نااہل حکمران ریاستیں تباہ کر ڈالتے ہیں!
اشاعت کی تاریخ: 31st, May 2025 GMT
احمد شاہ بہادر‘ چودھواں مغل بادشاہ تھا۔ 29اپریل 1748 وہ بدقسمت دن تھا‘ جس روز دہلی کے تخت پر براجمان ہوا۔ احمد شاہ ‘ محمد شاہ رنگیلے کا اکلوتا بیٹا تھا۔ قیامت یہ تھی کہ مسائل حکمرانی سے مکمل طور پر نابلد تھا۔ اس کی کسی قسم کی کوئی تربیت بھی نہیں تھی۔ یعنی بادشاہ بننے کی واحد وجہہ صرف اور صرف یہ تھی کہ اپنے باپ کا واحد لڑکا تھا۔
اس کے علاوہ ‘ کوئی موجود ہی نہیں تھا۔ جسے امرائِ دہلی کا تاج پہنا سکتے۔ یہ فیصلہ بہت زیادہ ادنیٰ اور تکلیف دہ ثابت ہوا۔ احمد شاہ نے تخت نشین ہونے کے بعد‘ اپنے لیے‘ مجاہدالدین احمد شاہ غازی کا لقب اختیار کیا۔ کمال یہ بھی تھا کہ وہ اصول حرب سے ناواقف تھا۔ جس جنگ کو بنیاد بنا کر ‘ اس نے اپنے لیے ’’غازی‘‘ کی کنیت استعمال کی‘ اس میدان کارزار میں احمد شاہ نے کوئی بھی کارنامہ سرانجام نہیں دیا تھا۔ مگر وہ بادشاہ تھا۔ وہ کچھ بھی کر سکتا تھا۔ دور ابتلا کی نشانی ہی یہی ہے کہ خواص ‘ اپنا پر تو اور شان بڑھانے کے لیے ‘ ہر کام کر سکتے ہیں۔ انسانی جلبت میں ہے کہ ہر انسان میں ’’خبطِ عظمت‘‘ برابر موجود ہے۔ احمد شاہ‘ کی والدہ قدسیہ بیگم نچلے سماجی طبقہ سے تعلق رکھتی تھیں ۔
پیشہ کے لحاظ سے ایک ڈومنی تھی۔ شادی سے پہلے‘ وہ اور اس کا پورا خاندان‘ دہلی کی گلیوں میں ناچ گانے کا دھندا کرتا تھا۔ مگر آپ برصغیر کی پاور پالیٹکس کا سفلی پن دیکھیے کہ وہ عیاری کے ساتھ‘محمد شاہ کے حرم میں داخل ہوئی۔ اور پھر ملکہ بن گئی ۔ قدسیہ بیگم بادشاہ کی والدہ تھی اور اصل حکومت اسی کی تھی۔ اسے خواجہ سراؤں سے خاص لگاؤ تھا۔ لال قلعہ میں جاوید خان نامی خواجہ سرا کے ساتھ زندگی گزار رہی تھی۔ یعنی طوائف اور خواجہ سرا‘ دونوں مل کر پورے برصغیر پر دندناتے پھر رہے تھے۔ قدسیہ بیگم نے بذات خود اپنے لیے جو نام منتخب کیے تھے۔
وہ حد درجہ عالیشان تھے۔ ان القابات سے وہ اپنے احساس کمتری کو کم کرنے کی کوشش کرتی تھی۔ صاحبہ از زمانی‘ حضرت قبلہ عالم ‘ممتاز محل اور نواب قدسیہ جیسے نام عظمت کے نشان‘ اپنے لیے استعمال کرواتی تھی۔ مگر نہ اس میں عظمت تھی اور نہ ہی کوئی توقیر۔ کج فہمی کا اندازہ لگایئے کہ 21جنوری 1754 کو اس کا یوم پیدائش منایا گیا۔
اس سالگرہ پر دو کروڑ روپے اپنی گرہ سے خرچ کیے ۔ مگر اس اثناء میں ‘ فوج کے سپاہی تنخواہ نہ ملنے پر ہنگامہ کر رہے تھے اور ان کی مجموعی تنخواہ صرف دو لاکھ روپے تھی۔ جو بادشاہ ادا کرنے کی سکت نہیں رکھتا تھا۔ یعنی خواص حد درجہ امیر تھے مگر سرکاری خزانہ خالی تھا۔ ویسے تمام تیسری دنیا کے ممالک میں ماضی میں یہی حالات تھے اور بد قسمتی دیکھیے کہ آج بھی وہی دگر گوں حالات ہیں۔ 1754میں بادشاہ فوج کی تنخواہ نہ دے پایا ۔ مگر اس کی والدہ نے اپنی سالگرہ کی تقریبات پر دو کروڑ روپہ خرچ کر ڈالے۔ ویسے ہمارے بدقسمت خطے یعنی برصغیر میں یہ معاملہ صدیوں سے جوں کا توں ہے۔ قدسیہ بیگم دربار خود لگاتی تھی۔ امراء کو بلا کر احکامات صادر کرتی تھی۔ احمد شاہ کو کچھ معلوم نہیں ہوتا تھا کہ یہ فرامین کب اور کیونکر جاری ہوئے ہیں۔
