Express News:
2025-09-18@13:40:59 GMT

اگلے مرحلے کی مذمت تیار رکھیں

اشاعت کی تاریخ: 31st, May 2025 GMT

امریکا کی یونیورسٹی آف پنسلوینیا کے ایک سروے کی تفصیلات گزشتہ ہفتے اسرائیلی اخبار ہاریتز میں شایع ہوئیں۔ سروے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایک عام اسرائیلی نیتن یاہو سرکار کی نسل کش پالیسیوں سے ہرگز بیزار نہیں بلکہ اکثریت پرجوش حامی ہے۔حمائتی رائے عامہ میں مذہبی ، سیکولر ، قوم پرست کی کوئی تمیز نہیں۔ان کے فلسطین دشمن موقف میں صرف ڈگری کا فرق ہے۔

سروے کے مطابق بیاسی فیصد اسرائیلی فلسطینیوں سے غزہ خالی کرانے کے حامی ہیں۔ سروے میں ایک سوال یہ کیا گیا کہ جس طرح تورات کی روائیت کے مطابق پیغمبر جوشوا کی قیادت میں اسرائیلی لشکر نے جیریکو کا محاصرہ کر کے وہاں کے تمام شہریوں کو قتل کیا۔کیا اسرائیلی فوج کو بھی اسی روائیت پر عمل کرنا چاہیے۔سینتالیس فیصد شہریوں نے اس سے اتفاق کیا۔

گزشتہ ماہ اسرائیلی فوج نے غزہ کو مکمل فتح کرنے اور وہاں کی آبادی کو ختم کرنے یا جلاوطنی پر مجبور کرنے کے لیے ’’ گیدون چیریٹ ‘‘ کے نام سے فیصلہ کن آپریشن شروع کیا۔

منصوبے کے مطابق غزہ کی تمام آبادی کو جنوبی کونے میں جمع کیا جا رہا ہے۔انھیں براہ راست خوراک تقسیم کرنے کا ڈھونگ رچایا جا رہا ہے تاکہ عالمی رائے عامہ کی آنکھوں میں دھول جھونکی جا سکے کہ اسرائیل غزہ کے انسانوں کو بھوکا نہیں مار رہا۔ ساتھ ہی ساتھ انھیں ’’ رضاکارانہ ‘‘ ہجرت کی راہ دکھائی جا رہی ہے۔جو فلسطینی مختص علاقے کے سوا غزہ کے کسی بھی مقام پر پائے گئے ان سے دشمن سمجھ کے نمٹا جا رہا ہے۔اس میں بوڑھے ، بچے ، خاتون کی کوئی تمیز نہیں۔

( اسرائیلی فوج نے ستائیس مئی کو غزہ پر فوج کشی کے چھ سو دن مکمل ہونے پر رفاہ میں کرائے کی ایک امریکی فلاحی تنظیم کی مدد سے خوراک تقسیم کرنے کی کوشش کی۔ ہلڑ بازی کے سبب یہ تقسیم دھری کی دھری رہ گئی اور خوراک کی تلاش میں آنے والے ہزاروں فلسطینیوں میں سے دس کو فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا گیا۔جب کہ ستتر برس سے فلسطینی پناہ گزینوں کی دیکھ بھال کرنے والے اقوامِ متحدہ کے ادارے انرا کو دھشت گرد تنظیم قرار دے کر اس کے دفاتر مقبوضہ علاقوں میں بند کر دیے گئے اور غذائی گودام تباہ کر دیے گئے )۔

آپریشن ’’ گیدون چیریٹ‘‘ کے نام سے ہی اندازہ ہوتا ہے کہ فلسطینیوں سے وہی سلوک کیا جا رہا ہے جو تورات کی روائیت کے مطابق نبی ساؤل نے جزیرہ نما سینا میں رہنے والے دشمن قبیلے امالک سے کیا تھا۔یعنی کوئی درخت ، کوئی جانور ، کوئی انسان رحم کے قابل نہیں۔

نیتن یاہو تو سات اکتوبر دو ہزار تئیس کو جنوبی اسرائیل پر حماس کے حملے کے بعد اپنی پہلی نشری تقریر میں کھل کے کہہ چکے ہیں کہ فلسطینی ’’ امالک ‘‘ ہیں۔یعنی یہ کوئی عام جنگ نہیں بلکہ ایسی لڑائی ہے جسے مذہبی جوش و خروش سے لڑا جائے گا۔( امالک کا عبرانی میں مطلب خون پینے والا اور نطفہِ حرام ہے۔جب کہ گیدون ایک توریتی کردار ہے جسے خدا نے فتح کی بشارت دی )

