عالمی طاقت کا توازن مشرق کی طرف منتقل ہو رہا ہے، مشاہد حسین سید
اشاعت کی تاریخ: 28th, May 2025 GMT
بیجنگ،: سینیٹر مشاہد حسین سید نے چینی ٹیکنالوجی کی اہم شعبوں بشمول دفاع میں مغربی ٹیکنالوجی پر سبقت حاصل کرنے کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا ہےکہ چین جنوبی ایشیا کا حصہ ہے اورامن و استحکام کے لیے مثبت کردار ادا کر رہا ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے چین کے دارالحکومت بیجنگ میں کیا جہاں انہیں’ بدلتا ہوا عالمی منظرنامہ اور ایشیا ‘ کے موضوع پر منعقدہ عالمی سیاسی جماعتوں کے مکالمے کی صدارت کے لیے مدعو کیا گیا تھا۔ اس اعلیٰ سطحی کا نفرنس میں 29 ممالک سے تعلق رکھنے والے 250 سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں اور نمائندوں نے شرکت کی جس کی میزبانی چینی کمیونسٹ پارٹی کے بین الاقوامی محکمہ (IDCPC) نے کی۔
سینیٹر مشاہد حسین سید کو یہ اعزاز ایشیائی سیاسی جماعتوں کی بین الاقوامی کانفرنس (ICAPP) کے شریک چیئرمین کی حیثیت سے دیا گیا۔ ان کی زیر صدارت اس مکالمے میں IDCPC کے وزیر لیو جیانچاو، تھائی لینڈ کے سابق اسپیکر بوکِن بالا کولا اور منگولیا کے سابق وزیر خارجہ دامدِن سوگتباتار شامل تھے۔
اپنے ابتدائی کلمات میں سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ “عالمی طاقت کا توازن غیرمتزلزل اور ناقابل تغیر طور پر مغرب سے زوال کا شکار ہوکر مشرق کی جانب منتقل ہو رہا ہے اور دنیا ایشیائی صدی کے آغاز کے ساتھ مشرق کے عروج کا مشاہدہ کر رہی ہے”۔ انہوں نے چین کی ان کاوشوں کو سراہا کہ اس نے اپنی پُر امن طاقت اور بااعتماد پارٹنر کا کردار فتح، نوآبادیات، جارحیت یا کسی ملک پر حملے کے بجائے معاشی ترقی کے ذریعے ادا کیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ “چین جنوبی ایشیا کا حصہ ہے اور ہمارے خطے میں امن و استحکام کا ضامن بھی ہے”۔
مشاہد حسین نے سائنس اور ٹیکنالوجی میں چین کی ترقی کی تعریف کی، اور ’دی اکانومسٹ‘ کے حالیہ سرورق کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ چین کو ’سائنسی سپر پاور‘ قرار دیا گیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ چاہے وہ جے10 سی لڑاکا طیارے ہوں، ڈیپ سیک اے آئی ہو یا الیکٹرک گاڑیاں، چین نےٹیکنالوجی کے شعبے میں مغرب پر سبقت حاصل کر لی ہے۔
۔IDCPC کے وزیر لیو جیانچاو نے ’چینی ماڈل‘ سے متعلق ایک سوال کے جواب میں کہا کہ اگرچہ چین اپنی سیاسی نظریات کو برآمد کرنے پر یقین نہیں رکھتا، لیکن غربت کے خاتمے کے چینی تجربات ترقی پذیر ممالک کے لیے مفید ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’چین بھی جنوبی ایشیا کا حصہ ہے، جس کے کئی ممالک اس کے ہمسائے ہیں‘۔ انہوں نے کہا کہ چین کی 14 ممالک کے ساتھ سرحدیں ہیں لیکن صرف بھارت کے ساتھ سرحدی تنازعہ ہے، اور چین سمجھتا ہے کہ یہ تنازعہ دونوں ممالک کے تعلقات کا واحد پیمانہ نہیں ہونا چاہیے اور اس مسئلے کو پُرامن طریقے سے حل کیا جانا چاہیے۔
پاکستان کی نمائندگی سابق چیئرمین سینیٹر نیئر حسین بخاری، سینیٹر انوشہ رحمان، چین میں پاکستان کے سفیر خلیل ہاشمی، کئی کاروباری شخصیات اور تھنک ٹینک کے نمائندوں نے کی۔
سینیٹر مشاہد حسین سید سے ایک علیحدہ ملاقات میں وزیر لیو جیانچاو نے پاکستان اور چین کے درمیان اعلیٰ سطحی تبادلوں اور کامیاب دوروں کا حوالہ دیا، جن میں ان کا جون 2024 میں پاکستان کا دورہ اور حال ہی میں نائب وزیر اعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار کا بیجنگ کے دورے کے موقع پر ملاقات شامل ہیں۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ چینی کمیونسٹ پارٹی پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کا سلسلہ جاری رکھے گی۔واضح رہے کہ پاکستان اور ملائیشیا کے وزرائے اعظم نے خصوصی طور پر آئی ڈی سی پی سی کے اس کانفرنس کے لیے تہنیتی پیغامات بھیجے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
مشرق وسطیٰ کی کشیدہ صورتحال کا یمن پر گہرا اثر، ہینز گرنڈبرگ
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 16 ستمبر 2025ء) یمن کے لیے اقوام متحدہ کے نمائندہ خصوصی ہینز گرنڈبرگ نے خبردار کیا ہے کہ مشرق وسطیٰ کی نازک صورتحال ملک پر بری طرح اثرانداز ہو رہی ہے جہاں امن و استحکام کے لیے خطے میں بڑے تنازعات پر قابو پانا ضروری ہے۔