دوسری بات یہ تھی کہ احمد شاہ کو فکر بھی نہیں تھی کہ اس کی والدہ اختیارات کا کس قدر غلط استعمال کر رہی ہے۔ گراوٹ کی انتہا دیکھیے ۔ قدسیہ بیگم کے بھائی کا نام مان خان تھا۔ وہ زنانہ کپڑے پہن کر دلی کی گلیوں میں خواتین کے ساتھ ناچتا تھا۔ جب ہمشیرہ ملکہ بنی تو بھانجے نے اپنی والدہ کے کہنے پر‘ اسے ملاقاد الدولہ بہادر کا خطاب عطا فرمایا۔ اور چھ ہزار سواروں پر منصب دار مقرر کر دیا۔ یعنی سب کچھ بادشاہ اور اس کی والدہ نے اپنے خاندان تک محدود کر لیا تھا۔ انعام و اکرام‘ دولت ‘ بلند بانگ خطابات اور نمود و نمائش سب کچھ ان سے شروع ہو کر انھی پر ختم ہوتا تھا۔ احمد شاہ ‘ چھ برس کے قریب برصغیر میں ہوس‘ لالچ اور کجکلاہی کا کھیل کھیلتا رہا۔ پھر وہی ہوا جو قدرت کے عظیم فیصلے ہوتے ہیں۔
عماد الملک جو کہ سابقہ وزیراعظم تھا اور احمد شاہ کا دشمن تھا۔ اس نے مرہٹوں کے پیشواملہار راؤ ہلکر کے ساتھ مل کر‘ بادشاہ اور اس کی والدہ کو گرفتار کیا۔ دونوں کی آنکھیں نکالی گئیں ۔ اور انھیں سالم گڑھ کے قلعہ میں نظر بند کر دیا گیا جہاں دونوں اپنی موت تک قید رہے۔ہندوستان کی دو ہزار سالہ تاریخ کو غور سے پڑھیے۔ اور اس کا غیر متعصب تجزیہ فرمایئے۔ آپ کو ‘ کسی بھی دور میں قانون کی حکمرانی‘ انسانی حقوق اور مضبوط ادارے نظر نہیں آئیں گے۔ ایک امر تو یقینی ہے کہ برصغیر میں انتقال اقتدار کا کوئی درست اور صائب نظام نہیں بن پایا۔ انگریزوں کے ایک ڈیڑھ صدی کے دور میں بھی حکمران‘ کسی بھی طریقے سے ‘لوگوں کے جذبات کی نمایندگی نہیں کرتے تھے۔
یہ کہنا درست ہے کہ حکومت کرنے کا حق‘ ہمارے خطے میں ہمیشہ طاقت کے بل بوتے پر حاصل کیا گیا ہے۔ اور اس سیاسی جنگ کا سب سے بڑا اصول یہی ہے کہ اس کا کوئی اصول نہیں ہے۔ 1947 اور اس سے پہلے کے ستر برس کی تاریخ کی ورق گردانی ‘ یہ ثابت کرتی ہے کہ آہستہ آہستہ عام لوگوں میں شعور کی سطح بلند ہو رہی تھی۔ جمہوریت کا پودا تمام تر مسائل کے باوجود پنپنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس میں ان مقامی لوگوں کا بہت زیادہ ہاتھ ہے جو آزادی کی امنگ لیے‘ خطے کے لیے بہتر سہولتوں کے طلبگار تھے۔ اس آرزو کی تکمیل کے لیے ‘ مختلف ادوار میں حد درجہ قربانیاں دی گئیں۔ سچ یہ بھی ہے کہ اس میں ‘ہندو‘ مسلمان اور سکھ بلکہ یوں کہہ لیجیے کہ مذہب کا کسی قسم کا کوئی عمل دخل نہیں تھا۔
1857 کی جنگ آزادی صرف مسلمانوں تک محدود نہیں تھی۔ میرٹھ چھاؤنی سے اٹھنے والی اس عظیم بغاوت میں مسلمان اور ہندو برابر کے شریک تھے۔ مگر جب انگریزوں نے یہ دیکھا کہ اگر یہ تمام لوگ متحد ہو گئے تو ہندوستان جسے سونے کی چڑیا کہا جاتا تھا اسے بے دریغ لوٹنا ‘ ناممکن ہو جائے گا۔ اس وقت تاج برطانیہ کی ناک کے سائے تلے‘ دونوں مذاہب کے پیروکاروں میں نفرت کا بیچ بویا گیا۔
