غزہ: قحط ٹالنے کے لیے امداد کی وسیع پیمانے پر ترسیل ضروری، یو این
اشاعت کی تاریخ: 27th, May 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 27 مئی 2025ء) اسرائیل نے غزہ میں امداد کی تقسیم کے اپنے متنازع منصوبے پر عملدرآمد شروع کر دیا ہے جبکہ اقوام متحدہ نے واضح کیا ہے کہ علاقے میں قحط کے خطرے کو روکنے کے لیے فوری طور پر بڑی مقدار میں انسانی امداد کی فراہمی ضروری ہے۔
امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر (اوچا) کے ترجمان جینز لائرکے نے کہا ہے کہ 11 ہفتے تک محاصرے کے بعد اسرائیل نے غزہ میں جتنی امداد بھیجنے کی اجازت دی ہے وہ ضروریات کے مقابلے میں انتہائی ناکافی ہے۔
Tweet URLان کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کا عملہ بدستور غزہ میں موجود ہے جو کیریم شالوم کے راستے علاقے میں آنے والے امداد کے حصول اور اسے لوگوں میں تقسیم کرنے کے لیے اسرائیلی حکام کے ساتھ رابطے میں ہے۔
(جاری ہے)
تاہم، ادارہ اسرائیل کے امدادی مںصوبے (غزہ امدادی فنڈ) میں شامل نہیں ہوا۔ترجمان کا کہنا ہے کہ غزہ کے تمام سرحدی راستے کھولنے، علاقے میں امدادی سرگرمیوں کے لیے ماحول کو محفوظ بنانے اور مختلف علاقوں میں ہنگامی امدادی کارروائیوں کے لیے بلاتاخیر اجازت دینے کی ضرورت ہے۔ اسرائیل نے امدادی ٹیموں کو جو راستے استعمال کرنے کے لیے کہا ہے وہ غیرمحفوظ ہونے کی وجہ سے ان کے لیے سرحد پر آنے والا تمام سامان اٹھانا ممکن نہیں ہوتا۔
سرحدی راستے کھولنے کی ضرورتترجمان نے کہا ہے کہ غزہ میں ضرورت کا تمام امدادی سامان لانے کی اجازت ہونی چاہیے۔ اس وقت جتنی مقدار میں امداد آ رہی ہے وہ بڑے پیمانے پر ضروریات کی تکمیل کے لیے ناکافی ہے۔ اسی لیے مزید سرحدی راستے کھولنا بہت ضروری ہے۔
عالمی پروگرام برائے خوراک (ڈبلیو ایف پی) نے بتایا ہے کہ سوموار تک اشدود بندرگاہ سے امدادی سامان لے کر 294 ٹرک کیریم شالوم پہنچے تھے۔
منگل کو اسرائیلی مظاہرین نے بندرگاہ کے باہر امدادی سامان لے کر آنے والے ٹرکوں کا راستہ روکنے کی کوشش بھی کی۔ طویل جنگ اور متواتر نقل مکانی نے لوگوں کو توڑ کر رکھ دیا ہے جنہیں بڑے پیمانے پر مدد درکار ہے۔امدادی سامان ضائع ہونے کا خدشہ'ڈبلیو ایف پی' نے بتایا ہے کہ اس کے پاس مزید ایک لاکھ 30 ہزار میٹرک ٹن سے زیادہ غذائی امداد اور اسے لوگوں تک پہنچانے کا فعال نظام بھی تیار ہے۔
غزہ میں روزانہ آنے والے امدادی ٹرکوں کی تعداد بڑھانے کے علاوہ علاقے میں امدادی سامان کو محفوظ انداز میں اٹھانے اور تقسیم کرنے میں سہولت فراہم کرنے کی ہنگامی ضرورت ہے۔فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے امدادی ادارے (انروا) نے واضح کیا ہے کہ اس کی جانب سے تیار کیا گیا کوئی امدادی سامان غزہ میں نہیں پہنچ سکا۔ خوراک اور ادویات کے 3,000 ٹرک اردن اور مصر میں کھڑے ہیں جنہیں بلاتاخیر غزہ میں نہ بھیجا گیا تو یہ سامان ضائع ہو جائے گا۔
ادارے کی ترجمان جولیٹ ٹوما نے کہا ہے کہ 'انروا' کے پاس طبی مراکز اور دواخانے ہیں جہاں ہر طرح کی ادویات فراہم کی جاتی ہیں۔ تاہم، امداد نہ آنے کے باعث ان مراکز پر سازوسامان اور دوائیں ختم ہو رہی ہیں۔
'انروا' پر الزامات کے ثبوت کا مطالبہ'انروا' کے کمشنر جنرل فلپ لازارینی نے اسرائیلی حکام پر زور دیا ہے کہ وہ ادارے کے عملے سے تعلق رکھنے والے ارکان پر 7 اکتوبر کے حملوں میں ملوث ہونے کے ثبوت فراہم کریں۔
