بنگلہ دیشی سپریم کورٹ کے اپیلٹ ڈویژن نے منگل کو جماعت اسلامی کے رہنما اظہر الاسلام کو 1971 کی جنگ کے دوران ہونے والے مبینہ جنگ جرائم کے مقدمے سے بری کرنے کا فیصلہ سنایا ہے۔ یہ فیصلہ چیف جسٹس سید رفعت احمد کی قیادت میں 7 رکنی بنچ نے سنایا۔

اظہر الاسلام کون ہیں؟

اے ٹی ایم اظہر الاسلام جماعت اسلامی بنگہ دیش کے سینئر رہنما ہیں۔ بنگلہ دیش میں یہ سیاسی جماعت 1971 کے جنگی جرائم کے الزامات کے حوالے سے طویل عرصے سے تنقید کا نشانہ بنتی رہی ہے۔ جنگ کے وقت اظہر الاسلام کو اسلامک چھترہ سنگا کے طالب علم رہنما کے طور پر جانا جاتا تھا جو جماعت اسلامی کا اسٹوڈنٹ ونگ تھا۔ اس کے علاوہ وہ مبینہ طور پر رنگ پور میں نیم فوجی دستے البدر کے کمانڈر کے جس پر پاکستانی فوج کی حمایت کرنے کا الزام تھا۔

یہ بھی پڑھیے: جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے رہنما کی سزائے موت کیخلاف اپیل منظور، رہائی کا حکم

کیس کی تاریخ

22 اگست 2012 کو اظہر الاسلام کو ڈھاکا کے موگ بازار میں ان کی رہائش گاہ سے گرفتار کرکے ان پر جنگ کے دوران انسانیت کے خلاف جرائم کا الزام عائد کیا گیا۔

پولیس کے مطابق اظہر الاسلام کو خصوصاً رنگ پور میں نسل کشی، اجتماعی قتل، زیادتی، اغوا اور آتش زنی کے الزامات میں ملوث پایا گیا۔

30 دسمبر 2014 کو انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل (ICT) نے ان کو 9 الزامات میں سے 5 میں قصور وار قرار دیا۔ ان میں 1256 افراد کے قتل، 13 خواتین سے زیادتی، اغوا اور تشدد کےالزامات شامل تھے۔ ان کو نسل کشی اور قتل کے الزام میں سزائے موت سنائی گئی اور دیگر الزامات پر مختلف عرصے قید کی سزا بھی دی گئی۔

یہ بھی پڑھیے: قومی مفاد سب سے مقدم، ملکی خودمختاری پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے، بنگلہ دیشی فوج کا عزم

23 اکتوبر 2019 کو اعلیٰ عدلیہ نے اپیلٹ کورٹ کی سماعت کے بعد اظہر الاسلام کو سزائے موت برقرار رکھی۔ یہ سماعت اس وقت کے چیف جسٹس سید محمود حسان کی سربراہی میں بنچ کررہا تھا۔

19 جولائی 2020 کو اظہر الاسلام نے اپنے خلاف اپیلٹ کورٹ کے فیصلے پر نظرثانی کے لیے درخواست دی، جس میں انہوں نے فیصلے میں 14 قانونی نکات اور نقائص کا ذکر کیا۔

فیصلہ اور بریت

متعدد سماعتوں اور قانونی کارروائی کے بعد 27 مئی 2025 کو سپریم کورٹ کے 7 رکنی بنچ نے اظہر الاسلام کو تمام الزامات سے بری کرنے کا فیصلہ سنایا، اور ان کی سزائے موت کو منسوخ کر دیا۔ اس فیصلے کے بعد یہ کیس ایک اہم اور متنازعہ جنگ جرائم کے مقدمے کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیے: جماعت اسلامی بنگلہ دیش نے احتجاج کیوں شروع کردیا؟

اس سے قبل 22 اپریل کو عدالت نے اظہر الاسلام کی نظرثانی درخواست کی سماعت ملتوی کردی تھی، اور 15 مارچ 2020 کو مکمل فیصلے کا متن جاری کیا گیا تھا۔

آج کے فیصلے کے بعد اظہر الاسلام کو تمام الزامات سے آزاد قرار دیا گیا ہے اور ان کی سزائے موت کو ختم کر دیا گیا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اظہر الاسلام بریت جماعت اسلامی بنگلہ دیش سزائے موت مقدمہ نسل کشی.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اظہر الاسلام بریت جماعت اسلامی بنگلہ دیش سزائے موت جماعت اسلامی بنگلہ دیش اظہر الاسلام کو سزائے موت کے بعد

پڑھیں:

