سابق ایم پی اے فرید خان قتل کیس: عتیق الرحمٰن کی بریت کیخلاف درخواست خارج
اشاعت کی تاریخ: 30th, May 2025 GMT
پشاور ہائی کورٹ—فائل فوٹو
پشاور ہائی کورٹ نے پی ٹی آئی کے سابق ایم پی اے فرید خان کے قتل کے کیس میں نامزد سابق ایم پی اے عتیق الرحمٰن کی بریت کے خلاف درخواست خارج کر دی۔
پی ٹی آئی کے سابق ایم پی اے فرید خان کے قتل کے کیس میں نامزد سابق ایم پی اے عتیق الرحمٰن کی بریت کے خلاف دائر اپیل کی سماعت جسٹس صاحبزادہ اسد اللّٰہ اور جسٹس کامران حیات میاں خیل نے کی۔
راولپنڈی کی ڈسٹرکٹ کورٹ نے سابق ایم پی اے چوہدری عدنان قتل کیس میں نامزد ملزمان پر فردِ جرم عائد کر دی۔
عدالت نے سابق ایم پی اے عتیق الرحمٰن کی بریت کے خلاف درخواست خارج کرتے ہوئے انسدادِ دہشت گردی کی خصوصی عدالت کا فیصلہ برقرار رکھا۔
دورانِ سماعت ملزم عتیق الرحمٰن کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ قتل کا واقعہ 3 جون 2013ء کو کوہاٹ میں پیش آیا تھا، مقدمے میں عتیق الرحمٰن کو دیگر ساتھیوں سمیت نامزد کیا گیا تھا، مقدمہ کوہاٹ کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں چلا، ٹھوس شواہد نہ ہونے کی بنیاد پر عدالت نے ملزم کو بری کر دیا تھا، بریت کے خلاف پشاور ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی گئی۔
پشاور ہائی کورٹ نے فریقین کے وکلاء کے دلائل سننے کے بعد اپیل خارج کی۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: عتیق الرحم ن کی بریت پشاور ہائی کورٹ سابق ایم پی اے بریت کے خلاف
پڑھیں:
کسی اپیل کے زیر التوا ہونے سے چیلنج شدہ فیصلے پر عملدرآمد رک نہیں جاتا، سپریم کورٹ
اسلام آباد:چیف جسٹس پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی کے تحریر کردہ ایک فیصلے میں سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ کسی اپیل، نظرثانی یا آئینی درخواست کے زیر التوا ہونے کے سبب ازخود چیلنج شدہ فیصلے پر عمل درآمد رک نہیں جاتا۔
اصول سپریم کورٹ کے رولز 1980 سے بھی واضح ہے کہ اپیل دائر کرنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوتا کہ اس فیصلے پر عمل درآمد نہ کیا جائے، البتہ اگر عدالت چاہے تو کچھ شرائط کیساتھ یا حکم امتناع کے ذریعے چیلنج شدہ فیصلے پر عمل درآمد روکا جاسکتا ہے۔
یہ فیصلہ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں جسٹس شکیل احمد اور جسٹس اشتیاق ابراہیم پر مشتمل تین رکنی بنیچ نے چیف لینڈ کمشنر پنجاب بنام ایڈمنسٹریٹو اوقاف ڈیپارٹمنٹ بہاولپور کیس میں دیا۔
فیصلے میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت یہ درخواستیں ان ریویژن آرڈرز سے متعلق ہیں جو لاہور ہائیکورٹ نے ایک دہائی قبل جاری کیے تھے، جن میں ریونیو حکام کو ہدایت دی گئی تھی کہ وہ اس معاملے پر قانون کے مطابق دوبارہ فیصلہ کریں، ان واضح ہدایات کے باوجود، ڈپٹی لینڈ کمشنر بہاولپور نے کوئی کارروائی نہیں کی، جس کے نتیجے میں بلا جواز اور بلاوجہ کیس میں تاخیر ہوئی۔
ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے اس بات کی تصدیق کی کہ کسی بھی عدالت کی جانب سے کوئی حکم امتناع جاری نہیں کیا گیا تھا۔ اس اعتراف سے واضح ہوتا ہے کہ عملدرآمد میں ناکامی کا کوئی قانونی جواز موجود نہیں تھا۔
سپریم کورٹ یہ ضروری سمجھتی ہے کہ اس تشویشناک طرزعمل کو اجاگر کیا جائے جس میں ریمانڈ آرڈرز کو اختیاری سمجھا جاتا ہے یا انہیں غیر معینہ مدت تک معطل رکھا جاتا ہے،ریمانڈ کا مطلب تاخیر کا جواز فراہم کرنا نہیں ہوتا، جب اعلیٰ عدالتیں ریمانڈ کی ہدایات جاری کرتی ہیں تو ان پر مخلصانہ اور فوری عملدرآمد لازم ہوتا ہے، اس میں ناکامی تمام حکام پر آئینی ذمہ داری کی خلاف ورزی کے مترادف ہے۔
یہ صرف انفرادی غفلت نہیں بلکہ لازمی عدالتی احکامات سے مستقل انتظامی لاپرواہی کی علامت ہے، جو ایک نظامی ناکامی ہے اور جسے فوری اصلاح کی ضرورت ہے۔ اس معاملے پر غور کرنے کے لیے عدالت نے سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو پنجاب کی ذاتی پیشی طلب کی تو انھوں نے عدالت کو یقین دہانی کروائی کہ صوبائی سطح پر واضح اور جامع پالیسی ہدایات جاری کی جائیں گی، جن کے ذریعے تمام متعلقہ حکام کو ہدایت کی جائے گی کہ وہ ریمانڈ آرڈرز پر فوری اور بلا تاخیر عملدرآمد کریں۔
عملدرآمد کی نگرانی کی جائیگی اور ان کے دائرہ اختیار میں موجود تمام زیر التوا ریویژن مقدمات کی موجودہ صورتحال کی رپورٹ عدالت میں پیش کی جائے گی۔ عدالت نے حکم دیا کہ صوبے میں تمام زیر التوا ریویژن مقدمات کی تازہ ترین صورتحال، اس حکم کے اجرا کے تین ماہ کے اندر اندر، اس عدالت کے رجسٹرار کو جمع کروائی جائے۔