں کا معاشرہ متنوع ہونے کے باوجود مکمل طور پر جُڑا ہوا ہے۔ گویا یہ لوگ آج بھی ماضی کے پتھریلے گھروں سے مستقبل کے آسمانوں کو تک رہے ہیں۔
مزید پڑھیں: ایشیا کی سب سے بڑی زرعی اجناس کی منڈی میں 70سالہ چینی سے ملاقات
گوانگشی کی 12 اقوام اتنی باہم مربوط ہیں کہ اگر کوئی شخص اس خطے کی تاریخ، ثقافت اور اقوام کا مطالعہ نہ کرے، تو اسے ان کے درمیان فرق محسوس نہیں ہوگا۔ محض لباس، زبان، کھانے اور معمولی رسم و رواج ہی الگ دکھائی دیں گے، باقی سب ایک جُسم کی مانند ہیں۔
صدر شی جن پنگ نے اس باہمی یکجہتی کو انار کے بیجوں سے تشبیہ دی ہے۔ ایک خوبصورت اور گہری مثال، جو اس قوم کی وحدت کی اصل روح کو بیان کرتی ہے۔
میں اپنے اس سفر میں چین، ایران، ترکی، بھارت، نیپال اور دیگر ممالک کے صحافیوں کے ساتھ تھا۔ سب نے یہی مشاہدہ کیا کہ ناننگ کے باسی نہایت پُرامن، خوش مزاج اور مصروف زندگی کے باوجود تفریح، موسیقی اور ثقافتی سرگرمیوں میں بھرپور شرکت کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ناننگ کو ’چین کا متحرک ترین شہر‘ کہا جاتا ہے۔
مزید پڑھیں:بیجنگ کے 10 ایسے مقامات جو آپ کو ضرور دیکھنے چاہییں
مجھے ناننگ کی فطری خوبصورتی، ثقافتی رنگینی اور رات کی ’زندہ دلی‘ اتنی دلکش لگی کہ میں نے اپنی چینی ساتھی صبا سے کہا کہ ہمیں اپنا ہیڈ آفس بیجنگ سے یہاں منتقل کر لینا چاہیے! یہ شہر مجھے اسلام آباد جیسا سرسبز لگا۔ میرا تعلق اگرچہ خوشاب سے ہے، لیکن گزشتہ 14 سال سے اسلام آباد میں رہائش ہے، سو اب اسے اپنا شہر کہنے میں ہچکچاہٹ نہیں۔ اور اگر موقع ملا تو ناننگ میرا اگلا شہر ہوگا۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسلام آباد چین گوانگشی
پڑھیں:
جرگہ کا فیصلہ یا پھر دل کا ۔۔؟
عطاء اللہ ذکی ابڑو
آپ شرابی کے ساتھ چند منٹ گزاریں آپ محسوس کریں گے کہ زندگی بہت آسان ہے ، فقیروں، سادھوؤں یا سنیاسی بابوں کے پاس چلے جائیں ،آپ کو اپنا سب کچھ کسی کو تحفے میں دینے کی خواہش جاگے گی؟ کسی لیڈر سے مل لیں آپ محسوس کریں گے کہ آپ نے اتنا کچھ پڑھ کرابتک جھک ہی ماری ہے ؟ لائف انشورنس ایجنٹ کے سامنے چند منٹ بیٹھیں آپ محسوس کریں گے کہ مرنا کتنا سود مند ہے ؟ تاجروں کی سنیں گے تو آپ کو محسوس ہوگا کہ آپ کی کمائی آٹے میں نمک کے برابر ہے ؟ سائنسدانوں کی تحقیق دیکھیں گے تو آپ کو اپنی لاعلمی کا احساس ہوگا؟ ایک اچھے استاد سے ملیں گے تو آپ کو دوبارہ طالب علمی کا شوق جاگے گا ؟ غرض کہ آپ جیسی عینک پہنیں گے ویسا ہی آپ کو دکھائی دینے لگے گا ؟ وقت کا یہی تقاضا جو اس واقعے پر بھی پورا اترتا ہے ؟جسے آج آپ کے سامنے پیش کرنے جارہا ہوں ۔یہ واقعہ کوئٹہ کے نواحی گاوں ڈیگاری میں جون کے مہینہ میں پیش آیا، 37 سالہ خانو بی بی اور احسان اللہ نامی لڑکے کی سوشل میڈیا پر ایک جرگہ کے ہاتھوں قتل کی وڈیو وائرل ہوتے ہی ٹی وی پرچند ٹکرز چلے ، خبر گرم ہوئی اورہم نے اسے حقیقت مان کر بنا کچھ سوچے ،سمجھے اس واقعہ کو اپنے اپنے نظریہ سے پرکھنا شروع کردیا کسی نے اس ادھوری کہانی کا پورا سچ جاننے کی جستجو ہی نہیں کی؟ کہتے ہیں آدھا سچ پورے وجود کو برباد کرنے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ اسی طرح اس واقعے کا بھی پورا سچ سامنے آنا ابھی باقی ہے ؟ تن تنہا بلوچستان کی سنگلاخ چٹانوں کے بیچ کھڑی نہتی لڑکی اورصرف اس کا آشنا ہی جرگے والوں کی بندوقوں کا نشانہ نہیں تھے دونوں کے قتل کی خبرسننے کے لیے اس کے پیچھے دو قبائل بانو اوراحسان اللہ کی موت کے منتظرتھے۔ اب یہ صرف ایک اکیلی خانو بی بی کی زندگی کا سوال نہیں تھا۔ اس کے پیچھے دونوں قبائل کے لوگوں کی زندگی داؤ پرلگی تھی اس لیے خانو نے ہنسی خوشی بندوق کی گولی سینے سے لگانے کو اپنے لیے تمغہ سمجھا اوراسے گلے لگاکر اپنے قبیلے کے کئی پیاروں کی زندگی بچالی ۔جی ہاں اس کڑی دھوپ تلے تپتے صحرا میں اکیلی خانو بی بی نہیں کھڑی تھی اس کی آنکھوں کے سامنے اس کے بچوں،بھائی، بہن،ماں اورباپ سمیت خاندان کے ایک ایک فرد کا چہرہ سامنے تھا جن کا قرض چکانے اپنے گھر کی دہلیز سے اس صحرا تک آئی تھی ؟ اورہاں شاید یہ اس کے عشق کا امتحان تھا ؟ وہ پہلے سے اپنے عقد میں ایک شوہراورکئی بچوں کو گھر میں اکیلا چھوڑ کراحسان کے ساتھ آئی تھی ؟ خانو پریہ بھی الزام تھا کہ وہ تین ماہ سے اپنے عاشق احسان اللہ کے ساتھ بغیر کسی نکاح کے یعنی کسی بھی ازدواجی تعلق کے بغیر شریعت کے حکم کی نفی کرتے ہوئے دن، رات بسرکررہی تھی ۔خانو اپنے اس عشق کے امتحان میں تو پوری اتر گئی مگر اپنے پیچھے اپنے مجازی خدا،پھول سے کھیلتے پانچ بچوں،ماں، باپ، بہن ،بھائی اوراپنے عاشق کی پہلی بیوی جس سے چار بچے بھی ہیں ۔اس کے قبیلے والوں کو بھی ساری زندگی کے لیے کڑے امتحان میں ڈال گئی؟
خانو نے جرگہ کا فیصلہ تو سنا تھا مگر لگتا ہے وہ آج بھی اپنے دل کے فیصلے پراٹل تھی؟ کیونکہ خانو نے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے بندوق اٹھائے جرگہ کے کارندوں کو للکارا اورانہیں اپنی زبان میں کہا کہ ( صرسم ائنا اجازت اے نمے ) تمہیں صرف گولی مارنے کی اجازت ہے ؟ یعنی وہ کہہ رہی تھی کہ خبردار یہ جسم اب اس کے محبوب کی امانت ہے بعد مرنے کے اس کی بے حرمتی نہ کرنا؟ ڈیگاری کے صحرا میں خانو پر بندوقیں تانے کھڑے جرگہ کے کارندے 37سالہ خانو کو موت کے گھاٹ اتارنے کا یہ اقدام نہ اٹھاتے تو پیچھے احسان اللہ کا قبیلہ خانو بی بی کے پورے قبیلے کو موت کی گھاٹ اتارنے کے لیے گھات لگائے بیٹھا تھا؟ یہی وجہ تھی کہ خانوکے کنبے والوں نے ایک اکیلی لڑکی کو قبیلے کی بھینٹ چڑھاکر پہ در پہ سات گولیاں چلاکرکا اسے مٹی کا ڈھیر بنادیا؟ لاش کیلئے گڑھا کھودا اورخانو کو اسی صحرا کی مٹی کے سپرد کرکے چلتے بنے؟ دونوں قبائل کے سرکش لوگ شاید یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ بات منوں مٹی تلے دفن ہوگئی؟