مقبوضہ وادی میں جماعت اسلامی پر پابندی

ریاض احمدچودھری

بھارتی وزارت داخلہ اور اس کی ریاستی تحقیقاتی ایجنسی ایس آئی اے نے آر ایس ایسـبی جے پی کے رہنما آر آر سوائن کی سربراہی میں جماعت اسلامی جموں و کشمیر سمیت آزادی پسند جماعتوں پر چھاپوں کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔ جماعت اسلامی کے بینک اکائونٹس منجمد کرنے کے بعدایس آئی اے نے زمینوں، اسکولوں، مکانات اور دفاترسمیت اس کی جائیدادوں کو ضبط کرنا شروع کر دیا ہے۔ اس نے پہلے ہی اسلام آباد، شوپیاں، پلوامہ اور جنوبی کشمیر کے کئی دیگر اضلاع میں سو کروڑروپے سے زائد مالیت کے جماعت اسلامی کے اثاثے ضبط کرلئے ہیں۔جموں و کشمیر میں جماعت کی مزید 100جائیدادیں ضبط کرنے کی بھارتی وزارت داخلہ کی فہرست میں شامل کی گئی ہیں۔ اس کے لئے نوٹیفکیشن کی کارروائی مکمل ہونے کے بعد جائیدادوں کو سیل کردیا جائے گا۔عہدیدارنے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ نوٹیفکیشن کی کارروائی مکمل ہونے کے بعد ایسی تمام جائیدادوں کو مرحلہ وار سیل کر دیا جائے گا۔نریندر مودی اور امیت شاہ کی زیر قیادت ہندوتوا حکومت حق خود ارادیت کے مطالبے کی حمایت کرنے پرجماعت اسلامی کو نشانہ بنارہی ہے۔
2019 میں مقبوضہ کشمیر میں جاری تحریک آزادی کی حمایت کرنے پر بھارت نے جماعت اسلامی کشمیر پر پابندی لگا دی تھی۔بھارت کے مرکزی محکمہ داخلہ کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن میں کہا گیا تھا کہ جماعت اسلامی کے عسکریت پسندوں سے قریبی روابط ہیں اور وہ ان کی مکمل حمایت بھی کرتے ہیں۔جماعت اسلامی پر پابندی لگانے کے اقدام کی وادی کشمیر کی تقریباً تمام سیاسی، مذہبی و سماجی جماعتوں نے مذمت کی تھی۔ جماعت نے پانچ سالہ پابندی کے خلاف عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔ اس سے قبل مقبوضہ کشمیر میں محاصرے اور تلاشی کارروائیوں میں جماعت اسلامی کے پانچ رہنماؤں سمیت مقبوضہ جموں وکشمیر کے7 سرکردہ علمائے کرام کوگرفتار کر لیا گیا ہے۔ گرفتار ہونے والوں میں جمعیت اہلحدیث کے رہنما مولانا مشتاق احمد ویری، عبدالرشید داودی، جماعت اسلامی کے رہنما عبدالمجید دار المدنی، فہیم رمضان اور غازی معین الدین بھی شامل ہیں۔
جماعت اسلامی نے دہشت گردی کی فنڈنگ سے متعلق بھارتی ایجنسیوں کے الزامات کو مسترد کر دیا ہے۔ تنظیم کا کہنا ہے کہ جماعت اسلامی کا، ‘نہ تو کبھی کسی عسکریت پسند گروہ کے ساتھ کوئی تعلق رہا ہے اور نہ ہی وہ تحریکی سیاست پر یقین رکھتی ہے’۔بھارتی ایجنسیوں کا یہ بھی الزام ہے کہ جماعت اسلامی وادی کشمیر میں بھارت مخالف مظاہروں اور بھارت مخالف سیاسی سرگرمیوں میں ملوث رہی ہے۔ اسی لیے گزشتہ ہفتے این آئی اے نے جموں و کشمیر میں واقع جماعت اسلامی سے وابستہ بہت سے کارکنان کے گھروں پر چھاپے بھی مارے تھے۔تنظیم کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ یہ بس ہراساں کرنے اور دھونس جتانے کے لیے کیا جا رہا ہے کیونکہ تنظیم اس وقت سرگرم تو ہے نہیں۔ انہیں کوئی ثبوت دینا چاہیے کہ آخر جماعت نے کس کو فنڈنگ کی ہے اور کہاں دیا ہے؟ جماعت 1997 سے یہ مسلسل کہتی رہی ہے کہ ہمارا عسکریت پسندی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ جماعت اسلامی کشمیر میں سماجی خدمات کا کام کرتی ہے اور زیادہ سے زیادہ مذہبی تبلیغ کے لیے جلسے جلوس کرتی تھی جو پابندی کے سبب سب بند پڑے ہیں۔کشمیر میں اس وقت زبردست خوف اور دہشت ہے۔ ہر ایک کو کم سے کم بنیادی آزادی کے حقوق ملنے چاہیں۔ ہر شخص کو قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے آزادانہ طور پر کام کرنے کی تو اجازت ہونی چاہیے۔ ہم کسی غیر قانونی کام کی بات نہیں کرتے ہیں۔
مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت کی جانب سے مظالم ڈھانے کا سلسلہ تو گزشتہ پون صدی سے جاری ہے۔ اب کشمیریوں کے مذہبی، سیاسی اور انسانی حقوق کو دبانے کے لیے مزید اقدامات کیے جا رہے ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ مودی سرکار بین الاقوامی قوانین اور عالمی اداروں کی طرف سے طے کردہ حدود و قیود کو بھی خاطر میں نہیں لا رہی۔ حال ہی میں بھارتی حکومت کی طرف سے کشمیریوں کی آواز دبانے کے لیے دو تنظیموں پر پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔
اس معاملے پر ردعمل دیتے ہوئے پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے بھارتی حکام کی جانب سے عوامی ایکشن کمیٹی اور جموں و کشمیر اتحاد المسلمین کو پانچ سال کے لیے غیر قانونی قرار دینے کی مذمت کی ہے۔ عوامی ایکشن کمیٹی کی قیادت ممتاز سیاسی اور مذہبی رہنما میر واعظ عمر فاروق کررہے ہیں جبکہ جموں و کشمیر اتحاد المسلمین کی بنیاد ایک اور قابل ذکر سیاسی اور مذہبی رہنما مولانا محمد عباس انصاری نے رکھی تھی۔حالیہ فیصلے سے کالعدم کشمیری سیاسی جماعتوں اور تنظیموں کی کل تعداد 16 ہو گئی ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ مختلف سیاسی جماعتوں اور تنظیموں پر پابندی لگانا کشمیر میں بھارتی حکام کے ظالم ہاتھوں سے چلنے والے رویے کا ایک اور مظہر ہے۔ یہ سیاسی سرگرمیوں اور اختلاف رائے کو دبانے کی خواہش کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ جمہوری اصولوں اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے قانون کی سراسر بے توجہی کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ بیان میں بھارتی حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ کشمیری سیاسی جماعتوں پر عائد پابندیاں ہٹائے۔ تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کیا جائے اور جموں و کشمیر پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں پر ایمانداری سے عمل درآمد کروائے۔
مودی سرکار ہر اس آواز کو دبانا چاہتی ہے جو کشمیر اور مسلمانوں کے حق میں بلند ہوتی ہو۔ مقبوضہ کشمیر اور بھارت میں مسلمانوں کی ہر قسم کی آزادی سلب کی جا چکی ہے۔ انھیں نہ مذہبی آزادی حاصل ہے نہ سیاسی۔ عالمی اداروں اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کو بھارت کے یہ مظالم کیوں نظر نہیں آتے؟
مقبوضہ جموں و کشمیر میں نریندر مودی اور امیت شاہ کی قیادت میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی ہندوتوا حکومت سیاسی اور سماجی کارکنوں پر چھاپوں کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے علاقے میںجماعت اسلامی اور دیگر فلاحی تنظیموں سے وابستہ تقریبا 100مزید تعلیمی اداروں اور جائیدادوں کو سیل کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔
٭٭٭

