فیلڈ مارشل، پی ایل17 اور ’’بلف گیم‘‘
اشاعت کی تاریخ: 28th, May 2025 GMT
آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے جب سے فیلڈ مارشل کا عہدہ سنبھالا ہے بھارت میں سراسیمگی پھیلی ہوئی ہے، خوف و ہراس کی اس کیفیت میں اس وقت بدترین صورتحال پیدا ہو گئی کہ جب بھارت کو یہ اطلاع ملی کہ پاکستان پی ایل 15سے بھارت کے 5جدید لڑاکا طیارے گرانے کے بعد اب پی ایل 17کے حصول کے لئے چین کے ساتھ رابطے میں ہے اور اس مقصد کے لئے اپنے لڑاکا طیاروں جے ایف 17تھنڈر اور جے 10 سی میں ضروری اپ گریڈیشن کر رہا ہے۔ چین کے ساتھ اسٹریٹجک تعلقات پاکستان کی دفاعی پالیسی کا سنگ بنیاد ہیں اور فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر نے اس تعلق کو جو نئی جہتیں اور نئی بلندیاں عطاء کی ہیں ان کی زیادہ تر تفصیل ابھی تک مخفی ہے اور یہی رازداری وہ بڑا خوف بن چکی ہے کہ جس کی وجہ سے بھارت پر لرزہ طاری ہے۔ اسی رازداری اور مخمصے نے حالیہ 4 روزہ جھڑپ میں بھارت کو چاروں شانے چت کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا کیونکہ بھارت سمجھتا تھا کہ چین نے پاکستان کو پی ایل 15کا ایکسپورٹ ورژن پی ایل 15 ای فراہم کیا ہے اور پاک فضائیہ کی طرف سے چین کے زیر استعمال پی ایل 15حاصل کرنے کے دعوے محض ایک بلف گیم ہیں، یاد رہے کہ پی ایل 15ای یعنی ایکسپورٹ ورژن کی رینج 145 کلومیٹر جبکہ چین کے زیر استعمال پی ایل 15کی رینج 300 کلومیٹر ہے۔
اس مخمصے نے حالیہ جھڑپ میں بھارت کو دھول چٹائی اور یہی وہ ’’بلف گیم‘‘ہے کہ جس کی وجہ سے مودی سرکار ایک بار پھر عجیب شش و پنج میں ہے، وہ پاکستان کیخلاف نئی جارحیت کا ارتکاب کرنا چاہتی ہے لیکن راولپنڈی اسلام آباد میں پاکستانی فوج کی قیادت اور میزائلوں دونوں کی ’’اپ گریڈیشن‘‘نے اس کے ہاتھوں کے طوطے اڑائے ہوئے ہیں، ایک طرف افواج پاکستان کے سربراہ عاصم منیر فور اسٹار سے فائیو اسٹار جنرل بن چکے ہیں تو دوسری طرف پاکستان پی ایل 15 سے آگے بڑھ کر پی ایل 17حاصل کر رہا ہے جس کی رینج 400 کلومیٹر تک ہے۔پاک فضائیہ کے شاہینوں نے چین سے حاصل کردہ 4.
(جاری ہے)
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: کی وجہ سے بھارت کو پی ایل 15 کی رینج کے لئے چین کے رہا ہے
پڑھیں:
اسرائیلی طیاروں نے دوحہ پر بیلسٹک میزائل بحیرہ احمر سے فائر کیے، امریکی اہلکار
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 18 ستمبر 2025ء) آج جمعرات کو دبئی سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق نو ستمبر کو دوحہ پر بیلسٹک میزائل حملوں کے لیے اسرائیل نے ایک ایسا طریقہ استعمال کیا، جس کا مقصد یہ تھا کہ اسرائیلی جنگی طیاروں کو قطر کی فضائی حدود میں بھی داخل نہ ہونا پڑے اور ساتھ ہی وہ تیل سے مالا مال اس عرب ریاست کے فضائی دفاعی نظام کو چکمہ بھی دے سکیں۔
ان دونوں پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے اسرائیلی جنگی طیاروں نے حماس کی قیادت کو ہدف بنانے کے لیے بیلسٹک میزائل بحیرہ احمر کے پانیوں کے اوپر فضا سے فائر کیے تھے۔
ہلاک شدگان کی تعداد اور اسرائیلی حملے کے اثراتدوحہ میں ان میزائل حملوں میں چھ افراد ہلاک ہوئے تھے، جن میں سے پانچ کا تعلق حماس سے تھا اور چھٹا ایک قطری سکیورٹی اہلکار تھا۔
(جاری ہے)
