نجی و سرکاری ملازمین کی تنخواہوں، پنشن میں اضافہ اور بجٹ
اشاعت کی تاریخ: 29th, May 2025 GMT
بجٹ کے موقع پر تنخواہوں میں پنشن میں اضافہ ضروری ہوتا ہے۔ اول اس اضافے کی دیکھا دیکھی ہر نجی ادارہ، ہر دفتر کا مالک، ہر دکان کا سیٹھ، ہر نجی کمپنی کے مشاورتی بورڈ، ڈائریکٹرز، ہر ایک تقریباً تقریباً اس بات پر متفق ہو جاتے ہیں کہ ان کے ملازمین کی تنخواہ یکم جولائی سے بڑھا دی جائے۔ اس پر حکومت بھی ایک کام یہ کرتی ہے کہ بجٹ کے موقع پر اعلان کر دیتی ہے کہ اس سال کم ازکم تنخواہ 37 ہزار پانچ سو روپے ہوگی۔
اب اگلا بجٹ آنے والا ہے، آئی ایم ایف سے مذاکرات ہو چکے ہیں،کچھ مراحل ابھی باقی ہیں لیکن اس مرتبہ کچھ پینترا بدلا ہے،کہا جا رہا ہے کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہ اور پنشن میں اضافہ، سرکاری اخراجات میں کمی سے مشروط کیا گیا ہے، پہلے ہم اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ جب بھی تنخواہوں اور پنشن میں قابل قدر اضافہ ہوتا ہے تو معیشت پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟
جب ہرکسی کی تنخواہ بڑھتی ہے، پنشن میں قابل قدر اضافہ ہوتا ہے، ساتھ ہی نجی اداروں کے ملازمین، فیکٹری ورکرز، پرائیویٹ کام کرنے والے مزدوروں، دیہاڑی دار مستریوں، دکانوں پر کام کرنے والے ملازمین اس طرح ملک بھر میں کروڑوں افراد کی آمدن بڑھتی ہے تو یہ مجموعی رقم جو اب اربوں سے کھربوں تک جا پہنچتی ہے یہ تمام رقوم جب جیبوں میں آ جاتی ہے تو ہرکسی کی قوت خرید بڑھ جاتی ہے۔ جب قوت خرید بڑھ جاتی ہے یہ تمام افراد خرچ کرنے نکل جاتے ہیں۔ ضروریات زندگی کا سامان خریدتے ہیں اور پھر اس کا اثر یہ پڑتا ہے کہ مجموعی طلب میں اضافہ ہو جاتا ہے، مقامی صنعتوں کو فروغ ملنا شروع ہو جاتا ہے، طلب پوری کرنے کے لیے رسد بڑھانا پڑتی ہے۔ رسد بڑھانے کے لیے کارخانوں اور ملوں کے علاوہ کاٹیج انڈسٹری ہو یا گھریلو صنعتیں ان سب جگہوں پر زور و شور سے کام شروع ہو جاتا ہے۔ کاروبار پر یہ اثرات مرتب ہوتے ہیں کہ دکانوں کی سیل بڑھ جاتی ہے۔
پھر سیٹھ صاحب ملازم رکھنا شروع کر دیتے ہیں، ضرورت کے مطابق دو سے تین چار یا پانچ مزید ملازم رکھ لیے جاتے ہیں جن کارخانوں سے ہنر مندوں، مزدوروں کو یہ کہہ کر گھر بھیج دیا گیا تھا کہ آرڈر نہیں آ رہے ہیں، مال اسٹاک میں پڑا ہوا ہے، اب ہمیں آپ کی ضرورت نہیں ہے، بھلا بتائیے جیسے ہی کارخانوں، ملوں میں کام بڑھے گا، فوراً انھی کاریگروں، ہنرمندوں کو گھر سے بلا لیا جائے گا۔ اب ذرا اور آگے چلتے ہیں کارخانوں میں کام بڑھے گا تو لازماً حکومت کو ٹیکس ادائیگی میں اضافہ کریں گے۔ دکانوں میں سیل بڑھے گی تو ساتھ ہی ٹیکس بھی زیادہ دیا جائے گا۔ کہتے ہیں کہ مہنگائی بڑھے گی، اب اس کی چند وجوہات کی طرف چلتے ہیں۔