یہ سب کچھ‘ ایسٹ انڈیا کمپنی اور برطانوی تخت کی ایسی قبیح سازش تھی ‘ جس میں وہ مکمل کامیاب رہے۔ ہندو اور مسلمان صدیوں سے آپس میں آرام سے زندگی گزار رہے تھے۔ ان میں کبھی بھی فسادات نہیں ہوئے تھے۔ مگر انگریزوں نے کمال منافقت سے دونوں کو ایک دوسرے سے متنفر کرنا شروع کر دیا جو کہ ایک سماجی خلیج بن گیا۔ اور آج وہ خلیج‘ بڑھ کر ایک ایسا تیزابی سمندر بن گیا ہے جسے عبور کرنا اب کسی کے بس میں نہیں رہا۔
تقسیم ہند کے بعد ‘ دونوں ممالک نے اکٹھا سفر شروع کیا۔ ہندوستان ایک لحاظ سے خوش قسمت ثابت ہوا ‘ کہ آزادی کے عمل میں بذات خود شامل رہنے والے قائدین کو حکومت کرنے کا موقع ملا۔ نہرو ‘ سولہ برس تک ہندوستان کا وزیراعظم رہا۔ اس نے وہاں‘ ریاستی ادارے بنانے پر کافی محنت کی۔ اس کی بدولت ہندوستان ‘ جمہوریت کی پگڈنڈی پر چلتے چلتے‘ ایک مستحکم شاہراہ پر گامزن ہو گیا۔ جس میں کافی حد تک ‘ ووٹ کے ذریعے ‘ حق حکمرانی لوگوں تک پہنچتا رہا۔ مگر بدقسمتی دیکھیے ‘ کہ پاکستان میں مسائل‘ قائد کے فوت ہونے سے ‘ بگڑتے چلے گئے۔
غلام محمد‘ سکندر مرزا اور ایوب خان نے وہ مکروہ کھیل کھیلا۔ جس نے ملک میں فطری طور پر جمہوریت کے کمزور پودے پر محلاتی سازشوں کی مہلک آبیاری کر دی۔ ہمارا دور ابتلا‘ اسی وقت سے شروع ہو چکا تھا۔ جب یہ لوگ‘ عوام کو جوابدہ نہیں تھے مگر ملک کے حکمران تھے۔ یعنی انتقال اقتدار کا کوئی اصول ہم طے ہی نہیں کر پائے۔ بدحالی دیکھیے کہ غلام محمد فالج زدہ انسان تھا جوبول نہیں سکتا تھا۔ ہر وقت مونہہ سے تھوک کے فوارے چھوڑتا تھا۔ 1951سے 1955تک طاقتور ترین حکمران رہا ۔ہم نے مشرقی پاکستان کو اپنی ادنیٰ حکمت عملی سے گنوا دیا۔ مگر کوئی سبق حاصل نہ کر سکے ۔
دیکھا جائے‘ تو ہم ملک میں کوئی ایسا مستحکم نظام کی اینٹ تک نہیں رکھ پائے‘ جس سے طاقتوراداروں کی سیاست میں عمل داری ختم کی جاسکے۔ تنزلی کا یہ سفر‘ کمزور اور ٹوڈی سیاست دانوں کی وجہ سے جاری وساری رہا۔ اور ریاستی ادارے سیاست میں شامل ہو تے چلے گئے۔
یحییٰ خان‘ ضیاء الحق‘ پرویز مشرف وہ مشکل لوگ تھے جو لوگوں کی بہتری کے نعرے لگاتے رہے۔ مگر ملک کو وہاں پہنچا دیا جہاں سے واپسی کسی صورت میں ممکن نہیں ہے۔ ملک کو ایک ایسی جنگ میں دھکیل دیا جس کے شعلے ہمارے بہادربچوں کو زندہ جلا رہی ہے۔ شہریوں کو روزانہ کی بنیاد پر شہید کیا جا رہا ہے۔ لگتا ہے کہ ہر دور کا اپنا ‘ احمد شاہ بہادر ہوتا ہے۔ دراصل ‘ نااہل حکمران ریاستیں تباہ کر دیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان سے کیسے بچا جائے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اس کی والدہ قدسیہ بیگم احمد شاہ اپنے لیے کے ساتھ کا کوئی تھی کہ اور اس
پڑھیں:
عام لوگوں کی شکا یات حل کر نے میں محتسب کے اداروں کا اہم کردار ہے۔اعجاز احمد قر یشی
عام لوگوں کی شکا یات حل کر نے میں محتسب کے اداروں کا اہم کردار ہے۔اعجاز احمد قر یشی WhatsAppFacebookTwitter 0 29 May, 2025 سب نیوز
اسلام آباد:محتسب اور محتسب کی طر ح کے دیگر ادارے قانون کی حکمرانی، شکایات کے ازالے اور گڈ گورننس کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