سروے کے مطابق پینسٹھ فیصد اسرائیلی شہری متفق ہیں کہ فلسطینی جدید دور کے ’’ امالک ‘‘ ہیں اور امالک کے بارے میں جو احکامات الہامی کتابوں میں دیے گئے وہ فلسطینیوں پر ہو بہو لاگو ہوتے ہیں۔

جب کہ اصل مقصد تب کھل کے سامنے آیا جب اسرائیلی وزیرِ اعظم نے گزشتہ ماہ ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ ہمیں صدر ٹرمپ کی اس انقلابی تجویز سے مکمل اتفاق ہے کہ غزہ سے فلسطینی کسی تیسرے ملک منتقل کر دیے جائیں۔اور ہم اسی سمت میں کام کر رہے ہیں۔

ایک اسرائیلی ٹی وی چینل تھرٹین کے سروے کے مطابق چوالیس فیصد اسرائیلی آپریشن گیدون چیریٹ کے مقاصد سے اتفاق اور چالیس فیصد اختلاف رکھتے ہیں۔تریپن فیصد اسرائیلی سمجھتے ہیں کہ غزہ کا مکمل محاصرہ جاری رہنا چاہیے اور خودسر آبادی تک خوراک نہیں پہنچنی چاہیے۔

پنسلوینیا اسٹیٹ یونیورسٹی کے سروے میں مزید کہا گیا ہے کہ جو اسرائیلی نسبتاً روشن خیال سیاسی جماعتوں کے حامی ہیں ان میں سے بھی ستر فیصد چاہتے ہیں کہ غزہ فلسطینیوں سے خالی ہو جائے۔جب کہ مذہبی طبقات سے تعلق رکھنے والے نوے فیصد شہری فلسطینیوں کے جبری دیس نکالے کے حامی ہیں۔

بات محض غزہ خالی کرانے تک محدود نہیں۔ چھپن فیصد اسرائیلیوں کا خیال ہے کہ ریاستِ اسرائیل کی حدود میں جو عرب آئینی اعتبار سے مساوی شہری قرار دیے گئے ہیں انھیں بھی اسرائیل چھوڑنے پر آمادہ کیا جائے۔

 ( اسرائیل کی کل آبادی کا لگ بھگ اکیس فیصد عرب ہیں اور پارلیمنٹ میں بھی ان کی نمایندگی ہے )۔

اسرائیل کے عرب شہریوں کو ملک سے نکالنے کے تصور کو ساٹھ فیصد مذہبی اور اڑتیس فیصد سیکولر یہودی شہریوں کی حمائیت حاصل ہے۔

اس سروے کے نتائج کا تجزیہ کرتے ہوئے پنسلوینیا یونیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر تعمیر سورک کا کہنا ہے کہ سات اکتوبر کے بعد سے اسرائیلی سماج کو ان خیالات نے عملاً اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے جو انھیں بچپن سے تعلیمی نظام ، امتیازی قوانین اور میڈیا کے ذریعے ایک منظم راستی بیانئے کے نام پر پلائے جا رہے ہیں۔اب اس ذہن سازی کے نتائج کھل کے سامنے آ رہے ہیں اور لگتا ہے گویا پورا سماج ہی سنکی ہو گیا ہے۔

سیاسی مقاصد کو مذہبی لبادہ پہنانے کی لہر سے کوئی نہیں بچا۔مثلاً حال ہی میں انسانی حقوق کی چند اسرائیلی تنظیموں نے سپریم کورٹ میں چینل فورٹین کے خلاف ایک اجتماعی پٹیشن دائر کی جس کے مطابق مذکورہ چینل سماج کو نسل کشی اور انسانیت سوز جرائم پر مسلسل اکسا رہا ہے۔ ان الزامات کی باقاعدہ تحقیقات کا حکم دیا جائے۔پیٹیشن میں یہ استدعا بھی کی گئی کہ حکومت کو غزہ کا غیر انسانی محاصرہ اٹھانے کا حکم دیا جائے۔ یہ پیٹیشن متفقہ طور پر مسترد کر دی گئی۔جس جج نے بنیادی فیصلہ لکھا اس نے موجودہ بین الاقوامی قوانین اور نظائر کے حوالے دینے کے بجائے شریعتِ موسوی کی روشنی میں فیصلہ تحریر کیا۔

