عدالت نے انتخابی نشان کافیصلہ کیا، پی ٹی آئی نے خود سمجھ لیا وہ سیاسی جماعت نہیں رہی، ججز سپریم کورٹ
اشاعت کی تاریخ: 27th, May 2025 GMT
عدالت نے انتخابی نشان کافیصلہ کیا، پی ٹی آئی نے خود سمجھ لیا وہ سیاسی جماعت نہیں رہی، ججز سپریم کورٹ WhatsAppFacebookTwitter 0 27 May, 2025 سب نیوز
اسلام آباد (سب نیوز)سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں سے متعلق نظرثانی اپیلوں پر سماعت کے دوران ججز نے ریمارکس دیے ہیں کہ سپریم کورٹ نے صرف انتخابی نشان کا فیصلہ کیا تھا، تحریک انصاف پارٹی برقرار تھی، پی ٹی آئی نے خود ہی سمجھ لیا تھا کہ وہ سیاسی جماعت نہیں رہی، سنی اتحاد کونسل کے وکیل اپنے خلاف دلائل دے رہے ہیں۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 11 رکنی آئینی بینچ نے سماعت کی، سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے اپنے دلائل جاری رکھے۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے فیصل صدیقی سے مکالمہ کیا کہ آپ نظرثانی کی حمایت کر رہے ہیں یا مخالفت، فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ جزوی طور پر آپ کے فیصلے سے اتفاق کرتے ہیں۔جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ جسٹس جمال صاحب کے فیصلے کیخلاف آپ نے نظرثانی تو دائر ہی نہیں کی۔
جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ فیصل صدیقی صاحب آپ نظر ثانی کو سپورٹ کررہے ہیں یا مخالفت ؟ سنی اتحاد کونسل کو تیرہ ججز نے کہا سیٹوں کی حقدار نہیں۔وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ میں جسٹس مندوخیل کے فیصلے کو کسی تک سپورٹ کررہا ہوں، کبھی کبھار ہار کر بھی جیت جاتے ہیں۔جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ سب سے ذیادہ متاثرہ آپ تھے، فیصل صدیقی نے کہا کہ ہمیں تو سب سے ذیادہ خوشی ہے۔
جسٹس مندوخیل نے سلمان اکرم راجہ سے مکالمہ کیا کہ مرکزی کیس میں آپ پی ٹی آئی کی طرف سے سنی اتحاد کونسل کو سپورٹ کررہے تھے، وکیل حامد خان نے کہا کہ جان بوجھ کر پی ٹی آئی کو فریق نہیں بنایا گیا۔وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ بینچ میں شامل اکثریت ججز نے مرکزی کیس نہیں سنا، اس بینچ میں چھ نئے ججز شامل ہیں، الیکشن کمیشن، ن لیگ نے کیس میں اضافی گراونڈز بھی شامل کئے ہیں، مجھے صرف الیکشن کمیشن کی فارمولیشنز ملی ہیں، پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی معروضات ملنے پر اگلی سماعت پر انکا جواب دے دوں گا۔
وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ بینچ میں شامل اکثریت ججز نے مرکزی کیس نہیں سنا، اس بینچ میں چھ نئے ججز شامل ہیں، مخصوص نشستیں حاصل کی گئی سیٹوں کے تناسب سے ملتی ہیں، آزاد امیدواروں کی بڑی تعداد سنی اتحاد کونسل میں شامل ہوئی۔ فیصل صدیقی نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے سنی اتحاد کونسل کو پارلیمانی جماعت تسلیم کیا، ایک آپشن تھا کہ نشستیں سنی اتحاد کونسل کو دی جائیں، دوسرا آپشن تھا کہ تناسب سے ہٹ کر دیگر جماعتوں کو دی جائیں، تیسرا آپشن تھا کہ مخصوص نشستیں خالی چھوڑ دی جائیں، تیراں میں سے گیارہ ججز نے قرار دیا کہ مخصوص نشستوں کی حقدار پی ٹی آئی ہے۔