ان خیا لا ت کا اظہار وفاقی محتسب اعجاز احمد قریشی نے گز شتہ روز وفاقی محتسب سیکرٹریٹ میں امبڈ سمین شپ اور عا لمی معیار کے تقاضے کے موضوع پر ایک ویبینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
وفاقی محتسب اعجاز احمد قریشی جو کہ 47 رکنی ایشین امبڈ سمین ایسوسی ایشن کے موجودہ صدر بھی ہیں، نے کہا کہ یہ بات انتہائی اطمینان بخش ہے کہ محتسب کے ادارے عوامی شکایات کے مفت اور جلد ازالے کے لیے ایک قابل اعتماد فورم کے طور پر سامنے آ ئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی محتسب پا کستان کے ادارے نے اپنی کارروائیوں کو عالمی سطح پر تسلیم شدہ معیارات کے ساتھ ہم آہنگ کر رکھا ہے، جو اقوام متحدہ جنر ل اسمبلی کی متعدد قرار دادوں بشمول پیر س اور وینس اصول اور گز شتہ سال کی قرارداد میں موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ بین الاقوامی معیار محتسب کے اداروں کے مینڈیٹ کو موثر طریقے سے استعمال کرنے کے لیے جامع رہنما ئی فراہم کرتے ہیں۔
وفاقی محتسب نے مزید کہا کہ بین الاقوامی معیارات کے مطابق کی گئی دفتری کا رروا ئی پوری دنیا میں محتسب کے اداروں کے کام کو زیادہ معتبر اور قانونی حیثیت دیتی ہے۔ ویبینار سے خطاب کرتے ہو ئے نسٹ لاء سکول کے پرنسپل اور ڈین مسٹر جسٹس (ریٹائرڈ) ایم نواز واہلہ نے اپنے کلیدی خطاب میں ان بین الاقوامی معیارات کی اہمیت پر روشنی ڈالی جو محتسب اور ثالثی اداروں کی کا رکر دگی کو ایک نما یاں سمت فرا ہم کر تے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اپنی متعدد قراردادوں کے ذریعے گڈگورننس اور قانون کی حکمرانی کے احترام کے علاوہ انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کے فروغ اور تحفظ میں محتسب اور ثالثی اداروں کی اہمیت کو تسلیم کیا ہے۔ ویبینار میں ایشین امبڈ سمین ایسوسی ایشن (اے او اے)، او آئی سی امبڈسمین ایسوسی ایشن (او آئی سی او اے)، فورم آف پاکستان امبڈسمین (ایف پی او)، ماہرین تعلیم اور سول سوسائٹی کے ممبران کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرمخصوص نشستیں نظرثانی کیس: کیا جج آئین سے باہر جا کر فیصلہ دے سکتے ہیں اور آئین ری رائٹ کرسکتے ہیں؟ جسٹس محمد علی مظہر نے سوال اٹھا دیا مخصوص نشستیں نظرثانی کیس: کیا جج آئین سے باہر جا کر فیصلہ دے سکتے ہیں اور آئین ری رائٹ کرسکتے ہیں؟ جسٹس محمد علی... عمران خان نے کہا اسٹیبلشمنٹ سے بات چیت کیلئے دروازے کھلے ہیں: سینیٹر علی ظفر عمران خان کے پنجاب میں قائم سیاسی کمیٹی پر تحفظات، عالیہ حمزہ سربراہ مقرر وزیر داخلہ وژن ، چیئرمین سی ڈی اے کے احکامات ،ڈپٹی کمشنر سی ڈی اے کی سربراہی میں تجاوزات کے خلاف آپریشن ،، تفصیلات... ججز ٹرانسفر و سنیارٹی کیس: سپریم کورٹ نے فیصلے کی ممکنہ تاریخ دے دی وزیراعظم 3 روزہ دورہ آذربائیجان کے بعد تاجکستان روانہ ہوگئےCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم