کوالا لمپور :چین کے وزیر اعظم لی چھیانگ نے کوالالمپور میں آسیان۔چین۔خلیج تعاون کونسل سمٹ میں شرکت کی۔ اس اجلاس کا موضوع تھا “مواقع کی مشترکہ تخلیق اور خوشحالی کی مشترکہ تقسیم”۔ آسیان کے موجودہ صدر ملک ملائیشیا کے وزیر اعظم انور ابراہیم، خلیج تعاون کونسل کے موجودہ صدر ملک کویت کے ولی عہد شیخ صباح الخالد الصباح اور آسیان، جی سی سی ممالک کے رہنما بھی تقریب میں شریک تھے۔بدھ کے روز چینی میڈیا نے بتا یا کہ  اس موقع پر لی چھیانگ نے کہا کہ چین، آسیان اور جی سی سی ممالک نے اس سہ فریقی سمٹ جیسے تبادلہ پلیٹ فارم اور تعاون کے میکانزم قائم کیے ہیں، جو علاقائی اقتصادی تعاون میں ایک بڑی پیشرفت ہے اور اپنی اپنی اقتصادی خوشحالی سمیت ایشیا اور دنیا کی پرامن ترقی کے لئے اہم معنیٰ رکھتی ہے۔ لی چھیانگ نے زور دیا کہ تمام فریقوں کو اس تاریخی موقع کا بھرپور فائدہ اٹھانا چاہئے، سہ فریقی تعاون کو مسلسل فروغ دینے کی کوشش کرنی چاہئے، اور عہد حاضر میں عالمی ترقیاتی تعاون کی ایک مثال قائم کرنی چاہئے۔انہوں نے مزید کہا کہ چین آسیان اور جی سی سی ممالک کے ساتھ سہ فریقی شراکت داری کو مزید مضبوط کرنے اور ایک “عمدہ اور معیاری’’مشترکہ بیلٹ اینڈ روڈ‘‘ کی تعمیر کا خواہاں ہے۔ اجلاس کے دوران رہنماوں نے سہ فریقی تعاون کو اپنی اپنی ترقی اور علاقائی امن و خوشحالی کے فروغ میں اہم کردار ادا کرنے میں نمایاں طور پر سراہا۔انہوں نے مزید کہا کہ سمٹ نے ایک ساتھ  مل کر چیلنجز کا سامنا کرنے اور نئی ترقی کی کہانی تخلیق کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ سمٹ کے دوران “بیلٹ اینڈ روڈ” تعاون کو مزید گہرا کرنے، سہ فریقی روابط  کی تعمیر کو فروغ دینے، مضبوط، جامع اور پائیدار ترقی کے حصول میں مدد دینے، اور ایک ہم نصیب معاشرے کے قیام کی تعمیر  سے متعلق کوششوں کو آگے بڑھانے پر آمادگی ظاہر کی گئی۔ اجلاس نے’’آسیان۔چین۔خلیج تعاون کونسل سمٹ کا مشترکہ بیان‘‘ بھی منظور کیا۔

Post Views: 5.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: جی سی سی ممالک تعاون کو کی تعمیر ا سیان

پڑھیں:

سہ فریقی مذاکرات کے اثرات

حمیداللہ بھٹی

کئی ممالک کو دفاعی حوالے سے پریشان کُن صورتحال کا سامنا ہے جن میں اکثریت مسلم ممالک کی ہے ۔ البتہ پاکستان ،ترکیہ اور ایران تین ایسے مسلم ممالک ہیں جودفاعی طورپر مضبوط خیال کیے جاتے ہیں کیونکہ یہ ہتھیارخریدنے کے ساتھ خود بھی تیار کرتے ہیں۔ پاکستان دنیا کا واحد اسلامی ملک ہے جس کے پاس جوہری طاقت ہے اور طیارہ سازی سے لیکر میزائل ،ٹینک اور دیگر جدید ترین ہتھیار بنا رہا ہے۔ ایسے حالات میں جب عالمی طاقتیں اپنی شرائط پر منہ مانگی قیمت پر دفاعی ہتھیار فروخت کرتیں اور حکم عدولی کی صورت میں پابندیاں عائد کرتی ہیں، ایسے میں پاکستان مسلم دنیا کے لیے اُمید کی کرن ہے ۔اِس بات کا چین کوبھی ادراک ہے فی الوقت مسلم دنیا کا وزن امریکی پلڑے میں ضرور ہے۔ البتہ متبادل کی خواہش موجود ہے چینی معیشت پُرکشش توتھی ہی اُس کی ہتھیارسازی کی صنعت بھی دنیاکی توجہ حاصل کر نے لگی ہے۔ اِس میں کسی حدتک مئی کی پاک بھارت جھڑپوں کا بھی کردار ہے۔ اِس دوران مغربی ٹیکنالوجی پر چینی ٹیکنالوجی کو برتری حاصل ہوئی۔ اکثر ماہرین کا اِس خیال سے اِتفاق ہے کہ معاشی کے بعد چین اب دنیا کو اپنی دفاعی مضبوطی باورکرانا چاہتا تھا۔ یہ مشکل پاک بھارت کشیدگی نے آسان کردی دلیل یہ پیش کی جاتی ہے کہ چینی جارحانہ رویے پربھارت ہربار خاموشی اختیار کرتے ہوئے پاکستان کو کمزور ہدف خیال کرتے ہوئے زک پہنچانے کی کوشش کرتا۔چین تنازعات سے الگ رہنے کی اپنی دیرینہ پالیسی پر نظر ثانی کر چکا ہے۔ ایران اور سعودی عرب میں تعلقات بحال کرانے کے بعد پاک افغان قیادت کی تلخیاں ختم کرانا معمولی کام نہیں۔ چین اِس طرح دنیا کو احساس دلا رہا ہے کہ وہ حریف ممالک کو حلیف بنانے پر قادرہے۔ بیجنگ کے حالیہ سہ فریقی مزاکرات نے خطے میں بڑی تبدیلی کی وہ بنیاد رکھ دی ہے جوچینی بلاک کی تشکیل کاسنگِ بنیادثابت ہو سکتی ہے ۔
ہنگری کے وزیرِ اعظم وکٹر اوربن خبردار کرچکے کہ عالمی طاقت کاتوازن ایشیا کی طرف منتقل ہورہا ہے چین ،پاکستان اور انڈونیشیا مستقبل کی بڑی طاقتیں ہوں گی لیکن امریکی قیادت شاید یہ سمجھنے سے قاصر ہے یا پھر جان بوجھ کر ایسا تاثر دے رہی ہے کہ عالمی تبدیلیوں کی اُسے کوئی پرواہ نہیں نیزموجودہ امریکہ گاجر اور چھڑی کی پالیسی پربھی نظرثانی کر چکا ہے۔ حالانکہ ماضی میں اسی پالیسی سے فوائدحاصل کرتا رہا ہے۔ اب چھڑی پراکتفاکرتے ہوئے تاجرانہ ذہنیت سے امیر ممالک کے وسائل پرہاتھ صاف کرنے لگا ہے۔ مال کی فروخت میں بھی دبائو سے کام لیتا ہے۔ سعودی عرب ،قطر اور متحدہ عرب امارات سے ڈھیروں معاہدے دبائو کا ہی نتیجہ ہیں مگر چین پہلے ضرورت کا اندازہ لگاتا اور پھر مال فراہم کرتے ہوئے نرمی اور فیاضی سے کام لیتا ہے ۔رواں ماہ مئی کی جھڑپوں میں پاکستان کا ساتھ دیکر بھارت پر واضح کر چکا کہ تم توپاکستان کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہو لہذا ہمارے مقابلے کاسوچنابھی مت۔
چین کا خیال ہے کہ امریکہ مخالف بلاک واضح کرنے کا وقت آ چکا ۔روس اور ایران کا تو پہلے ہی امریکہ مخالف ممالک میں شمار ہوتا ہے پاک افغان بڑھتی تلخیاں چینی مفاد کے منافی تھیں جواُس کی تجارتی راہداریوں کی تعمیر جیسے منصوبوں کو متاثر کر سکتی تھیں۔ اسی لیے افغان وزیرِ خارجہ امیر خاں متقی کے آمد کے ساتھ پاکستانی وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار کی آمد یقینی بنائی تاکہ دونوں ممالک باہمی تحفظات دورکر لیں سہ فریقی مذاکرات سے قبل طالبان قیادت کا ٹی ٹی پی کے حوالے سے رویہ نرم تھا لیکن اب کچھ تبدیلی آئی ہے ۔پاکستان کے خلاف مصروفِ عمل تنظیموں اور گروہوں کے خلاف کاروائی کی جارہی ہے۔ اِس کاوش سے خطے میں امن کی فضابہتر ہوگی اور سرمایہ کاری اور تجارت کوفروغ ملے گا۔ آج بھی افغانستان میں قبائلی تقسیم ہے چین اور پاکستان کے تعاون سے طالبان پورے ملک کاکنٹرول حاصل کر سکتے ہیں۔ ایسا ہوتاہے تو مضبوط اور خوشحال افغانستان کی منزل آسان ہوگی جس سے افغانوں کو غربت وافلاس سے چھٹکارا ملے گا۔