متعلقہ مضامین

  • لاہور: ضیاالدین انصاری ایڈووکیٹ دوسری مرتبہ جماعت اسلامی لاہور کے امیر منتخب ہونے کے بعد حلف اٹھارہے ہیں ، لیاقت بلوچ امیر العظیم ، اظہر بلال اور میاں ذکراللہ مجاہد اسٹیج پر موجودہیں
  • سندھ کے مسائل اجتماع عام میں پیش کریں گے،کاشف سعید
  • جماعت اسلامی کے رکن محمد حمید انتقال کرگئے
  • جماعت ِ اسلامی: تاریخ، تسلسل اور ’’بدل دو نظام‘‘ کا پیغام
  • لاہور کو فتح کرلیا تو ملک میں جماعت اسلامی کا راج ہوگا، لیاقت بلوچ
  • مقبوضہ وادی میں جماعت اسلامی پر پابندی
  • جماعت اسلامی ویمن ونگ کراچی کا میڈیا اجلاس
  • جماعت اسلامی ضلع کورنگی کے بزرگ رکن عبد القیوم خان انتقال کرگئے
  • اسلام آباد ،جماعت اسلامی کا ترامڑی چوک پر اسپتال کی عدم تعمیر پر احتجاج
  • پشاور، جماعت اسلامی کی جانب سے اجتماعی شادیوں کی تقریب