UrduPoint:
2025-05-29@01:16:46 GMT

ہم قدم ہوتی خواتین

اشاعت کی تاریخ: 27th, May 2025 GMT

ہم قدم ہوتی خواتین

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 27 مئی 2025ء) شعر و شاعری کی زبان میں انھی سے تصویر کائنات میں رنگ بھر دیا جاتا ہے۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ اکیسویں صدی میں بھی ہمیں ان کے حقوق اور ان کے لیے انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے جد و جہد کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک اپنے ہاں کی خواتین کے حقوق اور ان کے لیے مختلف بیمار رویوں سے نجات کے لیے کوششیں کر رہے ہیں۔

بدقسمتی سے پاکستان اس منفی فہرست میں کافی نمایاں نظر آتا ہے۔ یہاں خواتین کو غیر تعلیم یافتہ رکھنے اور انھیں کم تر سمجھنے کی سوچ پوری طرح ختم نہیں کی جاسکی، کوئی بھی ملک اپنی خواتین کو نظر انداز کر کے جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہو سکتا، سو ہمارے ہاں بھی مختلف سرکاری اور غیر سرکاری تنظیمیں خواتین کے حقوق اور ان کے لیے مساوات کے حوالے سے جد و جہد کرتی رہی ہیں اور اس کے دھیرے دھیرے ہی سہی لیکن کافی مثبت نتائج بھی سامنے آ رہے ہیں۔

(جاری ہے)

پاکستان میں مجموعی طور پر شرح خواندگی 62.

8 فی صد ہے۔ صنفی اعتبار سے دیکھیے تو مردوں میں یہ شرح 73.4 فی صد اور خواتین میں صرف 51.9 فی صد ہے۔ گویا یہ تعداد نصف ہے۔ کسی بھی سماج میں ایک لڑکی کا تعلیم یافتہ ہونا ایک پورے خاندان کے تعلیم یافتہ ہونے کے برابر سمجھا جاتا ہے۔ اکیسویں صدی کا پاؤ حصہ گزارنے کے بعد بھی ہمارے ڈھائی سے تین کروڑ بچے تعلیم سے محروم ہیں۔

ان میں بھی بیش تر تعداد لڑکیوں کی ہے، کیوں کہ فی زمانہ آج بھی لڑکیوں پر تعلیم یا اعلیٰ تعلیم کے دروازے بند ہیں۔ ہمارے ہاں لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے اب بھی شہری اور دیہی ہر دو جگہوں پر مختلف طرح کے مسائل کا سامنا ہے۔ شہروں میں یونیورسٹیوں میں لڑکیوں کی ایک معقول تعداد دکھائی تو دیتی ہے جو خوش آئند ہے، لیکن اس میں ایک سماجی مسئلہ بھی درپیش ہے کہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد ان کی شادی کے لیے ہم پلہ لڑکوں کا ملنا مشکل ہو جاتا ہے، نتیجتاً انھیں کم تعلیم یافتہ جیون ساتھی ملتے ہیں، جس کی وجہ سے ذہنی ہم آہنگی نہیں ہو پاتی اور نتیجہ خاندانی تنازعات یا علیحدگی کی صورت میں نکلتا ہے۔

دوسری طرف دیہات میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے اب بھی وہی پس ماندہ سوچ موجود ہے، یہی وجہ ہے کہ وہاں صنفی مساوات پیدا نہیں ہو پاتی، اس لیے دیہی علاقوں میں بہت زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔

پاکستان میں کام پر جانے والی خواتین کے لیے آج بھی ایک اہم مسئلہ ہراسانی کا ہے، انھیں کہیں آتے جاتے اور آمد و رفت کے دوران میں مختلف مراحل پر خوف و ہراس کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

آئے روز خواتین کے ساتھ نا زیبا سلوک اور زیادتیوں کی خبریں سامنے آتی رہتی ہیں۔ اس کے تدارک کے لیے کام کی جگہ پر خواتین کے تحفظ کے حوالے سے 2010 کا 'خواتین پر کام کی جگہ پر ہراسانی کے خلاف تحفظ کا قانون' موجود ہے جو انھیں ایسی کسی بھی صورت حال سے تحفظ فراہم کرتا ہے۔