ہلاک ہونے والے حماس کے پانچوں ارکان اس فلسطینی تنظیم کے درمیانے درجے کے رہنما یا ارکان تھے، جن میں سے ایک خلیل الحیہ کا ایک بیٹا تھا۔تاہم ان حملوں میں حماس کے رہنما خلیل الحیہ سمیت اس فلسطینی تنظیم کی وہ اعلیٰ قیادت محفوظ رہی تھی، جسے اسرائیل ہدف بنا کر ہلاک کرنا چاہتا تھا۔
قطر میں اسرائیل کے ان میزائل حملوں کا ایک فوری نتیجہ یہ نکلا تھا کہ انہوں نے کئی ماہ سے جاری ان ثالثی کوششوں کو بری طرح متاثر کیا تھا، جو قطر کی طرف سے امریکہ اور مصر کے ساتھ مل کر غزہ کی جنگ میں اسرائیل اور حماس کو کسی فائر بندی معاہدے تک لانے کے لیے کی جا رہی تھیں۔
اسرائیل نے حماس کی اعلیٰ سیاسی قیادت کو ہلاک کرنے کی کوشش اس وقت کی، جب وہ امریکی صدر ٹرمپ کی طرف سےغزہ میں جنگ بندی کے لیے پیش کردہ ایک تجویز پر غور کرنے کے لیے جمع تھی۔
حملہ کیسے کیا گیا؟امریکہ کے جس دفاعی اہلکار نے اپنی شناخت ظاہرنہ کیے جانے کی شرط پر نیوز ایجنسی اے پی کو اس اسرائیلی حملے کی تفصیلات بتائیں، اسے اس بات کا براہ راست علم تھا کہ اسرائیل نے یہ فضائی حملہ کیسے اور کہاں سے کیا۔
اس اہلکار کے مطابق اسے حساس انٹیلیجنس معلومات افشا کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ایک دوسرے امریکی دفاعی اہلکار نے بھی اے پی کے ساتھ گفتگو میں تصدیق کی کہ اسرائیل نے دوحہ میں یہ حملہ ''افقی پوزیشن‘‘ سے کیا اور اس وقت اسرائیلی جنگی طیارے ''قطر کی فضائی حدود سے باہر‘‘ تھے۔
امریکی فوج میں عام طور پر ''افقی پوزیشن‘‘ سے کی جانے والی کارروائی کی اصطلاح ان فضائی حملوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے، جو بہت دور سے کیے گئے ہوں۔
اسرائیلی جنگی طیارے کتنے تھے؟خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق اسرائیل نے ان فضائی حملوں کے لیے اپنے جنگی طیاروں کو نہ صرف قطر بلکہ خطے کی دیگر عرب ریاستوں بالخصوص سعودی عرب کی فضائی حدود سے بھی باہر ہی رکھا۔
ایک اسرائیلی اہلکار نے اپنی شناخت ظاہر کیے بغیر اس بارے میں ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ اس ایئر مشن میں تقریباﹰ 10 جنگی طیاروں نے حصہ لیا اور اس دوران تقریباﹰ 10 میزائل فائر کیے گئے۔
اسرائیل نے اب تک سرکاری طور پر یہ نہیں بتایا کہ اس نے دوحہ میں اس بہت نپے تلے فضائی حملے میں کس طرح کے ہتھیار کہاں سے فائر کیے۔
ان حملوں سے متعلق مزید تفصیلات کے لیے نیوز ایجنسی اے پی نے اسرائیلی فوج، قطری حکومت اور امریکہ میں پینٹاگون سے تبصرے کی جو درخواستیں کیں، ان کا تینوں میں سے کسی نے بھی جواب نہ دیا۔
’ساری بات صرف چند منٹ کی تھی‘برطانوی دارالحکومت لندن میں قائم رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹیٹیوٹ نامی تھنک ٹینک سے وابستہ سینئر ریسرچ فیلو اور میزائلوں سے متعلقہ امور کے ماہر سدھارتھ کوشال نے بتایا، ''یہ میزائل فائر کیے جانے اور ان کی وجہ سے ہونے والے دھماکوں کے درمیانی وقفے کی بات کی جائے، تو یہ ساری بات صرف چند منٹ کی ہی تھی۔
یہ کوئی بہت طویل وقت نہیں تھا۔‘‘انہوں نے کہا، ''اگر قطری فضائی دفاعی نظام کو اس حملے کا علم ہو بھی گیا تھا، یا ہو بھی جاتا، تو بھی پیٹریاٹ میزائلوں کے لیے ان اسرائیلی بیلسٹک میزائلوں کو انٹرسیپٹ کرنا بہت ہی مشکل ہوتا۔‘‘
اسرائیل نے دوحہ پر فضائی حملوں کے لیے کس طرح کے ذرائع کیسے استعمال کیے، اس بارے میں اولین تفصیلات امریکی جریدے وال اسٹریٹ جرنل نے شائع کیں۔
ادارت: افسر اعوان، کشور مصطفیٰ