آئی ایم ایف کا چوبیسواں پروگرام کررہے ہیں۔ ہر دم یہی کہ شرط روپے کی قدر گھٹاؤ جب روپیہ کمزور ہوگا تو ڈالر مضبوط ہوگا، جب ایک ڈالر کے بدلے میں زیادہ روپے دینا ہوں گے تو درآمدی اشیا مہنگی ہو کر رہ جائے گی، جب ملک میں لوگوں کے پاس پیسہ نہیں ہوگا تو ظاہر ہے کہ کارخانوں میں کام بند ہو جائے گا۔
دوسری طرف درآمدی اشیا کی درآمد میں اضافہ ہوگا تو اشیا مہنگی ہو کر بکیں گی۔ اب دوسری شرط یہ ہوتی ہے کہ بجلی،گیس کی قیمت بڑھاؤ، اب کیا کریں، آئی ایم ایف والے سمجھتے ہیں کہ اس سے ملک ترقی کرے گا لوگوں کے مسائل حل ہوں گے۔ ملک معاشی ترقی حاصل کرے گا۔ ان کی بھی کیا خوب سمجھ ہے۔ چند ماہرین معاشیات کا خیال ہے کہ اگر تنخواہوں اور پنشن میں 15 فی صد سے زائد کا اضافہ ہوتا ہے تو 0.
لیکن 15 فی صد اضافے کے ساتھ ضروری ہے کہ ملکی مصنوعات کی پیداوار، ان کی کھپت، ان کی فروخت میں اضافہ ہو۔ روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں، پرائیویٹ ادارے شاپس والے بھی اپنے ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کر دیں اور درآمدات پر انحصار کم سے کم کر دیا جائے۔
ان دنوں تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ، ملکی مصنوعات کی پیداوار میں اضافہ اور درآمدی مصنوعات کی زیادہ سے زیادہ حوصلہ شکنی اور فلسطینی مسلمان بھائیوں کی کچھ نہ کچھ مدد کے درمیان ایک گہرا رشتہ پیدا ہو گیا ہے، وہ کچھ اس طرح سے ہوگا۔ آئی ایم ایف کہتا ہے کہ باہر سے جو سامان آتا ہے اس پر ٹیرف میں کمی کرتے رہو، یہاں تک کہ انتہائی معمولی رہ جائے۔ زیادہ تر مصنوعات ان ملکوں سے آتی ہیں جو صنعتی ممالک ہیں۔ وہاں کی حکومتیں اسرائیل کی حامی ہیں۔ اگر لوگوں کی جیب میں پیسے آتے ہیں ان کی قوت خرید بڑھ جاتی ہے تو ملکی اشیا کی خریداری ہوگی، ملک میں زیادہ سے زیادہ درآمدی اشیا کے متبادل مصنوعات بنانے کی فیکٹریاں لگیں گی اور درآمدات پر انحصار کم ہوگا۔ آپ یقین کریں ہمیشہ ملکی درآمدات کا حجم برآمدات سے کہیں زیادہ رہتا ہے۔
