جب رسول کریم ﷺ مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ منورہ تشریف لے گئے تو آپؐ نے دیکھا کہ وہاں کے لوگ نیروز اور مہرجان کے نام سے دو خوشی کے تہوار مناتے ہیں، صحابہ کرامؓ نے آپ ﷺ سے پوچھا کہ کیا ہم ان تہواروں میں شرکت کریں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اﷲ تعالیٰ نے تمہیں ان کے بدلے ان سے بہتر دو دن عطا فرمائے ہیں، ایک عیدالفطر کا دن، دوسرا عیدالاضحی کا۔‘‘
عیدالفطر اس وقت منائی جاتی ہے جب مسلمان رمضان المبارک میں فرض روزوں کی تکمیل کر کے اس مقدس مہینے کے ایک تربیتی دور سے گزر کر اپنی روحانیت کو جلا بخشتے ہیں اور عیدالاضحی اس وقت منائی جاتی ہے جب حج کی تکمیل ہوتی ہے، اور لاکھوں مسلمان عرفات کے میدان میں اپنے پروردگار سے مغفرت کی دعائیں کر کے ایک نئی زندگی کا آغاز کر چکے ہوتے ہیں۔
عیدالاضحی کے موقع پر اسلام میں قربانی کی بہت زیادہ فضیلت و عظمت ہے اور یہ قربانی ہر صاحبِ نصاب پر واجب ہے اور اس کے بارے میں حضور اکرم ﷺ نے یہاں تک فرمایا، مفہوم: ’’جو شخص استطاعت رکھنے کے باوجود قربانی نہیں کرتا وہ ہماری عید گاہ نہ آئے۔‘‘ (ترمذی، ابن ماجہ)
قربانی کی ایسی فضیلت ہے کہ اﷲ تعالیٰ کو قربانی کے دنوں میں قربانی سے زیادہ کوئی عمل پسند نہیں ہے۔ قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اﷲ تعالیٰ کے نزدیک قبول ہو جاتا ہے اور قربانی کرنے والے کی نجات کا ذریعہ بنتا ہے۔ قربانی کے جانور کے بدن پر جتنے بال ہوتے ہیں ہر بال کے بدلے میں قربانی کرنے والے کو نیکی ملتی ہے، یہ قربانی کے جانور پل صراط پر سواریاں ہوں گے۔ ہر عمل کا ایک وقت ہوتا ہے جیسے کہ رمضان کے مہینہ میں روزے، حج کے ایام میں حج، نماز کے وقت میں نماز اسی طرح قربانی کے دنوں میں قربانی ایک بڑا مقبول عمل ہے۔
ام المؤمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: اﷲ تعالیٰ کے نزدیک (قربانی کے دن) دس ذوالحجہ کو کوئی بھی نیک عمل (قربانی کا) خون بہانے سے زیادہ محبوب نہیں ہے اور قیامت کے دن بندہ اپنی قربانی کے سینگوں، کھروں اور بالوں سمیت حاضر ہوگا۔ (اور یہ چیزیں ثواب عظیم کا ذریعہ بنیں گی) نیز فرمایا کہ قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اﷲ تعالیٰ کے نزدیک درجہ قبولیت پالیتا ہے۔ لہٰذا تم خوش دلی کے ساتھ قربانی کیا کرو۔ (ترمذی)