صوبہ پنجاب میں "پنجاب ویمنز ٹول فری ہیلپ لائن 1043" اور "ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن" کی "سائبر ہراسانی ہیلپ لائن'' بھی اس حوالے سے متاثرہ خواتین کو مدد فراہم کر رہی ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ "امپاور آرگنائزیشن پاکستان" اور "یو ایس ایڈ" جیسی تنظیمیں بھی تعلیمی میدان میں خواتین کو وظائف فراہم کر رہی ہیں تا کہ ان کی تعلیمی میدان میں حائل رکاوٹیں دور کی جا سکیں۔

خواتین کی سفری سہولتوں کو بہ تر بنانے کے لیے سندھ میں ان کے لیے مخصوص 'پنک بسیں‘ چلائی گئی ہیں جو مکمل طور پر خواتین کے لیے مخصوص ہیں۔

یہی نہیں بائیک چلانے اور سیکھنے کی خواہش مند لڑکیوں اور خواتین کے لیے 'مفت پنک اسکوٹی‘ فراہم کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ ایسے ہی خواتین کی سفری خود مختاری کے لیے لاہور میں "ویمن آن وہیلز" پروگرام خواتین کو موٹر سائیکل چلانے کی تربیت دیتا ہے، تا کہ وہ نقل و حمل میں خود مختار ہو سکیں۔

پاکستان میں خواتین کے حوالے سے صورت حال اگرچہ آئیڈیل نہیں ہے، لیکن ویمن بینک سے لے کر خواتین پولیس اسٹیشن تک بہت سی سہولتیں ہیں، جو کہ سرکاری اور نجی طور پر خواتین کے لیے فراہم کی جا رہی ہیں۔

مختلف سرکاری محکموں میں بھی خواتین کے لیے مخصوص اسامیوں کا اعلان کیا جاتا ہے۔ پاکستانی پارلیمان میں خواتین کی نمائندگی کا تناسب تقریباً 22 فی صد بنتا ہے۔ جو عالمی اوسط 26 فی صد سے کم ہے۔ اس کے مقابلے میں، نیپال میں یہ تناسب 33.09 فی صد ہے، جب کہ بھارت میں یہ 15 فی صد ہے۔ بات اگر ہندوستان کی ہے، تو ہمارے ہاں کی خواتین کی مجموعی سماجی صورت حال ان کے ہاں سے بہ تر ہے، جب کہ ہندوستان میں ہراسانی، زیادتی اور قتل کیے جانے تک کے اعداد و شمار دہلا دینے والے ہیں۔

اس لحاظ سے ہم یہ کہ سکتے ہیں کہ تیسری دنیا کے ایک پس ماندہ ماحول سے نبرد آزما ہونے کے باوجود پاکستان خواتین کی صحت، تعلیم اور ان کے لیے مواقع کے اعتبار سے اپنی صورت حال کو بہ تر کر رہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس حوالے سے متوازن انداز میں روایتی اقدار کو سامنے رکھتے ہوئے خواتین کو مردوں کے شانہ بہ شانہ کرنے کے مواقع فراہم کیے جائیں، تا کہ خواتین کے حقوق کی راہ میں حائل ہونے والے حلقوں کو تنقید کرنے یا رکاوٹیں ڈالنے کا موقع نہ ملے۔

اگر خواتین کے حوالے سے معاشرے کا مائنڈ سیٹ تبدیل ہو جائے تو خواتین کی بہ تری کی بہت سی راہیں خود بہ خود ہموار ہوتی چلی جاتی ہیں۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے خواتین کے لیے اور ان کے لیے تعلیم یافتہ کے حوالے سے میں خواتین لڑکیوں کی خواتین کی خواتین کو فراہم کر صورت حال فی صد ہے میں بھی کے حقوق جاتا ہے

پڑھیں:

چین کے ساتھ ہمارا دفاعی تعاون بڑا پرانا ہے، مسعود خالد

اسلام آباد:

دفاعی تجزیہ کار (ر) میجر جنرل طارق رشید خان کا کہنا ہے کہ فوجیں واپس ہونے کا مطلب ہی یہی ہے کہ دونوں پارٹیوں نے احساس کر لیا ہے کہ بات چیت ہونی چاہیے اور ٹینشن ڈیفیوز ہو رہی ہے، بٹ ایک کیپیبلیٹی ہوتی ہے دوسری انٹینشن ہوتی ہے تو انٹینشنز اوورنائٹ چینج ہو جاتی ہیں کہ فوجیں واپس چلی جائیں۔ 