انہوں نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا ہے کہ یمن کا غیرحل شدہ تنازع ایک ایسی فالٹ لائن کے مترادف ہے جس سے پیدا ہونے والے جھٹکے ملکی سرحدوں سے باہر بھی محسوس کیے جا رہے ہیں اور اس سے موجودہ علاقائی مخاصمتیں مزید بڑھ رہی ہیں۔
مشرق وسطیٰ میں وسیع پیمانے پر عدم استحکام سے یمن میں تقسیم بھی بڑھتی جا رہی ہے اور پائیدار امن کا حصول مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ Tweet URLہینز گرنڈبرگ نے اسرائیل اور انصاراللہ (حوثیوں) کے مابین تشویشناک اور خطرناک کشیدگی کا حوالہ دیتے ہوئے واضح کیا ہے کہ خطے میں عدم استحکام کے اسباب پر قابو پانے تک یمن میں امن عمل کی صورتحال بدستور نازک رہے گی۔
(جاری ہے)
تشدد کا موجودہ سلسلہ یمن کو اس عمل سے مزید دور لے جا رہا ہے جو طویل مدتی استحکام اور معاشی ترقی کا ضامن ہو سکتا ہے۔یو این کے خلاف جارحیتنمائندہ خصوصی نے حالیہ دنوں صنعا اور حدیدہ میں انصاراللہ کی جانب سے اقوام متحدہ کے عملے کے 22 ارکان کی ناجائز گرفتاری کو اقوام متحدہ کے خلاف کھلی کشیدگی قرار دیا۔ انہوں نے واضح کیا کہ یہ حراستیں، اقوام متحدہ کے دفاتر پر دھاوا بولنا، اس کی املاک کو قبضے میں لینا اور اس طرح امن کے لیے اقوام متحدہ کی کوششوں اور یمن عوام کو امداد کی فراہمی میں رکاوٹ ڈالنا ناقابل قبول ہے
ان کا کہنا تھا کہ خانہ جنگی کے نتیجے میں یمن کے ہزاروں لوگ زیرحراست ہیں اور اس تکلیف دہ مسئلے کو حل کرنے میں مزید تاخیر کی گنجائش نہیں۔
مذاکرات کی اہمیتہینز گرنڈبرگ نے کہا کہ اگرچہ یمن میں نسبتاً استحکام برقرار ہے، لیکن الضالع، مآرب اور تعز جیسے علاقوں میں حالیہ عسکری سرگرمیاں اس امر کا اشارہ ہیں کہ اگر کسی بھی فریق سے کوئی غلطی ہوئی تو ملک دوبارہ مکمل جنگ کی لپیٹ میں آ سکتا ہے۔ ایسی کسی جنگ کے نتائج یمن اور پورے خطے کے لیے نہایت تباہ کن ہوں گے۔
معاشی صورتحال کے حوالے سے انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ یمن کی اقتصادی ترقی باہمی تعاون کو فروغ دینے، قومی اداروں کو سیاست سے پاک کرنے اور ایک جامع قومی تصور کو اپنانے کی بدولت ہی ممکن ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ یکطرفہ فیصلے شاذ و نادر ہی مؤثر ثابت ہوتے ہیں اور مکالمہ اختلافات کو ختم کرنے اور آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے۔
بدترین غذائی قلتامدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے انڈر سیکرٹری جنرل ٹام فلیچر نے سلامتی کونسل کو بریفنگ دیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ خوراک کی بڑھتی ہوئی قیمتیں، اقوامِ متحدہ کی کارروائیوں کو درپیش تحفظ کے مسائل، معاشی تباہی اور خانہ جنگی نے یمن کو دنیا میں شدید غذائی قلت کا شکار تیسرا بڑا ملک بنا دیا ہے۔
آئندہ سال فروری سے پہلے مزید 10 لاکھ افراد شدید بھوک کا شکار ہو سکتے ہیں جبکہ ایک کروڑ 70 لاکھ یمنی شہری پہلے ہی خوراک کی شدید کمی کا سامنا کر رہے ہیں اور 20 فیصد گھرانوں میں کسی نہ کسی فرد کو روزانہ فاقہ کرنا پڑتا ہے۔
امدادی کاموں میں مشکلاتانہوں نے کونسل کو بتایا کہ امدادی وسائل کی کمی اور مشکل حالات کار کے باوجود امدادی کارکنوں نے ضرورت مند لوگوں کو ہرممکن مدد پہنچائی ہے۔
تاہم، موجودہ حالات میں زندگیوں کو تحفظ دینے اور پائیدار بہتری کی بنیاد رکھنے کے لیے خاطرخواہ اقدامات کرنا ممکن نہیں رہا۔انہوں نے اقوامِ متحدہ کے عملے کی حراستوں کو نہایت پریشان کن اور ناقابلِ قبول قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے یمن کے لوگوں کو کسی طرح کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ اس سے نہ تو بھوکوں کو کھانا ملے گا، نہ بیماریوں کا علاج ہو گا اور نہ ہی نقل مکانی کرنے والوں کو تحفظ ملے گا۔
ٹام فلیچر نے مطالبہ کیا کہ اقوام متحدہ کے عملے کو رہا کیا جائے، ادارے کی عمارتوں پر قبضہ چھوڑا جائے اور امدادی تنظیموں کو اپنا کام دوبارہ شروع کرنے کی اجازت دی جائے۔
انہوں نے خوراک کی کمی اور غذائی قلت سے نمٹنے کے لیے اقوامِ متحدہ کی امدادی سرگرمیوں کو مالی وسائل کی فراہمی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اجتماعی بھوک کو یمن کا مستقبل متعین کرنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