حضرت زید بن ارقمؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ صحابہ کرامؓ نے سوال کیا: اے اﷲ کے رسول ﷺ! یہ قربانی کیا ہے؟ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: یہ تمہارے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنّت ہے۔ صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم نے عرض کیا: اے اﷲ کے رسول ﷺ! اس میں ہمارا کیا فائدہ ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ( تمہیں قربانی کے جانور کے) ہر بال کے بدلے ایک نیکی ملے گی۔ انہوں نے پھر عرض کیا: اے اﷲ کے رسول ﷺ! (جن جانوروں کے بدن پر اون ہے اس) اون کا کیا حکم ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اون کے ہر بال کے بدلہ میں بھی ایک نیکی ملے گی۔ (مشکوٰۃ)
حضرت عبداﷲ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے مدینہ منورہ میں دس سال قیام فرمایا اور ہر سال قربانی فرمائی۔ (مشکوٰۃ)
حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’عید کے دن قربانی کا جانور (خریدنے) کے لیے رقم خرچ کرنا اﷲ تعالیٰ کے یہاں اور چیزوں میں خرچ کرنے سے زیادہ افضل ہے۔‘‘ (طبرانی)
قربانی کے جانور شرعاً مقرر ہیں گائے، بھینس، بیل، اونٹ، اونٹنی، بکرا، بکری، بھیڑ مذکر و مؤنث، دنبہ ، دنبی ان کے علاوہ کسی جانور کی قربانی درست نہیں اگرچہ وہ کتنا ہی زیادہ قیمتی ہو اور کھانے میں بھی جس قدر مرغوب ہو لہٰذا ہرن کی قربانی نہیں ہوسکتی اس طرح دوسرے حلال جانور قربانی میں ذبح نہیں کیے جاسکتے۔
گائے، بیل، بھینس، بھینسا کی عمر کم از کم دو سال اور اونٹ ، اونٹنی کی عمر کم از کم پانچ سال اور باقی جانوروں کی عمر کم از کم ایک سال ہونا ضروری ہے۔ ہاں اگر بھیڑ یا دنبہ سال بھر سے کم کا ہو لیکن موٹا تازہ اتنا ہو کہ سال بھر والے جانوروں میں چھوڑ دیا جائے تو فرق محسوس نہ ہو تو اس کی بھی قربانی ہوسکتی ہے۔ بہ شرط یہ کہ چھے مہینے سے کم کا نہ ہو۔ چوں کہ قربانی کا جانور بارگاہِ خداوندی میں پیش کیا جاتا ہے اس لیے جانور خوب عمدہ موٹا تازہ، صحیح سالم، عیبوں سے پاک ہونا ضروری ہے۔
حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کا ارشاد ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ قربانی کے جانور کے آنکھ، کان خوب اچھی طرح دیکھ لیں اور ایسے جانور کی قربانی نہ کریں جس کا کان چرا ہُوا ہو یا جس کے کان میں سوراخ ہو۔ (رواہ الترمذی) حضرت براء بن عازبؓ کا بیان ہے کہ حضور اقدس ﷺ سے پوچھا گیا کہ قربانی میں کن جانوروں سے پرہیز کیا جائے۔ آپ ﷺ نے ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا، مفہوم: (خصوصیت کے ساتھ) چار طرح کے جانوروں سے پرہیز کرو۔ ایسا لنگڑا جانور جس کا لنگڑا پن ظاہر ہو۔ ایسا کانا جانور جس کا کانا پن ظاہر ہو۔ ایسا بیمار جانور جس کا مرض ظاہر ہو۔ ایسا دُبلا جانور جس کی ہڈیوں میں گودا نہ ہو۔
(مؤطا امام مالک، ترمذی، ابوداؤد)