سہ فریقی مذاکرات کے اثرات کا ہمہ گیر جائزہ مضمون کی طوالت کاباعث بن سکتا ہے۔ المختصریہ دنیا میں طاقت کے نئے مراکز کی طرف اشارہ ہے ۔امریکی نارواشرائط اور اسرائیلی فوجی کاروائیوں سے تنگ مشرقِ وسطیٰ کے ممالک میں یہ سوچ نمو پا سکتی ہے کہ وہ پاکستان اور چین کے تعاون سے زیادہ بہتر انداز میں اپنا دفاع کر سکتے ہیں۔ رواں ماہ کی پاک بھارت جھڑپوں نے دنیا کو جھنجوڑ کر رکھ دیا ہے۔ چینی ٹیکنالوجی اور پاکستان کی جرات و مہارت نے دفاعی حوالے سے پریشان ممالک کو حیرت زدہ کر دیا ہے۔ پاکستان کی وساطت سے اب چین زیادہ بہتر طریقے سے مشرقِ وسطیٰ کے ممالک کو گرویدہ بنا سکتا ہے۔ پاک افغان دوستی سے وسطی ایشیائی ریاستوں تک رسائی آسان ہونے کے ساتھ دوردرازممالک تک چینی سامان کی بہترترسیل ہوسکے گی ۔نیز پاک افغان قیادت چینی مفاد کی بہتر نگہبان ثابت ہو سکتی ہیں۔
چین کا پاکستان کی آزادی وخود مختاری کے خلاف کسی اقدام کوتسلیم نہ کرنے کا اعلان معنی خیز ہے ۔یہ پاک چین یکجائی کاعکاس ہے اِس میں شائبہ نہیں کہ پاکستان کو بھارت کے سوا کسی اور ملک سے خطرہ نہیں مگر اِس حقیقت کو بھی جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ پاکستان اپنی آزادی و خود مختاری کا تحفظ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ افغان سرزمین سے ہونے والے حملوں کا اسی کی سرزمین پر جا کر جواب دینا اور ایران کی طرف سے فضائی حدود کی خلاف ورزی پر دلیرانہ جوابی کاروائی اِس امر کی دلیل ہے کہ پاکستان کادفاع ناقابلِ تسخیر ہے۔ بھارتی طیاروں کو مارگرانے اور پائلٹ ابھی نندن کی گرفتاری میں بھی یہی پیغام ہے۔ حالیہ پاک بھارت محدودجھڑپوں کے دوران چینی تکنیک سے چند گھنٹوں میں نتائج حاصل کرنے میں مدد ملی اب چینی سہولت کاری سے پاک افغان قیادت اپنے اختلافی امور ختم کرنے کے قابل ہوسکتی ہے۔ بیجنگ کے سہ فریقی مذاکرات نے واضح کردیاہے کہ افغانستان اب بھارت کا طرفدار نہیں بلکہ چین اور پاکستان کا اتحادی ہے ۔یہ ایک بڑی تبدیلی ہے سہ فریقی مزاکرات سے بھارت کی سفارتی تنہائی اُجاگر ہوئی ہے اور دنیا کو یہ پیغام ملا ہے کہ چین اپنے اتحادیوں کے مسائل کو سنجیدہ لیتا ہے نیز امریکہ کی طرح دنیا کو دھمکاکر مال نہیں بیچتا ۔ایسے حالات میں جب امریکہ اور اسرائیل کو ایران کے جوہری پروگرام پر شدید نوعیت کے تحفظات ہیں ۔پاکستانی وزیرِ اعظم کاتہران جانابہت معنی خیز ہے ۔اِس دورے کو چینی بلاک کی تشکیل میں پاکستانی کوششوں کے طورپر دیکھنابعیدازقیاس نہیں ۔

متعلقہ مضامین

  • آسیان، چین، جی سی سی سربراہ اجلاس سےبین العلاقائی تعاون میں ایک نئے باب کا آغاز
  • چین نے تین فریقی تعاون  کو مسلسل فروغ دینے کے بارے میں تجاویز پیش کی ہیں، چینی میڈیا
  • سہ فریقی مذاکرات کے اثرات
  • چین آسیان اور جی سی سی ممالک کے ساتھ مشترکہ بیلٹ اینڈ روڈ کی تعمیر کا خواہاں ہے، چینی وزیراعظم
  • آسیان چین اور جی سی سی سربراہ اجلاس سے سہ فریقی تعاون کا ایک نیا باب کھل گیا، چینی وزیراعظم
  • وزیرِاعظم شہباز شریف آج آذربائیجان میں مصروف دن گزاریں گے
  • چین کا افریقی ممالک کے ساتھ مشترکہ ترقی کے عزم کا اعادہ
  • چین اور افریقہ نے مشترکہ طور پر افریقہ ڈے منایا، چین کی وزارت خارجہ
  • چین  ملائیشیا کے حوالے سے  قریبی اعلی ٰ سطح تبادلوں کو برقرار رکھنے کا خواہاں ہے، چینی وزیراعظم