ایکسپریس نیوز کے پروگرام کل تک میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ انڈیا کی جو اس وقت پریڈیکٹمنٹ ہے وہ یہ ہے کہ بیان ہی دے سکتے ہیں، اب اگر بیان بھی نہ دیں تو کیا دیں؟ کچھ تو فیس سیونگ کرنی ہے نہ۔ 

دفاعی تجزیہ کار (ر)ایئروائس مارشل اعجاز محمود نے کہا کہ جنگ کا جو نتیجہ ہے اب اس کے اوپر ہمیشہ یہ فوگ تو رہتی ہے، جیتنے والے کی اپنی سچائی ہوتی ہے جس کو وہ سبسٹینشی ایٹ کرتے ہیں، آجکل کے زمانے میں خاص طور پہ وڈیو ہر ویپن کے ساتھ، ہر پلیٹ فارم کے ساتھ بہترین ڈیجیٹل ریکارڈنگ ہوتی ہے، وہ دکھائی جا سکتی ہے لیکن ہارنے والا اتنی آسانی سے مانتا نہیں ہے، کیونکہ اس نے بھی تو فیس سیونگ کرنی ہے۔ 

ایک سوال پر انھوں نے کہا کہ یہ آپ کی بات ٹھیک ہے کہ فوجیوں کے دل بڑے ہوتے ہیں اور وہ ہار کو مانتے ہیں، پروفیشنل فورسز جو ہیں آرمیز ہوں ایئرفورسز ہوں ان میں یہ ٹریڈیشنز ہیں لیکن وہاں کا بیانیہ فوج تونہیں بنا رہی وہ تو ان کی پولیٹیکل لیڈر شپ بنا رہی ہے۔ 

سابق سفیر مسعود خالد نے کہا کہ چین کے ساتھ ہمارا دفاعی تعاون بڑا پرانا ہے، میں ری کال کروں گا یہاں پر کہ 65 کی وار ہوئی تھی انڈیا اور پاکستان کی تو اس وقت ہماری جو انوینٹری تھی وہ موسٹلی امریکن تھی، امریکا نے ہماری امداد روک دی، اس وقت جو یہاں قیادت تھی لیڈر شپ تھی انھوں نے چین سے رجوع کیا اور چین نے ہمیں ایمرجنسی سپلائز دیں، اس کے بعد سے ہی یہ سلسلہ چل رہا ہے۔

پھر میں ایک اور چیز بتانا چاہوں گا کہ لیٹ سکسٹیز میں چین نے ہمیں خاصا بڑا کریڈٹ دیا تھا تین سو ارب ڈالر کا۔ یہ قرضہ ہمارے کچھ اکنامک پراجیکٹس کیلیے اورڈیفنس ایکوپمنٹ کیلیے دیا گیا تھا اور اس وقت چین بڑا غریب تھا تو چین کے ساتھ ہمارا دفاعی تعاون پرانا چل رہا ہے، اس میں پچھلی چند دہایوں میں کہہ سکتے ہیں آپ کہ تعلق بہت مضبوط ہوا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • وزیراعلیٰ کا چکن کے نرخ بڑھنے پر اظہار برہمی،سبزیوں کے حوالے سے بھی اہم احکامات جاری
  • راولپنڈی: محکمہ تعلیم کے دفتر سے 9600 سے زائد کتابیں چوری کرنے والے دو افراد گرفتار
  • ایک انچ زمین بھی کسی کو نہیں دینگے، شیخ احمد ترابی
  • ڈپریشن سے جسم پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟
  • مخصوص نشستوں کے کیس میں نظرثانی درخواستیں منظور ہوتی ہیں تو تین طرح کی صورتحال ہو گی،وکیل سنی اتحاد کونسل نے آئینی بنچ کے سامنے بیان کردیں
  • چین کے ساتھ ہمارا دفاعی تعاون بڑا پرانا ہے، مسعود خالد
  • صوبے میں 500 سے 700 ارب روپے کی کرپشن ہوئی، فیصل کریم کنڈی
  • سعودی سرکاری ذرائع کی مملکت میں شراب کے حوالے سے حالیہ میڈیا رپورٹس کی تردید
  • خواتین سیاسی کارکنان اور جنسی تشدد کی دھمکی