عدالت نے انتخابی نشان کافیصلہ کیا، پی ٹی آئی نے خود سمجھ لیا وہ سیاسی جماعت نہیں رہی، ججز سپریم کورٹ WhatsAppFacebookTwitter 0 27 May, 2025 سب نیوز

اسلام آباد (سب نیوز)سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں سے متعلق نظرثانی اپیلوں پر سماعت کے دوران ججز نے ریمارکس دیے ہیں کہ سپریم کورٹ نے صرف انتخابی نشان کا فیصلہ کیا تھا، تحریک انصاف پارٹی برقرار تھی، پی ٹی آئی نے خود ہی سمجھ لیا تھا کہ وہ سیاسی جماعت نہیں رہی، سنی اتحاد کونسل کے وکیل اپنے خلاف دلائل دے رہے ہیں۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 11 رکنی آئینی بینچ نے سماعت کی، سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے اپنے دلائل جاری رکھے۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے فیصل صدیقی سے مکالمہ کیا کہ آپ نظرثانی کی حمایت کر رہے ہیں یا مخالفت، فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ جزوی طور پر آپ کے فیصلے سے اتفاق کرتے ہیں۔جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ جسٹس جمال صاحب کے فیصلے کیخلاف آپ نے نظرثانی تو دائر ہی نہیں کی۔
جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ فیصل صدیقی صاحب آپ نظر ثانی کو سپورٹ کررہے ہیں یا مخالفت ؟ سنی اتحاد کونسل کو تیرہ ججز نے کہا سیٹوں کی حقدار نہیں۔وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ میں جسٹس مندوخیل کے فیصلے کو کسی تک سپورٹ کررہا ہوں، کبھی کبھار ہار کر بھی جیت جاتے ہیں۔جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ سب سے ذیادہ متاثرہ آپ تھے، فیصل صدیقی نے کہا کہ ہمیں تو سب سے ذیادہ خوشی ہے۔
جسٹس مندوخیل نے سلمان اکرم راجہ سے مکالمہ کیا کہ مرکزی کیس میں آپ پی ٹی آئی کی طرف سے سنی اتحاد کونسل کو سپورٹ کررہے تھے، وکیل حامد خان نے کہا کہ جان بوجھ کر پی ٹی آئی کو فریق نہیں بنایا گیا۔وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ بینچ میں شامل اکثریت ججز نے مرکزی کیس نہیں سنا، اس بینچ میں چھ نئے ججز شامل ہیں، الیکشن کمیشن، ن لیگ نے کیس میں اضافی گراونڈز بھی شامل کئے ہیں، مجھے صرف الیکشن کمیشن کی فارمولیشنز ملی ہیں، پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی معروضات ملنے پر اگلی سماعت پر انکا جواب دے دوں گا۔
وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ بینچ میں شامل اکثریت ججز نے مرکزی کیس نہیں سنا، اس بینچ میں چھ نئے ججز شامل ہیں، مخصوص نشستیں حاصل کی گئی سیٹوں کے تناسب سے ملتی ہیں، آزاد امیدواروں کی بڑی تعداد سنی اتحاد کونسل میں شامل ہوئی۔ فیصل صدیقی نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے سنی اتحاد کونسل کو پارلیمانی جماعت تسلیم کیا، ایک آپشن تھا کہ نشستیں سنی اتحاد کونسل کو دی جائیں، دوسرا آپشن تھا کہ تناسب سے ہٹ کر دیگر جماعتوں کو دی جائیں، تیسرا آپشن تھا کہ مخصوص نشستیں خالی چھوڑ دی جائیں، تیراں میں سے گیارہ ججز نے قرار دیا کہ مخصوص نشستوں کی حقدار پی ٹی آئی ہے۔