جولائی تا اپریل 2025 تک کی کل برآمدات کی مالیت 26 ارب 89 کروڑ60 لاکھ ڈالرز اور اس کے مقابلے میں درآمدات کی مالیت 48 ارب 29 کروڑ 20 لاکھ ڈالرز۔ اس قسم کی صورت حال ہر سال رہتی ہے۔ لیکن تجارتی خسارہ برآمدات سے دگنا کے قریب ہو جاتا ہے۔ بہرحال اگر ہم آئی ایم ایف کے اس قسم کے مشوروں سے دور رہیں تو درآمدات میں بہت زیادہ کمی لا کر پاکستان کے مالیاتی مسائل کو بالکل آسانی کے ساتھ حل کر سکتے ہیں۔ ہمیں آئی ایم ایف سے کسی قسم کا قرض لینے کی ضرورت نہیں رہے گی۔
نائیجریا نے آئی ایم ایف سے انھی خطوط پر چل کر چھٹکارا حاصل کیا ہے۔ گزشتہ سال اس بات کی پالیسی بنا لی تھی کہ درآمدات کم سے کم اور برآمدات میں اضافہ کیا جائے گا۔ ساتھ ہی کرپشن کو ختم کیا جائے گا، اب ہمیں غزہ کے مظلوموں کی مدد کے لیے درآمدی اشیا و مصنوعات پر انحصار کم سے کم کرکے درآمدات کا متبادل ملک میں تیار کرنا ہوگا۔
قصہ مختصر آئی ایم ایف کی شرطوں پر عملدرآمد کرکے ہم نے ملک کی معاشی حالت تباہ کر ڈالی۔ جو اب سدھرنے کا نام نہیں لے رہی ہے۔ اگر تنخواہوں اور پنشن میں معمولی اضافہ کیا گیا تو کیا یہ انتہائی قلیل رقم کرائے میں ہر سال 10 فی صد اضافے کا مداوا کر سکے گی؟ وہ بوڑھا جس کی کمر جھکی ہوئی ہے، جو اس بات کو سوچ کے سارے بال گر چکے ہیں کہ دوا خریدوں، بیمار بیگم کے لیے پھل خریدوں یا مالک مکان نے کرایہ بڑھا دیا ہے اس کو کرایہ ادا کروں، آئی ایم ایف کے مشوروں پر عمل کر کے حکومت نے بجلی کے بل اور پنشن کی رقم دونوں کو برابرکردیا ہے۔
بہرحال حکومت کو ملکی معاشی ترقی کی خاطر، ملک کی فلاح و بہبود کی خاطر، ملکی مجموعی طلب کا حجم بڑھانے کی خاطر تاکہ ملکی مصنوعات کی طلب اور رسد میں اضافہ ہو، روپیہ مضبوط ہو، درآمدی مالیت کم سے کم رہے، برآمدات میں زیادہ سے زیادہ اضافہ ہو، معاشی اصلاح کی خاطر پاکستان کا معاشی، صنعتی، مالی مفاد اور بہتری کے لیے بجٹ میں اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: تنخواہوں اور پنشن میں ملازمین کی تنخواہ پنشن میں اضافہ میں اضافہ ہو درآمدی اشیا آئی ایم ایف مصنوعات کی ہو جاتا ہے جائے گا کی خاطر ہوتا ہے اس بات ہیں کہ کے لیے
پڑھیں:
زرمبادلہ کے سرکاری ذخائر میں 7 کروڑ ڈالر کا اضافہ
زرمبادلہ کے سرکاری ذخائر میں گزشتہ ہفتے کے دوران 7 کروڑ ڈالر کا اضافہ ہو گیا۔اسٹیٹ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق زرمبادلہ کے سر کاری ذخائر کی مالیت 23 مئی کو 11 ارب 51 کروڑ 60 لاکھ ڈالر کی سطح پر پہنچ گئی ہے۔کمرشل بینکوں کے ذخائر میں 8 کروڑ 13 لاکھ ڈالر کی کمی ہوئی ہے جس سے ذخائر 5 ارب 12 کروڑ 7 لاکھ ڈالر ہو گئے ہیں۔مرکزی بینک کے مطابق مجموعی ذخائر کی مالیت ایک کروڑ 18 لاکھ ڈالر کمی سے 16 ارب 63 کروڑ 67 لاکھ ڈالر کی سطح پر آگئی ہے۔