پاکستان: کم عمری کی شادیوں کے خلاف یونیسف کی آگہی مہم کا آغاز
اشاعت کی تاریخ: 29th, May 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 29 مئی 2025ء) اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسف)نے پاکستان میں کم عمری کی شادیوں کے خاتمے کی فوری ضرورت کو اُجاگر کرنے کے لیے اپنی قومی سفیر، اداکارہ صبا قمر کے ساتھ ایک ویڈیو مہم کا آغاز کیا ہے جس کےذریعے لوگوں کو اس نقصان دہ رواج کے خلاف آواز اٹھانے کی ترغیب دی جائے گی۔
صبا قمر اس مہم میں لڑکیوں کے مستقبل پر کم عمری کی شادی کے منفی اثرات کے بارے میں آگاہی بیدار کرنے کے ساتھ بچوں کے تحفظ کے لیے متحد ہو کر اقدامات اٹھانے کی ضرورت پر زور دے رہی ہیں۔
Tweet URLان کا کہنا ہے کہ کسی بچے کو ایسی شادی پر یا ایسی زندگی اپنانے پر کیسے مجبور کیا جا سکتا ہے جو خود اس کا انتخاب نہ ہو؟ بچوں کی صحت اور تعلیم کو لاحق خطرات کے پیشِ نظر اس مسئلے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
(جاری ہے)
صبا قمر نے بتایا کہ گزشتہ سال انہوں نے صوبہ سندھ کے شہر سجاول میں کم عمری کی شادی کے اثرات کا خود مشاہدہ کیا۔ اس دوران انہوں نے اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے یونیسف کے کام کو بھی دیکھا۔ وہاں ان کی ملاقات 14 سالہ انعم نذیر جیسی باہمت لڑکیوں سے ہوئی، جنہوں نے اپنے علاقے میں تین لڑکیوں کی کم عمری میں شادیوں کو روکنے میں اہم کردار ادا کیا۔
انہوں نے کہا کہ انہیں اس مہم کا حصہ بننے پر فخر ہے کیونکہ وہ ان تمام لڑکیوں اور لڑکوں کی آواز بن سکتی ہیں جو کم عمری میں شادی کے باعث خاموشی سے مشکلات سہتے رہتے ہیں۔
نوعمری کی شادی کے نقصاناتکم عمری کی شادیوں کے اعتبار سے پاکستان دنیا میں چھٹے نمبر پر ہے جہاں اندازاً 1.
جن لڑکیوں کی شادی 18 سال کی عمر سے پہلے ہو جاتی ہیں ان میں صرف 13 فیصد ہی ثانوی تعلیم مکمل کر پاتی ہیں جبکہ غیر شادی شدہ لڑکیوں میں یہ شرح 44 فیصد ہے۔ اس طرح نوعمری کی شادی لڑکیوں کو خودمختاری اور ترقی کے مواقع سے محروم کر دیتی ہے۔
پاکستان میں یونیسف کے سربراہ عبداللہ فاضل نے اس مسئلے پر بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ بات قابل قبول نہیں کہ ایک بچہ جن حالات میں پیدا ہو وہی اس کے پورے مستقبل کا تعین کریں۔ کم عمری کی شادی عموماً غربت کا نتیجہ ہوتی ہے لیکن اس کی جڑیں صنفی رویوں اور سماجی توقعات میں بھی پیوست ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے قانونی اصلاحات، ان پر عمل درآمد، سماجی رویوں میں تبدیلی اور نوعمر لڑکیوں کے حقوق، بہبود اور صلاحیتوں کے تحفظ کے لیے سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔
جب تک پاکستان کی نصف آبادی عملی زندگی سے خارج رہے گی اس وقت تک ملک ترقی نہیں کر سکتا۔یونیسف کے اقداماتیونیسف نے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں شادی کی کم از کم عمر کو 18 سال مقرر کرنے کے حالیہ فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے، جو سندھ کے بعد یہ قانون بنانے والا دوسرا علاقہ ہے۔ ادارے نے دیگر صوبوں اور علاقوں پر زور دیا ہے کہ وہ بھی اس مثال کی پیروی کریں۔
یونیسف کی شروع کردہ ویڈیو مہم اس مسئلے کی جانب توجہ دلانے اور انہیں حل کرنے کے لیے ادارے کی وسیع تر سرگرمیوں کا حصہ ہے، جو اقوام متحدہ کے فنڈ برائے آبادی (یو این ایف پی اے)، یو این ویمن اور حکومتی شراکت داروں کے تعاون سے کی جا رہی ہیں۔
ان میں تمام صوبوں میں شادی کی کم از کم قانونی عمر 18 سال تک بڑھانا، والدین، سرپرستوں اور مذہبی رہنماؤں کے ساتھ مکالمے اور BOLO (بولو) جیسی ابلاغی مہمات کے ذریعے لوگوں کا تعاون حاصل کرنا، لڑکیوں کی قیادت میں مہمات اور مسئلے کی روک تھام کے لیے کام کرنے والے نوجوانوں کی حوصلہ افزائی خاص طور پر اہم ہیں۔
عبداللہ فاضل کا کہنا ہے کہ صبا قمر بچوں کے حقوق کی نمایاں علمبردار ہیں۔ یونیسف کو ان کے تعاون سے ایسی مشکلات کو اجاگر کرنے پر فخر ہے جن کا سامنا بہت سے بچوں کو کرنا پڑتا ہے۔ ادارہ ایسے مستقبل کی جانب تیزی سے پیش رفت کے لیے پرعزم ہیں، جہاں ہر بچہ بالخصوص ہر لڑکی، سیکھے، آگے بڑھے اور ترقی کر سکے۔
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کم عمری کی شادی لڑکیوں کی اس مسئلے شادی کے کرنے کے کے لیے
پڑھیں:
لاہور: فیملی کو ہراساں کرنے کے الزام میں 3 پولیس اہلکاروں کیخلاف مقدمہ درج
---فائل فوٹولاہور میں تھانہ ستوکتلہ پولیس نے کار سوار فیملی کو ہراساں کرنے کے الزام میں تین پولیس اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کر لیا۔
شہری حسن گلزار نے ایف آئی آر میں الزام عائد کیا ہے کہ وہ اپنی فیملی سمیت شوکت خانم اسپتال کے قریب سے گزر رہا تھا کہ تین پولیس اہلکاروں نے ان کی گاڑی کو روکا اور فیملی کو ہراساں کیا۔
مدعی کے مطابق واقعہ 19 جولائی کو پیش آیا تھا جب پولیس اہلکار ان سے 10ہزار روپے چھین کر فرار ہو گئے تھے۔
ستوکتلہ تھانے کی پولیس نے اہلکار شکیل، صغیر اور الیاس کے خلاف ایف آئی آر درج کر کے واقعے کی تحقیقات شروع کر دی ہیں۔