فیصل صدیقی نے کہا کہ ابھی تک درخواست گزاروں کے تحریری دلائل نہیں ملے، مخدوم علی خان کا بنیادی نکتہ یہی تھا کہ پی ٹی آئی فریق نہیں تھی، دس ججز نے قرار دیا کہ پی ٹی آئی فریق نہیں لیکن انہیں ریلیف دیا جا سکتا ہے۔ جسٹس صلاح الدین پنور نے کہا کہ کس بنیاد پر انہیں ریلیف دیا گیا جو فریق نہیں تھے؟ فیصل صدیقی نے کہا کہ ایک اعتراض یہ ہے کہ جن سے نشستیں واپس لی گئیں وہ بھی فریق نہیں تھے، سیاسی جماعتیں روز اول سے کیس میں فریق تھیں، ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ آئین سے بالاتر ہے۔فیصل صدیقی نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی انتخابات نہیں مانے، الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف سے نشان چھین لیا، یہ وہ نقطہ ہے جہاں سے تنازع شروع ہوا۔
جسٹس امین الدین خان نے فیصل صدیقی سے مکالمہ کیا کہ یہ حقائق ہمارے سامنے نہیں ہیں، فیصل صدیقی نے کہا کہ سر یہ حقائق نہیں بتاں گا تو نئے ججز کو تنازع سمجھ نہیں آئے گا، الیکشن کمیشن کے فیصلے کو سپریم کورٹ نے برقرار رکھا، الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کو بطور جماعت ماننے سے انکار کردیا، الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کے امیدواروں کو پی ٹی آئی کا ماننے سے انکار کردیا۔فیصل صدیقی نے کہا کہ پی ٹی آئی امیدواروں کو طرح طرح کے انتخابی نشان جاری کئے، جسٹس مسرت ہلالی نے سوال کیا کہ کیا اس فیصلے کو چیلنج کیا گیا تھا؟ فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ سلمان اکرم راجہ نے چیلنج کیا، اس کا ذکر رپورٹڈ فیصلے میں ہے۔جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ نے صرف انتخابی نشان کا فیصلہ کیا تھا پارٹی برقرار تھی۔
فیصل صدیقی نے کہا کہ 10 ججز نے قرار دیا کہ الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ فیصلے کی غلط تشریح کی، جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا پی ٹی آئی نے فیصلے کی غلط تشریح چیلنج کی؟،فیصل صدیقی نے کہا کہ سلمان اکرم راجہ نے ریٹرننگ افسر کا فیصلہ چیلنج کیا تھا، ریٹرننگ افسر نے سلمان اکرم راجہ کو پی ٹی آئی امیدوار تسلیم نہیں کیا۔جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ سلمان اکرم راجہ نے ہائیکورٹ سے رجوع کیا تو کیس ریمانڈ کر دیا گیا، سلمان اکرم راجہ نے فیصلے کیخلاف اپیل سپریم کورٹ میں دائر کی تھی۔
جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ پی ٹی آئی نے خود ہی سمجھ لیا تھا کہ وہ سیاسی جماعت نہیں رہے، جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ پی ٹی آئی خود کو پارٹی سمجھتی تھی تب ہی ٹکٹ جاری کیے تھے۔فیصل صدیقی نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل یہ مخصوص نشستوں کے حصول کیلئے درخواست دائر کی، مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور جمعیت علما اسلام نے درخواستیں دائر کیں، درخواستوں میں کہا گیا کہ سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستوں کو نہ دی جائیں، ان جماعتوں نے درخواست میں یہ بھی کہا یہ مخصوص نشستں ہمیں دی جائیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے فیصل صدیقی سے مکالمہ کیا کہ یہ اصل کیس تھا، فیصل صدیقی نے کہا کہ حالانکہ ان جماعتوں کو ان کی متناسب نمائندگی سے نشستیں مل چکی تھیں، مخصوص نشستوں سے متعلق قومی اور صوبائی اسمبلی کی 78 نشستیں ہیں جن پر تنازع ہے۔ فیصل صدیقی نے کہا کہ اگر یہ نشستیں دیگر سیاسی جماعتوں کو دے دی جائیں تو حکومت کو دو تہائی اکثریت مل جائے گی، اس لئے کہا جاسکتا ہے کہ یہ متنازعہ دو تہائی اکثریت ہوگی، جس روز انتخابی نشان الاٹ ہونے تھے اسی روز سپریم کورٹ نے انٹرا پارٹی انتخابات کا فیصلہ دیا۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ جی ہاں جو رات تک کیس سنا گیا اور فیصلہ دیا گیا، فیصل صدیقی نے کہا کہ اسی روز تحریک انصاف نے ایک نشان پر الیکشن لڑنے کیلئے تحریک انصاف نظریاتی کے ٹکٹس جمع کرائے، کچھ دیر بعد پی ٹی آئی نظریاتی کے چیئرمین نے میڈیا پر آکر ٹکٹس سے انکار کردیا، جس کے بعد الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کو نشان دینے سے انکار کردیا، حقائق جو اس تنازع کی وجہ بنے وہ میں نے بیان کردئیے۔جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیے کہ سوال یہ ہے کہ فیصلے میں آدھے جیتے ہوئے امیدواروں کو حق دیا گیا کسی سیاسی جماعت میں جانے کا، کیا بہتر نہ ہوتا کہ تمام امیدواروں کو یہ حق دیا جاتا؟ ،فیصل صدیقی نے کہا کہ آپ درست کہہ رہے ہیں میری ہار میں ہی میری جیت ہے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ آپ سنی اتحاد کونسل کے وکیل ہیں آپ پی ٹی آئی کی نمائندگی کیسے کرسکتے ہیں؟ اسی نقطے پر مرکزی کیس میں بھی آپ سے سوال پوچھا گیا تھا، آپ نے تحریک انصاف کی نمائندگی کیلئے اجازت لی ہے۔فیصل صدیقی نے کہا کہ کیس کے حقائق کی وجہ سے مجھے اس اجازت کی ضرورت نہیں،سپریم کورٹ کے فیصلے پر الیکشن کمیشن نے عملدرآمد نہیں کیا، لہذا وہ امیدوار آج بھی سنی اتحاد کونسل کے ہیں، جب تک فیصلے پر عملدرآمد نہیں ہوتا ان امیدواروں کو سنی اتحاد کونسل کا مانا جائے گا۔
جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ لیکن سوال یہ ہے کہ سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین اپنی جماعت اور نشان سے الیکشن کیوں نہیں لڑے، فیصل صدیقی نے کہا کہ انہوں نے مرکزی کیس میں اس بات کا جواب دیا تھا اب مجھے یاد نہیں۔جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ میں انکا جواب آپ کو بتاتا ہوں انہوں نے کہا تھا کہ مجھے الگ الگ نشان دئیے جارہے تھے، فیصل صدیقی نے مقف اپنایا کہ میں اس سوال کا جواب ضرور دوں گا پہلے میں نظرثانی درخواستوں کے قابل سماعت ہونے پر دلائل دے لو۔
جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ آپ جس سوال کا جواب نہیں دینا چاہتے اس پر کہتے ہیں بعد میں دوں گا، فیصل صدیقی نے کہا کہ 8 اکثریتی ججز کے فیصلے میں صاحبزادہ حامد رضا کو بھی تحریک انصاف کا ڈکلیئر کیا گیا تھا، جب میں دلائل مکمل کرلوں گا بہت سے جواب دینے کی ضرورت ہی نہیں رہے گی، اکثریتی فیصلے میں الیکشن رول 94 کو کالعدم قرار دیا گیا۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ جس رول کو چیلنج کیا گیا وہ تو چیلنج ہی نہیں تھا، فیصل صدیقی نے کہا کہ جی آپ درست کہہ ریے ہیں، وہ لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج ہوا تھا۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ کیا پی ٹی آئی نے آپ کو اپنا وکیل کیا ہے کہ ان کا کیس لڑیں، اور کیا سنی اتحاد کونسل کو پتا ہے کہ آپ ان کے ارکان کے مفاد کے خلاف بات کریں گے۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا آپ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں نہیں ملنا چاہئیں، وکیل سنی اتحاد کونسل نے کہا کہ جی میں اکثریتی فیصلے سے اتفاق کرتا ہوں میری ہار میں میری جیت ہے۔ سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت بدھ ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کردی گئی۔
جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا کہ آپ کو کتنا وقت درکار ہوگا، فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ مجھے دو سماعتیں چاہیں۔جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ رولز کے مطابق جو شخص سمجھتا ہے وہ فیصلے سے متاثرہ ہے نظرثانی کر سکتا ہے، آئین کے آرٹیکل 188 میں ایسا کچھ نہیں، صرف لکھا ہے کہ سپریم کورٹ اپنے فیصلے پر نظرثانی کرسکتی ہے۔جسٹس امین الدین خان نے فیصل صدیقی سے استفسار کیا کہ آپ مذید کتنا وقت میں لیں گے؟ فیصل صدیقی نے کہا کہ مجھے ابھی نظرثانی درخواستوں کے قابل سماعت نہ ہونے کے مذید تین نقاط پر بات کرنی ہے، اس کے بعد میں کیس کے میرٹس پر دلائل دوں گا۔جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ آپ جتنا مرضی وقت لیں مگر کوئی حد تو مقرر ہونی چاہئے، فیصل صدیقی نے کہا کہ آپ کو پتا ہے میں غیر ضروری وقت نہیں لیتا۔
جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ ہم نے اپنے اقلیتی فیصلے میں لکھا کہ جس ریکارڈ پر اکثریتی فیصلہ دیا وہ قانون کے مطابق مانا ہی نہیں جاسکتا تھا، وہ ریکارڈ عدالت کے سامنے نہیں تھا، یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک امیدوار تین یا چار کاغذات نامزدگی فائل کردے۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرنوشکی، انسداد پولیو ٹیم پر حملہ، فائرنگ سے ایک پولیس اہلکار شہید، دوسرا زخمی،صدر اور وزیراعظم کی مذمت نوشکی، انسداد پولیو ٹیم پر حملہ، فائرنگ سے ایک پولیس اہلکار شہید، دوسرا زخمی،صدر اور وزیراعظم کی مذمت مودی کی حالیہ تقریر نفرت انگیز، پرتشدد اور عالمی اصولوں کی خلاف ورزی، عالمی برادری نوٹس لے،پاکستان ججز ٹرانسفر و سینیارٹی کیس میں جوڈیشل کمیشن کے اجلاسوں کے منٹس طلب جھوٹا بھارتی بیانیہ بے نقاب کرنے کیلئے بلاول کی قیادت میں پاکستانی سفارتی ٹیم کا دورہ امریکا طے آرڈی اے مالیاتی ریکارڈ میں بے ضابطگیاں، ریاستی خزانے کو بھاری نقصان اسلام آباد میں بکرا منڈیوں کی نیلامی سے ریکارڈ آمدن، 55 فیصد اضافہ TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف ہیں جسٹس امین الدین خان جسٹس امین الدین خان نے جسٹس جمال مندوخیل نے فیصل صدیقی نے کہا کہ وہ سیاسی جماعت نہیں سنی اتحاد کونسل کو سلمان اکرم راجہ نے سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے جسٹس مسرت ہلالی نے کہ سنی اتحاد کونسل نے فیصل صدیقی سے انتخابی نشان کا پی ٹی آئی نے خود سے انکار کردیا کہ سپریم کورٹ سپریم کورٹ نے امیدواروں کو مخصوص نشستوں خان نے کہا کہ نے کہا کہ آپ کہ پی ٹی آئی فیصلہ کیا فریق نہیں چیلنج کیا فیصلے میں مرکزی کیس قرار دیا جواب دیا سمجھ لیا چیلنج کی فیصلے کی کورٹ میں کے فیصلے کا فیصلہ دیا گیا کیس میں ہی نہیں کا جواب رہے ہیں ہے جسٹس دیا کہ کہ کیا تھا کہ دوں گا