قربانی کا وقت بقرہ عید کی دسویں تاریخ سے لے کر بارھویں تاریخ کی شام تک کا وقت ہے چاہے جس دن قربانی کرے لیکن قربانی کرنے کا سب سے افضل دن بقرہ عید کا پہلا دن ہے پھر گیارھویں تاریخ پھر بارہویں تاریخ۔ بقرہ عید کی نماز ہونے سے پہلے قربانی کرنا درست نہیں ہے نماز عید پڑھ چکیں تب قربانی کریں۔ البتہ اگر کوئی دیہات میں یا گاؤں میں ہو جہاں عید کی نماز واجب نہیں تو وہاں دسویں تاریخ کو فجر کی نماز کے بعد قربانی کر دینا درست ہے۔ دسویں سے بارہویں تک جب جی چاہے قربانی کرے چاہے دن میں چاہے رات میں لیکن رات کو ذبح کرنا بہتر نہیں کہ شاید کوئی رگ نہ کٹے اور قربانی نہ ہو اگر خوب زیادہ روشنی ہو تو رات کو قربانی کر لینے میں کوئی حرج نہیں۔
قربانی ہر عاقل و بالغ، آزاد ، مقیم، مسلمان صاحب نصاب مرد و عورت پر واجب ہے صاحبِ نصاب سے مراد جس پر زکوٰۃ فرض ہو یا جس کے پاس ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کی قیمت ہو یا اتنی قیمت کا سونا، چاندی ، نقدی مال تجارت، ضرورت اصلیہ سے زائد سامان پڑا اہو اور سب کو جمع کر کے اس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر ہو جائے تو اس پر قربانی اور صدقہ فطر واجب ہو جاتے ہیں۔ بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ جس پر زکوٰۃ واجب نہیں اس پر قربانی بھی واجب نہیں یہ بات صحیح نہیں ہے۔
یوں کہنا تو درست ہے کہ جس پر زکوٰۃ فرض ہے اس پر قربانی بھی واجب ہے لیکن یہ کہنا صحیح نہیں کہ جس پر زکوٰۃ فرض نہیں اس پر پر قربانی بھی واجب نہیں کیوں کہ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جن پر زکوٰۃ فرض نہیں اس لیے ان کے پاس سونا، چاندی یا مال تجارت یا نقدی نصاب کے بہ قدر نہیں ہوتی لیکن بہت سا فاضل (ضرورت اصلیہ سے زاید) سامان پڑا ہوتا ہے۔ اگر یہ فاضل سامان ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کو پہنچ جائے تو قربانی واجب ہو جاتی ہے لیکن زکوٰۃ فرض نہیں ہوتی، اور ایک فرق اور بھی ہے وہ یہ کہ زکوٰۃ کا ادا کرنا اس وقت فرض ہوتا ہے جب صاحب ِنصاب پر چاند کے اعتبار سے بارہ مہینے یعنی سال گزر جائے اور قربانی واجب ہونے کے لیے قربانی کی تاریخ آنے سے پہلے چوبیس گھنٹے گزرنا بھی ضروری نہیں ہے۔
اگر کسی کے پاس ایک آدھ دن پہلے یا قربانی کے ان تین ایام میںہی ایسا مال آیا جس کے ہونے سے قربانی واجب ہوتی ہے تو اس پر قربانی واجب ہو جائے گی۔ یہ بھی معلوم ہو کہ جو صاحبِ نصاب ہو اس پر قربانی واجب ہے، فرضیت زکوٰۃ اور وجوب قربانی و صدقہ فطر کے بارے میں ہر ایک کی ملکیت علاحدہ علاحدہ دیکھی جائے گی اگر کسی گھر میں باپ بیٹے بہو اور بیٹوں کی ماں ہر ایک کی ملکیت میں اتنا مال ہو جس پر قربانی واجب ہوتی ہے تو ہر ایک پر قربانی واجب ہوگی۔ البتہ نابالغ کی طرف سے کسی حال میں قربانی کرنا لازم نہیں۔ عورتوں کے پاس عموماً اتنا زیور ہوتا ہے جس پر قربانی واجب ہو جاتی ہے۔ اگرچہ وہ بیوہ ہی کیوں نہ ہوں۔