گزشتہ برس اس معاملے میں اقوام متحدہ کی تحقیقات سے یہ سامنے آیا تھا کہ ادارے کے نو ارکان کے خلاف یہ الزامات درست ہو سکتے ہیں۔ مزید برآں، الگ اور غیرجانبدرانہ تحقیقات سے یہ بھی ثابت ہوا کہ 'انروا' کے قوانین اور طریقہ کار مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں پیچیدہ اور حساس کام کے تقاضوں کو پورا کرتے ہیں۔جولیٹ ٹوما نے کہا ہے کہ گزشتہ 20 ماہ سے یہ الزامات ادارے کے کام میں رکاوٹ پیدا کر رہے ہیں اور اس کے عملے کی زندگیوں کے لیے خطرہ ہیں۔ ادارے کی جانب سے متعدد مرتبہ اسرائیلی حکومت سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنے دعووں کے حق میں معقول ثبوت پیش کرے جو نہیں کیے گئے۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ علاقے میں کے لیے
پڑھیں:
غزہ میں عالمی فورس کیلیے اقوام متحدہ کا مینڈیٹ ضروری ہے‘اردن ‘جرمنی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251102-01-19
عمان/برلن( مانیٹرنگ ڈیسک) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ‘غزہ پلان’ کے تحت جنگ بندی کے بعد علاقے میں عالمی استحکام فورس کی تعیناتی کی تجاویز پراردن اور جرمنی، نے واضح کیا ہے کہ اس فورس کی کامیابی اور قانونی حیثیت کے لیے اسے لازماً اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کا مینڈیٹ حاصل ہونا چاہیے۔ عالمی میڈیا کے مطابق، امریکا کی ثالثی میں حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی معاہدے کے تحت زیادہ تر عرب اور مسلمان ممالک پر مشتمل ایک اتحاد فلسطینی علاقے میں فورس تعینات کرنے کی توقع ہے۔ بین الاقوامی استحکام فورس غزہ میں منتخب فلسطینی پولیس کو تربیت دینے اور ان کی معاونت کرنے کی ذمہ دار ہوگی، جسے مصر اور اردن کی حمایت حاصل ہوگی۔ اس فورس کا مقصد سرحدی علاقوں کو محفوظ بنانا اور حماس کو ہتھیاروں کی اسمگلنگ سے روکنا بھی ہوگا۔ اردن کے وزیر خارجہ ایمن الصفدی نے کہا کہ “ہم سب اس بات پر متفق ہیں کہ اگر اس استحکام فورس کو مؤثر طریقے سے اپنا کام کرنا ہے تو اسے سلامتی کونسل کا مینڈیٹ حاصل ہونا ضروری ہے۔تاہم، اردن نے واضح کیا کہ وہ اپنے فوجی غزہ نہیں بھیجے گا۔ الصفدی کا کہنا تھا کہ ہم اس معاملے سے بہت قریب ہیں، اس لیے ہم غزہ میں فوج تعینات نہیں کر سکتے، تاہم انہوں نے کہا کہ ان کا ملک اس بین الاقوامی فورس کے ساتھ تعاون کرنے کے لیے تیار ہے۔دوسری جانب، جرمنی کے ویزرخارجہ یوان واڈیفول نے بھی فورس کے لیے اقوام متحدہ کے مینڈیٹ کی حمایت کی اور کہا کہ اسے بین الاقوامی قانون کی واضح بنیاد پر قائم ہونا چاہیے۔جرمن وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ان ممالک کے لیے انتہائی اہمیت رکھتا ہے جو نہ صرف غزہ میں فوج بھیجنے کے لیے تیار ہیں بلکہ خود فلسطینیوں کے لیے بھی اہم ہے جبکہ جرمنی بھی چاہے گا کہ اس مشن کے لیے واضح مینڈیٹ موجود ہو۔خیال رہے کہ گزشتہ ماہ اقوامِ متحدہ کے ماہرین نے خبردار کیا تھا کہ یہ منصوبہ ’اسرائیلی قبضے کی جگہ امریکی قیادت میں ایک نیا قبضہ قائم کرے گا، جو فلسطینی حقِ خودارادیت کے منافی ہے‘۔واضح رہے کہ اقوامِ متحدہ نے اس خطے میں بین الاقوامی امن فورسز کئی دہائیوں سے تعینات کر رکھی ہیں، جن میں جنوبی لبنان میں فورس بھی شامل ہے، جو لبنانی فوج کے ساتھ مل کر حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان نومبر 2024 کی جنگ بندی پر عملدرآمد کو یقینی بنا رہی ہے۔