پی آئی اے کو خریدنے میں دلچسپی کا اظہار: ڈیڈ لائن میں توسیع
اشاعت کی تاریخ: 27th, May 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 27 مئی 2025ء) پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد سے منگل 27 مئی کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق نج کاری کی ملکی وزارت کی طرف سے بتایا گیا کہ پی آئی اے کی فروخت کے لیے ممکنہ خریداروں کی طرف سے اظہار دلچسپی کے لیے مقررہ ڈیڈ لائن، جو پہلے تین جون طے تھی، اب بڑھا کر 19 جون کر دی گئی ہے۔
پی آئی اے کے پاس کتنے جہاز، وزیر نجکاری لاعلم؟
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق پاکستانی وزارت برائے نج کاری نے یہ اعلان کرتے ہوئے کوئی وجہ نہیں بتائی کہ اس مدت میں 16 دن کی توسیع کیوں کی گئی ہے۔
اس کے علاوہ اس وزارت نے یہ بھی نہیں بتایا کہ آیا اب تک قومی ایئر لائن کو خریدنے کے لیے کسی سرمایہ کار یا ادارے کی طرف سے کسی دلچسپی کا اظہار کیا گیا ہے یا نہیں یا اب تک کسی نے کوئی بولی بھی لگائی ہے۔
(جاری ہے)
پی آئی اے کے کتنے ملکیتی حقوق برائے فروختپاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز اس جنوبی ایشیائی ملک کی انتہائی حد تک مقروض قومی فضائی کمپنی ہے، جس کے حکومت 51 فیصد سے لے کر 100 فیصد تک ملکیتی حقوق فروخت کرنا چاہتی ہے۔
پاکستان پی آئی اے کو اس لیے بھی فروخت کرنا چاہتا ہے کہ اسے ایک طرف تو مالی وسائل کی اشد ضرورت ہے اور دوسری طرف اسے ریاستی ملکیت میں کام کرنے والے ان ملکی اداروں میں اصلاحات بھی لانا ہیں، جو اپنے لیے درکار بہت زیادہ مالی وسائل کے باعث حکومت کے لیے مسلسل بوجھ بنے ہوئے ہیں۔
پی آئی اے کی پروازیں برطانیہ کے لیے بھی جلد بحال ہونے کا امکان
پاکستان کو بہت زیادہ خسارے میں چلنے والے اپنے ریاستی اداروں کی نج کاری اس لیے بھی کرنا ہے کہ ایسا بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ سات بلین ڈالر کے اس پروگرام کی وجہ سے بھی کیا جانا ہے، جس کی حتمی ادائیگی ابھی منظور نہیں ہوئی۔
پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان اس پروگرام کے تحت مالی ادائیگی سے قبل شرائط اور تکنیکی جائزوں کی سطح پر کارروائی ابھی جاری ہے۔
پی آئی اے کو یورپ میں پروازیں بحال کرنے کی اجازت مل گئی
پی آئی اے کی نج کاری کی گزشتہ برس ناکام رہنے والی کوششپاکستان نے اپنی قومی ایئر لائن کی نج کاری کی ایک کوشش گزشتہ برس بھی کی تھی، جو ناکام رہی تھی۔
تب وزارت نج کاری کو اس فضائی کمپنی کو خرید لینے کی صرف ایک ہی پیشکش موصول ہوئی تھی اور اس کی مالیت بھی حکومت کی طرف سے مطالبہ کردہ 300 ملین ڈالر سے زیادہ کی قیمت سے بہت ہی کم تھی۔پی آئی اے کی نجکاری کے معاملے پر سیاسی جماعتوں میں رسہ کشی
گزشتہ برس اس فضائی کمپنی کی نج کاری کی ناکام رہنے والی کوشش کے دوران ممکنہ خریداروں کی طرف سے یہ معاملہ بھی اٹھایا گیا تھا کہ پی آئی اے کے ذمے قرضوں اور مالی ذمے داریوں کی مالیت بہت زیادہ ہے۔
پائلٹ، کیبن عملہ ڈیوٹی کے دنوں میں روزے نہ رکھیں، پی آئی اے
اس اعتراض کے بعد پاکستانی حکومت پی آئی اے کے ذمے تمام قرضے اور مالی ذمے داریاں باقاعدہ طور پر اپنے سر لے چکی ہے تاکہ اس کمرشل ایئر لائن کو بہتر قیمت پر فروخت کیا جا سکے۔
گزشتہ ماہ اپریل میں پی آئی اے کی طرف سے بتایا گیا تھا کہ اسے پچھلے دو عشروں سے بھی زیادہ عرصے میں سالانہ بنیادوں پر پہلی مرتبہ کاروباری منافع ہوا تھا۔
ادارت: افسر اعوان
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے پی آئی اے کے پی آئی اے کی نج کاری کی کی نج کاری ایئر لائن کی طرف سے کے لیے
پڑھیں:
وزیراعظم نے جاپان کے ساتھ صنعتی تعاون بڑھانے کیلئے اعلیٰ سطح کمیٹی قائم کر دی
وزیراعظم شہباز شریف نے جاپان کے ساتھ صنعتی تعاون کو مزید فروغ دینے کے لیے ایک اعلیٰ سطح کمیٹی قائم کر دی ہے، جو نہ صرف موجودہ تعاون کو بڑھائے گی بلکہ جاپانی کمپنیوں کو درپیش مسائل کے حل اور نئی سرمایہ کاری کے مواقع پیدا کرنے میں بھی اہم کردار ادا کرے گی۔
کمیٹی کی سربراہی وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صنعت و پیداوار کریں گے، جبکہ وزارت صنعت و پیداوار، وزارت تجارت، اقتصادی امور ڈویژن، وزارت اوورسیز، وزارت داخلہ، فیڈرل بورڈ آف ریونیو اور اسٹیٹ بینک کے اعلیٰ افسران اس کے رکن ہوں گے۔
اس کے علاوہ پاکستان جاپان بزنس فورم کے نمائندے، پارلیمانی سیکریٹری برائے تجارت ڈاکٹر ذوالفقار علی بھٹی اور سابق سفیر برائے جاپان چوہدری آصف محمود بھی کمیٹی کا حصہ ہوں گے۔
وزیراعظم آفس کے جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق کمیٹی کو درج ذیل ٹرمز آف ریفرنس (TORs) دیے گئے ہیں۔
پاکستان اور جاپان کے درمیان موجودہ صنعتی تعاون میں اضافہ، پاکستان میں کام کرنے والی جاپانی کمپنیوں کے مسائل کا حل، جاپانی سرمایہ کاری کے مواقع بڑھانے کے لیے اقدامات تجویز کرنا اور متعلقہ دیگر معاملات کا جائزہ لینا شامل ہیں۔
کمیٹی دو ہفتوں کے اندر اپنی رپورٹ اور سفارشات وزیراعظم کو پیش کرے گی جبکہ اس کا سیکریٹریٹ وزارت صنعت و پیداوار ہوگا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اس اقدام سے پاکستان میں جاپانی سرمایہ کاری کے لیے نئی راہیں کھلیں گی اور دونوں ممالک کے صنعتی تعلقات کو عملی بنیادوں پر نئی وسعت ملے گی۔