نیویارک (اوصاف نیوز)امریکی محققین کی ایک رپورٹ کے مطابق اگر پاکستان اورہندوستان کے درمیان ایٹمی جنگ ہوتی ہے اور اگر دونوں ممالک اس میں پندرہ کلو ٹن کے ایک سو بم استعمال کرتے ہیں، تو ان کی زد میں آ کر دو کروڑ دس لاکھ افراد ہلاک ہوسکتے ہیں جب کہ اوزون کی جھلی بری طرح متاثر ہو سکتی ہے۔

پاکستان اور بھارت جوہری ہتھیاروں سے مسلح ہیں۔ آج کل دونوں ممالک میں جنگی جنون عروج پر ہے۔ اب کشیدگی کے بڑھنے سے جنگ کے سائے دونوں ممالک کی ایک ارب پچاس کروڑ کی آبادی کے سر پر منڈلا رہے ہیں۔

خیال کیا جاتا ہے کہ بھارت کے پاس ایک سو تیس کے قریب جوہری ہتھیار ہیں جب کہ پاکستان تقریباً ایک پچاس تباہ کن ہتھیار رکھتا ہے۔ دونوں ممالک کے پاس طویل فاصلے کے میزائل بھی ہیں

جس کی بدولت بھارت کراچی، لاہور، اسلام آباد اور ملتان سمیت کئی پاکستانی شہروں کو نشانہ بنا سکتا ہے جب کہ پاکستانی میزائل نئی دہلی، ممبئی، بنگلور اور حیدرآباد سمیت کئی شہروں تک پہنچے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

اس صورتِ حال کے پیشِ نظر کئی ماہرین کا خیال ہے کہ اگر جنگ شروع ہوئی تو خدشہ ہے کہ یہ جوہری تصادم کی شکل اختیار کر جائے گی، جس کے نہ صرف خطے بلکہ دنیا بھر میں بھی اثرات ہوں گے۔

امریکی محققین کی دو ہزار سات کی ایک رپورٹ کے مطابق اگر پاکستان اور بھارت کے درمیان جوہری جنگ ہوتی ہے اور اگر دونوں ممالک اس میں پندرہ کلو ٹن کے ایک سو بم استعمال کرتے ہیں.

.

تو ان کی زد میں آ کر دو کروڑ دس لاکھ افراد ہلاک ہوسکتے ہیں جب کہ اوزون کی جھلی بری طرح متاثر ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ ان دھماکوں کے اثرات سے ماحول میں زبردست تبدیلی رونما ہوسکتی ہے، جس سے دو ارب کے قریب انسان فاقہ کشی کا شکار ہو سکتے ہیں۔

ان تمام حقائق کے باوجود دونوں ممالک میں جنگی جنون عروج پر ہے۔ تاہم اس صورتِ حال پر امن پسندوں کی ایک قلیل اقلیت بہت پریشان ہے۔ معروف گلوکار جواد احمد نے جنگی جنون پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جو لوگ جنگ اور تباہی کا مطالبہ کر رہے ہیں، سب سے پہلے انہیں جنگ میں بھیجا جائے تاکہ انہیں پتہ چلے کہ جنگ کیا ہوتی ہے۔

ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے جواد احمد نے کہا، ’’فیس بک اور ٹویئٹر پر بیٹھ کرجنگ کے نعرے لگانا آسان ہے لیکن ایک عام آدمی کوئی جنگ نہیں چاہتا ۔ وہ چاہتا ہے کہ وہ اپنے گھر والوں کے ساتھ رہے، اپنی روزی روٹی کمائے۔ آپ پر اگر جنگ مسلط کی جائے تو وہ ایک مختلف بات ہے اور آپ کو اس وقت اپنا دفاع کرنا چاہیے اور اس وقت تو ہر ایک لڑتا ہے لیکن اس طرح اپنے دشمن کو للکارنا کہ وہ آئے اور آپ پر حملہ کر کے دکھائے، یہ مناسب نہیں ہے۔‘‘

دی وائر آرٹیکل کے مطابق کئی ناقدین جنگ کو ہتھیاروں کی صنعت سے جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ جنگ اس وقت تک ہوتی رہے گی جب تک یہ ہتھیار بنتے رہیں گے۔

جواد احمد ہتھیار سازی کو جنگوں کا ایک بڑا سبب قرار دیتے ہیں، ’’جنگ کی ایک سیدھی سے وجہ تو یہ ہے کہ کچھ سرمایہ دار قیمتی انسانی وسائل ہتھیاروں پر لگا رہے ہیں لیکن دنیا میں اصل مسائل تو بھوک، غربت، بے روزگاری اور مناسب رہائش کی عدم دستیابی ہے۔ جنگ سے اصل فائدہ شاید ان سرمایہ داروں کو ہو لیکن عام آدمی کو اس سے کوئی فائدہ نہیں ہے۔‘‘