قربانی کا مقصد گوشت کھانا، دکھلاوا یا ریا کاری نہیں بل کہ ایک شرعی حکم کی تعمیل کرتے ہوئے خالص اﷲ تعالیٰ کی رضا کے لیے ایک جان قربان کرنا ہے۔ قرآن مجید میں اﷲ تعالیٰ کے ارشاد مبارک کا مفہوم ہے: ’’اﷲ کے پاس ان قربانیوں کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ ہی خون پہنچتا ہے بل کہ تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔‘‘
قربانی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے عظیم الشان عمل کی یاد گار ہے یہ سب کچھ محض اﷲ تعالیٰ کے حکم اور اس کی رضا جوئی کے لیے تھا اور قربانی کی اصل روح اور اس کی حقیقت یہ ہے کہ مسلمان اﷲ تعالیٰ کی محبت میں اپنی تمام نفسانی خواہشات کو قربان کر دے ۔
اﷲ تعالیٰ ہمیں اسی جذبہ ابراہیمی اور اپنی رضا کے لیے قربانی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پر قربانی واجب ہو قربانی کے جانور حضور اکرم ﷺ نے پر زکو ۃ فرض ﷺ نے فرمایا جس پر زکو ۃ اور قربانی ہے کہ حضور قربانی کی قربانی کا کہ قربانی واجب نہیں اﷲ تعالی ہوتا ہے سے پہلے نہیں ہے واجب ہے جاتی ہے کے لیے کے پاس ہے اور
پڑھیں:
جرگہ کا فیصلہ یا پھر دل کا ۔۔؟
عطاء اللہ ذکی ابڑو
آپ شرابی کے ساتھ چند منٹ گزاریں آپ محسوس کریں گے کہ زندگی بہت آسان ہے ، فقیروں، سادھوؤں یا سنیاسی بابوں کے پاس چلے جائیں ،آپ کو اپنا سب کچھ کسی کو تحفے میں دینے کی خواہش جاگے گی؟ کسی لیڈر سے مل لیں آپ محسوس کریں گے کہ آپ نے اتنا کچھ پڑھ کرابتک جھک ہی ماری ہے ؟ لائف انشورنس ایجنٹ کے سامنے چند منٹ بیٹھیں آپ محسوس کریں گے کہ مرنا کتنا سود مند ہے ؟ تاجروں کی سنیں گے تو آپ کو محسوس ہوگا کہ آپ کی کمائی آٹے میں نمک کے برابر ہے ؟ سائنسدانوں کی تحقیق دیکھیں گے تو آپ کو اپنی لاعلمی کا احساس ہوگا؟ ایک اچھے استاد سے ملیں گے تو آپ کو دوبارہ طالب علمی کا شوق جاگے گا ؟ غرض کہ آپ جیسی عینک پہنیں گے ویسا ہی آپ کو دکھائی دینے لگے گا ؟ وقت کا یہی تقاضا جو اس واقعے پر بھی پورا اترتا ہے ؟جسے آج آپ کے سامنے پیش کرنے جارہا ہوں ۔یہ واقعہ کوئٹہ کے نواحی گاوں ڈیگاری میں جون کے مہینہ میں پیش آیا، 37 سالہ خانو بی بی اور احسان اللہ نامی لڑکے کی سوشل میڈیا پر ایک جرگہ کے ہاتھوں قتل کی وڈیو وائرل ہوتے ہی ٹی وی پرچند ٹکرز چلے ، خبر گرم ہوئی اورہم نے اسے حقیقت مان کر بنا کچھ سوچے ،سمجھے اس واقعہ کو اپنے اپنے نظریہ سے پرکھنا شروع کردیا کسی نے اس ادھوری کہانی کا پورا سچ جاننے کی جستجو ہی نہیں کی؟ کہتے ہیں آدھا سچ پورے وجود کو برباد کرنے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ اسی طرح اس واقعے کا بھی پورا سچ سامنے آنا ابھی باقی ہے ؟ تن تنہا بلوچستان کی سنگلاخ چٹانوں کے بیچ کھڑی نہتی لڑکی اورصرف اس کا آشنا ہی جرگے والوں کی بندوقوں کا نشانہ نہیں تھے دونوں کے قتل کی خبرسننے کے لیے اس کے پیچھے دو قبائل بانو اوراحسان اللہ کی موت کے منتظرتھے۔ اب یہ صرف ایک اکیلی خانو بی بی کی زندگی کا سوال نہیں تھا۔ اس کے پیچھے دونوں قبائل کے لوگوں کی زندگی داؤ پرلگی تھی اس لیے خانو نے ہنسی خوشی بندوق کی گولی سینے سے لگانے کو اپنے لیے تمغہ سمجھا اوراسے گلے لگاکر اپنے قبیلے کے کئی پیاروں کی زندگی بچالی ۔جی ہاں اس کڑی دھوپ تلے تپتے صحرا میں اکیلی خانو بی بی نہیں کھڑی تھی اس کی آنکھوں کے سامنے اس کے بچوں،بھائی، بہن،ماں اورباپ سمیت خاندان کے ایک ایک فرد کا چہرہ سامنے تھا جن کا قرض چکانے اپنے گھر کی دہلیز سے اس صحرا تک آئی تھی ؟ اورہاں شاید یہ اس کے عشق کا امتحان تھا ؟ وہ پہلے سے اپنے عقد میں ایک شوہراورکئی بچوں کو گھر میں اکیلا چھوڑ کراحسان کے ساتھ آئی تھی ؟ خانو پریہ بھی الزام تھا کہ وہ تین ماہ سے اپنے عاشق احسان اللہ کے ساتھ بغیر کسی نکاح کے یعنی کسی بھی ازدواجی تعلق کے بغیر شریعت کے حکم کی نفی کرتے ہوئے دن، رات بسرکررہی تھی ۔خانو اپنے اس عشق کے امتحان میں تو پوری اتر گئی مگر اپنے پیچھے اپنے مجازی خدا،پھول سے کھیلتے پانچ بچوں،ماں، باپ، بہن ،بھائی اوراپنے عاشق کی پہلی بیوی جس سے چار بچے بھی ہیں ۔اس کے قبیلے والوں کو بھی ساری زندگی کے لیے کڑے امتحان میں ڈال گئی؟
خانو نے جرگہ کا فیصلہ تو سنا تھا مگر لگتا ہے وہ آج بھی اپنے دل کے فیصلے پراٹل تھی؟ کیونکہ خانو نے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے بندوق اٹھائے جرگہ کے کارندوں کو للکارا اورانہیں اپنی زبان میں کہا کہ ( صرسم ائنا اجازت اے نمے ) تمہیں صرف گولی مارنے کی اجازت ہے ؟ یعنی وہ کہہ رہی تھی کہ خبردار یہ جسم اب اس کے محبوب کی امانت ہے بعد مرنے کے اس کی بے حرمتی نہ کرنا؟ ڈیگاری کے صحرا میں خانو پر بندوقیں تانے کھڑے جرگہ کے کارندے 37سالہ خانو کو موت کے گھاٹ اتارنے کا یہ اقدام نہ اٹھاتے تو پیچھے احسان اللہ کا قبیلہ خانو بی بی کے پورے قبیلے کو موت کی گھاٹ اتارنے کے لیے گھات لگائے بیٹھا تھا؟ یہی وجہ تھی کہ خانوکے کنبے والوں نے ایک اکیلی لڑکی کو قبیلے کی بھینٹ چڑھاکر پہ در پہ سات گولیاں چلاکرکا اسے مٹی کا ڈھیر بنادیا؟ لاش کیلئے گڑھا کھودا اورخانو کو اسی صحرا کی مٹی کے سپرد کرکے چلتے بنے؟ دونوں قبائل کے سرکش لوگ شاید یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ بات منوں مٹی تلے دفن ہوگئی؟اوردونوں قبائل نے اپنا اٹل فیصلہ سناکراپنی اپنی زندگیاں بچالیں؟ یہ ان کی خام خیالی ثابت ہوئی؟ ان کا اصل امتحان توتب شروع ہوا جب ٹھیک ایک ماہ بعد سوشل میڈیا پران کے اپنے ہی کسی گروہ کے کارندے نے اس سبق آموزواقعے کی وڈیو کو سوشل میڈیا پراپ لوڈ کردی آناً فاناً ناک پر رومال رکھ غریبوں ، مسکینوں اور محتاجوں کا دم بھرنے والی فلاحی تنظیمیں باہر نکل آئیں؟حکومت سمیت پورا ملک حرکت میں آگیا ۔یہ واقعہ ایک ہولناک خبربن کر سوشل میڈیا کی زینت بن چکا تھا۔ پوری دنیا میں ہمارے سماجی رویوں کی عکاسی کر رہا تھا ؟فوٹیج نے دنیا میں پاکستان کے امیج اورانسانی رویوں کوخاک میں ملادیا تھا ؟ ادھرجوڈیشری بھی حرکت میں آچکی تھی اورمجسٹریٹ نے کوئٹہ واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے مارے جانے والے دونوں لڑکے اور لڑکی کی قبر کشائی کا حکم دیا ۔جرگہ میں قتل کا حکم دینے والا سردار شیر ستکزئی سمیت 13 افراد آج ریمانڈ پر ہیں اور ان پر اے ٹی سی ایکٹ کے تحت ایس ایچ او ہنہ کی مدعیت میں مقدمہ درج کیا جا چکا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا بلوچستان جرگہ میں کیا جانے والا یہ پہلا فیصلہ تھا یا پھر حکومت پہلی بار اس فیصلے سے آشنا ہوئی ؟ ایسا ہرگز نہیں ہے۔
آج بھی کئی قبائلی جرگے ہوتے ہیں اور ان جرگہ کے فیصلوں کا حکومت کو بھی انتظار رہتا ہے کیونکہ یہ اس ملک کے کئی قبیلوں کا رسم رواج ہے، کسی قبیلے میں یہ عورت ونی کے نام پر بھیڑیوں کی بھینٹ چڑھادی جاتی ہے تو کہیں کارو اور کاری غیرت کے سوال پر ابدی نیند سلادیا جاتا ہے تو کہیں اس حوا کی بیٹی کو زمینوں کا بٹوارہ بچانے کے لیے قرآن سے شادی کرنا پڑتی ہے ؟ اور جب بات پگدار کا سربچانے کی ہو تو وہ اپنی جان بخشی کے لیے اپنی جان سے پیاری کمسن بیٹی کو کسی کے باپ پر نچھاور کرتے دیر نہیں کرتے ؟ یہی پگدار سامنے والے کواپنی بیٹیاں بطور بیوی کے پیش کرکے اپنا سر بچاتے ہیں تب ان کی عزت ؟ غیرت کہاں چلی جاتی ہے ؟ یہ وہی قبائلی نظام ہے جو فاٹا میں بھی نافذالعمل تھا ،بلوچستان کے قبائل بھی اسی پر چلتے ہیں ؟ پنجاب اور سندھ میں بھی ان قبائلی سرداروں اور بھوتاروں کے آگے کسی کی ایک نہیں چلتی؟ ہمارے ملک کے حکمراں اگر ان سرداروں، وڈیروں اور جاگیرداوں کی نہیں سنیں گے تو پھر یہ تخت نشیں کیسے بنیں گے ؟آج بھی اس مملکت خداد میں تین الگ الگ قانون نافذ ہیں جہاں جرگہ کے فیصلے ہوتے ہیں ،وہاں حکومتی رٹ کہیں دکھائی نہیں دیتی ؟ اور جہاں حکومت اپنی رٹ قائم کرنا چاہتی ہے وہاں شریعت کورٹ کا قانون ہے ؟ الغرض کوئی شخص ملکی قوانین پر عمل نہیں کرتا ؟ جب ایک ریاست کے ہوتے ہوئے ایک ہی ملک میں تین الگ الگ قانون ہوں گے تو پھر اس طرح کی لاقانونیت کو کون روک سکتا ہے ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