ستائیس مئی کو غزہ میں نسل کشی کے عمل کو چھ سو دن مکمل ہو گئے۔روزنامہ ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق ان چھ سو دنوں میں امریکی مال بردار طیاروں کی اسلحے اور گولہ بارود سے لدی آٹھ سو پروازیں اسرائیل میں اتریں تاکہ نسل کش فوجی مہم متاثر نہ ہو۔

آخر کو اسرائیل غزہ کے ساتھ وہی کر رہا ہے جو سابقہ اور موجودہ امریکی حکومت کی خواہش ہے۔تو پھر امریکا کیوں نہ بروقت ایک ایک گولے ، بم اور میزائیل کی کمی ہونے دے۔غزہ کا مشن پایہ تکمیل تک پہنچانے کے بعد اگلا منصوبہ مغربی کنارے کو اسرائیل میں ضم کرنا ہے۔دو روز قبل ہی اسرائیل نے مقبوضہ مغربی کنارے پر بائیس نئی یہودی بستیوں کی تعمیر کی منظوری دی ہے۔

اس کے بعد مسجدِ اقصی کمپاؤنڈ کے نیچے آثارِ قدیمہ کی تلاش کے بہانے سرنگیں کھودنے کے پروجیکٹ کی تیز رفتار تکمیل کا منصوبہ ہے تاکہ مسجد کی بنیادیں اتنی کمزور ہو جائیں کہ عمارت ایک دن خود بخود اچانک ڈھ جائے۔ یوں اس مقام پر یہودیوں کا مقدس تھرڈ ٹمپل ڈیڑھ ہزار برس کے وقفے سے ظہور میں آ سکے۔

مسلمان ممالک اگلے دونوں مرحلوں کے لیے کاغذی مذمت کا مسودہ پہلے سے لکھ رکھیں۔ویسے سیکڑوں پرانے مسودوں میں نام اور تاریخ بدلنے سے بھی کام چل جائے گا۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.

com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: فیصد اسرائیلی جا رہا ہے کے مطابق سروے کے نے والے دیے گئے کے بعد ہیں کہ

پڑھیں:

اسلامی کانفرنس ’’اب کے مار کے دیکھ‘‘

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

250917-03-8

 

احمد حسن

بچپن سے کہاوت سنتے آئے ہیں ’’اب کے مار کے دیکھ‘‘ اسرائیل مسلسل مار رہا ہے اور عرب و اسلامی ممالک ہر دفعہ یہی کہہ رہے ہیں ’’اب کے مار کے دیکھ‘‘ ایک طرف عرب اور اسلامی ممالک کے حکمرانوں میں دنیا بھر کی بزدلی اور دنیا کی چاہت بھر گئی ہے اور دوسری طرف تنہا غزہ کے فلسطینیوں میں آزادی کی خواہش اور جرأت و بہادری کا جذبہ جمع ہو گیا ہے ۔ اسرائیلی فوج ہر روز ان پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہی ہے مگر وہ ہیں کہ ٹوٹنے کا نام نہیں لے رہے، غزہ کو خالی کرنے، حماس کا ساتھ چھوڑنے پر تیار نہیں، چیونٹی اور ہاتھی کا مقابلہ ہے، ان کے پاس ایک طیارہ نہیں، ایک ٹینک نہیں دوسری جانب اسرائیل کے پاس سپر پاور امریکا کے تیار کردہ بہترین طیارے، ٹینک اور دیگر جدید ترین ہتھیار ہیں پھر بھی فلسطینی باز نہیں آتے، جب بھی موقع ملتا ہے پلٹتے ہیں اور جھپٹ کر وار کرتے ہیں، حماس کے عسکری ونگ القسام بریگیڈ نے شمالی غزہ کے علاقے جبالیہ میں کارروائی کرتے ہوئے ایک اسرائیلی ٹینک تباہ کر دیا، جس کے نتیجے میں عملے کے چاروں افراد ہلاک ہو گئے، ٹینک پر دھماکا خیز مواد پھینکا گیا اور کمانڈر کو فائرنگ کا نشانہ بنایا گیا جس سے ٹینک میں آگ بھڑک اٹھی، مشرقی یروشلم کے علاقے راموت جنکشن پر فلسطینی مجاہدین کی فائرنگ سے 6 اسرائیلی ہلاک اور 15 زخمی ہو گئے اسرائیلی حکام کے مطابق دونوں حملہ آوروں کو موقع پر ہی شہید کر دیا گیا یقینا ایک ٹینک کا تباہ ہونا اور چند اسرائیلیوں کا مارا جانا اسرائیلیوں کا کوئی بڑا نقصان نہیں، لیکن درجنوں عرب اسلامی ملکوں کے منہ پر زوردار تھپڑ ضرور ہے جو اسرائیل سے ہر دفعہ مار کھا کر خود کچھ نہیں کرتے عالمی برادری سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ جواب دے۔