اوردونوں قبائل نے اپنا اٹل فیصلہ سناکراپنی اپنی زندگیاں بچالیں؟ یہ ان کی خام خیالی ثابت ہوئی؟ ان کا اصل امتحان توتب شروع ہوا جب ٹھیک ایک ماہ بعد سوشل میڈیا پران کے اپنے ہی کسی گروہ کے کارندے نے اس سبق آموزواقعے کی وڈیو کو سوشل میڈیا پراپ لوڈ کردی آناً فاناً ناک پر رومال رکھ غریبوں ، مسکینوں اور محتاجوں کا دم بھرنے والی فلاحی تنظیمیں باہر نکل آئیں؟حکومت سمیت پورا ملک حرکت میں آگیا ۔یہ واقعہ ایک ہولناک خبربن کر سوشل میڈیا کی زینت بن چکا تھا۔ پوری دنیا میں ہمارے سماجی رویوں کی عکاسی کر رہا تھا ؟فوٹیج نے دنیا میں پاکستان کے امیج اورانسانی رویوں کوخاک میں ملادیا تھا ؟ ادھرجوڈیشری بھی حرکت میں آچکی تھی اورمجسٹریٹ نے کوئٹہ واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے مارے جانے والے دونوں لڑکے اور لڑکی کی قبر کشائی کا حکم دیا ۔جرگہ میں قتل کا حکم دینے والا سردار شیر ستکزئی سمیت 13 افراد آج ریمانڈ پر ہیں اور ان پر اے ٹی سی ایکٹ کے تحت ایس ایچ او ہنہ کی مدعیت میں مقدمہ درج کیا جا چکا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا بلوچستان جرگہ میں کیا جانے والا یہ پہلا فیصلہ تھا یا پھر حکومت پہلی بار اس فیصلے سے آشنا ہوئی ؟ ایسا ہرگز نہیں ہے۔
آج بھی کئی قبائلی جرگے ہوتے ہیں اور ان جرگہ کے فیصلوں کا حکومت کو بھی انتظار رہتا ہے کیونکہ یہ اس ملک کے کئی قبیلوں کا رسم رواج ہے، کسی قبیلے میں یہ عورت ونی کے نام پر بھیڑیوں کی بھینٹ چڑھادی جاتی ہے تو کہیں کارو اور کاری غیرت کے سوال پر ابدی نیند سلادیا جاتا ہے تو کہیں اس حوا کی بیٹی کو زمینوں کا بٹوارہ بچانے کے لیے قرآن سے شادی کرنا پڑتی ہے ؟ اور جب بات پگدار کا سربچانے کی ہو تو وہ اپنی جان بخشی کے لیے اپنی جان سے پیاری کمسن بیٹی کو کسی کے باپ پر نچھاور کرتے دیر نہیں کرتے ؟ یہی پگدار سامنے والے کواپنی بیٹیاں بطور بیوی کے پیش کرکے اپنا سر بچاتے ہیں تب ان کی عزت ؟ غیرت کہاں چلی جاتی ہے ؟ یہ وہی قبائلی نظام ہے جو فاٹا میں بھی نافذالعمل تھا ،بلوچستان کے قبائل بھی اسی پر چلتے ہیں ؟ پنجاب اور سندھ میں بھی ان قبائلی سرداروں اور بھوتاروں کے آگے کسی کی ایک نہیں چلتی؟ ہمارے ملک کے حکمراں اگر ان سرداروں، وڈیروں اور جاگیرداوں کی نہیں سنیں گے تو پھر یہ تخت نشیں کیسے بنیں گے ؟آج بھی اس مملکت خداد میں تین الگ الگ قانون نافذ ہیں جہاں جرگہ کے فیصلے ہوتے ہیں ،وہاں حکومتی رٹ کہیں دکھائی نہیں دیتی ؟ اور جہاں حکومت اپنی رٹ قائم کرنا چاہتی ہے وہاں شریعت کورٹ کا قانون ہے ؟ الغرض کوئی شخص ملکی قوانین پر عمل نہیں کرتا ؟ جب ایک ریاست کے ہوتے ہوئے ایک ہی ملک میں تین الگ الگ قانون ہوں گے تو پھر اس طرح کی لاقانونیت کو کون روک سکتا ہے ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