ناقدین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں چھ کروڑ سے زیادہ افراد خطِ غربت سے نیچے رہے رہیں ہیں، چالیس فیصد بچوں کی مکمل طور پر ذہنی نشوونما نہیں ہو پارہی ہے جب کہ اڑتیس فیصد کے قریب غذا کی عدم دستیابی کا شکار ہیں۔ بھارت میں سرکاری طور پر 243 ملین افراد خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں (غیر سرکای طور پر یہ تعداد چھ سو ملین ہے)، پینتیس فیصد سے زائد افراد مناسب غذا سے محروم ہیں جب کہ آبادی کے ایک بڑے حصے کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے۔

اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے معروف شاعر محمود اظہر کاکہنا ہے کہ اگر دونوں ممالک کو کوئی جنگ کرنی ہے تو وہ غربت اور جہالت کے خلاف کریں۔ ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ’’دونوں ممالک کو جرمنی، پولینڈ، جاپان، اٹلی، فرانس، سابقہ سوویت یونین اور برطانیہ کی تاریخ کا مطالعہ کرنا چاہیے۔

ہمارے لوگوں کے پاس پینے کا صاف پانی تک نہیں ہے اور ہم جنگ کے ڈھول بجا رہے ہیں۔ میں میڈیا سے کہتا ہوں خدارا اس جنگی جنون کو نہ بڑھائیں ورنہ ہر طرف ہیروشیما اور ناگاساکی ہمیں ملے گا۔ مذاکرات کی میز پر آئیں اور اس کشیدگی کو ختم کریں۔‘‘

واضح رہے کہ پاکستان اور بھارت میں پلوامہ حملے کے بعد سے لیکر اب تک کشیدگی مسلسل بڑھ رہی ہے۔ بھارت کو کشمیر میں علیحدگی پسندی کا سامنا ہے، جہاں انیس اڑتالیس سے لے کر اب تک چالیس ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ دونوں ممالک مسئلہ کشمیر پر تین جنگیں لڑ چکے ہیں جب کہ اس کے علاوہ دو جوہری قوتوں کے درمیان کئی چھڑپیں بھی ہوئی ہیں۔
مظفرآباد ، بادل پھٹنے سےطغیانی ، متعدد مکان زد میں ،3 خواتین جاں بحق، بزرگ لاپتہ ،زرعی اراضی بہہ گئی

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: دونوں ممالک پاکستان اور کہ پاکستان ہیں جب کہ ا جنگی جنون رہے ہیں نہیں ہے کی ایک ہے اور

پڑھیں:

یورینیم چوری کے واقعات؛ بھارت کی غفلت عالمی سلامتی کیلیے خطرہ بن گئی

بھارت میں یورینیم کی چوری کے واقعات نے جوہری تحفظ کے پروٹوکولز کے بارے میں بڑھتے خدشات میں مزید اضافہ کردیا ہے۔

بھارت میں جوہری مواد کی چوری، اسمگلنگ اور تابکار حادثات کے تسلسل نے عالمی برادری کو شدید تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود بھارت کی جوہری تنصیبات اور مواد کی تیاری سے متعلق حفاظتی اقدامات میں مسلسل کوتاہیاں سامنے آ رہی ہیں، جو نہ صرف خود بھارت بلکہ پورے خطے اور دنیا کے لیے خطرے کی گھنٹی ہیں۔

سکیورٹی ماہرین اور بین الاقوامی اداروں کی رپورٹس سے پتا چلتا ہے کہ بھارت میں ایٹمی مواد کی تیاری، تجربات اور ان کی نگرانی میں سنگین خامیاں موجود ہیں۔

ساؤتھ ایشیا اسٹریٹجک اسٹیبیلٹی انسٹیٹیوٹ کی رپورٹ کے مطابق 1994 سے 2021 کے دوران بھارت میں جوہری مواد کی چوری کے 18 واقعات رپورٹ ہو چکے ہیں، جن میں چوری ہونے والے مواد کی مقدار 200 کلوگرام سے تجاوز کر گئی ہے۔ ان واقعات میں شامل متعدد کیسز میں ایسے افراد کو گرفتار کیا گیا جن کے قبضے سے یورینیم یا کیلیفورنیم جیسے خطرناک تابکار مادے برآمد ہوئے۔

نیوکلئیر تھریٹ انیشی ایٹو (NTI) کی 2024 کی رپورٹ بھی بھارت کی جوہری سلامتی کے نظام پر شدید سوالات اٹھاتی ہے۔ اس رپورٹ میں بھارت کو 22 ممالک کی فہرست میں 20 ویں نمبر پر رکھا گیا ہے، جب کہ ایٹمی تنصیبات کے تحفظ کے عالمی انڈیکس میں بھارت 47 ممالک میں سے 40 ویں نمبر پر ہے۔

