فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کی اجازت دینے کا فیصلہ چیلنج
اشاعت کی تاریخ: 31st, May 2025 GMT
سپریم کورٹ کے5 رکنی بینچ نے فیصلہ دیا کہ 9 اور 10 مئی حملوں کے ملزمان کا ملٹری ٹرائل نہیں ہو سکتا
نظرثانی درخواست سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے دائر کی ،وفاق اور چاروں صوبوں کو فریق بنایا گیا
فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کی اجازت دینے کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا گیا۔سابق جسٹس جواد ایس خواجہ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل پر آئینی بینچ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں نظر ثانی درخواست دائر کردی، نظر ثانی درخواست میں وفاق اور چاروں صوبوں کو فریق بنایا گیا ہے۔جواد ایس خواجہ نے سپریم کورٹ میں دائرکردہ درخواست میں مؤقف اختیار کیا ہے کہ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے آرمی ایکٹ کی شق 2 ون ڈی اور 59 فور کو کالعدم قرار دیا تھا، 5 رکنی بینچ نے فیصلہ دیا کہ 9 اور 10 مئی حملوں کے ملزمان کا ملٹری ٹرائل نہیں ہو سکتا۔درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ 5 رکنی بینچ کا فیصلہ جسٹس منیب اختر اور جسٹس عائشہ ملک نے تحریر کیا تھا، 7 مئی کو آئینی بینچ نے پانچ رکنی بینچ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔جواد ایس خواجہ نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ نظر ثانی دائر کرنے کا اختیار عدالتی فیصلے میں غلطیوں کو درست کرنے کیلئے ہوتا ہے، آئینی بینچ نے ایف بی علی کیس پر غلط انحصار کرتے ہوئے فیصلہ دیا۔درخواست میں مزید کہا گیا کہ آئینی بینچ نے ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کیس پر بھی غلط انحصار کرتے ہوئے فیصلہ دیا، آئینی بینچ نے شاہدہ شاہدہ ظہیر عباسی کیس پر بھی غلط انحصار کیا۔نظرثانی درخواست میں کہا گیا کہ آئینی بینچ نے فیصلہ دیا کہ ملٹری ٹرائل میں فیٔر ٹرائل کا حق محفوظ رہتا ہے، ساتھ ہی آئینی بینچ نے پارلیمنٹ کو اپیل کے حق کیلئے قانون سازی کا حکم بھی دیا، آئینی بینچ کی آبزرویشن اور احکامات آپس میں متضاد ہیں، آئینی بینچ نے آزادانہ اپیل کا حق فراہم کرنے کا حکم دے کر تسلیم کیا کہ فوجی عدالتیں آزاد نہیں۔درخواست میں یہ بھی کہا گیا کہ بنیادی آئینی حقوق سے متصادم قوانین کو کالعدم قرار دینا عدالتوں کی بنیادی ذمہ داری ہے اور عدالتیں اس ذمہ داری کو ترک کرکے معاملات پارلیمان کو نہیں سونپ سکتیں۔سابق چیف جسٹس نے نظرثانی درخواست میں کہا کہ آئینی بینچ نے اپنے مختصر فیصلے میں اٹارنی جنرل کی جانب سے بتائے گئے 9 اور 10 مئی کے واقعات کا ذکر کیا، ان واقعات کے مقدمات انسدادِ دہشت گردی عدالتوں میں زیر سماعت ہیں، آئینی بینچ اپنے فیصلے میں اس قسم کے متعصبانہ ریمارکس شامل نہیں کرسکتا۔جواد ایس خواجہ نے کہا ہے کہ 7 رکنی آئینی بینچ میں شامل دو ججز نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا،مرکزی کیس میں چار ججز جبکہ اپیل میں دو ججز نے قرار دے دیا کہ سویلینز کا ملٹری ٹرائل نہیں ہو سکتا۔نظرثانی درخواست میں مزید کہا گیا کہ ہم پہلے ہی اداروں کی جانب سے اپنے آئینی دائرہ اختیار سے تجاوز کرنے پر بہت نقصان اٹھا چکے ہیں، آئینی بینچ کے فیصلے سے یہ ثاثر ہمیشہ کے لیے قائم ہو جائے گا کہ سپریم کورٹ نے ایگزیکٹو کا جج بننا قبول کرلیا۔درخواست میں کہا گیا ہے کہ اگر ملٹری ٹرائل آزاد اور آئینی ہے تو پھر پورا سول جوڈیشل سسٹم ہی ایگزیکٹو کے کنٹرول میں دیا جا سکتا ہے۔جواد ایس خواجہ نے استدعا کی کہ نظر ثانی درخواست کو منظور کرکے آئینی بینچ کے 7 مئی 2025 کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا جائے اور سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ کا فیصلہ بحال کیا جائے۔
.ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: جواد ایس خواجہ نے ثانی درخواست میں نظرثانی درخواست عدالتوں میں کالعدم قرار ملٹری ٹرائل سپریم کورٹ کہا گیا کہ فیصلہ دیا کا فیصلہ دیا کہ
پڑھیں:
صیہونی ریاست کا عرب وزرائے خارجہ کو رام اللّٰہ جانے کی اجازت نہ دینے کا فیصلہ
یہ دورہ ایسے وقت کیا جا رہا ہے، جب سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان فلسطینی ریاست کو عالمی سطح پر تسلیم کرائے جانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ اسرائیل نے سعودی عرب سمیت عرب وزرائے خارجہ کو رام اللّٰہ جانے کی اجازت نہ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ ایک اہلکار نے اسرائیلی اخبار کو بتایا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ فلسطینی اتھارٹی عرب وزراء خارجہ کی رام اللّٰہ میں میزبانی کی خواہش رکھتی ہے، تاکہ فلسطینی ریاست قائم کی جائے۔ اسرائیلی اہلکار نے کہا کہ اسرائیلی حکومت کی جانب سے ایسی ریاست قبول نہیں کی جائے گی۔ خبر ایجنسی کے مطابق سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان کو اس دورے میں فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس سے ملاقات کرنا ہے۔
اسی طرح مصر، اردن، قطر، متحدہ عرب امارات اور ترکیہ کے وزراء بھی ممکنہ طور پر انکے ساتھ مغربی کنارے جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ یہ دورہ ایسے وقت کیا جا رہا ہے، جب سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان فلسطینی ریاست کو عالمی سطح پر تسلیم کرائے جانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق سعودی عرب حماس کو غیر مسلح کرنے کی تجویز پر فرانس کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔ واضح رہے کہ یہ دورہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب اسرائیلی وزیر دفاع نے مغربی کنارے کو یہودی ریاست بنانے کا بیان دیا ہے۔