پڑھیں:

وزیر اعلیٰ پنجاب کی انتخابی کامیابی کے خلاف دائر درخواست مسترد

لاہور:

الیکشن ٹربیونل لاہور نے وزیرِ اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کی انتخابی کامیابی کے خلاف دائر درخواست مسترد کر دی۔

پی ٹی آئی کے امیدوار مہر شرافت علی نے درخواست دائر کی تھی جنہوں نے لاہور کے صوبائی حلقہ پی پی 159 سے مریم نواز کی کامیابی کو چیلنج کیا تھا۔

الیکشن ٹربیونل کے جج رانا زاہد محمود نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے قرار دیا کہ درخواست گزار نے الیکشن ایکٹ 2017 کے رول 144 کی شرائط پوری نہیں کیں، اس لیے درخواست قابلِ سماعت نہیں۔

فیصلے کے مطابق، درخواست گزار کے الیکشن پٹیشن کے ہر صفحے پر دستخط موجود نہیں تھے، جبکہ بیانِ حلفی میں اوتھ کمشنر کی تصدیق والے صفحے پر درخواست گزار کا نام اور والد کا نام درج نہیں تھا۔

وزیرِ اعلیٰ مریم نواز کی جانب سے پیش ہونے والے وکیل بیرسٹر اسداللہ چھٹہ نے قانونی نکات پر دلائل دیتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ درخواست ناقابلِ سماعت ہے اور اس میں بنیادی قانونی تقاضے پورے نہیں کیے گئے۔

فیصلے میں کہا گیا کہ بیرسٹر اسداللہ چھٹہ کے دلائل میں وزن ہے، اور یہ کہ درخواست کو باقاعدہ ٹرائل کے لیے پیش نہیں کیا جا سکتا۔

الیکشن ٹربیونل کے فیصلے کے ساتھ ہی وزیرِ اعلیٰ پنجاب مریم نواز کی پی پی-159 سے کامیابی برقرار رہی۔

متعلقہ مضامین

  • سپریم کورٹ کا 24سال بعد فیصلہ، ہائیکورٹ کا حکم برقرار،پنشن کے خلاف اپیل مسترد
  • وزیر اعلیٰ پنجاب کی انتخابی کامیابی کے خلاف دائر درخواست مسترد
  • گورنر ہاؤس میں اسپیکر کی مکمل رسائی؛ سپریم کورٹ نے فریقین کو نوٹسز جاری کر دیے
  • سپریم کورٹ میں خانپور ڈیم کیس کی سماعت، ایڈووکیٹ جنرل کے پی کو نوٹس جاری کر دیا
  • سپریم کورٹ کراچی رجسٹری  نے ڈاکٹر کے رضاکارانہ استعفے پر پنشن کیس کا24سال بعد فیصلہ سنا دیا
  • سپریم کورٹ؛ خانپور ڈیم آلودہ پانی فراہمی کیس میں ایڈووکیٹ جنرل کے پی کو نوٹس جاری
  • گورنر ہاؤس میں اسپیکر کی مکمل رسائی؛ سپریم کورٹ کے فریقین کو نوٹسز جاری
  • آڈیو لیکس کیس میں بڑی پیش رفت، مقدمہ دوسری عدالت کو منتقل کر دیا گیا
  • سپریم کورٹ آف پاکستان کے آئندہ عدالتی ہفتے کے بینچز تشکیل
  • پارا چنار حملہ کیس، راستہ دوسرے ملک سے آتا ہے، دشمن پہچانیں: سپریم کورٹ