صرف یہی نہیںNTI نے متعدد بار بھارت میں ممکنہ جوہری حادثات سے قبل خبردار بھی کیا، مگر حکومتی عدم توجہ نے ان خطرات کو حقیقت بنا دیا۔

واقعات کی تفصیلات کے مطابق نومبر 1994 میں بھارت کے علاقے دومیاسیات سے 2.5 کلوگرام یورینیم اسمگل کرنے کی کوشش ناکام بنائی گئی۔ 1998 میں 100 کلوگرام سے زائد یورینیم اسمگل کرنے کی کوشش بھی ریکارڈ پر ہے۔

اسی برس جولائی میں تامل ناڈو سے 8 کلوگرام، مئی 2000 میں ممبئی سے 8.3 کلوگرام اور اگست 2001 میں مغربی بنگال سے 200 گرام نیم تیار شدہ یورینیم برآمد ہوا۔

حالیہ برسوں میں بھی صورتحال بدستور تشویشناک ہے۔ 2018 میں کولکتہ میں پانچ افراد کے قبضے سے 1 کلوگرام یورینیم برآمد ہوا۔ مئی 2021 میں مہاراشٹرا سے 7 کلوگرام یورینیم اور جون 2021 میں جھارکھنڈ سے 6.4 کلوگرام یورینیم قبضے میں لیا گیا۔ اسی سال کولکتہ ایئرپورٹ پر 250 گرام کیلیفورنیم بھی برآمد کیا گیا جو کہ شدید تابکار اور مہنگا مواد ہے۔

جولائی 2024 میں بھارت کے حساس ترین ادارے، بھابھا ایٹمی تحقیقاتی مرکز سے تابکار آلہ چوری ہو جانا بھارتی جوہری تحفظ کے لیے ایک کھلا طمانچہ تھا۔ اگست 2024 میں ایک اور تابکار مادہ، جو کیلیفورنیم سے مشابہہ تھا، قبضے میں لیا گیا۔ ان تمام واقعات نے عالمی اداروں اور ماہرین کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ بھارت کی جوہری سلامتی پر نظر ثانی کریں۔

بھارتی پارلیمانی رپورٹس بھی اس غفلت کی تصدیق کرتی ہیں۔ 1995 سے 1998 کے درمیان 147 حفاظتی حادثات رپورٹ کیے گئے، جو حکومتی اور انتظامی سطح پر بدترین لاپروائی کی عکاسی کرتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق بھارت کی یہ کمزوریاں نہ صرف خود اس کے لیے خطرناک ہیں بلکہ جنوبی ایشیا میں جوہری تحفظ کے عالمی پروٹوکولز کو بھی نقصان پہنچا رہی ہیں۔ تابکار مواد کی بار بار چوری اور اس کی اسمگلنگ کے واقعات اس بات کا ثبوت ہیں کہ بھارت جوہری ہتھیار رکھنے کے باوجود بین الاقوامی ذمے داریوں کو سنجیدگی سے لینے میں ناکام رہا ہے۔

عالمی برادری کے لیے یہ سوال انتہائی اہمیت اختیار کر گیا ہے کہ کیا بھارت جیسے ملک کو ایٹمی ہتھیاروں کی ملکیت برقرار رکھنے دی جائے جب کہ اس کے اندرونی حفاظتی نظام اتنے غیر محفوظ اور ناقابلِ اعتماد ثابت ہو چکے ہیں۔

 

متعلقہ مضامین

  • ایران کیخلاف حملے کے "سنگین نتائج" پر عرب ممالک کیجانب سے ٹرمپ کو "سخت انتباہ"
  • بھارت کا جنگی جنون جنوبی ایشیاء کے امن کیلئے سنگین خطرہ ہے، مسعود خان
  • اک شجر ایسا محبت کا لگایا جائے
  • پاکستان میں لڑنا جائز نہیں، افغان طالبان نے فتنہ الخوارج کو انتباہ جاری کردیا
  • بیرون ملک انتشار پھیلانے والے جہادی نہیں،افغان طالبان کا بھی فتنتہ الخوارج کو انتباہ جاری
  • افغان طالبان کی طرف سے فتنتہ الخوارج کو واضح انتباہ جاری، پاکستان کیخلاف کارروائیاں ناجائز قرار
  • یورینیم چوری کے واقعات؛ بھارت کی غفلت عالمی سلامتی کیلیے خطرہ بن گئی
  • پاکستان نے نریندر مودی کا نفرت انگیز بیان امن کے لیے خطرہ قرار دے دیا
  • دونوں ایٹمی دھماکوں میں بچ جانے والا واحد جاپانی شہری