پیر کو دوحا میں ہنگامی عرب اسلامی سربراہ کانفرنس میں مسلم سربراہوں نے قطر پر اسرائیل کے حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل نے تمام حدیں پار کر لی ہیں، اقوام متحدہ کے چارٹر اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی پر اسرائیل کو جواب دے ٹھیرانا ہوگا اور مشرق وسطیٰ میں امن کے لیے مسئلہ فلسطین حل کرنا ہوگا، صہیونی جارحیت روکنے کے لیے عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے کہا کہ سلامتی کونسل اسرائیل سے فوری غیر مشروط جنگ بندی کا مطالبہ کرے، انہوں نے کہا کہ غزہ میں انسانیت سسک رہی ہے، خاموش ہونے کے بجائے متحد ہونا ہوگا۔ وزیراعظم پاکستان اور دیگر سربراہوں نے جو کچھ کہا سو کہا، قطر پر حملے کے خلاف خود قطری وزیراعظم نے کیا کہا، موصوف نے فرمایا عالم برادری دہرا معیار چھوڑ ے اسرائیلی حملے کا سخت جواب دیا جائے، اندازہ کیجیے ملک پر حملہ ہو گیا اور وہ ایک معمولی سی جوابی کارروائی کرنے کے بجائے عالمی برادری سے درخواست کر رہا ہے کہ اسرائیل کو سخت جواب دیا جائے، عالمی برادری تو بہت کچھ کر رہی ہے، ہر ملک میں لوگ بڑے پیمانے پر احتجاج کر رہے ہیں اور اس احتجاج کی خاطر وہ قید و بند کے خطرے کو بھی خاطر میں نہیں لا رہے مگر آپ خود کیا کر رہے ہیں؟ اگر آپ اسی طرح ’’اب کے مار اب کے مار‘‘ کی گردان کرتے رہے تو اسرائیل ایک ایک کر کے ہر اسلامی ملک میں گھس کر جسے چاہے گا اسے نشانہ بنائے گا۔ واضح رہے کہ اسرائیل اب تک چھے اسلامی ملکوں ایران، لبنان شام، یمن، تیونس، قطر پر حملہ کر چکا ہے جبکہ فلسطین پر تو اس کے حملے برسوں سے جاری ہیں اور معمول بن چکے ہیں۔

اپنی نیت کے حوالے سے اسرائیل نے کچھ خفیہ بھی نہیں رکھا، اسرائیلی وزیراعظم بار بار ایسی دھمکیاں دے چکے ہیں اور اب اسلامی سربراہ کانفرنس کے بعد انہوں نے پھر اس کا ارادہ کیا ہے، اسرائیلی وزیراعظم نے تل ابیب میں امریکی وزیر خارجہ مارکوروبیو سے ملاقات میں کہا کہ حماس قیادت کہیں بھی ہو اسے نشانہ بنانے کا امکان مسترد نہیں کر سکتے جبکہ امریکی وزیر خارجہ نے اس موقع پر اسرائیلی وزیراعظم کو غیر متزلزل امریکی حمایت اور امداد کا یقین دلایا اس سے قبل اسرائیلی سیکورٹی کابینہ کے وزیر ایلی کوہن نے کہا تھا کہ حماس کے رہنماؤں کو دنیا میں کہیں بھی سکون کی نیند نہیں سونا چاہیے، جب پوچھا گیا کیا اس میں استنبول اور انقرہ بھی شامل ہیں تو انہوں نے دہرایا کہ ’’کہیں بھی‘‘، ہم نے ثابت کر دیا ہے کہ ہم کسی بھی مقام تک درستی سے پہنچنے کے قابل ہیں یقینا اسرائیل نے یہ بات ثابت کر دی ہے کہ وہ خالی خولی دھمکی نہیں دیتا اس پر عمل بھی کرتا ہے، اسرائیلی دھمکی کے بعد یہ تو نظر نہیں آتا کہ وہ اسرائیل کو مؤثر عملی جواب دینے کا کوئی منصوبہ بنائیں ہاں یہ ضرور ہو سکتا ہے کہ وہ بھرپور کوشش کریں کہ حماس سے معمولی سا تعلق رکھنے والا کوئی بھی فرد اس کے ہاں نہ رہ سکے تاکہ وہ اسرائیلی قہر کا نشانہ نہ بنے۔