فیصل صدیقی نے کہا کہ ابھی تک درخواست گزاروں کے تحریری دلائل نہیں ملے، مخدوم علی خان کا بنیادی نکتہ یہی تھا کہ پی ٹی آئی فریق نہیں تھی، دس ججز نے قرار دیا کہ پی ٹی آئی فریق نہیں لیکن انہیں ریلیف دیا جا سکتا ہے۔ جسٹس صلاح الدین پنور نے کہا کہ کس بنیاد پر انہیں ریلیف دیا گیا جو فریق نہیں تھے؟ فیصل صدیقی نے کہا کہ ایک اعتراض یہ ہے کہ جن سے نشستیں واپس لی گئیں وہ بھی فریق نہیں تھے، سیاسی جماعتیں روز اول سے کیس میں فریق تھیں، ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ آئین سے بالاتر ہے۔فیصل صدیقی نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی انتخابات نہیں مانے، الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف سے نشان چھین لیا، یہ وہ نقطہ ہے جہاں سے تنازع شروع ہوا۔
جسٹس امین الدین خان نے فیصل صدیقی سے مکالمہ کیا کہ یہ حقائق ہمارے سامنے نہیں ہیں، فیصل صدیقی نے کہا کہ سر یہ حقائق نہیں بتاں گا تو نئے ججز کو تنازع سمجھ نہیں آئے گا، الیکشن کمیشن کے فیصلے کو سپریم کورٹ نے برقرار رکھا، الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کو بطور جماعت ماننے سے انکار کردیا، الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کے امیدواروں کو پی ٹی آئی کا ماننے سے انکار کردیا۔فیصل صدیقی نے کہا کہ پی ٹی آئی امیدواروں کو طرح طرح کے انتخابی نشان جاری کئے، جسٹس مسرت ہلالی نے سوال کیا کہ کیا اس فیصلے کو چیلنج کیا گیا تھا؟ فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ سلمان اکرم راجہ نے چیلنج کیا، اس کا ذکر رپورٹڈ فیصلے میں ہے۔جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ نے صرف انتخابی نشان کا فیصلہ کیا تھا پارٹی برقرار تھی۔
فیصل صدیقی نے کہا کہ 10 ججز نے قرار دیا کہ الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ فیصلے کی غلط تشریح کی، جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا پی ٹی آئی نے فیصلے کی غلط تشریح چیلنج کی؟،فیصل صدیقی نے کہا کہ سلمان اکرم راجہ نے ریٹرننگ افسر کا فیصلہ چیلنج کیا تھا، ریٹرننگ افسر نے سلمان اکرم راجہ کو پی ٹی آئی امیدوار تسلیم نہیں کیا۔جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ سلمان اکرم راجہ نے ہائیکورٹ سے رجوع کیا تو کیس ریمانڈ کر دیا گیا، سلمان اکرم راجہ نے فیصلے کیخلاف اپیل سپریم کورٹ میں دائر کی تھی۔
جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ پی ٹی آئی نے خود ہی سمجھ لیا تھا کہ وہ سیاسی جماعت نہیں رہے، جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ پی ٹی آئی خود کو پارٹی سمجھتی تھی تب ہی ٹکٹ جاری کیے تھے۔فیصل صدیقی نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل یہ مخصوص نشستوں کے حصول کیلئے درخواست دائر کی، مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور جمعیت علما اسلام نے درخواستیں دائر کیں، درخواستوں میں کہا گیا کہ سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستوں کو نہ دی جائیں، ان جماعتوں نے درخواست میں یہ بھی کہا یہ مخصوص نشستں ہمیں دی جائیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے فیصل صدیقی سے مکالمہ کیا کہ یہ اصل کیس تھا، فیصل صدیقی نے کہا کہ حالانکہ ان جماعتوں کو ان کی متناسب نمائندگی سے نشستیں مل چکی تھیں، مخصوص نشستوں سے متعلق قومی اور صوبائی اسمبلی کی 78 نشستیں ہیں جن پر تنازع ہے۔ فیصل صدیقی نے کہا کہ اگر یہ نشستیں دیگر سیاسی جماعتوں کو دے دی جائیں تو حکومت کو دو تہائی اکثریت مل جائے گی، اس لئے کہا جاسکتا ہے کہ یہ متنازعہ دو تہائی اکثریت ہوگی، جس روز انتخابی نشان الاٹ ہونے تھے اسی روز سپریم کورٹ نے انٹرا پارٹی انتخابات کا فیصلہ دیا۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ جی ہاں جو رات تک کیس سنا گیا اور فیصلہ دیا گیا، فیصل صدیقی نے کہا کہ اسی روز تحریک انصاف نے ایک نشان پر الیکشن لڑنے کیلئے تحریک انصاف نظریاتی کے ٹکٹس جمع کرائے، کچھ دیر بعد پی ٹی آئی نظریاتی کے چیئرمین نے میڈیا پر آکر ٹکٹس سے انکار کردیا، جس کے بعد الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کو نشان دینے سے انکار کردیا، حقائق جو اس تنازع کی وجہ بنے وہ میں نے بیان کردئیے۔جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیے کہ سوال یہ ہے کہ فیصلے میں آدھے جیتے ہوئے امیدواروں کو حق دیا گیا کسی سیاسی جماعت میں جانے کا، کیا بہتر نہ ہوتا کہ تمام امیدواروں کو یہ حق دیا جاتا؟ ،فیصل صدیقی نے کہا کہ آپ درست کہہ رہے ہیں میری ہار میں ہی میری جیت ہے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ آپ سنی اتحاد کونسل کے وکیل ہیں آپ پی ٹی آئی کی نمائندگی کیسے کرسکتے ہیں؟ اسی نقطے پر مرکزی کیس میں بھی آپ سے سوال پوچھا گیا تھا، آپ نے تحریک انصاف کی نمائندگی کیلئے اجازت لی ہے۔فیصل صدیقی نے کہا کہ کیس کے حقائق کی وجہ سے مجھے اس اجازت کی ضرورت نہیں،سپریم کورٹ کے فیصلے پر الیکشن کمیشن نے عملدرآمد نہیں کیا، لہذا وہ امیدوار آج بھی سنی اتحاد کونسل کے ہیں، جب تک فیصلے پر عملدرآمد نہیں ہوتا ان امیدواروں کو سنی اتحاد کونسل کا مانا جائے گا۔
جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ لیکن سوال یہ ہے کہ سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین اپنی جماعت اور نشان سے الیکشن کیوں نہیں لڑے، فیصل صدیقی نے کہا کہ انہوں نے مرکزی کیس میں اس بات کا جواب دیا تھا اب مجھے یاد نہیں۔جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ میں انکا جواب آپ کو بتاتا ہوں انہوں نے کہا تھا کہ مجھے الگ الگ نشان دئیے جارہے تھے، فیصل صدیقی نے مقف اپنایا کہ میں اس سوال کا جواب ضرور دوں گا پہلے میں نظرثانی درخواستوں کے قابل سماعت ہونے پر دلائل دے لو۔
جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ آپ جس سوال کا جواب نہیں دینا چاہتے اس پر کہتے ہیں بعد میں دوں گا، فیصل صدیقی نے کہا کہ 8 اکثریتی ججز کے فیصلے میں صاحبزادہ حامد رضا کو بھی تحریک انصاف کا ڈکلیئر کیا گیا تھا، جب میں دلائل مکمل کرلوں گا بہت سے جواب دینے کی ضرورت ہی نہیں رہے گی، اکثریتی فیصلے میں الیکشن رول 94 کو کالعدم قرار دیا گیا۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ جس رول کو چیلنج کیا گیا وہ تو چیلنج ہی نہیں تھا، فیصل صدیقی نے کہا کہ جی آپ درست کہہ ریے ہیں، وہ لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج ہوا تھا۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ کیا پی ٹی آئی نے آپ کو اپنا وکیل کیا ہے کہ ان کا کیس لڑیں، اور کیا سنی اتحاد کونسل کو پتا ہے کہ آپ ان کے ارکان کے مفاد کے خلاف بات کریں گے۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا آپ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں نہیں ملنا چاہئیں، وکیل سنی اتحاد کونسل نے کہا کہ جی میں اکثریتی فیصلے سے اتفاق کرتا ہوں میری ہار میں میری جیت ہے۔ سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت بدھ ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کردی گئی۔
جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا کہ آپ کو کتنا وقت درکار ہوگا، فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ مجھے دو سماعتیں چاہیں۔جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ رولز کے مطابق جو شخص سمجھتا ہے وہ فیصلے سے متاثرہ ہے نظرثانی کر سکتا ہے، آئین کے آرٹیکل 188 میں ایسا کچھ نہیں، صرف لکھا ہے کہ سپریم کورٹ اپنے فیصلے پر نظرثانی کرسکتی ہے۔جسٹس امین الدین خان نے فیصل صدیقی سے استفسار کیا کہ آپ مذید کتنا وقت میں لیں گے؟ فیصل صدیقی نے کہا کہ مجھے ابھی نظرثانی درخواستوں کے قابل سماعت نہ ہونے کے مذید تین نقاط پر بات کرنی ہے، اس کے بعد میں کیس کے میرٹس پر دلائل دوں گا۔جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ آپ جتنا مرضی وقت لیں مگر کوئی حد تو مقرر ہونی چاہئے، فیصل صدیقی نے کہا کہ آپ کو پتا ہے میں غیر ضروری وقت نہیں لیتا۔
جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ ہم نے اپنے اقلیتی فیصلے میں لکھا کہ جس ریکارڈ پر اکثریتی فیصلہ دیا وہ قانون کے مطابق مانا ہی نہیں جاسکتا تھا، وہ ریکارڈ عدالت کے سامنے نہیں تھا، یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک امیدوار تین یا چار کاغذات نامزدگی فائل کردے۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرنوشکی، انسداد پولیو ٹیم پر حملہ، فائرنگ سے ایک پولیس اہلکار شہید، دوسرا زخمی،صدر اور وزیراعظم کی مذمت نوشکی، انسداد پولیو ٹیم پر حملہ، فائرنگ سے ایک پولیس اہلکار شہید، دوسرا زخمی،صدر اور وزیراعظم کی مذمت مودی کی حالیہ تقریر نفرت انگیز، پرتشدد اور عالمی اصولوں کی خلاف ورزی، عالمی برادری نوٹس لے،پاکستان ججز ٹرانسفر و سینیارٹی کیس میں جوڈیشل کمیشن کے اجلاسوں کے منٹس طلب جھوٹا بھارتی بیانیہ بے نقاب کرنے کیلئے بلاول کی قیادت میں پاکستانی سفارتی ٹیم کا دورہ امریکا طے آرڈی اے مالیاتی ریکارڈ میں بے ضابطگیاں، ریاستی خزانے کو بھاری نقصان اسلام آباد میں بکرا منڈیوں کی نیلامی سے ریکارڈ آمدن، 55 فیصد اضافہCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف ہیں جسٹس امین الدین خان جسٹس امین الدین خان نے جسٹس جمال مندوخیل نے فیصل صدیقی نے کہا کہ وہ سیاسی جماعت نہیں سنی اتحاد کونسل کو سلمان اکرم راجہ نے سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے جسٹس مسرت ہلالی نے کہ سنی اتحاد کونسل نے فیصل صدیقی سے انتخابی نشان کا پی ٹی آئی نے خود سے انکار کردیا کہ سپریم کورٹ سپریم کورٹ نے امیدواروں کو مخصوص نشستوں خان نے کہا کہ نے کہا کہ آپ کہ پی ٹی آئی فیصلہ کیا فریق نہیں چیلنج کیا فیصلے میں مرکزی کیس قرار دیا جواب دیا سمجھ لیا چیلنج کی فیصلے کی کورٹ میں کے فیصلے کا فیصلہ دیا گیا کیس میں ہی نہیں کا جواب رہے ہیں ہے جسٹس دیا کہ کہ کیا تھا کہ دوں گا
پڑھیں:
ججز کے تبادلوں میں 4مراحل پر منظوری لازمی ،سپریم کورٹ
اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ نے ججز تبادلوں سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران کہا ہے کہ ججز کے تبادلوں میں4 مراحل پر عدلیہ کی منظوری لازمی ہے۔ سپریم کورٹ میں ججز ٹرانسفر کیس کی سماعت جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں5رکنی آئینی بنچ نے کی، وکیل فیصل صدیقی نے مؤقف اپنایا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کا قیام آئین کے آرٹیکل 175 کے تحت عمل میں آیا ہے اور اس قانون میں ججز کی تقرری کا تعلق صرف صوبوں سے ہے، جس کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججز کا تبادلہ ممکن نہیں۔ اگر کسی جج کا تبادلہ ہو بھی جائے تو وہ مستقل نہیں ہوگا اور واپسی پر دوبارہ حلف کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ کیا آرٹیکل 175 اے کے نافذ ہونے کے بعد آرٹیکل 200 غیر مؤثر ہو چکا ہے؟ فیصل صدیقی نے جواب میں کہا کہ تبادلوں کے موجودہ نظام میں جوڈیشل کمشن کے اختیارات سلب کیے جا رہے ہیں، جو آئینی روح کے منافی ہے۔ جسٹس شکیل احمد نے کہا کہ اگر ملک میں ججز کی ایک مشترکہ سنیارٹی لسٹ ہو تو تنازعات ختم ہو سکتے ہیں، جس پر فیصل صدیقی نے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ مشترکہ سنیارٹی لسٹ سے ججز کے تبادلوں کے اثرات سب پر واضح ہوں گے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے تبادلوں کے عمل کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اس میں 4 مراحل شامل ہوتے ہیں۔ متعلقہ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس، جسٹس ہائیکورٹ میں ٹرانسفر ہونا ہے اس کے چیف جسٹس، ٹرانسفر ہونے والا جج اور چیف جسٹس اگر کسی ایک مرحلے پر بھی انکار ہو جائے تو تبادلہ ممکن نہیں۔ اگر یہ سب کچھ ایگزیکٹو کے ہاتھ میں ہوتا تو الگ بات تھی، لیکن یہاں عدلیہ کے4 فورمز کی منظوری لازم ہے۔ فیصل صدیقی نے عدالت کو بتایا کہ موجودہ قانون میں بدنیتی برتی گئی اور سنیارٹی کے حساس معاملے پر عدلیہ کو اندھیرے میں رکھا گیا۔ اٹارنی جنرل نے دلائل میں کہا کہ آرٹیکل200 کے تحت ججز کا ٹرانسفر مستقل بھی ہوتا ہے عارضی بھی۔ عارضی ٹرانسفر کا نوٹیفکیشن میں ذکر ہوتا ہے۔ عارضی ٹرانسفر پر ججز کو اضافی مراعات بھی ملتی ہیں۔ مستقل ٹرانسفر پر سرکاری رہائش ملتی ہے۔ محدود مدت کے لیے تبادلے پر جج اپنی اصل ہائیکورٹ میں واپس چلا جاتا ہے۔ اگر جج کا تبادلہ مستقل ہو تو پہلی والی ہائیکورٹ سے اس کی سیٹ خالی ہو جاتی ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ میں تبادلے پر آئے ججز کو مستقل سرکاری رہائش فراہم کی گئی لیکن تبادلے پر آئے ججز کو کوئی اضافی الائونسز نہیں مل رہے اور تبادلے پر آئے ججز کو نیا حلف اٹھانے کی ضرورت نہیں ہے۔ جج کو حلف نئی تقرری پر اٹھانا پڑتا ہے۔ ججز تبادلے پر آئے ہیں، نئی تقرری نہیں ہوئی۔ جسٹس نعیم افغان نے ریمارکس دئیے کہ ہر جج نے اپنی ہائیکورٹ کا حلف اٹھایا ہے۔ ہر ہائیکورٹ کا اپنا دائرہ اختیار ہوتا ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئین کے تھرڈ شیڈول میں اسلام آباد ہائیکورٹ ججز کے الگ حلف کا ذکر نہیں۔ آئین میں حلف کے لیے ہائیکورٹس کا ذکر ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز نے وہی حلف لیا جو تبادلے پر آئے ججز نے اپنی تقرری کے بعد اٹھایا تھا۔ سپریم کورٹ اور ہائیکورٹس کے تمام ججز کا حلف ایک جیسا ہے۔ عدالت کے سامنے5 ججز کی درخواست ہے، جن میں صرف جسٹس محسن اختر کیانی سپریم کورٹ میں جج بننے کی دوڑ میں ہیں۔ جسٹس نعیم افغان نے پوچھا کہ کیا آرٹیکل200 پر تبادلے کا نیا حلف نہیں ہو گا؟، جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ آرٹیکل200 میں نئے حلف اٹھانے کا کوئی ذکر نہیں۔ جسٹس نعیم اختر افغان نے استفسار کیا کہ ججز ٹرانسفر کی آخری سمری میں حلف نہ اٹھانے کا ذکر کیوں کیا گیا؟ سنیارٹی اور حلف کو ججز ٹرانسفرز کی ابتدائی سمریوں میں چھپایا گیا؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ججز کی سنیارٹی پر سپریم کورٹ کا فیصلہ موجود ہے۔ جسٹس شکیل احمد نے استفسار کیا کہ کیا ججز کا حلف اور سنیارٹی سیکرٹری قانون طے کرے گا؟ کیا کسی نے سیکرٹری قانون سے حلف اور سنیارٹی پر رائے مانگی تھی؟ سیکرٹری لانے آخری سمری میں سنیارٹی اور حلف کی وضاحت کیوں کی؟اٹارنی جنرل نے بتایا کہ وزیر اعظم کو ایڈوائس کے لیے بھیجی سمری انتظامی نوعیت کی ہے۔ جسٹس شکیل احمد نے ریمارکس دئیے کہ سیکرٹری قانون کو آخری سمری میں یہ وضاحت دینے کی ضرورت کیوں پیش آئی کہ ٹرانسفر ججز کو نیا حلف لینے کی ضرورت نہیں۔ کیا سنیارٹی سے متعلق اصل حقائق کو چیف جسٹس صاحبان سے چھپایا گیا؟۔ اسی وجہ سے درخواست گزاران کی طرف سے بدنیتی پر سوالات اٹھائے گئے۔ کیا سیکرٹری قانون نے آخری سمری میں سنیارٹی خود طے نہیں کردی؟۔ کیا سیکرٹری قانون ایسا کرنے کے اہل تھے۔