اسلامی ممالک کے سربراہان، سیاستدان ہر اسرائیلی حملے کے بعد یہ کہتے نہیں تھکتے کہ مسلم ممالک کو متحد ہو جانا چاہیے، اسرائیل کو روکنے کے لیے امت مسلمہ کا اتحاد و اتفاق بہت ضروری ہے لیکن عملاً ہر اسلامی ملک اس کہاوت پر عمل کر رہا ہے ’’تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو‘‘ پاکستان پیپلز پارٹی کی مرکزی رہنما شیری رحمان نے ایک ٹی وی شو میں بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ نیتن یاہو اور اس کے حواریوں پر واضح کر دوں کہ اگر پاکستان کی طرف آئے تو لگ پتا جائے گا۔ خلیجی ممالک کو متحد ہو کر اسرائیل کو جواب دینا چاہیے، ان کے اس بیان کا مطلب یہ ہے کہ اسرائیل غزہ میں روزانہ سیکڑوں افراد کو قتل کرتا رہے، ان تک کھانے پینے کی چیزیں نہ پہنچنے دے، فلسطینی بچے ہڈیوں کا پنجر بن کر موت کے منہ میں جاتے رہیں، کوئی بات نہیں لیکن اگر انہوں نے پاکستان کا رُخ کیا تو پھر ہماری طاقت و مہار مہارت اور جرأت و بہادری دیکھنا، ہم ایسا جواب دیں گے کہ اسرائیل کو لگ پتا جائے گا کہ کس سے پالا پڑا ہے۔

اسرائیلی جارحیت کے خلاف ایرانی نمائندے نے جو تجویز پیش کی ہے مسلم ممالک کے سربراہان کم از کم اسی پر عمل کر لیں، انہوں نے مشورہ دیا ہے کہ اسلامی ممالک اسرائیل کے خلاف ایک مشترکہ آپریشن روم قائم کریں، اس سے ہمارے اتحاد کا پیغام جائے گا اور مشترکہ آپریشن روم کی جانب سے جاری کیا گیا محض ایک بیان بھی اسرائیل کو دہشت زدہ کر سکتا ہے۔ مسلم ملکوں کے حکمرانوں کے رویے کے برعکس ایک مسلم امریکی نوجوان نے کہیں زیادہ بہادری کا ثبوت دیا ہے، یہ نوجوان ہیں زہران ممدانی جو امریکی شہر نیویارک کے ڈیموکریٹک میئر بننے کے امیدوار ہیں، انہوں نے کہا ہے کہ اگر وہ میئر منتخب ہوگئے تو پولیس کو حکم دیں گے کہ نیویارک آنے پر اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کو گرفتار کر لیا جائے، یہ اقدام ظاہر کرے گا کہ نیویارک عالمی قوانین پر عمل کرتا ہے، واضح رہے کہ نیویارک کے میئر کا انتخاب چار نومبر کو ہوگا۔

متعلقہ مضامین

  • سعودی عرب کی جانب سے غزہ پر اسرائیلی جارحیت کی شدید مذمت
  • اسلامی کانفرنس ’’اب کے مار کے دیکھ‘‘
  •  اسرائیل کی مذمت کافی نہیں، دنیا کو اب اسرائیل کا راستہ روکنا ہوگا: نائب وزیراعظم
  • غزہ: اسرائیلی عسکری کارروائی میں ہلاکتوں کا سلسلہ جاری، یو این کی مذمت
  • بھارت سندھ طاس معاہدہ یکطرفہ ختم یا معطل نہیں کرسکتا ، کشمیر سمیت تمام مسائل پر بات چیت کےلئے تیار ہیں.اسحاق ڈار
  • اسرائیل کے حملوں کی صرف مذمت کافی نہیں اب واضح لائحہ عمل دینا ہوگا، اسحاق ڈار
  • اسرائیلی حملوں کی محض مذمت کافی نہیں، اسحاق ڈار
  • اسرائیلی حملوں کی محض مذمت کافی نہیں، اب ہمیں واضح لائحہ عمل اختیار کرنا ہوگا: اسحاق ڈار
  • دوحہ اجلاس میں وزیراعظم پاکستان کی گونج
  • قطر پر اسرائیلی جارحیت امن کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے، عرب، اسلامی ممالک کے ہنگامی اجلاس کا اعلامیہ